آج کل ہر طرف ٹارگٹ کلنگ اور قتل وغارت کا بازار گرم ہے ۔روزانہ پندرہ ،بیس افراد کا قتل تو معمول بن چکا ہے ۔گویا انسان نہ ہوئے کیڑے مکوڑے ہوگئے کہ ان کے مرنے پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی جبکہ مرنے والے بھی مسلمان ہیں اور مارنے والے بھی خود کو مسلمان کہتے ہیں ۔کیا بحیثیت مسلمان ہم نے کبھی سوچا کہ ایک انسان بالخصوص مسلمان کی جان کس قدر قیمتی ہے ؟ایک مسلمان کی جان کعبے سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔اسلام نے قتل ناحق کو کفرو شرک کے ساتھ نتھی کرکے اس کی قباحت کو اجاگر کیا ہے اور کفرو شرک کی طرح قتل ناحق کی سزابھی دائمی جہنم بیان کی ہے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ ’’شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قتل وخونریزی ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غیرمسلموں کو دائرہ اسلام میں داخل فرماتے تو اس وقت ان سے چند اہم بنیادی امور پر عہدو پیمان لیتے (جسے شریعت میں بیعت اسلام کہتے ہیں) ان میں یہ عہدو پیمان سرفہرست تھا ’’ہم عہد کرتے ہیں کہ شرک، زنا، چوری اور قتل ناحق نہیں کریں گے۔‘‘ (صحیح بخاری)
طلوع اسلام سے قبل اس کرہ ارض پر اسی طرح طوائف الملوکی کا راج تھا جیسے آج بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بھی اپنے عروج پر ہے‘ مدائن سے قسطنطنیہ تک کی زمین بے گناہوں کے خون سے رنگین ہو رہی تھی، آبادیاں اجڑ رہی تھیں، عصمتیں لٹ رہی تھیں، کھیتیاں پامال ہورہی تھیں، نہ کسی کی جان محفوظ تھی نہ مال اور نہ آبرو، انسانوں کی کھوپڑیوں پر قیصر وکسریٰ کے محلات تعمیر ہو رہے تھے جبکہ سرزمین عرب کا حال تو سب سے بدتر تھا۔ جنگ وجدال، قتل وغارت، قمار بازی، شراب نوشی، بدکاری اور ظلم وجبر کو نہ صرف جائز تصور کرلیا گیا تھا بلکہ یہ وہ قابل فخر کارنامے تھے جنہیں شعر وادب میں فخریہ بیان کرکے داد وصول کی جا تی تھی۔ غرض وہ اندھیر مچی ہوئی تھی کہ اسے حیوانیت قرار دینا خود حیوانیت کی توہین کے مترادف ہے۔اسی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن پھوٹی، عرب کے صحرا سے ایک ایسا آفتاب(ﷺ) طلوع ہوا جس نے صفا کی چوٹی پر کھڑے ہوکر اعلان کیا:
اے لوگو! تم (جو اخوت ومحبت کے رشتے کو توڑتے ہو) اپنے اس پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک اصل سے پیدا کیا اور اسی سے اس کے جوڑے کو پیدا کیا، پھر ان دونوں کی نسل سے گروہ درگروہ مرد اور عورتیں پیدا کیں (جو سطح ارضی کے مختلف حصوں میں پھیل گئیں) یعنی جب تمہارا خالق ومالک ایک ہے، تمہاری اصل ونسل ایک ہے تو پھر یہ وطنیت، قومیت اور رنگ ونسل کے جھگڑے کیسے اور ایک جیسے انسانوں کے مابین صرف غربت وامارت، حاکمیت ومحکومیت اور زبان کے اختلاف کی بناء پر امتیاز کیوں؟ پھر نسلی وقومی برتری اور زر وجواہر کے خود ساختہ بتوں کو توڑ کر اس محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانوں کو یہ درس دیا کہ تم کو خاندانوں اور قبیلوں میں اس لئے تقسیم کیا گیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، ورنہ رب کائنات کے نزدیک سب سے زیادہ معزز تو وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔پھر اس نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اگلا سبق یہ دیا کہ نیکی اور بدی کا درجہ برابر نہیں ہوسکتا۔ برائی کا جواب اچھائی کے ساتھ دو۔ اگر تم نے یہ طرز عمل اختیار کیا تو تم دیکھو گے کہ اچانک تمہارا دشمن تمہارا دلی دوست بن جائے گا۔ البتہ انسانیت کے اس بلند مقام پر وہی پہنچ سکتا ہے جو اپنے نفس پر قابو رکھے اور جس کی قسمت میں نیکی وسعادت کا حظ عظیم ہو۔اس آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے عالمی انصاف کی بنیاد رکھتے ہوئے حکم دیا کہ دشمن ہوں یا دوست، اپنے ہوں یا پرائے، کسی سے بھی برتائو کرتے وقت عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے تاکہ کسی بھی صورت ظلم پروان نہ چڑھ سکے لہٰذا فرمایا:
کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس سے بے انصافی پر آمادہ نہ کر دے۔ عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دو کہ وہ پرہیز گاری سے زیادہ قریب ہے۔
اسلام انسان تو ایک طرف جانوروں پر ظلم کی بھی اجازت نہیں دیتا ۔جیسا کہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، وہ چند نوجوانوں یا آدمیوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے ایک مرغی باندھ رکھی تھی اور اس پر تیر سے نشانہ بازی کررہے تھے۔ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو بھاگ گئے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’یہ کون کررہا تھا؟ بلاشبہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والوں پر لعنت کی ہے‘‘۔ (صحیح بخاری)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص کسی چڑیا یا جانور کو ناحق مارڈالے تو اللہ تعالیٰ اس کے مارنے کے بارے میں سوال کرے گا۔ پوچھا گیا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) !اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا: اس کا حق یہ ہے کہ اگر اس کو ذبح کرے تو اس کو کھائے، یہ نہ کرے کہ اس کا سر کاٹ کر پھینک دے (اور اسے استعمال میں نہ لائے) (مشکوٰۃ)
جہالت اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت عصبیت کو فروغ دیتی ہے جو اخوت و اتحاد کی ضد ہے۔ عصبیت کی بنیاد علاقائیت، قبائل اور زبان و ثقافت پر ہوتی ہے لہٰذا قرآن پاک نے اس کی واضح طور پر تردید کرکے اخوت کا درس دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا باخبر ہے۔(الحجرات: ۱۳)
یعنی قبائل اور برادریاں صرف باہم متعارف ہونے کیلئے قائم کی گئی ہیں، ان کو نفرت و حقارت کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔ نیز قبائلی اونچ نیچ اور ذات پات کی برتری اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ دراصل اخوت و اتحاد ہی وہ بنیادی عنصر ہے جس سے کام لے کر کسی بھی قوم کی شیرازہ بندی کی جاسکتی ہے۔ انسان جب تک دوسروں کے حقوق کا پاس نہ کرے اور اسے اپنی طرح تمام سہولتوں اور ضروریات کا حق دار نہ سمجھے اس وقت تک کسی بھی معاشرے میں اخوت واتحاد کی روح پیدا نہیں ہوسکتی۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی جانب بھی مختلف انداز سے لوگوں کو متوجہ کیا۔
ایک مرتبہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھا کہ تم جانتے ہو مفلس کسے کہتے ہیں؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ مفلس (عرف عام میں) اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار نہ ہوں۔ آپؐ نے فرمایا:’’میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگا، اس نے نمازیں پڑھی ہوں گی، زکوٰۃ دی ہوگی اور روزے بھی رکھے ہوں گے لیکن کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر بہتان لگایا ہوگا، کسی کا مال ہڑپ کیا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا، کسی کو مارا ہوگا تو اس کی نیکیاں ان مظلوموں کو دے دی جائیں گی۔ اگر اس کے مظالم ختم ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو مظلوموں کی غلطیاں اور ان کے گناہ اس کے سرپر ڈال دیئے جائیں گے اور پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘‘ ۔(ابن حبان، ج ۱۰)
قرآن کریم نے سورۂ مائدہ میں ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دے کر اس کی سنگینی کو واضح کیا ہے۔ دوسرے کی جان کے درپے آزار ہونا اور اسے قتل کرنا تو درکنار اسلام تو اپنی جان اور اپنی ذات تک کے بارے میں شدید پابندی لگاتا ہے کہ خودکشی کے ذریعے جو اپنی جان کو تلف کرے گا وہ بھی دائمی جہنم کا سزاوار قرار پائے گا ۔(جمع الفوائد) قتل تو قتل اسلام نے تو کسی ہتھیار کو کھلے عام اس انداز سے لے کر چلنے پر بھی پابندی عائد کی ہے جس سے خوف و دہشت کی فضا قائم ہو۔ جیسا کہ ارشاد نبویؐ ہے:’’جو اسلحے کی نمائش کرتے ہوئے دندناتا پھرے گا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ (صحیح بخاری)
اسلام نے ان تمام گوشوں پر نظر ڈالی ہے جہاں سے امن وامان میں رخنہ و خلل پڑنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے اور محبت بھری فضاء میں عداوت و فساد کے مسموم جراثیم سرایت کرسکتے ہیں۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے عالمی و آفاقی اجتماع میں سوالاکھ سے زائد شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :’’اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے خون، تمہارے مال اور آبرو کو حرام کردیا ہے اور انہیں ایسی حرمت و عزت بخشی ہے جو حرمت و تقدس تمہارے اس شہر، اس مہینے اور اس دن کو حاصل ہے۔‘‘
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس قدر واضح تعلیمات سے سرشار مذہب اسلام کے پیروکار آج باہم دست وگریباں ہیں ،بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے ۔وہ خون جو اسلام کی سربلندی کے لئے بہنا چاہئے تھا ،وہ اسلام اور پاکستان کی رسوائی کا سبب بن رہا ہے ۔خدا کے لئے وطنیت ،قومیت علاقائیت اور لسانیت کے بتوں کو توڑ کر ملت واحدہ بن جائیے ۔ مزیدخون ناحق مت بہائیے ۔اس خونریزی کو روکنے کے لئے جس کے جو بس میں ہے وہ کر گزرے ۔یہ کریڈٹ لینے یا پوائنٹ اسکورنگ کا نہیں ،اسلام ،پاکستان اور اپنے مسلمان بھائیوں کی جانیں بچانے کا وقت ہے ۔اﷲ تعالیٰ ہمیں صبر وتحمل اور عقل سلیم عطا فرمائے،آمین۔