24 ستمبر 2011ء کو ایمبیسیڈر ہوٹل لاہور میں ’’ملّی مجلس شرعی‘‘ کے زیراہتمام ’’اتحاد امت کانفرنس‘‘ کا انعقاد عمل میں لایا گیا، جس میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے شرکت کی، ان میں مولانا فضل الرحیم اشرفی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا اللہ وسایا، مولانا قاری احمد میاں تھانوی، مولانا مفتی رفیق احمد، مولانا عبدالرؤف فاروقی، مولانا محمد یوسف خان، مولانا مفتی محمد طیب، مولانا مفتی طاہر مسعود، مولانا محمد امجد خان، مولانا رشید میاں، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مولانا قاری محمد طیب حنفی، مولانا قاری گلزار احمد قاسمی، مولانا عزیزالرحمن ثانی، مولانا پیر عبدالخالق قادری بھرچونڈی شریف، مولانا مفتی محمد خان قادری، مولانا احمد علی قصوری، مولانا راغب حسین نعیمی، علامہ خلیل الرحمن قادری، مفتی شیر محمد سیالوی، صاحبزادہ محب اللہ نوری، مولانا قاری زوار بہادر، پروفیسر ساجد میر، پروفیسر حافظ محمد سعید، مولانا حافظ عبدالغفار روپڑی، مولانا عبیداللہ عفیف، مولانا قاری شیخ محمد یعقوب، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، مولانا سیدضیاء اللہ شاہ بخاری، مولانا امیرحمزہ، جناب سید منور حسن، مولانا عبدالمالک خان، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ڈاکٹر وسیم اختر، جناب محمد ایوب بیگ، علامہ نیازحسین نقوی، حافظ کاظم رضا نقوی اور علامہ حسین اکبر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ملّی مجلس شرعی کے صدر مولانا مفتی محمد خان قادری نے کانفرنس کی صدارت کی، جبکہ سیکریٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد امین نے کانفرنس کے سیکریٹری کے فرائض انجام دیئے۔ راقم الحروف نے بھی کانفرنس میں شرکت کی اور ملی مجلس شرعی کے سینئر نائب صدر کے طور پر کانفرنس کی انتظامیہ کمیٹی میں شامل رہا۔
کانفرنس کا اہم فیصلہ 1951ء میں تمام مکاتب فکر کے 31 اکابر علماء کرام کے متفقہ 22 دستوری نکات کی ازسرنو تجدید کرتے ہوئے ان کی روشنی میں ملی مجلس شرعی کی دو سالہ محنت کے نتیجے میں مرتب کیے جانے والے مزید 15 متفقہ نکات کی منظوری دینا ہے، جو راقم الحروف کے نزدیک ملک میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد کے حوالے سے ایک اہم علمی وفکری پیش رفت ہے۔ اس کے علاوہ کانفرنس میں علماء کرام کے باہمی اتحاد اور ملک کی خود مختاری و سلامتی کے حوالے سے اہم قراردادیں اور ایک مشترکہ اعلامیہ منظور کیا گیا، یہ سب دستاویزات قارئین کے مطالعے اور تاریخ کے ریکارڈ کے لیے اس کالم کے ذریعے پیش کی جا رہی ہیں۔
قرار داد نمبر (1) اتحاد بین العلماء:
ہم پاکستان کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء اور دینی جماعتوں کے سربراہان اس امر کا اعلان اور اظہار کرتے ہیں کہ ہم سب ایک امت ہیں اور بھائی بھائی ہیں، ہم ایسے سب اقدامات کی تائید اور حمایت کرتے ہیں جن سے امت اور علماء میں اتحاد واتفاق بڑھے اور ایسے سب اقدامات اور عوامل سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں جن سے امت اور علماء میں انتشار وافتراق پیدا ہو اور خلفشار بڑھے۔
بلاشبہ ہمارے درمیان فقہی وکلامی اختلافات موجود ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے درمیان مشترکات بہت زیادہ ہیں اور اختلافات کم ہیں اور جو ہیں انہیں گفت وشنید اور سنجیدہ وپرامن علمی ماحول میں زیر بحث لایا جا سکتا ہے اور انہیں قاطع اخوت اسلامی اور موجب فساد نہیں بننے دینا چاہیے۔ نیز ہم اتحاد بین العلماء کی پرزور حمایت کرتے ہیں، تاکہ اس اتحاد کے مثبت اثرات عوام الناس تک بھی پہنچیں۔
لہٰذا آج ہم سب اعلان کرتے ہیں کہ ہم بحیثیت مسلمان متحد ہیں، آپس میں بھائی بھائی ہیں اور کسی خاص فقہی یا کلامی مسلک سے ہماری وابستگی اسلامی اخوت اور بھائی چارے کی نفی نہیں کرتی، لہٰذا ہم مسلکی تشخصات کو قائم رکھتے ہوئے ہر قسم کی فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ عصبیت کو مسترد کرتے ہیں اور آئندہ مل کر دین حنیف کی عظمت وسربلندی، پاکستان میں نفاذ شریعت اور مسلمانوں کے انفرادی واجتماعی زندگی میں احکام شریعت پر عمل کے لیے کوشاں رہیںگے اور علماء میں انتشار پیدا کرنے والوں کی کوششوں کو باہم مل کر اخلاص اور فراست سے ناکام بنائیںگے، ان شاء اللہ۔
ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کا احترام کریںگے، اشتعال انگیز اور توہین آمیز تقریر وتحریر سے اجتناب کریںگے اور ایسے اقدامات سے گریز کریںگے جن سے باہمی اتحاد واتفاق کو ٹھیس پہنچے اور اپنی تمام علمی وفکری صلاحیتیں اصلاح معاشرہ، اعلاء کلمۃ اللہ اور اتحاد امت کے لیے صرف کریںگے۔ ہم تمام علماء کرام سے بھی یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھی امت کے وسیع تر مفاد میں یہی روش اختیار فرمائیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس عزم و ارادے میں کامیاب فرمائے اور اپنے اس فرمان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ
’’واعتصموا بحبل اﷲ جمیعا ولا تفرقوا‘‘ (3:103)
قرارداد نمبر (2) قومی خود مختاری کا تحفظ:
ہم پاکستان کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء اور دینی جماعتوں کے سربراہان اس امر پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستان اس وقت بحرانی کیفیت میں ہے۔ یہاں کے عوام قتل وغارت گری، دہشت گردی اور مصائب ومشکلات کا شکار ہیں، بالخصوص کراچی اور بلوچستان میں بے گناہوں کا قتل عام اور بیرونی سازشیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔ پاکستان کی قومی سلامتی خطرے میں ہے جس کا بڑا سبب افغانستان میں بیرونی مسلح مداخلت ہے ‘ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے حکمران بھی اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں، جنہوں نے اپنے اقتدار اور مفادات کے لیے قوم کو یرغمال بنارکھا ہے۔
چنانچہ آج کا یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں کے مطابق ڈرون حملے فوری طور پر بند کرائے جائیں۔ بلیک واٹر اور صہیونی اور بھارتی ایجنسیوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا نیٹ ورک توڑ دیا جائے‘بیرونی دباؤ پر پاکستان کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشنوں کا سلسلہ بند کیا جائے اور اندرون ملک ناراض عناصر سے باہمی مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ پاکستان سے نیٹو فورسز کی سپلائی بند کی جائے، ہمارے حکمران دہشت گردی کے خلاف جنگ سے فی الفور الگ ہوجائیں اور ملکی دفاع کو ہر صورت میں مقدم رکھیں ۔
نفاذ شریعت کے لیے متفقہ رہنما اصول:
چونکہ اسلامی تعلیمات کا یہ تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن وسنت کے مطابق گزاریں اور پاکستان اسی لیے بنایا گیا تھا کہ یہ اسلام کا قلعہ اور تجربہ گاہ بنے، لہٰذا 1951ء میں سارے دینی مکاتب فکر کے معتمد علیہ 31 علماء کرام نے عصرحاضر میں ریاست وحکومت کے اسلامی کردار کے حوالے سے جو 22 نکات تیار کیے تھے ان نکات نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو ٹھوس بنیادیں فراہم کیں اور ان کی روشنی میں پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے حوالے سے کئی دستوری انتظامات بھی کردیئے گئے، لیکن ان میں سے اکثر زینت قرطاس بنے ہوئے ہیں اور ان پر کوئی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ مزید برآں کچھ اور دستوری خلا بھی سامنے آئے ہیں جو پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، چنانچہ نفاذ شریعت کے حوالے سے حکومتی تساہل پسندی کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی قبائلی علاقوں کے بعض عناصر نے بزور قوت شریعت کی من مانی تعبیرات کو نافذ کرنے کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس مسلح جدوجہد کے شرکاء نے ایک طرح سے حکومتی رٹ کو چیلنج کر دیا، جبکہ اس صورت حال کو بیرونی قوتوں نے اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا ‘صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ افواج پاکستان کو اس مسلح جدوجہد کے شرکاء کے سامنے لاکھڑا کیا اور یوں دونوں طرف سے ایک دوسرے کے ہاتھوں مسلمانوں کا ہی خون بہہ رہا ہے، پاکستان کے دیگر پرامن علاقے بھی اس جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں، تقریباً تمام بڑے شہروں میں آئے دن دہشت گردی اور خود کش حملوں کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں، جن میں اب تک ہزاروں معصوم شہری اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔
یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کرام ایک مرتبہ پھر مل بیٹھیں اور باہمی غوروفکر اور اتفاق رائے سے ان امور کی نشاندہی کر دیں جن کی وجہ سے پاکستان ابھی تک ایک مکمل اسلامی ریاست نہیں بن سکا اور نہ ہی یہاں نفاذ شریعت کا کام پایۂ تکمیل تک پہنچ سکا ہے۔ تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کرام کی یہ کوشش اس مرحلہ پر اس لیے ناگزیر ہے کہ ان کی اس کوشش سے ہی نہ صرف ان اسباب کی نشاندہی ہوگی جو نفاذ شریعت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، بلکہ نفاذ شریعت کے لیے متفقہ اصولوں کے ذریعے وہ سمت اور راستہ بھی متعین ہو جائے گا، جس پر چل کر یہ منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔
دراصل نفاذ شریعت کی منزل کا حصول ہی اس بات کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے کہ آیندہ پاکستان کے کسی علاقے سے نفاذ شریعت کے نام پر مسلح جارحیت کا ارتکاب اور حکومتی رٹ کو چیلنج نہ کیا جاسکے، چنانچہ اس حوالے سے تجویز کیے گئے اقدامات پیش خدمت ہیں:
(1) ہمارے حکمرانوں کی یہ شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ فرد کو بھی شریعت پر عمل کے قابل بنائیں اور معاشرے اور ریاست کو بھی شریعت کے مطابق چلائیں۔ دینی عناصر کا بھی فرض ہے کہ وہ دعوت واصلاح اور تبلیغ وتذکیر کے ذریعے فرد کی بھی تربیت کریں، حکمرانوں پر بھی دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور جہاں تک قانون اجازت دے خود بھی نفاذشریعت کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ اسی طرح ہر مسلمان کی یہ ذاتی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرے۔
(2) یہ کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کی بنیاد 1951ء میں سارے مکاتب فکر کے علمائے کرام کی طرف سے متفقہ طور پر منظورکردہ 22نکات ہیں اور موجودہ دستاویز کے15 نکات کی حیثیت ان کی تفریع اور تشریح کی ہے۔
(3) یہ کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ پرامن جدوجہد کے ذریعے ہونا چاہیے، کیونکہ یہی اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کا مشترکہ تقاضا ہے اور عملاًبھی اس کے امکانات موجود ہیں۔ نیز شریعت کا نفاذ سارے دینی مکاتب فکر کی طرف سے منظور شدہ متفقہ راہنمااصولوں کے مطابق ہونا چاہیے (یہ 15نکات اس قرارداد کا حصہ ہیں) اور کسی گروہ یا جماعت کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنا نظریہ سارے معاشرے پر قوت سے ٹھونس دے۔
(4) دستور پاکستان کے قابل نفاذ حصے میں بصراحت یہ لکھا جائے کہ قرآن وسنت مسلمانوں کا سپریم لا ہے اور اس تصریح سے متصادم قوانین کو منسوخ کردیا جائے۔ یہ دستوری انتظام بھی کیا جائے کہ عدلیہ کی طرف سے دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی، جو کتاب وسنت کے خلاف ہو اور دستور کی کسی بھی شق اور مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے کسی بھی فیصلے کو کتاب وسنت کے خلاف ہونے کی صورت میں اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جاسکے۔ نیز ان دستوری دفعات کو دستور میں بنیادی اور ناقابل تنسیخ دفعات قرار دیا جائے۔ آئین توڑنے سے متعلق دفعہ 6A اور عوامی نمایندوں کی اہلیت سے متعلق دفعات 62، 63کو موثر بنانے اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ کسی بھی ریاستی یا حکومتی عہدیدار کی قانون سے بالاتر حیثیت اور استثنیٰ پر مبنی دستوری شقوں کا خاتمہ کیا جائے۔
وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ کے جج صاحبان کو دیگر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کی طرح باقاعدہ جج کی حیثیت دی جائے اور ان کے اسٹیٹس اور شرائط تقرری وملازمت کو دوسری اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کے اسٹیٹس اور شرائط تقرری وملازمت کے برابر لایا جائے۔ بعض قوانین کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار سے مستثنیٰ قرار دینے کے فیصلوں پر نظرثانی کی جائے اور وفاقی شرعی عدالت کو ملک کے کسی بھی قانون پر نظرثانی کا اختیار دیا جائے۔ وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپیلٹ بنچ کو آئینی طور پر پابند کیا جائے کہ وہ مناسب وقت (Time frame)کے اندر شریعت پٹیشنوں اور شریعت اپیلوں کا فیصلہ کردیں۔ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی طرح صوبائی، ضلعی اور تحصیل سطح کی عدالتوں میں بھی علماء ججوں کا تقرر کیا جائے اور آئین میں جہاں قرآن وسنت کے بالاتر قانون ہونے کا ذکر ہے، وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شارع ہونے کاذکر بھی کیا جائے۔ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر کے جیدعلماء کو بطور رکن نامزد کرے۔ ہر مکتبہ فکر اپنا نمایندہ اپنے حلقوں سے مشاورت کے بعد تجویز کرے۔ نفاذ شریعت کے حوالے سے جن نکات پر ارکان کی اکثریت کا اتفاق ہوجائے حکومت چھ ماہ کے اندر اسے قانون بناکر پاس کرنے کی پابند ہو۔
(5) پاکستان کے قانونی ڈھانچے میں پہلے سے موجود اسلامی قوانین پر موثر طریقے سے عمل درآمد کیا جائے اور اسلامی عقوبات کے نفاذ کے ساتھ ساتھ موثر اصلاحی کوششیں بھی کی جائیں۔
(6) اسلامی اصول واقدار کے مطابق عوام کو بنیادی ضروریات وسہولیات زندگی مثلاً روٹی، کپڑا، مکان، علاج، معالجہ اور تعلیم فراہم کرنے، غربت وجہالت کے خاتمے اور عوامی مشکلات ومصائب دور کرنے اور عوام کو دنیا میں عزت اور وقار کی زندگی گزارنے کے قابل بنانے کو اولین ریاستی ترجیح بنایا جائے۔
(7) موجودہ سیاسی نظام کی اسلامی تعلیمات کے مطابق اصلاح کی جائے، مثلاً عوامی نمایندگی میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی حوصلہ شکنی اور غریب اور متوسط طبقے کی نمایندگی کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں۔ نمایندگی کے لیے شرعی شہادت کی اہلیت کو لازمی شرط قرار دیا جائے۔ متناسب نمایندگی کا طریقہ اپنایا جائے۔ علاقائی، نسلی، لسانی اور مسلکی تعصبات کی بنیاد پر قائم ہونے والی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے اور قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے مناسب پالیسیاں اور ادارے بنائے جائیں۔
(8) تعلیمی نظام کی اسلامی تناظر میں اصلاح کے لیے قومی تعلیمی پالیسی اور نصابات کو اسلامی اور قومی سوچ کے فروغ کے لیے تشکیل دیا جائے، جس سے یکساں نظام تعلیم کی حوصلہ افزائی اور طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہو، اساتذہ کی نظریاتی تربیت کی جائے اور تعلیمی اداروں کا ماحول بہتر بنایا جائے۔ مخلوط تعلیم ختم کی جائے اور مغربی لباس کی پابندی اور امور تعلیم میں مغرب کی اندھی نقالی کی روش ختم کی جائے۔ تعلیم کا معیار بلند کیا جائے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی نصاب اپنانے کا پابند بنانے اور ان کی نگرانی کا موثر نظام وضع کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ تعمیر سیرت اور کردارسازی کو بنیادی اہمیت دی جائے۔ تعلیم سے ثنویت کا خاتمہ کیا جائے۔ دینی مدارس کے نظام کو مزید موثر ومفید بنانے اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں تاکہ بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ ملے اور فرقہ واریت میں کمی واقع ہو۔ دینی مدارس کی ڈگریوں کو تسلیم کیا جائے۔ تعلیم کے لیے وافر فنڈز مہیا کیے جائیں۔ ملک میں کم ازکم میٹرک تک لازمی مفت تعلیم رائج کی جائے اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے۔
(9) ذرائع ابلاغ کی اصلاح کی جائے۔ اسلامی تناظر میں نئی ثقافتی پالیسی وضع کی جائے، جس میں فحاشی وعریانی کو فروغ دینے والے مغربی وبھارتی ملحدانہ فکر وتہذیب کے اثرات ورجحانات کو رد کردیا جائے۔ صحافیوں کے لیے ضابطۂ اخلاق تیار کیا جائے اور ان کی نظریاتی تربیت کی جائے۔ پرائیویٹ چینلز اور کیبل آپریٹرز کی موثر نگرانی کی جائے۔ اسلام اور پاکستان کے نظریاتی تشخص کے خلاف پروگراموں پر پابندی ہونی چاہیے، بلکہ تعمیری انداز میں عوام کے اخلاق سدھارنے اور انہیں اسلامی تعلیمات پر عمل کی ترغیب دینے والے پروگرام پیش کیے جائیں اور صاف ستھری تفریح مہیا کی جائے۔
(10) پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے اور افلاس اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں جیسے جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنا، شعبہ زراعت میں ضروری اصلاحات کو اولین حکومتی ترجیح بنانا، تقسیم دولت کے نظام کو منصفانہ بنانا اور اس کا بہاؤ امیروں سے غریبوں کی طرف موڑنا۔ بیرونی قرضوں اور درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے موثر منصوبہ بندی کرنا۔ معاشی خودکفالت کے لیے جدوجہد کرنا اور عالمی معاشی اداروں کی گرفت سے معیشت کو نکالنا۔ سود اور اسراف پر پابندی اور سادگی کو رواج دینا۔ ٹیکسز اور محاصل کے نظام کو موثر بنایا جائے اور بینکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ بڑے قرضوں کے اجراء کے ساتھ ساتھ مائیکرو کریڈٹ کا بھی اجراء کریں تاکہ غریب اور ضرورت مند لوگ ان بلاسود قرضوں کے ذریعے اپنی معاشی حالت بہتر کرسکیں۔نیز قرضوں کو بطورسیاسی رشوت دینے پر قانونی پابندی عائد کی جائے۔ زکوٰۃ اور عشر کی وصولی اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل 38 میں درج عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح وبہبود کے متعلقہ امور کی تکمیل کے لیے حکومت خود اور نجی شعبے کے اشتراک سے فوری طور پر ٹھوس اقدامات کرے۔ لوٹ مار سے حاصل کردہ اور بیرون ملک بینکوں میں جمع خطیر رقوم کی وطن واپسی کو یقینی بنایا جائے۔
(11) عدلیہ کی بالفعل آزادی کو یقینی بنایا جائے اور اسے انتظامیہ سے الگ کیا جائے۔ اسلامی تناظر میں نظام عدل کی اصلاح کے لیے قانون کی تعلیم، ججوں، وکیلوں، پولیس اور ذیل اسٹاف کے کردار کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ انصاف سستا اور فوری ہونا چاہیے۔
(12) امن وامان کی بحالی اور لوگوں کے جان ومال کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو ان مقاصد کے حصول کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانا چاہیے۔
(13) خارجہ پالیسی کو متوازن بنایا جائے۔ تمام عالمی طاقتوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے جائیں اور اپنی قومی خودمختاری کا تحفظ کیا جائے۔ اپنے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ مسلمانان عالم کے رشتہ اخوت واتحاد کو قوی تر کرنے کے لیے او آئی سی کو فعال بنانے میں پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔
(14) افواج میں روح جہاد پیدا کرنے کے لیے سپاہیوں اور افسروں کی دینی تعلیم وتربیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ بنیادی فوجی تربیت ہر مسلم نوجوان کے لیے لازمی ہونی چاہیے۔ فوجی افسروں کی اس غرض سے خصوصی تربیت کی جائے کہ ان کا فرض ملک کا دفاع ہے نہ کہ حکومت چلانا۔ بیوروکریٹس کی تربیت بھی اسلامی تناظر میں ہونی چاہیے تاکہ ان کے ذہنوں میں راسخ ہوجائے کہ وہ عوام کے خادم ہیں ‘حکمران نہیں۔
(15)امربالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے ایک آزاد اور طاقتور ریاستی ادارہ قائم کیا جائے جو ملک میں اسلامی معروفات اور نیکیوں کے فروغ اور منکرات وبرائیوں کے خاتمے کے لیے کام کرے اور معاشرے میں ایسا ماحول پیدا کرے جس میں نیکی پر عمل آسان اور برائی پر عمل مشکل ہوجائے اور شعائراسلامی کا احیاء واعلاء ہو اور دستور کے آرٹیکل 31میں جن امور کا ذکر کیا گیا ہے ان پر موثر عمل درآمد ہوسکے۔ دفاع اسلام خصوصاً اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات کے ازالے اور مسلمانوں وغیرمسلموں تک موثر انداز میں دین پہنچانے کے لیے بھی حکومت پاکستان کو فنڈز مختص کرنے چاہییں اور وسیع الاطراف کوششیں بروئے کار لانی چاہئیں۔