مخلو ق سے خالق کی وجہ سے محبت کی جیئے،
سامعین محترم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ہم(ترکوں) کی پاکستانیوں سے محبت کی ایک لازوال داستان ہے، میں یہاں پر اپنے آپ کو یوں سمجھتا ہوں جیسے میں اپنے ملک میں ہوں بالخصوص جس شہر میں یہ مجلس منعقد ہوئی ہے اس سے ترکی بہت محبت رکھتے ہیں۔ اس اجتماع کی مناسبت سے مجھے یہ سعادت ملی کہ میں پاکستان اور اہل پاکستان کی زیارت کروں۔ وزراء اور عہدیداروں سے ملاقات کروں اور باہمی دلچسپی کے امور میں ان کے کردار کی حوصلہ افزائی کرسکوں۔ اللہ اس شہر کو امن کا گہوارہ بنائے۔ آمین
سامعین محترم! ملک پاکستان میں بھی وہی مسائل ہیں جو ایک مشترکہ ملک میں ہوسکتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’لاینھٰکم اللہ عن الذین لم یقاتلو کم فی الدین ولم یخرجوکم من دیار کم أن تبروھم وتقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین‘‘ ترجمہ: اللہ تمہیں غیر مقاتلین (لڑائی نہ کرنے والوں) کے ساتھ احسان اور اچھائی سے منع نہیں کرتا۔ حضرت علیؓ کا قول ہے ’’الناس صنفان اماأخ لک فی الدین أونظیر لک فی الخلق ‘‘ ترجمہ :لوگ دو طرح کے ہیں (1) یا تو تمہارا دینی بھائی ہے۔(2) یا خلقت میں تمہاری طرح ہے اور یہی باہمی زندگی گزارنے کا ایک بہترین راستہ ہے۔ اسی بنیاد پر یہ مجلس ایک انتہائی اہم مجلس ہے۔ اس لیے کہ عالم انسانیت ایک ایسے موڑ سے گزر رہا ہے کہ اس سے پہلے نہیں گزرا۔کیونکہ بدامنی ،جھگڑوں اور دہشت گردی کے واقعات نے عالم اسلام کے بارے میں بہت سے لوگوں کے ذہن خراب کیے ہیں، حالانکہ دینی مراکز امن وآشتی کا درس دینے والے ہیں۔ لیکن مسلمان بالخصوص انتہائی مشکلات میں ہیں، داخلی اور خارجی دونوں قسم کی لڑائیوں کی وجہ سے بہت سارے ایسے لوگ جو مساجد، مدارس اور دینی مراکز پر بھی حملے کرتے ہیں اور امن وسکون برباد کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جہاد کررہے ہیں، ایسے لوگوں کو کسی بھی صورت قبول وتسلیم نہیں کیا جاسکتا اور نہ قابل اعتبار سمجھا جاسکتا ہے۔ اسلام پر سب سے بڑا جھوٹ یہ بولا جاتا ہے کہ اس ظلم کو جہاد کا نام دیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ جہاد ظلم کے ازالے کے لیے ہوتا ہے اور وہ ایک بہترین عمل ہے تو پھر کیسے معصوم بچوں کو قتل کرنا اور اسلامی مملکت کو نقصان پہنچانا جہاد کہلایا جاسکتا ہے اور اس خطرے نے جو کہ پچھلے کچھ عرصے سے اسلامی دنیا سے وجود میں آیا ہے وہ نقصان پہنچایا ہے جو استعماری قوتوں نے بھی نہیں پہنچایا اور اس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اسلام کا ایک خوف بیٹھ گیا ،استعماری قوتوں نے دوسو سال لگاکر بھی ان اہداف کو حاصل نہیں کیا جو ان خطرناک عزائم اور اسلام کا نام لیکر بے گناہوں کو قتل کرنے والوںکے کے ذریعے حاصل کیے گئے۔
انسانیت کیلئے فائدہ مند چیز یہی ہے کہ ہم باہم اشتراکی زندگی گزارنے کیلئے راہ ہموار کریں اور تمام تر اختلافات سے ماوراء ہوکر پرامن زندگی گزاریں ، ہر انسان کے حقوق ہیں، اس کی ایک عزت واحترام ہے۔ اپنا دین اور نظریہ ہے، کسی کیلئے جائز نہیں کہ وہ دوسرے انسان پر ظلم کرے اس لیے کہ ہر انسان قابل احترام وتکریم ہے۔
سامعین محترم! آپ تاریخ پر نظر دوڑائیں گے تو آپ پر یہ حقیقت آشکارا ہوجائے گی کہ مختلف ادیان کے متبعین نے مسلمانوں کے ساتھ مشترکہ زندگی گزاری ہیں اور اس میں مسلمان علماء اور بزرگان دین کا بہت بڑا عمل دخل رہا ہے۔ بزرگان دین جنہوں نے دین کو زندہ رکھا ان کی نظر میں بنیادی چیزیں تھی کہ اللہ کے او امرونوا ہی کا خیال رکھنا اور اللہ کی مخلوق پر شفقت کرنا۔ چنانچہ انہوں نے غیر مسلموں کے ساتھ بھی پرامن زندگی گزاری اور اس کی مختلف مثالیں ہیں۔ جیسے شام، قاہرہ اور استنبول وغیرہ میں ایسے بزرگ بڑی تعداد میں گزرے جن کی موجودگی میں یہ ممالک باوجود غیر مسلموں کی موجودگی کے امن وآشتی کے مراکز رہے۔
سامعین کرام! وہ عیسائی جو شام اور عراق میں رہتے ہیں انہوں نے قریب زمانے میں اپنے ملک چھوڑے اور وہاں سے ترکی منتقل ہوگئے یہاں تک کہ ترکی آنے والے عیسائیوں کی تعداد پچیس لاکھ کے قریب ہے اور ترکی والوں نے ان کی خاطر مدارت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
انسان (انسان ) کا دشمن نہیں بلکہ اس کا دوست اور اہل ہے جیسا کہ اسلامی تعلیمات سے ظاہر ہے تمام لوگ اسلام کی نظر میں برابر ہیں۔
آخر میں ایک وثیقہ اور عہدنامہ سنانا چاہتا ہوں جو مدینہ منورہ کا ہے ۔درحقیقت اس میں دیگر مذاہب کے متبعین کے ساتھ زندگی گزارنے کے قوانین واضح کئے گئے ہیں۔ آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے کی یہ تحریر ہے جس کے بعد مسلمانوں نے بہترین مثالیں مشترکہ زندگی کے قائم کئے۔ وہ تحریر یہ ہے کہ ’’ہماری زندگی میں اور معاشرے میں ہر انسان اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، ہر انسان اللہ کا پیدا کردہ اور اس کی تخلیق ہے‘‘ اسی وجہ سے میں چاہتا ہوں کہ میں زاہد یونس کا قول تمہارے سامنے ذکر کروں جو پندرہویں صدی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ فرماتے ہیں ’’ہم مخلوق سے خالق کی وجہ سے محبت رکھتے ہیں‘‘ آخر میں آپ کا شکریہ ادا کروں گا کہ آپ نے توجہ کے ساتھ میری باتیں سنیں۔
پروفیسر ڈاکٹراکرم کیلس (ترکی)
Please follow and like us: