مذہبی تعلیمات اور نوجوانوں کا مذہبی انتہاپسندی کی طرف رجحان
اس انٹرنیشنل انٹرفیتھ کانفرنس میں آپ سے ’’پرامن بین المذاہب معاشرے ‘‘کے موضوع پر مخاطب ہونے کا موقع فراہم کرنے پر میں بے انتہا مشکور ہوں۔ مجھے ’’مذہبی تعلیمات اور نوجوانوں کا مذہبی انتہاپسندی کی طرف رجحان ‘‘ پر بولنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ میرا دائرہ اختیار مذہبی انتہا پسندی کی طرف نوجوانوں کے رجحان پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے تاہم میں صرف اس دائرے تک محدود نہیں رہوں گا بلکہ میں عمومی طور پر مذہبی انتہا پسندی کا جائزہ لوں گا خواہ اس سے نوجوان متاثر ہوئے ہوں یا ادھیڑ عمر اور بوڑھے اس کا شکار ہوں۔ میں ہر عمر کے افراد میں اس کے اثرات کا تجزیہ کروں گا۔ انتہا پسندی ایک ایسی شے ہے جو عوامی رخ زیبا سے اس کی رعنائی چھین لیتی ہے۔ میں یہاں تک کہوں گا کہ یہ انسانیت کو بری طرح مجروح کردیتی ہے۔
بنی نوع انسان کے پاس مذہب ابراہیمی ہے۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام ہے۔ پھر ہمارے پاس ہندومت، جین مت اور سکھ مت کی تعلیمات ہیں۔ مزید براں کنفیوشس، تائو اور زردشت مذاہب نے بھی اپنے ماننے والوں کو مالا مال کیا ہے۔
سب سے پہلے یہ عرض کروں گا کہ ہمارا دور ٹیکنالوجی کا ہے اور اس کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہماری دنیا میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ تبدیلی کا یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ لہٰذا تبدیل ہوتی صورتحال نے ہمیں چار سچائیوں کے روبرو لاکھڑا کردیا ہے جن سے تقریباً ہم تمام ہی اتفاق کریں گے۔(1) سب سے پہلے یہ کہ گلوبل چینج کی رفتار بے انتہا ہے۔(2) دوسرے ان تبدیلیوں کی وجہ سے ہم نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ خاندانی، کمیونٹیز اور قومی سطح پر بھی شدید دبائو اور تکلیف کا شکار ہیں۔(3) تیسرے ہمیں جلد ازجلد تبدیلی کے ساتھ قدم ملاکر چلنے ،اسے سمجھنے اور قبول کرنے کیلئے راستے اور طریقے نکالنا ہوں گے۔(4) چوتھے ہمیں دلیری کے ساتھ اس بات کا اقرار کرنا ہوگا کہ ہم نہ تو مسئلے کو ہی سمجھے ہیں اور نہ ہی اس کا کوئی مناسب حل نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب میں آپ کے سامنے بدھا کی تعلیمات کی روشنی میں سچائی اور انصاف کی تلاش کا ذکر کروں گا۔ بدھ مت راہب کے طور پر میں آپ کے مسائل کا کوئی حل پیش نہیں کررہا۔ آپ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کروں گا۔ میں تو بس آپ کے سامنے آزادانہ تحقیق کا راستہ پیش کررہا ہوں۔ ہم آزادانہ غور وفکر سے ہی سچائی کا راستہ پاسکتے ہیں۔ بدھا نے کالامہ سترا میں یہی کچھ کہا ہے:
’’کسی بات پر صرف اس لیے یقین نہ کریں کہ آپ نے یہ سنا ہے کسی بات پر صرف اس لیے بھی یقین نہ کریں کہ بہت سارے لوگ اس کے بولنے والے اور پھیلانے والے ہیں۔کسی بات پر صرف اس لیے یقین نہ کریں کہ یہ آپ کے استادوں اور بڑوں کی کہی ہوئی ہے۔روایات پر بھی صرف اس لیے یقین نہ کریں کہ یہ عرصے تک نسل در نسل ہوتی ہوئی آپ تک پہنچی ہیں۔تاہم مشاہدے اور تجزیے کے بعد جب آپ پر یہ آشکارہ ہوجائے کہ کوئی بات دلیل سے مطابقت رکھتی ہے اور یہ واحد فرد کے ساتھ ساتھ تمام شہر کے لوگوں کیلئے بھی اچھی اور فائدہ مند ہے تو پھر اس کو قبول کریں اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔‘‘
اور اب میں اس بات کا جائزہ لوں گا کہ انتہا پسندی کیوں کر جنم لیتی ہے۔
زیادہ تر انتہا پسند خیالات اس بنیادی خام خیالی سے جنم لیتے ہیں کہ دنیا غلط راہ پر گامزن ہے۔ لہٰذا اس خیال کے راسخ ہونے کے بعد کہ دنیا غلط راستے پر جارہی ہے کچھ خدائی فوج دار سامنے آجاتے ہیں کہ ہم اس گمراہ زندگی کو راہ راست پر ڈالے دیتے ہیں۔ کبھی کبھار اس طرح کی سوچ رکھنے والے افراد گمراہ کن شدت پسندی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ سچائی پر ہیں اور جوان سے اختلاف کرے وہ گمراہ ہیں۔ وہ اپنے مذہبی وزن کی سچائی، معقولیت، عمل پذیری اور استقامت کے بری طرح گھائل ہوتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس طرح کی صورتحال دیکھنے میں آجاتی ہے۔ تاہم دور جدید میں جب یہ چیز ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی سے متاثر ہورہی ہے اس طرح کی سخت گیری میں نرمی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں دنیا سے اس طرح ہی معاملہ طے کرنا ہے جیسی کہ یہ ہے ۔اپنا چراغ روشن کریں۔ دوسروں کو بھی اپنا چراغ یا موم بتی روشن کرنے دیں۔ انتہا پسند مختلف نظریات اور طرز زندگی کے حامل لوگوں کی طرف سخت اور تندوتیز رویے کے ساتھ راغب ہوتے ہیں اور انہیں اپنی بے جا سختی کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ کس طرح ہمارے اس برصغیر میں اس ناعاقبت اندیشانہ رویے کا اظہار کرسکتے ہیں جہاں دو عظیم ترین بادشاہوں نے رواداری اور انسانیت کا بیش قیمت خزانہ ورثے میں چھوڑا۔ میری مراد آشو کا اور اکبر بادشاہ سے ہے۔
بدھ مت کا پیروکار ہونے کی حیثیت سے خدا کے بارے میں میرے اپنے خیالات ہیں لیکن اس پر سب ہی متفق ہوں گے کہ ہم خدا کے بارے میں جو بھی ایقان رکھتے ہوں یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ خدا کو ہماری مدد کی کوئی ضرورت نہیں۔خدا اپنے بندوں کا خود خالق ہے اور اس نے آزاد پیدا کیا ہے بعض لوگ مذہب کے معاملے میں جبر کرتے ہیں۔
انتہا پسندی کا ایک اور بڑا خطرہ معمول کا فطری خیال ہے جسے یہ لوگ معنی خیز بتاتے ہیں لیکن درحقیقت یہ نہایت خطرناک اور ظالمانہ ثابت ہوسکتی ہے اور یہ ہے غیر انسانی کرائے کا طریقہ جس کی وجہ سے عمل کرنے والے الگ ہی ضمیر کے حامل ہوتے ہیں اس طرح کا رویہ جب لوگوں میں زیادہ شدت کے ساتھ دیکھنے میں آئے تو پھر یہ بہت ہی تشویش ناک بات ہے۔
مذہب ایمان اور عمل کا ایک مبسوط مجموعہ ہے۔ عام طور پر یہ مقدس مقاصد سے منسلک ہوتا ہے۔ معروف ماہر تمدن ایمائل درخیم نے مذہب کی ایسی تعریف کی ہے جس پر ہم تمام اتفاق کرسکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مذہب چار اجزا کا مجموعہ ہے ایمان، عمل، تقدس اور ادارہ جاتی ڈھانچہ۔
بدھ مت ہمیں ایک سماجی نظام دیتا ہے جو امن اور سکون کے ساتھ زندگی کو یقینی بناتا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بدھا نے اپنے ماننے والوں پر زور دیا کہ ان کی تعلیمات کو آنکھ بند کرکے قبول نہ کریں۔ پہلے خوب سوچ بچار کریں اگر آپ کا دل انہیں قبول کرے تو پھر اس پر عمل کریں۔بدھا چاہتے تھے کہ تمام انسان ایک دوسرے کے ساتھ رحم کا سلوک کریں اور مشکل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ ان کی خواہش تھی ہم زندگی کے تمام امور میں صبر اور برداشت کا مظاہرہ کریں۔ رشتے ناطوں میں انسانی کمزوریوں کو سمجھیں۔ بدھا جانتے تھے اور انہوں نے اس کی نشان دہی بھی کی کہ انسانی معاشرے میں کئی کمزوریاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں اور انہیں دور کرنا ضروری ہے۔
دنیا کو برداشت کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے دور میں یہ بڑا المیہ ہے کیوںکہ جہاں بھی برداشت اور تحمل نہیں پایا جاتا یہ ناممکن ہے کہ وہاں امن وامان ہو۔ طاقت کے ذریعے ہم شاید اپنی کوئی بات منواسکیںلیکن یہ قطعی ناممکن ہے کہ اس سے ہم امن اور سکون حاصل کرسکیں۔ امن کے لیے ضروری ہے کہ لالچ، طمع اور نفرت کو مسترد کیا جائے۔ امن کا حصول ناممکن نہیں اس کو ہم صرف دعائوں سے نہیں حاصل کرسکتے بلکہ اس کیلئے ہمیں صبر،محنت اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بدھا نے ہمیں تعلیم دی کہ کوئی دشمن انسان کو اس قدر نقصان نہیں پہنچاسکتا جتنا کہ اس کی اپنی حسد، نفرت اور لالچ کے خیالات اس کو تباہ کرسکتے ہیں۔
آخر میں میں بدھا کی ایک اور اہم نصیحت کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
’’آئیے ! ہم خوش وخرم زندگی گزاریں۔ ہم ان سے نفرت نہ کریں جو ہم سے نفرت کرتے ہیں۔ اگر ہم ان لوگوں کے درمیان بھی رہتے ہوں جو ہم سے نفرت کرتے ہیں تو ہمیں خود کو بھی اس منفی جذبے سے آلودہ نہیں کرنا چاہیے۔ آئیے ! خوش وخرم رہیں اور آزاد ہوں۔ آئیے ! مطمئن دل کے ساتھ خوشی کی زندگی گزاریں جس میں لالچ کا دور دور تک کوئی شائبہ نہ ہو اگرچہ ہمارے اردگرد بڑی تعداد میں لالچی لوگوں کا بسیرا کیوں نہ ہو۔