یہ یونان ہے، یہاں غلاموں کو انسانیت کے ابتدائی حق زندگی سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔ آقائوں کی پیشانی پر پڑنے والی ایک شکن ان کی زندگی کا خاتمہ کرسکتی ہے، انہیں بھوکے شیروں کے سامنے ڈال کر ہڈیوں کے گوشت سے جدا ہونے کا منظر دیکھنا ارکان حکومت کا دلچسپ مشغلہ ہے۔ یہ ہندوستان ہے جہاں انسانوں کو چار ذاتوں میں تقسیم کرکے حقوق انسانیت کو صرف تین ذاتوں کیلئے مخصوص کر دیا گیا ہے، جب کہ اچھوت پر زندگی تنگ کردی گئی ہے، حتیٰ کہ کسی مذہبی کتاب کو ہاتھ لگانے یا عبادت گاہ میں داخل ہونے کے جرم میں اسے واجب القتل قرار دے دیا جاتا ہیٖ۔ یہ ایران ہے جہاں فحاشی وبدکاری جزو دین بنا دی گئی ہے۔ ’’دین مزدکی‘‘ نے عصمت وعفت کی چادر اتارکر عوام کی بہو، بیٹیوں کو امراء کی شہوت پرستی کے ہاتھوں کھلونا بنا دیا ہے۔ یہ ارض فلسطین ہے جو یہودیوں اور عیسائیوں کے خون سے لالہ زار ہو رہی ہے۔ نصرانی حکومت یہود کے ساتھ غلاموں کا سا برتائو کرتی ہے، حتیٰ کہ انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی بھی آزادی حاصل نہیں ہے، جب کہ دوسری جانب یہود نے شہر ’’صور‘‘ کا محاصرہ کرکے ہزاروں عیسائیوں کو تہ تیغ کردیا اور جنگ روم وفارس میں ایرانیوں کے ہاتھوں قید ہونے والے 80 ہزار عیسائی قیدیوں کو خرید کر ان کے خون سے اپنی آتش انتقام کے شعلوں کو سرد کر رہے ہیں۔
مدائن سے قسطنطنیہ تک کی زمین بے گناہوں کے خون سے رنگین ہو رہی ہے، آبادیاں اجڑ رہی ہیں، عصمتیں لٹ رہی ہیں۔ کھیتیاں پامال ہورہی ہیں، نہ کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال اور نہ آبرو، انسانوں کی کھوپڑیوں پر قیصر وکسریٰ کے محلات تعمیر ہو رہے ہیں، جب کہ سرزمین عرب کا حال تو سب سے بدتر ہے۔ جنگ وجدال، قتل وغارت، قمار بازی، شراب نوشی، بدکاری اور ظلم وجبر کو نہ صرف جائز تصور کرلیا گیا ہے بلکہ یہ وہ قابل فخر کارنامے ہیں جنہیں شعر وادب میں فخریہ بیان کرکے داد وصول کی جا رہی ہے۔ غرض وہ اندھیر مچی ہوئی ہے کہ اسے حیوانیت قرار دینا خود حیوانیت کی توہین کے مترادف ہے۔
اسی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن پھوٹی، عرب کے صحرا سے ایک ایسا آفتاب طلوع ہوا جس نے صفا کی چوٹی پر کھڑے ہوکر اعلان کیا:
اے لوگو! تم (جو اخوت ومحبت کے رشتے کو توڑتے ہو) اپنے اس پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک اصل سے پیدا کیا اور اسی سے اس کے جوڑے کو پیدا کیا، پھر ان دونوں کی نسل سے گروہ درگروہ مرد اور عورتیں پیدا کیں (جو سطح ارضی کے مختلف حصوں میں پھیل گئیں) یعنی جب تمہارا خالق ومالک ایک ہے، تمہاری اصل ونسل ایک ہے تو پھر یہ وطنیت، قومیت اور رنگ ونسل کے جھگڑے کیسے اور ایک جیسے انسانوں کے مابین صرف غربت وامارت، حاکمیت ومحکومیت کی بناء پر امتیاز کیوں؟ پھر نسلی وقومی برتری اور زر وجواہر کے خود ساختہ بتوں کو توڑ کر اس محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانوں کو یہ درس دیا کہ:
تم کو خاندانوں اور قبیلوں میں اس لئے تقسیم کیا گیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، ورنہ رب کائنات کے نزدیک سب سے زیادہ معزز تو وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے،
پھر اس نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ اگلا سبق یہ دیا کہ:
نیکی اور بدی کا درجہ برابر نہیں ہوسکتا۔ برائی کا جواب اچھائی کے ساتھ دو۔ اگر تم نے یہ طرز عمل اختیار کیا تو تم دیکھو گے کہ اچانک تمہارا دشمن تمہارا دلی دوست بن جائے گا۔ البتہ انسانیت کے اس بلند مقام پر وہی پہنچ سکتا ہے جو اپنے نفس پر قابو رکھے اور جس کی قسمت میں نیکی وسعادت کا حظ عظیم ہو۔
نیز مزید ترغیب یوں دی:
اور جن لوگوں نے راہ خدا میں ہر تکلیف پر صبر کیا، نمازوں کو ان کے آداب کے ساتھ ادا کرتے رہے اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا اس میں سے کچھ پوشیدہ وعلانیہ ہماری راہ میں خرچ کرتے رہے اور برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے رہے تو یاد رکھو یہی لوگ ہیں جن کیلئے آخرت کا بہتر ٹھکانہ ہے۔
اس آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے عالمی انصاف کی بنیاد رکھتے ہوئے حکم دیا کہ دشمن ہوں یا دوست، اپنے ہوں یا پرائے، کسی سے بھی برتائو کرتے وقت عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے، تاکہ کسی بھی صورت ظلم پروان نہ چڑھ سکے، لہٰذا فرمایا:
کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس سے بے انصافی پر آمادہ نہ کر دے۔ عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دو کہ وہ پرہیز گاری سے زیادہ قریب ہے۔
ظلم کا قلع قمع کرنے کے لئے اجازت دی گئی کہ: جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کر سکتے ہو جتنی اس نے تم پر کی ہے۔
یعنی ظلم کا بدلہ لیا جا سکتا ہے مگر یہ نہیں کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دو اور اگر کسی نے تمہیں ایک تھپڑ مارا ہے تو تم اس کو نشان عبرت بنادو، بلکہ اگر تم نے ایک کے جواب میں دو تھپڑ مار دیئے تو اب تم ظالم بن گئے، لہٰذا اب تمہیں اس ظلم کا بدلہ دینا پڑے گا۔ اس قدر باریکی سے انصاف کا درس دینے کے باوجود اس بات کی ترغیب دی کہ ’’اور درحقیقت جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا تو بلاشبہ یہ بڑی ہمت کا کام ہے اور جس نے معاف کیا اور صلح کی راہ اختیار کی تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے‘‘۔
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف زبانی احکام یا دوسروں کو ہی ترغیب نہیں دی بلکہ سب سے پہلے خود عمل کرکے دکھایا، کفار مکہ نے آپؐ کو گالیاں دیں، دیوانہ ومجنوں کہا،مذاق اڑایا، آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے، نجاست پھینکی، آپ ﷺ کو زخمی کیا، قتل کی سازش کی حتیٰ کہ آپ ﷺ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا اور صرف آپ ﷺ کی ہی نہیں بلکہ آپ ﷺ کا ساتھ دینے والوں کی زندگی بھی اجیرن کردی گئی اور اس ازلی دشمن کی وجہ سے نہ تو ذاتی اختلاف تھے، نہ جائیداد، نہ خاندانی جھگڑے تھے اور نہ اقتدار کی جنگ بلکہ توحید کا پرچار آپ ﷺ کا ناقابل معافی جرم ٹھہرا۔
اس کے باوجود اہل طائف کی درندگی وظلم کے جواب میں آپ ﷺ نے ان کیلئے ہدایت کی دعا فرمائی۔ ایک موقع پر صحابہ کرامؓ کے اصرار کے باوجود آپ ﷺ نے دشمنوں کو بددعا دینا تک گوارا نہ کیا بلکہ فرمایا کہ میں تو رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں، فتح مکہ وہ تاریخی دن تھا جب اسلام غالب آگیا اور بڑے بڑے دشمنان اسلام یہ سوچ کر کانپ رہے تھے کہ آج تو ہماری لاشوں سے مکہ کے گلی کوچے بھرجائیں گے، لیکن رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے اعلان عام فرمادیا کہ: آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہے، جائو تم سب آزاد ہو، جو چاہو کرو۔
پھر حجۃ الوداع کے موقع پر امت کے نام آخری پیغام میں بھی امن وسلامتی کو اپنا منشور قرار دیتے ہوئے اور انتقام کی آگ کو ہمیشہ کیلئے سرد کرتے ہوئے فرمایا: سنو! میں جاہلیت کی تمام رسمیں اپنے پائوں تلے روندتا ہوں اور انتقام خون کی رسم بھی اپنے پائوں تلے کچلتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے بھائی ربیعہ ہی کے خون کے مطالبے کو ختم کرتا ہوں۔
اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی امن وسلامتی پر مبنی تعلیمات آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی دنیا بھر کی امن پسند وصلح جو قوموں کیلئے مشعل راہ ہیں اور قیامت تک رہیں گی، کیونکہ اسلام کی بنیاد ہی امن وسلامتی ہے، اپنے لئے بھی اور دوسروں کیلئے بھی۔