رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمائے گئے۔ آپ کی تشریف آوری تمام جہانوں کے لئے باعث رحمت اور باعث امن و سلامتی قرار پائی۔ آپ کی تشریف آوری کے وقت سے لے کر تاایندم تمام بنی نوع انسان بلکہ ہر ہر انسان آپ کے لائے ہوئے امن و سلامتی کے پیغام سے بہرہ ور ہورہا ہے اور ہر ہر شخص اور ہر معاشرہ آپ کی رحمتوں سے مستفید ہورہا ہے اور تا قیامت مستفید ہوتا رہے گا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے روئے زمین پر ہر طرف فساد پھیلا ہوا تھا، جہالت اور بدامنی عام تھی ،لوگوں کے جان و مال غیر محفوظ تھے، ہر جگہ اور ہر مقام پر نہنگ اور اژدھے لوگوں کی جان و مال ان کی عزت و آبرو نگلنے کے لئے منہ کھولے کھڑے تھے۔ تاریکی ہی تاریکی تھی ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ جہالت عام تھی اور پڑھنے لکھنے کا رواج مفقود تھا۔ ایک جانب طاقتور اور ظالم و جابر بادشاہ تھے جنہیں الوہی اختیار حاصل تھے اور خدا کا پرتو اور اس کے جلال کا مظہر سمجھے جاتے تھے۔ بادشاہ ہر اصول و قانون ہر ضابطے اور جوابدہی کے ہر تصور سے ماورا تھا، لوگ تمام کے تمام بادشاہوں کے غلام تھے، جاگیردار اور زمین دار بادشاہوں کے احکام عوام الناس پر نافذ کرتے اور ان سے بوجھل ٹیکس وصول کرکے شاہی خزانے میں جمع کرایا کرتے تھے، زمین دار تھے ان کی زمین کے ساتھ ان کے مزارع بھی فروخت ہو جاتے تھے۔ عزت و آبرو نام کی کوئی چیز موجود ہی نہ تھی، دوسری جانب پاپائوں، پادریوں اور مذہبی پیشوائوں کی سلطنت تھی، جس میں مذہبی پیشوا کی فرمائی ہوئی بات حکم الٰہی کا درجہ رکھتی تھی۔ جس کسی نے علم و حکمت کی بات کی اور جس کسی نے پیشوائوں کے دینی تصورات کی خلاف ورزی کی وہ ان پیشوائوں کے دربار سے مردود بدعتی اور لعنتی قرار پایا۔
دینی رجحان کے حامل افراد کے پاس رہبانیت اختیار کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ تھا۔ لباس سے عاری ہو کر جنگلوں میں نکل جاتے، اپنے آپ کو زنجیروں میں باندھ لیتے۔ الٹے کنوئیں میں لٹک جاتے، کئی کئی سال جسم کو پانی نہ لگتا اور پہنچے ہوئے زاہد اور عابد کہلاتے۔
ہر طرف بت پرستی اور ہر جانب طاغوت کی بندگی ہورہی تھی۔ دنیا کے کسی خطے میں اللہ کا بھیجا ہوا دین اپنی اصل شکل میں موجود نہیں تھا۔ علم و دانش کے فقدان اور دین حق کی محرومی نے انسانوں کو حیوان بنا دیا تھا۔ اکا دکا اہل دانش ہتھیلی پر چراغ دھرے پھرتے اور انسانم آرزواست (مجھے انسان کی تلاش ہے) کی صدائیں بلند کرتے۔ ازردہ خاطر لوگ جواب دیتے کہ انسان کہاں ملتا ہے؟ وہ کہتا کہ بس جو نہیں ملتا مجھے اسی کی تلاش ہے۔ اخلاق کا نام و نشان تک نہ تھا‘روحانیت للہیت اور خدا ترسی کب کی اس دنیا سے منہ موڑ چکی تھی!
انسان اپنے پیدا کرنے والے خالق سے بچھڑ چکا تھا، حق کی بندگی کب کی روٹھ چکی تھی۔ ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ عرب کا ایک بدو کعبۃ اللہ کی دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا تھا اور کہہ رہا تھا’’ اے اللہ یہ تو میں جانتا ہوں کہ بندگی تیری ہی کرنی چاہئے لیکن تیری بندگی کیسے کی جائے یہ مجھے معلوم نہیں‘‘! اللہ کی بندگی کے انبیاء اور رسولوں کے بتائے ہوئے طور طریقے مٹ چکے تھے۔ ہر شجر و حجر کی بندگی ہوتی تھی سوائے معبود برحق کی عبادت کے، عورتیں روٹی پکاتے ہوئے آٹا بچ جاتا اس کا لوندا سا بنا کر رکھ دیتیں اور پھر اس کی بندگی شروع ہو جاتی۔ عرب کے ایک قبیلے میں سخت قحط پڑا تو یہی معبود ان باطل پھر پیٹ کی آگ بجھانے کے کام آئے ،حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ دین حق کی تلاش میں سرگرداں شام پہنچے اور عیسائی بن گئے۔ عیسائی راہبوں سے معلوم ہوا کہ عرب میں ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے۔ سنتے ہی عرب کی سر زمین کا سفر اختیار کرلیا۔ اس زمانے میں تنہا سفر کرنے والے غلام بنا لئے جاتے تھے غلام بن گئے اور اس سر زمین میں پہنچے جہاں آفتاب رسالت طلوع ہوا چاہتا تھا! بلال حبشی بھی اسی طرح آئے تھے انہوں نے ظلم و ستم برداشت کئے، مار کھائی اور احد احد کی صدا لگاتے رہے! عداس نینوا کے رہنے والے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لئے گئے اس نوجوان نے آپؐ کو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے ہوئے سنا تو حیرت زدہ لہجے میں کہنے لگا یہ جملہ اس سے پہلے تو میں نے کسی عرب سے نہیں سنا!
یہ تھا وہ ماحول جس میں نبی آخر الزماں سید الانبیاء خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپؐ کی تشریف آوری سے ساری زمین اللہ کے نور سے منور ہوگئی۔ زمین کے گوشے گوشے انعکاس نور سے جگمگا اٹھے۔ اقراء کی صدا بلند ہوئی جاہل گنوار، بدو اقوام عالم کے معلم بن گئے، علم و حکمت کے بندد بستان پھر سے سارے کھل گئے۔ ایک ایسی جماعت تیار ہوئی کہ اس سے پہلے نہ کبھی انسانیت نے ایسا گروہ دیکھا اور نہ آئندہ کبھی ایسی جماعت وجود میں آئے گی، جو جہاں بیٹھ گیا ایک دانشکدہ قائم ہوگیا۔ پاکیزہ و بلند کردار ہمت و عزیمت کے پیکر دن کے شاہسوار اور رات کے زاہد ہر جگہ اور ہر مقام پر نظر آنے لگے اور کسی کو ’’انسانم آرزو است ‘‘کی صدا لگانے کی ضرورت نہیں رہی!
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری تمام عالم کے لئے امن و سلامتی کا پیغام لے کر آئی، جو دین رسول کریم لے کر آئے اس کا نام ہی اسلام تجویز ہوا جو سراسر سلامتی کا دین ہے جو سلامتی کا پیغام اور جو سلامتی اور امن کا داعی ہے۔ اس کی دعوت کا مرکزی نقطہ ہی یہ ہے کہ پورے کے پورے سلامتی میں داخل ہو جائو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہان عجم کو دعوتی خطوط تحریر فرمائے۔
آپؐ نے ہرقل کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اسلم تسلم ‘‘اسلام لے آئو اور اسلام قبول کرکے امن و سلامتی کی عالمگیر فضا میں داخل ہو جائو۔ امن و سلامتی کی ایسی فضا قائم ہوگئی کہ ایک عورت صنعاء سے مکہ تک کا سفر تن تنہا کرتی اور اسے کسی کا خوف دامن گیر نہ ہوتا۔
رحمتہ اللعالمین کی رحمتیں تمام عالم پر محیط ہوگئیں، آج دنیا میں جہاں کہیں کوئی علم و دانش ہے وہ اسی نبی ؐ کے طفیل ہے جہاں کوئی تہذیب و تمدن ہے وہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں ہے اور جہاں کوئی ترقی ہے اس کی اساس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ہے۔ اگر اقوام عالم کا مسلمانوں سے ایک ہزار برس سے زائد کا تعلق نہ ہوتا۔ اگر مسلم فاتحین اندلس اور جنوبی فرانس نہ پہنچتے، اگر صلیبی جنگوں میں اہل مغرب کو مسلمانوں کے عدل و انصاف اور ان کے امن و سلامتی کے تصور سے آشنائی حاصل نہ ہوتی اور اگر ترکان عثمانی قسطنطنیہ کو فتح نہ کرتے تو یورپ میں احیائے علوم کی تحریک بھی برپا نہ ہوتی اور آج اہل مغرب ترقی کے اس مقام پر فائز نہ ہوتے جس پر وہ فائز ہیں۔ یہ درست ہے کہ احسان شناسی کے بجائے دشنام طرازی دوں فطرت لوگوں کی پہچان ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا سب سے عمدہ جواب وہی ہے جس کی تعلیم خود قرآن کریم نے دی ہے کہ ’’جب نادان جاہل تم سے مخاطب ہوں تو گریز اور عدم التفات ہی سلامتی کا راستہ ہے‘‘۔