حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ قریش کو اس بات نے فکر مند کردیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غزوۂ فتح مکہ کے موقع پر ایک عورت نے چوری کی۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی سفارش کون کرے گا؟ لوگوں نے کہا کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کے سوا اس کی جرأت کون کرسکتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لاڈلے ہیں۔ وہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ نے اس کی سفارش کی۔ آپؐ کے چہرہ انور کا رنگ متغیر ہوگیا۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تم اللہ تعالیٰ کی حدود میں سفارش کررہے ہو؟ حضرت اسامہؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ میرے لئے استغفار کیجئے۔ جب شام ہوگئی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا۔ آپؐ نے ان کلمات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد کی جو اس کی شان کے لائق ہیں پھر آپؐ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگ صرف اس لئے ہلاک ہوگئے کہ جب ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو وہ اس کو چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور شخص چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے اور قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے‘ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے گی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا‘ پھر جس عورت نے چوری کی تھی‘ آپؐ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا سو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ (صحیح مسلم)
چوری مذہبی‘ قانونی اور اخلاقی طور پر ہر مذہب اور مہذب معاشرے میں ناقابل معافی جرم تصور کی جاتی ہے کیونکہ ایک شخص زندگی بھر محنت کرکے جو کچھ بھی جمع کرتا ہے‘ چوری تھوڑی سی دیر میں اسے جمع پونجی سے محروم کردیتا ہے اور بعض اوقات تو چور پکڑے جانے کے خوف سے مالک کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا لہٰذا اگر چوروں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے تو نہ تو معاشرے کے کسی فرد کا مال محفوظ رہے گا اور نہ جان۔
اسلام نہ تو کسی کو معاشرے کو امن وسکون برباد کرنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی لوگوں کی جان یا مال کو نقصان پہنچانے کی۔ سینکڑوں جرائم میں سے صرف سات جرائم کو اسلام نے حدود میں شامل کیا ہے یعنی وہ جرائم جن کی سزا خالق کائنات کی جانب سے مقرر کی گئی ہے جس میں نہ تو کمی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی زیادتی‘ قابل غور بات یہ ہے کہ ان سات جرائم میں سے چھ کا تعلق حقوق العباد غصب کرنے سے ہے یعنی قتل‘ چوری‘ ڈاکہ‘ زنا‘ قذف (تہمت لگانا) اور شراب نوشی‘ یہ وہ جرائم ہیں جن کی وجہ سے دوسرے انسانوں کی جان‘ مال اور عزت دائو پر لگ جاتی ہے اورمعاشرے میں فتنہ وفساد پھیل جاتا ہے۔
اسلام میں چور کی سزا یہ ہے کہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ یہ ایسی عبرتناک سزا ہے کہ اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو کہ چوری کا جرم ثابت ہونے پر اسے یہ سزا ضرور ملے گی تو وہ فاقہ کشی برداشت کرلے گا مگر کسی کے مال کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھے گا جبکہ اس کے برعکس اگر چور کو یہ معلوم ہو کہ اول تو میں پکڑے جانے کی صورت میں رشوت دے کر چھوٹ جائوں گا‘ اگر جیل بھی جانا پڑا تو چند ماہ بعد رہا ہوجائوں گا یا پھر جیل سے فرار ہونے کا کوئی راستہ نکال لوں گا تو اس کے دل سے چوری کی سزا کا خوف نکل جائے گا اور وہ رفتہ رفتہ عادی چور بن جائے گا۔
یہ اسلامی احکام وشرعی سزائوں کے عدم نفاذ کا ہی نتیجہ ہے کہ حال ہی میں آنے والے سیلاب کے متاثرین جب اپنا سازوسامان اور گھر بار چھوڑ کر اپنی جانیں بچانے کیلئے محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے تو بعض بدبخت اور شقی القلب لوگوں نے ان کے گھروں کا صفایا کرڈالا حتیٰ کہ جو علاقے سیلاب کی زد میں آنے سے بچ گئے اور خطرہ ٹل جانے کے بعد وہاں کے مکین اپنے گھروں کو لوٹ آئے تب بھی چوروں کا یہ ٹولہ افواہیں پھیلاتا رہا‘ یہاں تک کہ باقاعدہ گلی محلوں میں اعلانات کئے گئے کہ سیلاب کا ایک اور ریلا آنے والا ہے‘ آپ لوگ فوری طور پر گھر خالی کرکے محفوظ مقامات پر منتقل ہوجائیں۔ اس کا مقصد صرف یہی تھا کہ جو مکانات بچ گئے ہیں ان کا بھی صفایا کردیا جائے۔ اگر ان مجرموں کو یہ یقین ہوتا کہ پکڑے جانے کی صورت میں وہ اپنے قیمتی ہاتھ سے محروم ہوجائیں گے اور ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کہ وہ مصیبت کے مارے سیلاب زدگان کا مال واسباب چوری کرکے انہیں مزید پریشانی میں مبتلا کرنے کی جرأت کرتے۔
خالق کائنات کی نظر میں ہر انسان محترم اور اس کا ہر ہر عضو بے انتہاء قیمتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ایک شخص کسی دوسرے شخص کو قتل کردیتا ہے تو قاتل سے قصاص لیا جائے گا یا خون بہا حتیٰ کہ اگر کوئی شخص کسی کا ہاتھ کاٹ دے تو اس کی دیت پانچ ہزار درہم ہے لیکن یہی ہاتھ جب چوری کرکے حدود الٰہیہ کو توڑے اور لوگوں کو مالی نقصان پہنچائے تو اس کی حیثیت دو کوڑی کی بھی نہیں رہتی اور اسے اسی طرح کاٹ کر پھینک دیا جاتا جس طرح کسی شخص کا کینسر زدہ ہاتھ کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے اور لوگ سرجن کو ظالم وجابر کہنے کے بجائے اس کے شکر گزار ہوتے ہیں بلکہ اسے فیس بھی ادا کرتے ہیں۔
آج چوری چکاری ہمارے معاسرے میں کینسر کی طرح پھیل چکی ہے نیچے سے لے کر اوپر تک ہر شخص دوسروں کو لوٹنے میں مصروف ہے۔ ہم اخلاقی پستی کی اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ جہاں چوری جیے قبیح فعل کو نہ تو معیوب سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی چور اپنے فعل پر شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ ہماری دکانوں میں کئی کئی تالے لگے ہوتے ہیں‘ گاڑیوں کو چوری سے بچانے کیلئے نت نئے آلات لگائے جاتے ہیں‘ گھروں کی حفاظت کے لئے طرح طرح کے اقدامات کئے جاتے ہیں کیونکہ ہم ایک چور معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ یہاں ہر شخص دوسرے کے مال پر ہاتھ صاف کررہا ہے۔ دکاندار ناپ تول میں کمی کرکے گاہک کا مال چوری کررہا ہے‘ صنعت کار اپنی مصنوعات کا وزن ہلکا کرکے چوری کا مرتکب ہورہا ہے‘ گاہک آنکھ بچاکر دکان سے کوئی نہ کوئی چیز چوری کرلیتا ہے‘ ملازمین دفتری مال چوری کرکے گھر لے جاتے ہیں‘ کھڑی ہوئی گاڑیوں وموٹر سائیکلوں کے پارٹس اور پیٹرول چوری کرلیا جاتا ہے حتیٰ کہ لوگ ٹرینوں میں سے بلب تک اتار کر لے جاتے ہیں۔
کس قدر شرم کا مقام ہے کہ امین وصادق کہلانے والے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے امتی آج دنیا بھر میں چور وخائن کی حیثیت سے شناخت کئے جاتے ہیں کوئی قوم ہم پر اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ ہم خود بھی ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ایسی بے اعتباری تو کبھی نہ تھی‘ ایسی ذلت کا سامنا تو کبھی نہیں کرنا پڑا ‘ اب تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی راہگیر یا ٹیکسی ڈرائیور کسی کی امانت ہڑپ کرنے کے بجائے اسے مالک تک پہنچادیتا ہے تو میڈیا کے لئے یہ ایک ایسی انہونی خبر ہوتی ہے جسے ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ اکثر عوام کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ ’’کتنا بے وقوف ہے‘ اتنی بڑی رقم ہاتھ لگی تھی‘ رکھ لیتا اور زندگی بھر عیش کرتا‘‘ اللہ ہی ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
چوری کلچر کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟
Please follow and like us: