تمام تعریفیں اللہ رب العزت کے لیے ہیں جس نے بنی آدم کی رہنمائی کے لیے انبیاء کے ذریعے اپنے احکام نازل فرمائے اور اسلام کو تمام ادیان پر فضیلت بخشی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی طرح اسلام کو آخری دین قرار دیا۔ اس کے بعد کوئی دین یا شریعت نہیں آئے گی۔ اسلام کو تاقیام قیامت آنے والے ہر رنگ ونسل ، ہر تہذیب و تمدن کے لیے جامع دین بنایا۔ اللہ رب العزت نے اسلام کو لوگوں میں راسخ کرنے کے لیے بتدریج نازل فرمایا اور اس تدریج کی وجہ سے لوگوں کے لیے اس پر عمل کرنا آسان ہوگیا۔ جیسے شراب کو براہ راست ممنوع قرار نہیں دیا بلکہ پہلے ارشاد فرمایا اس میں نفع اور نقصان دونوں ہیں اور نقصان زیادہ ہے ، اس کے گناہ کو منفعت سے بڑا قرار دینے سے بہت حساس ذہن متوجہ ہوئے اور انہوں نے اسی پرشراب چھوڑدی۔ پھر فرمایا نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ، اس حکم پر مزیدلوگ شراب سے پرہیز کرنے لگ گئے تو اب شراب کی حرمت نازل فرمادی۔ اسی طرح دیگر بہت سے احکام ایسے ہیں جن میں تدریج کے ساتھ ساتھ تنوع بھی پایا جاتا ہے۔ایسے ہی کچھ احکام اولاً مشروع تھے اور بعد میں ممنوع یا متروک ہوگئے ، اولاً مشروع اور پھر ممنوع قرار دیے جانے والے معاملات کے لیے ناسخ و منسوخ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔اور کچھ معاملات ایسے بھی ہیں جن سے ممانعت صراحت کے ساتھ بیان نہیں کی گئی اور وہ تنوع کے ساتھ نقل کیے جاتے رہے۔ایسے ہی نماز کے بعض احکام ایسے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنائے لیکن بعد میں ترک فرمادیے۔ یہ تمام طریقے بعد میں آنے والوں تک نقل کیے گئے ، جس تک جو طریقہ پہنچا اس نے اسی پر عمل کرنا شروع کردیا، پھر ایک وقت آیا کہ نقد و جرح شروع ہوئی اور متعدد طرق کو پرکھنا شروع کردیااختلاف اس حد تک پہنچ گیا کہ فریقین میں تعصب کی بو نظر آنے لگی ۔ زیر نظر مضمون میں انہی اختلافات میں راہ عدل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
تمام تر اختلافات میں بنیادی نقطہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک عمل کو مختلف کیفیات کے ساتھ ادافرمایا، موقع پر اس سوال کااٹھنا بھی فطری امر ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک عمل مختلف طریقوں سے کیوں سرانجام دیا ؟ اس ضمن میں عرض ہے کہ نبی کریم ﷺ کی نبوت ورسالت کسی مخصوص تہذیب یا کسی معین تمدن کے لئے نہیں تھی بلکہ آپ تمام عالم کے لیے تا قیامت اللہ کے آخری پیغمبرہیں۔جناب رسول اللہ ﷺ کی سنت اور عبادت کی مختلف کیفیات میںتنوع کی خوبی ہے کہ اسلام نے ہر تہذیب و تمدن کو اپنے اندر سمو لیا ۔مزید براں رب کائنات کو منظور یہ تھا کہ میرے حبیب ﷺ نے جو بھی کام جن جن طریقوں سے سرانجام دیا وہ تمام کیفیات قیامت تک محفوظ رہیں اور امت کے مختلف طبقات ومکاتبِ فکر ان میں کسی نہ کسی طریقہ کو زندہ رکھنے کا سہرا اپنے سر باندھیں اور نبی محترم ﷺ کی سنت کے احیاء کی جزاء عظیم حاصل کریں ۔
یہ تمام طریقے نصوص سے آئندہ لوگوں تک پہنچے۔ جب سب نصوص کا ایک ساتھ مطالعہ کیا جائے تو باہم اختلاف و تضاد محسوس ہوتاہے۔ ایسی صورت حال میں سب سے پہلے تمام نصوص کو جمع کرنے اور جمع نہ ہوسکنے کی صورت میںکسی ایک کو ترجیح کی ضرورت سامنے آئی۔اورترجیح کے درج ذیل اصول معرضِ وجود میں آئے:
٭ سب سے پہلے ان تمام کیفیات کو جمع کرنے کی کوشش کی جائے اور اگر تطبیق و جمع کی ایسی شکل ممکن نہ ہو کہ جس سے سنت سے منقول ان تمام کیفیات پر عمل ہوجائے تو اس بات کی تحقیق کی جائے کہ ان میں سے زمانے کے اعتبار سے بعد کا عمل کونسا ہے اورپہلے کونسا ہے؟ بعد کاعمل پہلے والے کے لئے ناسخ اورپہلے والا عمل منسوخ کہلائے گا ، اس اصول کے تحت کسی کیفیت یا کسی عمل کو منسوخ ثابت کرنے کے لئے عمل کی کسی کیفیت کو بعد کی کیفیت ثابت کردینا ہی کا فی ہوتا ہے ۔
٭ اس ضمن میں دوسرا اصول یہ ہے کہ سند کے اعتبار سے اعلیٰ نص پر عمل کیا جائے اور دوسری نص پر عمل نہیں ہو گا، لیکن اس کے سنت ہونے سے انکار نہیں کیا جائے گا۔
٭ اس ضمن میںتیسرا اصول یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ کے اہلِ مدینہ ان متعدد کیفیات میں سے کس کو ترجیح دیتے تھے ، اس اصول کو تعامل اہل مدینہ کے مبارک نام سے یاد کیا گیا ۔
درج بالا وہ اُصول ہیں جو ائمہ اربعہ یعنی امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد ابن حنبل (رحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ جلیلۃ ) نے اپنائے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ائمہ اربعہ میں سے جس نے جو بھی رائے اختیار کی اس کی بنیاد نبی کریم ﷺ کی سنت مطہرہ ہے۔ کسی کی ذاتی اختراع کو کوئی دخل نہیں۔ لہٰذا ہر رائے کا احترام ہر مسلمان کے لیئے نہایت ضروری ہے اور عمل ایک پر ، کسی رائے سے اختلاف ضرور کیا جا سکتا ہے لیکن کسی بھی انداز میں اس کی توہین کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
نماز کی کیفیات میں بھی انہی اصولوں کی بنیاد پر فقہاء کے درمیان اختلاف پیدا ہوئے ، کچھ نظائر پیشِ خدمت ہیں :
فاتحہ خلف الامام :
نماز کے دوران سورۃ فاتحہ کی قراء ت واجب ہے جو شخص نہیں پڑھے گا اس کی نماز نہیں ہوگی۔ نمازی کی دو صورتیں ہیں اول منفرد اور دوسرا مقتدی۔ منفرد کی صورت میں بالاتفاق سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔ مقتدی ہونے کی صورت میں اختلاف ہے۔ امام شافعی حدیث مبارکہ سے استدلال کرتے ہیں : لاصلوٰۃ لمن لم یقرأبفاتحۃ الکتاب فصاعداً‘‘ ترجمہ: اس شخص کی نماز نہیںجو سورۃ فاتحہ اورکچھ قرآن نہ پڑھے (ابوداؤد)اسی طرح سنن ترمذی میں حضرت عبادہ بن صامت سے منقول حدیث کا مفہوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ بھی پڑھنے سے منع فرمایا۔ لہٰذا شوافع کے نزدیک منفرد کی طرح مقتدی کے لیے بھی سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے ورنہ نماز ادا نہیں ہوگی۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اللہ رب العزت کا فرمان پیش کرتے ہیں : وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْالَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔ (اعراف:۲۰۴)((جب قرآن مجید پڑھا جائے تو خوب توجہ سے سنو اوربالکل خاموش رہاکرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔))اسی طرح حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں : قَالَ رُسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِنَّمَا جُعِلَ الْاِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہٖ فَاِذَاکَبَّرَ فَکَبِّرُوْا وَاِذَا قَرَاَ فَانْصِتُوْا وَاِذَا قَالَ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ فَقُوْلُوْا اٰمِیْنَ۔(ابن ماجہ )((حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ امام اس لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے لہٰذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قراء ت کرے تو تم خاموش رہواور جب وہ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ کہے تو تم آمین کہو ۔))
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ وجوب فاتحہ کو منفرد کی نماز کے ساتھ خاص کرتے ہیں اور آیت مبارکہ کی رعایت کے پیش نظر مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کی قراء ت کو درست قرار نہیں دیتے۔ ایک اور حدیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ابتداء صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ کی اقتداء میں فاتحہ پڑھتے رہے بعد ازاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمادیا۔
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْمُفَسِّرُابْنُ اَبِیْ حَاتِمِ الرَّازِیُّ ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِالْاَعْلٰی اَنْبَأنَا اِبْنُ وَھْبٍ ثَنَا اَبُوْصَخْرٍعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبِ الْقُرَظِیِّ قَالَ ؛کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا قَرَئَ فِی الصَّلَاۃِاَجَابَہ مِنْ وَّرَائِہٖ اِنْ قَالَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قَالُوْامِثْلَ مَا یَقُوْلُ حَتّٰی تَنْقَضِیَ الْفَاتِحَۃُ وَالسُّوْرَۃُ۔فَلَبِثَ مَا شَائَ اللّٰہُ اَنْ یَلْبَثَ ثُمَّ نَزَلَتْ( وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ) فَقَرَئَ وَاَنْصَتُوْا۔(تفسیر ابن ابی حاتم رازی)
ترجمہ: حضرت محمد کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے توپیچھے نماز پڑھنے والے بھی ساتھ ساتھ کلمات دہراتے جاتے ،اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھتے ،تو پیچھے والے بھی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھتے یہاںتک کہ سورۃ فاتحہ مکمل ہوجاتی اوریہ سلسلہ جب تک اللہ نے چاہا، چلتا رہا پھر جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (وَاِذَاقُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْالَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْن)توآپ صلی اللہ علیہ وسلم قرأت فرماتے اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش رہتے ۔
گویا کہ اس آیت مبارکہ نے حضرت عبادہ بن صامت والی حدیث میں موجود استثناء کو منسوخ کردیا۔ اور ترمذی شریف میں ہی ایک دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مقتدی کے لیے فاتحہ کا وجوب نہیں ہے۔ چنانچہ امام ترمذی حضرت جابرؓ کااثر نقل فرماتے ہیں ’’مَنْ صَلّٰی رکعۃً لَمْ یَقْرَء فیھابِامِّ الْقُرْآن فلم یصل الاان یکون وراء الامام۔‘‘( ترمذی ص۱۸۰،ج۱) جس آدمی نے نمازپڑھی اوراس نے اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تواس نے نماز نہیں پڑھی یعنی اس کی نماز نہیں ہوئی، مگریہ کہ وہ امام کے پیچھے نماز پڑھے توسورۃ فاتحہ نہ پڑھنے کی صورت میں اس کی نماز ہوجائے گی۔
بیان کردہ تینوں اصولوں کے مطابق منفرد نمازی کے لیے سورۃ فاتحہ کی قراء ت واجب ہے جبکہ مقتدی کے لئے خاموش رہنا واجب ہے۔ اسی کی تائید آیت ’’ فاذا قرأنہ فاتبع قرانہ ‘‘سے بھی ہوتی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ پڑھنے لگے تو اللہ رب العزت نے فرمادیا آپ خاموشی سے سنیں ۔
رفع یدین:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تکبیر کے علاوہ دوران نماز رفع یدین اور ترک رفع یدین دونوں ثابت ہیں۔ احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اول زندگی میں رفع یدین کیا بھی تھا۔ لیکن پھر ترک کردیا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک رفع یدین افضل ہے۔ امام شافعی ؒ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے استدلال فرماتے ہیں۔’’عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہما کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ وَاِذَا کَبَّرَ لِلرُّکُوْعِ وَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ رَفَعَہُمَا کَذَالِکَ وَقَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ وَکَانَ لاَیَفْعَلُ ذَالِکَ فِی السُّجُوْدِ (بخاری ومسلم )
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع کرنے کے لئے تکبیر کہتے تو اس وقت بھی اپنے دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھاتے اور جب رکوع سے سراٹھاتے تو پھر اپنے دونوں ہاتھ اسی طرح اپنے کندھوں کے برابر اٹھاتے اور کہتے سن لی، اللہ نے جس نے اس کی تعریف کی اور ہمارے رب کے لئے ہی سب حمد ہے اور سجدے میں رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ترک رفع یدین افضل عمل ہے۔ متعدد احادیث اس بات پر مستدل ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین نہیں فرمایا۔
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ اَلَااُخْبِرُکُمْ بِصَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ فَقَامَ فَرَفَعَ یَدَیْہِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ثُمَّ لَمْ یُعِدْ (نسائی ج۱ص۱۵۸)ترجمہ: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی خبر دوں؟ پھر کھڑے ہوئے اور پہلی مرتبہ رفع یدین کیا پھر دوبارہ نہیں کیا۔ عَنِ الْبَرَّائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ اِذَاکبر رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یُرٰی اِبْہَامُہٗ قَرِیْباً مِنْ اُذُنَیْہِ مَرَّۃً وَاحِدَۃً ثُمَّ لَایَعُوْدُ لِرَفْعِہِمَا فِیْ تِلْکَ الصَّلٰوۃِ۔ (مصنف عبدالرزاق ج۲ ص۷۰،؛ سنن ابی داؤد ج۱ ص۱۰۹) حضرت براء ابن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر کہتے تو ایک مرتبہ رفع یدین کرتے پھر اس نماز میں دوبارہ رفع یدین نہ کرتے ۔ اس مسئلہ میں بھی نص ، زمانہ اور تعامل صحابہ کے اعتبار سے ترک رفع یدین افضل عمل ہے۔
رفع یدین کرنے یا نہ کرنے میں صرف افضلیت کا فرق ہے ورنہ صحت نماز پر کسی قسم کا کوئی اثر نہیں پڑتا نماز دونوں طرح سے ہوجاتی ہے۔ افضلیت کی بات کو لے کر تعصب کی راہ اپنانا تحمل مزاجی جیسی عظیم سنت سے دوری کے سوا کچھ نہیں ۔
آہستہ یا بلند آواز سے آمین کہنا:
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت وائل بن حجر کی روایت میں مد بہا صوتہ (آواز کو کھینچا) سے آمین بالجہر( آمین کا لفظ زور سے کہنا) مراد لیتے ہیں اور اس کو افضل قرار دیتے ہیں جبکہ یہی حدیث حضرت شعبہ ؓ سے بھی مروی ہے جس میں خفض بہا صوتہ (آواز کو پست رکھا) اسی سے استدلال کرتے ہوئے حنفیہ و مالکیہ آہستہ آواز سے آمین کہنے کو افضل قرار دیتے ہیں۔
دونوں میں تطبیق کی کوشش کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ آمین کو قدرے بلند آواز میں کہا۔آواز کی تین کیفیات ہیں۔ آہستہ جو خود کو بھی نہ سنائی دی،جو اپنے کانوں تو پہنچ سکے اور جو دوسروں تک بھی پہنچ سکے۔ اس اعتبار سے خود کو سنائی دینے والی آواز بھی بلندی میں میں شامل ہے لیکن موجودہ زمانہ میں آواز کو بہت زیادہ بلند کیا جاتا ہے جو مسجد کے شایان شان نہیں۔ مسجد کا ادب تو اسی میں ہے کہ آواز کو پست رکھا جائے۔ آمین بالجہر اور بالسر دونوں جائز بس آمین بالشر قطعاً جائز نہیں ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر آمین سنت سمجھ کر قدرے بلند آواز سے کہی جائے تو کوئی حرج والی بات نہیں اور اگر اسے دوسروں کو سنانے کی خاطر بلند کیا جائے تو یقینی بات ہے گناہ کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
وضع الیدین :
نماز کے دوران ہاتھوں کی کیفیت کی تین صورتیں ہیں اول یہ کہ سینے پر ہاتھ باندھے جائیں ، دوم ناف کے برابر ہاتھ باندھے جائیں اور تیسری صورت یہ ہے کہ ہاتھوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے۔ تینوں طریقوں سے نماز ادا ہوجاتی ہے۔ جو جس طریق پر عمل کرتا ہے اس کے لئے وہی طریقہ افضل ہے۔ مسلم شریف میں مذکور حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے مطابق ہاتھ باندھنا مسنون عمل ہے جبکہ امام مالک کے نزدیک ہاتھ چھوڑکر نماز پڑھنا افضل ہے۔ امام مالک ہاتھ باندھنے کو ٹیک لگانے میں شمارکرتے ہیں جبکہ دیگر ائمہ فرماتے ہیں عملی حدیث کی موجودگی کی صورت میں عقلی دلیل کی کوئی حیثیت نہیں اس لئے ہاتھ باندھنا مسنون عمل ہے۔ اب رہا یہ اختلاف کہ ہاتھ باندھنے کا مقام کیا ہے؟ امام شافعی ؒ حضرت وائل بن حجر کی معارف السنن میں مذکور روایت کے الفاظ میں علی صدرہ سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سینے پر ہاتھ باندھنا مستحب ہے۔ جبکہ امام ابوحنیفہؒ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مسند احمد میں نقل کردہ روایت سے استدلال کرتے ہوئے ناف پر ہاتھ باندھنے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔امام احمد بن حنبلؒ سے تینوں روایتیں منقول ہیں ۔ اس میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ہاتھ سینے پر باندھے یا ناف پر یا کھلے چھوڑ دیں تینوں صورتوں میں عاجزی و انکساری قائم رہنا انتہائی ضروری عمل ہے ، بعض احباب نماز میں ایسی ہیئت بنا لیتے ہیں جس سے تکبر اور اکڑ کی سی بو آتی ہے۔ عاجزی اور انکساری نماز کی اصل روح ہے اس لئے ایسی کسی بھی کیفیت سے اجتناب ضروری ہے۔
فاتحہ خلف الامام ، رفع یدین ، آمین بالجہر اور وضع الدین وہ مشہور فقہی اختلافات ہیں جن کو لے کر غیر اسلامی قوتیں مسلکی بنیادوں پر فرقہ واریت کو فروغ دینے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ فاتحہ خلف الامام وہ واحد مسئلہ ہے جس میں نماز کی ادائیگی کا انحصار ہے۔ شوافع کے نزدیک سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اس لئے شافع المسلک لوگوں کے لئے سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے اگر وہ نہیں پڑھیں گے تو ان کی نماز نہیں ہوگی ۔ اسی طرح حنفی المسلک افراد کو چاہیے کہ وہ امام کے پیچھے خاموش رہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو جس طریق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں مصروف ہے اسے چاہیے کہ اسی ایک راستے پر رہتے ہوئے اپنی زندگی میں اسلام کو نافذ کرنے کی بھرپور سعی کرے، ہر انسان اپنی ذات کا مکلف ہے دوسروں کا نہیں ، اپنا مسلک چھوڑیں نہیں اور دوسروں کے مسلک کو چھیڑیں نہیں اسی میں امت کی نجات ہے اور اختلاف امتی رحمۃ کا بھی یہی مطلب ہے کہ آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت اور ہر ادا کر پورا کرنے والے موجود ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کے مطابق زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ (آمین )
نمازکی ادائیگی کے چند فقہی اختلافات
Please follow and like us: