قابل احترام صدر مجلس فضل رحیم صاحب، انتہائی قابل قدر علماء کرام، محترم مفتی ابوہریرہ محی الدین صاحب، مفتی محی الدین صاحب، پارلیمنٹیرین صاحبان ،چوہدری نذیر احمد صاحب اورقاری عثمان صاحب انتہائی قابل قدر نوجوان علماء کرام، حاضرین محفل السلام علیکم
یہ پہلا موقع ہے کہ اس طرح کا اجتماع یہاں کنونشن سینٹر میں منعقد کرایا گیا میں اس پر مجلس صوت الاسلام کے چیئرمین اور تمام منتظمین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
میں پچھلے ڈیڑھ دو سال سے مجلس صوت الاسلام کی تقاریب میں شرکت کرتا رہا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسی پروقار تقاریب کا انعقاد وقت کی ضرورت ہے۔پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں بھی اگر دیکھا جائے تو ایسی تقاریب سے معاشرے پر اچھے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ تعلیم وتربیت وقت کی ضرورت ہے اور اسی ضرورت کا احساس رکھتے ہوئے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا اہتمام بھی میں نے مجلس صوت الاسلام کے پروگراموں میں دیکھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔ میں نے کراچی،اسلام آباد اور دیگر جگہوں پر دیکھا کہ مجلس صوت الاسلام دین کی صحیح خدمت کررہی ہے ۔وہ نوجوان طلباء جو مدارس سے فارغ ہوتے ہیں ان کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرتی ہے۔ یہی ایک طریقہ ہے جو آگے جاکر عملی زندگی میں نوجوان بہتر انداز میں اپنی خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔
اس حوالے سے مجھے مفتی جمیل صاحب نے تقریباً دو تین ماہ پہلے تقریری مقابلے کا بتایا تو میں نے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے اور میں اپنا فرض بھی سمجھتا ہوں، میں آج بھی یہی کہتا ہوں کہ اچھے کام کی حمایت کرنی چاہیے چاہے وہ کوئی بھی کرے، اسی طرح برے کاموں کو روکنا چاہیے چاہے وہ اپنا ہی کیوں ہو نہ کرے ۔
آج کے اس پروگرام میں جس طرح نوجوان طلباء وعلماء نے اپنے خیالات کا اظہار کیا مجھے دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ ان میں وہ جرأت ہے، وہ عزم ہے، وہ مقصد ہے، وہ صلاحیتیں ہیں کہ ان شاء اللہ یہ لوگ آگے جاکر اسلام کی صحیح انداز میں خدمت کریں گے ۔
ہم مسلمان ہیں اور ہم علماء کی قدر کرتے ہیں۔ علماء ہمارے پیشوا ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں اسلام کے خلاف جو یلغار ہے جو پروپیگنڈا ہے اس کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے، اس کا مقابلہ کرنا کس کی ذمہ داری ہے، یہ ہماری اور علماء کی ذمہ داری ہے اگر ہم کوئی غلط کام کریں تو علماء کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ روکیں اور اگر جہاں ہم صحیح کام کریں تو وہ علماء کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہماری حمایت بھی کریں ۔ہم اس وقت ایسے دور سے گزر رہے ہیں خاص طور پر پاکستان جو اسلامی ممالک میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے اور سارے عالم اسلام کو فخر ہے، اللہ کے فضل وکرم سے اسلام کیلئے جتنا کام اس ملک میں ہورہا ہے شاید دنیا کے کسی اور ممالک میں اس طرح کا کام ہو۔ اسی وجہ سے آج ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان کی امیدوں کے مطابق اپنا کردار ادا کریں۔ ہم دنیا کو یہ ثابت کریں کہ اسلام پوری انسانیت کے لئے آیا ہے۔ یہ کسی ایک ملک ،قوم یاکسی ایک علاقے کے لئے نہیں ۔ ہمارے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ان کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا تو اب اس امت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آخری امت کے طور پر پوری انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے کام کرے اس کیلئے ہمیں اپنے آپ کو تیار کرنا ہے اور وہ تیار کرنے کا طریقہ مجلس صوت الاسلام نے شروع کررکھا ہے ۔پہلے ہم اپنے آپ کو تیار کریں گے پھر اس قابل ہوں گے کہ پوری دنیا میں جاکر پوری انسانیت کو یہ پیغام پہنچاسکیں گے کہ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں۔ اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ نوجوان طلباء علماء جو تیار ہورہے ہیں اللہ کے فضل وکرم سے دین اسلام کی صحیح خدمت کرسکیں گے ۔
اللہ کی کرم نوازی سے اس ملک کو خطرہ ہے نہ اسلام کو خطرہ ہے، جب تک آخری مسلمان زندہ ہے کوئی بھی پاکستان کو ختم نہیں کرسکتا۔ دوسری بات میں عرض کرتا ہوں کہ الحمدللہ ہم عالم تو نہیں ہیں لیکن مسلمان ضرور ہیں۔ مسجد کو، مدارس کو، قرآن کو اور حدیث کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں کوئی بھی اس کے خلاف آواز اٹھائے گا ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔ جب سے میاں نواز شریف صاحب کی حکومت آئی ہے اور انہوں نے مجھے اس وزارت کی ذمہ داری سونپی ہے، میں نے الحمدللہ ہر مکتبہ فکر کے لوگوں سے مشاورت کی ہے، تقریباً ہر مدارس میں جاکر دیکھا ہے اور ان علماء کرام کے مشورے سے ایک 13نکاتی ضابطہ اخلاق تیار کیا ہے جس میں تقریباً تمام علماء کرام کے دستخط ہیں اور ان شاء اللہ اس پر عمل بھی ان علماء کرام کے مشورے سے ہی ہوگا۔ حکومت کوئی زبردستی نہیں کرتی ۔ 21ویں ترمیم میں غلط فہمی پیدا ہورہی ہے میری گزارش ہے کہ اس ترمیم کو ضرور پڑھیے اس میں آپ کے جو تحفظات ہوں گے اس کی بھی اصلاح ہوسکتی ہے۔ یہ کوئی قرآن کا حرف تو نہیں ہے نہ کوئی آخری ترمیم کہ اس میں ردوبدل نہیں ہوسکتا۔ آپ ضرور رائے دیں ان شاء اللہ ہم اس پر غور کریں گے۔ اس وقت تمام جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں آل پاکستان کانفرنس بلاکر وزیر اعظم نے ان سے رائے لے کر،قانونی ماہرین اور 1973ء کے آئین کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ترمیم کی ہے جو اسمبلی میں متفقہ طور پر پاس ہوئی ہے۔ یہ اس ملک کے تحفظ کیلئے ہے اگر اس میں کوئی کمی بیشی ہے تو اس پر غور ہوسکتا ہے۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ آپ سب اور ہم نے کہا یہ وطن ہمیں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے نام پر دیا، اس کیلئے آباء واجداد نے قربانیاں دی ہیں، آج اگر اس کو کوئی نقصان پہنچائے گا تو کل اللہ کو آپ کیا جواب دیں گے کہ یہ ملک جو پاکستان کا مطلب کیا ’’لاالٰہ اللہ‘‘ کے نام پر حاصل ہوا اس کی حفاظت کی۔ آپ آج یہ برداشت کرسکتے ہیں کہ کوئی بھی تخریب کار، کوئی دہشت گرد پاکستان کے امن کو تباہ کرے یا پاکستان کو ختم کرنے کی کوشش کرے ، قطعاً نہیں ۔اس لیے ان شاء اللہ ہم سب کی یہ اجتماعی ذمہ داری ہے، سب کی مشاورت سے آگے قدم بڑھایا جارہا ہے آج پاکستان کے تحفظ کیلئے پاکستان کی عسکری قوت جو آپریشن کررہی ہے، فوجی بھی شہید ہورہے ہیں کتنا بڑا نقصان ہے اور جو ابھی حالیہ واقعہ ہوا ہے سانحہ پشاور کا اس میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کو صدمہ یا دکھ نہ ہو۔ معصوم بچوں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا، کوئی برداشت کرسکتا ہے؟ نہیں کرسکتا ۔ ریاست کی ذمہ داری ہے امن قائم کرنا، ریاست کی ذمہ داری ہے ہر شہری کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا اس کا تعلق چاہے اقلیت سے ہو یا اکثریت سے، یہ تو اکثریتی مسلمانوں کا ملک ہے، یہاں کوئی کلمہ پڑھنے والا مسلمان کتنا بھی گناہ گار کیوں نہ ہو قطعاً اسلام کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرسکے گا۔ الحمدللہ میرا مدارس سے تعلق ہے، اتحاد تنظیمات المدارس والوں سے میری دو دفعہ میٹنگ ہوئی ہیں۔ نصاب سے متعلق باتیں زیر غور ہیں۔ مدارس میں قرآن وحدیث کی تعلیم دی جاتی ہے تو وہاں عصری تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انتظام کرے اور جہاں اسکولوں میں عصری تعلیم دی جاتی ہے تو وہاں قرآن وحدیث کی تعلیم کی ضرورت ہے ، اس کیلئے ہم کام کررہے ہیں ،اللہ کے فضل وکرم سے اس کام میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ نیت صحیح ہو تو اللہ پاک مدد فرماتا ہے ۔آپ نے دیکھا ہوگا حج کے معاملات کافی بہتر ہوئے ہیں، مزید کوشش ہے کہ 2015ء کے حج میں حاجیوں کو مزید سہولتیں دی جائیں۔اس طرح مل جل کر کام کرنا ہوگا۔
اللہ پاک ہمیں صحیح نیت واخلاص کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف
Please follow and like us: