اللہ رب العزت نے تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی قرار دیا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمان ربانی کی تشریح میں فرماتے ہیں ’’کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ اگر جسم کے ایک حصہ کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم اس کی وجہ سے بے چین و بے قرار رہتا ہے۔‘‘اور فرمایا ’’تمام مسلمان ایک جیسے ہیں کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر سوائے تقویٰ کے کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے
توجہ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی گئی نماز انسان کو کچھ دیر کے لیے تمام دنیا سے منقطع کرکے اللہ کے ساتھ تعلق جوڑ دیتی ہے اور یہی چند لمحات انسان کی روحانی تقویت کے ساتھ ساتھ جسمانی شادمانی کا سبب بنتے ہیں
نماز اسلام کے بنیادی ارکان میں سے دوسرا اہم رکن ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا جس کی نماز پوری نکل آئی اس کے دیگر اعمال بھی پورے ہوجائیں گے اور جس کی نماز پوری نہ ہوسکی وہ دوسرے اعمال میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ نماز کی فرضیت کا اقرار ایمان کا بنیادی جزو ، اس کا تارک سخت گناہگار اورمنکر کافر ہے۔ نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ، دین کا ستون اور مومن کی معراج ہے ۔ نماز ایسی عبادت ہے جس میں انسان اپنے رب سے براہ راست گفتگو کرتا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے جہاں روحانی اثرات مرتب ہوتے وہیں پر دنیاوی زندگی کے اعتبار سے انسان پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
معاشرتی فوائد :
نماز دین کا وہ اہم ستون ہے جس کے ذریعے امت مسلمہ کے مابین بھائی چارہ ، ایثاروقربانی کو فروغ دینے کے لیے مسلمانوں کو پانچ وقت اکھٹا ہو کر باجماعت نماز ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے تاکہ وہ سب جمع ہوں اور ایک دوسرے کے دکھ درد سے باخبر رہ سکیں۔ اس اجتماع کے لیے اسلام کی تبلیغ کے ساتھ ہی مساجد کی تعمیر شروع کردی گئی تاکہ تمام مسلمان مسجد میں جمع ہوکر اپنے پرودگار کی بندگی کے ساتھ ساتھ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے دکھ درد میں شریک ہوسکیں۔ مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے مسجد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا زیادہ وقت مسجد میں گزارتے اور تمام مشورے اور وفود سے ملاقاتیں مسجد میں ہوتیں ، تعلیم و تعلم کا سلسلہ بھی مسجد میں ہی سرانجام پاتا۔ مسجد کی اسی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو دنیا میں اللہ کا گھر بنائے گا حق جل مجدہ اس کے لیے جنت میں گھر بنائیں گے۔ یقینا جب کوئی نمازی مسجد میں حاضر نہیں ہوگا تو دوسروں کو فکر لاحق ہوگی اور وہ اس کی خبر گیری کریں گے اور اس طرح ایک دوسرے کے دکھ درد میں ساتھی بنیں گے۔ اس اجتماعیت کو مزید مربوط بنانے کے لیے باجماعت نماز ادا کرنے کا حکم فرمایا اور گھر میں نماز ادا کرنے والوں کے لیے انتہائی سخت تنبیہات ارشاد فرمائیں، جماعت کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی وقت میں سب لوگ اکھٹے ہوتے ہیں ۔ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی صورت میں ستائیس درجے زیادہ ثواب کا وعدہ فرمایا۔ دنیا کے کسی خطے میں اس طرح پانچ وقت ایک دوسرے کی خبرگیری کا نظام موجود نہیں ہے۔اللہ رب العزت نے تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی قرار دیا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمان ربانی کی تشریح میں فرماتے ہیں ’’کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ اگر جسم کے ایک حصہ کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم اس کی وجہ سے بے چین و بے قرار رہتا ہے۔‘‘اور فرمایا ’’تمام مسلمان ایک جیسے ہیں کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر سوائے تقویٰ کے کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔‘‘مسجد میں باجماعت نماز کے دوران تمام امراء و غرباء، عربی و عجمی ، گورے اور کالے ایک ہی صف میں بلاامتیاز کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اللہ کے نزدیک اعزاز کا معیار تقویٰ ہے، تقویٰ اختیار کرنے پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ جیسے ایک کم درجہ کے غلام کو بھی اللہ نے ایسا بلند مرتبہ عطا فرمایا کہ وہ چلتے زمین پر ہیں اور ان کے قدموں کی آواز عرش پہ سنائی دیتی ہے۔
اسلام امن و سلامتی کا نام ہے اس لیے نماز بھی امن اور سلامتی کا مظہر ہے۔ جس میں ذاتی فکر و نظر کی بنیاد پر متعصب رویے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے کیفیت کے مختلف انداز نقل کیے جاتے ہیں جن میں صرف افضلیت کا فرق ہے، نماز ان تمام طریقوں سے ادا ہوجاتی ہے۔ مثلا ہاتھ ناف پر یا سینے پر باندھنا یا ہاتھ چھوڑ کر نماز ادا کرنا۔ رفع یدین کرنا یا نہ کرنا، امین جہرا کہنا یا سرا کہنا، اسی طرح پاؤں کھول کر کھڑے ہونا، یا تنگ کرکے کھڑے ہونا یہ وہ طریقے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں اور ان میں سے کوئی طریقہ ایسا نہیں جس کی وجہ سے نماز باطل ہوجاتی ہو۔ جب نماز کی ادائیگی ہوجاتی ہے تو پھر یہ انتہائی نامناسب طرز ہے کہ ایک دوسرے کے لیے سخت و نازیبا الفاظ استعمال کیے جائیںاور اس حد تک متعصب ہوجانا کہ دیگر مکتبہ فکر کے افراد کا مسجد میں داخلہ کو ممنوع سمجھنا، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غیرمسلم بھی مسجد میں داخل ہوتے تھے اور آج مسلمان کے مسجد میں داخلے پر مسجد دھوکر پاک کیے جانے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اختلاف رائے بری بات نہیں لیکن اس اختلاف پر جارحانہ رویہ اپنانا اور دوسرے مسلمان کو ذہنی ایذا دینا حرام کے درجے میں آتا ہے اور ایسا رویہ کسی مومن کو زیب نہیں دیتا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی جماعت کو نماز عصر منزل تک پہنچ کر ادائیگی کا حکم دیا، لیکن صحابہ عصر کے وقت میں اس منزل تک نہیں پہنچ سکے، اختلاف رائے ہوا کہ نماز عصر کی ادائیگی میں وقت کو ترجیح دی جائے یا منزل کو ؟ بعض نے وقت میں نماز پڑھی اور بعض نے منزل پر پہنچ کے قضا پڑھی۔ واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میں سے کسی کو بھی غلط نہیں فرمایا۔
طریقہ نماز میں اختلاف کی ایک خوبی بھی ہے کہ اللہ رب العزت کو اپنے نبی کی ہر ادا پسند ہے اور اس کو ہمیشہ سے ہمیشہ تک جاری رکھنے کے لیے مختلف لوگ مقرر فرمادیے جو تا قیام قیامت جاری رہیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے جس تک جو طریقہ پہنچا ہے وہ اس پر عمل کرے اپنا چھوڑے نہیں اور دوسروں کو چھیڑے نہیں یہی وہ واحد راستہ ہے جس پرچلتے ہوئے تمام مسلمان ہر مسجد میں بخوشی نماز ادا کرسکتے ہیں ۔ پھر بھی اگر کوئی ان معاملات میں تعصب کی راہ اختیار کرتا ہے تو وہ اسلام کی پیروی نہیں بلکہ اپنے نفس کی پیروی کرتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ یہ بات سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اسلام کی بات بھی اسلام کے طریقے کے مطابق کریں ۔تحمل مزاجی اور بردباری کو اپنائیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہمارے اعمال کی قبولیت مشکوک ہوجائے گی۔ اللہ کی بندگی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرنا ہی مومن کی معراج ہے ۔
جسمانی ورزش:
جس طرح نماز انسان کی روحانی تربیت کا سبب بنتی ہے ایسے ہی نماز انسان کی جسمانی نشونما میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ نماز کے ذریعے سے جسم کے تمام اعضاء کی ورزش ہوتی ہے کوئی عضو باقی نہیں رہتا ۔ نماز ورزش کا انتہائی مفید طریقہ ہے جس کی وجہ سے ایک مناسب وقفہ کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر تسلسل کے ساتھ جسمانی ورزش ہوتی ہے۔ نماز دنیا میں پائے جانے والے روزمرہ ورزش کے تمام طریقوں کی جامع ہے۔ نماز سے جسم تندرست و توانا اور چست رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ منافقین کی ایک علامت یہ بتائی کہ وہ نماز میں سستی کرتے ہیں ۔ نماز کے کامل روحانی فوائد کی طرح کامل جسمانی فوائد حاصل کرنے کے لیے بھی خشوع و خضوع شرط ہے۔ اگر خشوع و خضوع نہیں ہوگا تو جسم کو اس قدرتی ورزش کے کامل فوائد حاصل نہیں ہوتے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :فانّ فی الصلٰوۃِ شِفاء ۔ (سنن ابن ماجہ)بے شک نماز میں شفاء ہے۔ بالآخر سائنس دانوں کو بھی تجربات کے بعد یہ بات ماننا پڑی کہ نماز کی ادائیگی سے جسم میں پیدا ہونے والی باقاعدگیاں معمول پر آجاتی ہیں بالخصوص نماز بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھتی ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث روایت کرتے ہیں:
تہجد کے وقت اٹھ کر نماز پڑھنے کی عادت بنا لو کیونکہ تم سے پہلی قوموں کے صالح لوگوں کی یہ عادت تھی، یہ تمہیں خدا سے قریب کرتی ہے، تمہارے گناہوں کا کفارہ ہے، تمہارے گناہوں کو مٹاتی ہے اور جسم سے بیماری کو دور کرتی ہے۔
دماغی قوت:
بے ہوشی کی صورت میں ڈاکٹرز کی طرف سے ابتدائی طبی امداد میں سب سے پہلا طریقہ یہ ہے کہ مریض کا سر والا حصہ قدرے نیچے اور پاؤں اونچے کردیے جائیں تاکہ دماغ تک خون کی ترسیل بہتر ہوسکے۔ نماز کے دوران ہر رکعت میں دو سجدے فرض قرار دیے گئے تاکہ دماغ تک خون کی ترسیل بہتر ہوسکے ۔ دماغ تک خون مکمل طور پر پہنچ جاتا ہے ، اللہ رب العزت کی طرف ذہنی یکسانیت ہونے سے وقتی طور پر جسم کے تمام اعضاء نارمل حالت میں آجاتے ہیں اورانسان ذہنی طور پرپرسکون ہوجاتا ہے ، اس کی سوچنے ، سمجھنے کی صلاحیت بہتر ہوجاتی ہے ،منفی اثرات زائل ہوجاتے ہیں اوردماغ کی عمر معمول سے بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق الفا ویوز انسانی دماغ میں سکون، اطمینان اور خوشی کے جذبات پید اکرتی ہیں۔ یہ روزمرہ زندگی کی مشکلات اور تکلیفوں کے شکار دماغ کو پرسکون کرنے اور انسانی توجہ اور صلاحیتوں کو نکھارنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔جب انسان سجدے میں جاتا ہے تو الفا ویوز معمول سے زیادہ دماغ تک پہنچتی ہیں جو دماغ کی بہترین نشونما کا سبب بنتی ہیں۔
یہ بات مسلم ہے کہ مسائل و مصائب کے اس پرفتن دور میں جہاں ہر انسان ذہنی کشمکش میں مبتلا ہے اور سکون حاصل کرنے کے لیے مہنگی سے مہنگی ادویات خریدتا ہے لیکن اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو یہ تمام چیزیں مفت میں مہیا کردی ہیں اور ساتھ ہی آخرت میں اجر کا وعدہ بھی فرمایا۔ قرآن مجید میں بھی یہ بات واضح فرمادی کہ اگر تم دلوں کا سکون چاہتے ہو تو یاد رکھو دلوں کا سکون اللہ رب العزت کی یاد میں رکھا ہے۔
خلاصہ یہ کہ توجہ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی گئی نماز انسان کو کچھ دیر کے لیے تمام دنیا سے منقطع کرکے اللہ کے ساتھ تعلق جوڑ دیتی ہے اور یہی چند لمحات انسان کی روحانی تقویت کے ساتھ ساتھ جسمانی شادمانی کا سبب بنتے ہیں۔ نماز روحانی و جسمانی تازگی کا سبب بنتی ہے ، اخروی زندگی کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی میں بھی بہتری لاتی ہے اس طرح نماز انسان کی انفرادی بہتری کے ساتھ معاشرے کے اجماعی معاملات پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں بروقت نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین بجاہ النبی الکریم۔