میری شعوری زندگی میں ان تین ممالک کے درمیان کبھی بھی مثالی برادرانہ اور دوستانہ تعلقات استوارنہ دیکھے گئے۔ البتہ چند ایک مختصر وقفے ایسے ضرور آئے کہ ایران وافغانستان پر ایسے حالات آئے کہ ان کو پاکستان کی مدد وحمایت کی سخت ضرورت تھی۔ شاہ ایران کے عہد میں ایران اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات تھے لیکن اس کے پیچھے امریکہ کے سیٹھوں اور سینٹر کا کردار زیادہ تھا۔ پھر انقلاب ایران کے ایام میں انقلابیوں کو پاکستان کی طرف سے مدد وتعاون اور نئی حکومت کو تسلیم کرانے میں پاکستان کی ضرورت پڑی تو رابطے کئے گئے اور مذہبی، تاریخی وثقافتی حوالے دیئے گئے تو پاکستان نے سب سے پہلے انقلابی حکومت کو تسلیم کیا۔ لیکن بہت جلد یہ ہنی مون ختم ہوا کیونکہ تہران کے ذرائع ابلاغ صبح وشام پڑوسی ممالک میں انقلاب برآمد کرنے کی باتیں شروع ہوئیں۔
وہ دن اور آج کا دن خلیجی ممالک، پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں کشیدگی شروع ہوئی جس میں بہت اتار چڑھائو آئے لیکن خوشگوار وپائیدار تعلقات کی استواری ہنوز دور دور تک نظر نہیں آتی۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تو اس وقت اتنی شدید سرد مہری ہے کہ پچھلے سال حج جیسے فریضہ کی ادائیگی کے لئے بھی ایرانی نہ جاسکے۔
جن دنوں ایران پر اس کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے پابندیاں عائد تھیں اس وقت پاکستان نے پڑوسی ملک کی حیثیت سے اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت کرکے ایران کو سہارا دیا۔ لیکن اچھنبے کی بات یہ ہے کہ ایران کی پاکستان کے ساتھ تجارت دن بہ دن کم اور بھارت کے ساتھ بڑھی ہے۔ آج ایران بھارت کی تجارت اربوں میں ہے اور پاکستان کے ساتھ 90کروڑ سے کم ہوکر بیس پچیس کروڑ رہ گئی ہے۔ بد یہی طور پر تو چاہیے یہ تھا کہ پاکستان ایران کے درمیان مشترکہ سرحد ومذہب کی بناء پر کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں تجارت سب سے زیادہ ہوتی۔ پاکستان توانائی کے بحران سے چیخ وکراہ رہا ہے اور ایران میں اس کی بہتات ہے اور دونوں ملک ہاتھ بڑھاکر ایک دوسرے کو اس شعبے میں خاطر خواہ فائدہ پہنچاسکتے ہیں لیکن پاکستان سعودی عرب سے پیٹرول اور قطر سے ایل این جی درآمد کررہا ہے جس پر ایران سے درآمد کرنے کی نسبت بہت زیادہ اخراجات اٹھتے ہیں۔ لیکن کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ زبانی جمع خرچ دونوں ملک ایک دوسرے پر جان چھڑکنے سے دریغ نہیں کرتے لیکن معمولی معمولی واقعات، بدگمانیاں اور بعض دیگر معاملات، بڑے اختلافات کو جنم دے کر ایک دوسرے کو اتنا حریف بنالیتے ہیں کہ ایران جیسا اسلامی انقلاب کا دعویدار ملک پاکستان سے پھل کی درآمدات پر پابندی لگانے کا اعلان کرتا ہے اور ایک پل میں رکھ رکھائو اور رواداری کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اب کیا یہ تحقیق کا موضوع نہیں ہے کہ کبھی ایسا چڑھائو کہ دونوں ملکوں کے درمیان سینکڑوں میل کی پائپ لائن بچھانے کی باتیں ہوتی ہیں تاکہ گیس سپلائی کرکے ایک دوست کی توانائی کی ضروریات پوری ہوں اور دوسرے کی گیس بک کر اس کے خزانے میں زرمبادلہ کا اضافہ ہو اور کنویں کی مٹی کنویں ہی میں استعمال ہو اور پھر کبھی ایسا اتار کہ پاکستان کی ریاست کے فیصلے پر ایران ایسی تنقید کرتا ہے گویا پاکستان اس کا زرخرید غلام ہے، راحیل شریف کی اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی پر ایران کو احتجاج کا حق تب حاصل ہوتا اگر ایران، پاکستان کو بھی یہ حق دیتا۔ ایران، عراق، شام اور یمن میں کیا کرتا رہا ہے، کیا پاکستان نے کہیں اس پر ایک لفظ کہا ہے؟
دو گہرے دوستوں کو ایک دوسرے کے مفادات واحترام کا خیال رکھنا لازمی امر ہوتا ہے لیکن جب حال یہ ہو کہ ایرانی سرزمین چاہ بہار سے کلبھوشن یادیو پاکستانی سرزمین بلوچستان میں دہشت گردوں کی سہولت کاری کے لئے داخل ہوتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو دوستی اور تعلق داری کی باتوں پر کوئی کیسے یقین کرے۔
دراصل پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک خاص حساسیت پائی جاتی ہے جو دو قومی نظریے کی دین ہے اور ہم پر اللہ کا فضل اور احسان ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے احساس رکھتے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ دنیا کے سارے اسلامی ملک تکلیف ومصیبت میں پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں اور پاکستان ہی سے توقع رکھتے ہیں اور یہ پاکستان کا کمال ہے اور اس پر اللہ کا فضل وکرم ہے کہ دنیا کے سارے اسلامی ملکوں کے ساتھ سوائے ایک آدھ کے پاکستان نے دامے درمے سخنے اور جو ممکن تھا ہمیشہ تعاون کیا ہے لیکن جواباً سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات اور قطر وغیرہ کے علاوہ کسی نے بہت کم پاکستان کا خیال رکھا ہوگا۔
ایران کی طرح یہی حال افغانستان کا ہے۔ افغانستان کے 1970ء سے اب تک کے حالات کے پاکستان پر جو ناخوشگوار اثرات مرتب ہوئے ہیں اور جس صبروعزم کے ساتھ پاکستان نے برداشت کئے ہیں وہ بہت کم کسی ملک نے اپنے پڑوسی کے لئے برداشت کئے ہونگے۔ پینتیس برسوں تک لاکھوں افغانیوں کو ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرکے بھی ہم ان کے دل تو کیا جیتتے، الٹے پاکستان کے دشمن بن گئے اور دھمکیوں پر اتر آئے کہ ہم آٹا، مرغیاں اور دیگر سامان خوردو نوش بھارت سے بذریعہ کارگو اور وسطیٰ ایشیائی ممالک سے منگوائیں گے ۔ ایران سے تجارتی تعلقات بڑھائیں گے۔ اچھی بات ہے ہر ملک کو حق حاصل ہے کہ اپنے مفادات کا تحفظ کرے اور اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے جائز ذرائع استعمال کریں لیکن یہی حق جب پاکستان استعمال کرتا ہے تو پھر پاکستان کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔ طورخم اور چمن بارڈر پر دوستی گیٹ لگوانے پر افغانستان چیں بہ جبین ہوتا ہے اور ساتھ ہی اعتراض واحتجاج کرتا ہے کہ پاکستان کی سرزمین سے افغانستان میں دہشت گرد داخل ہوتے ہیں۔ یہی شکایت پاکستان کو بھی ہے اور اسی شکایت کے ازالے اور دہشت گردی کو محدود کرنے کے لئے جب گیٹ اور پاسپورٹ اور ویزہ کے انتظامات ہوتے ہیں تو ڈیورنڈ لائن کی باتیں چھیڑی جاتی ہیں۔ حالانکہ یہ سرحد بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد ہے۔ پاکستان جب اس سرحد کو بند کرلیتا ہے تو دونوں ملکوں کو کروڑوں ڈالر کا نقصان اور عوام کو بے شمار مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن پھر بھی ان دو پڑوسیوں کے درمیان ستر برسوں میں ایسے تعلقات استوار نہ ہوسکے جس میں اعتماد تعاون اور اخوت وایثار کی فضا پروان چڑھے۔
میں کبھی کبھی جب تصورات کی دنیا میں جاکر سوچتا ہوں کہ اگر یہ تین پڑوسی ملک ایک دوسرے کو بھائی اور دوست سمجھ کر سرحدوں اور ایئر پورٹوں پر ویزہ دینے پر راضی ہوجاتے اور تینوں مل کر ایک دوسرے کی ضروریات اخوت کی بنیاد پر پورا کرنے میں تعاون کرتے تو ان ملکوں کے عوام کتنے خوشحال اور فارغ البال ہوتے۔ امن وسلامتی کی فضا میں تعلیم وتعلم، علوم وثقافت، فنون طریقہ اور سیروسیاحت کے کتنے مواقع سے فوائد سمیٹے جاتے۔ شوقین سیاح ناشتہ پاکستان میں ، دوپہر کا کھانا افغانستان میں اور رات کا کھانا ایران میں کھاتے…ایران کا پیٹرول پاکستان افغانستان کے کام آتا اور سستا ملتا۔افغانستان اور ایران کے خشک میوہ جات پاکستانیوں کی صحت افزائی میں کام آتے اور پاکستان کے ترشی لئے پھل سردیوں میں ایرانیوں اور افغانیوں کو گرم رکھتے۔
لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد…کیا کوئی رجل رشید …ان تینوں ملکوں سے اٹھ کر اور آپس میں ہاتھ ملاکر اس کو ایک مزید مثلث میں باندھ کر رکھنے کے لئے اٹھ سکتے ہیں؟۔
پاکستان، ایران اور افغانستان اتحاد!
Please follow and like us: