ڈاکٹر حافظ محمد ثانی

یہ ُمشت ِ خاک تیری جستجو میں زندہ ہے
محبوب رب العالمین، سید المرسلین، خاتم النبیین، فخر موجودات، سرور کائنات، نیر تاباں، مہر درخشاں، حاملِ قرآن، نور مبین، رحمۃ للعالمین، اِمام الاولین و الآخرین، صاحب قاب و قوسین، بشیر و نذیر، سراج منیر، مولائے کل، ختم الرسل، محسن انسانیت، رہبر آدمیت، یتیم عبداللہ، جگر گوشۂ آمنہ، سید عرب و عجم، ہادیٔ عالم، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور قدسی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت اور دنیا میں تشریف آوری ایک ایسا تاریخ ساز لمحہ اور عظیم انقلاب ہے جس نے کائنات کی ایک نئی جہت، نیا موڑ اور فلاح و کامرانی کا ایک نیا دستور عطا کیا۔ انسانیت کو جینے کا حوصلہ اور زندہ رہنے کا سلیقہ دیا۔ اس نور مبین کی آمد سے عالم شش جہات کا ذرہ، ذرہ حیات انسانی کا گوشہ گوشہ جگمگانے لگا۔ ظلم، جہالت، ناانصافی، کفر وشرک اور بت پرستی میں مبتلا انسانیت مثالی ضابطہ حیات، احترام انسانیت کے شعور سے باخبر، عدل کی بالادستی کے تصور سے آگاہ اور ایمان کے نور سے منور ہوئی۔ عالم انسانیت کی خزاں رسیدہ زندگی میں پر کیف بہار آئی۔ ایمان کی دولت نصیب ہونے سے بندگان خدا کو وہ منزل ملی جس سے توحید کا نور عام ہوا اور کفر و شرک کی تاریکی چھٹ گئی۔ 
معروف سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی کے الفاظ میں ’’آج کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس کے انتظار میں پیر کہن سال دہر نے کروڑوں برس صرف کردیئے‘‘۔ سیارگان فلک اسی دن کے شوق میں ازل سے چشم براہ تھے۔ چراغ کہن مدت ہائے دراز سے اسی صبح جان نواز کے لئے لیل و نہار کی کروٹیں بدل رہا تھا، کارکنان قضا و قدر کی بزم آرائیاں، عناصر کی جدت طرازیاں، ماہ و خورشید کی فروغ انگیزیاں، ابروباد کی تردستیاں، عالم قدس کے انفاس پاک، توحید ابراہیم، جمال یوسف، موسیٰ کی جاں نوازی، مسیح کی معجز طرازی، سب اسی لئے تھے کہ یہ متاع ہائے گراںشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں کام آئیں گے۔ 
حفیظ جالندھری اس حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا خوب کہتے ہیں۔ 
وہ دن آیا کہ پورے ہوگئے تورات کے وعدے 
خدا نے آج ایفاکردیئے ہر بات کے وعدے
ربیع الاول امیدوں کی دنیا ساتھ لے آیا
دعائوں کی قیمت کو ہاتھوں ہاتھ لے آیا
جہاں میں جشن صبح عید کا سامان ہوتا تھا
ادھر شیطان اپنی ناکامی پہ روتا تھا
سر فاران پہ لہرانے لگا جب نور کا جھنڈا
ہوا اک آہ بھر کر فارس کا آتش کدہ ٹھنڈا
ندا آئی، دریچے کھول دو ایوان قدرت کے 
نظارے خود کرے گی آج قدرت شانِ قدرت کے
ضعیفوں، بے کسوں، آفت نصیبوں کو مبارک ہو
یتیموں کو، غلاموں کو، غریبوں کو مبارک ہو
مبارک ہو کہ ختم المرسلینؐ تشریف لے آئے
سلام اے آمنہ کے لالؐ اے محبوب سبحانی ؐ
سلام اے فخر موجودات فخر نوع انسانی ؐ 
سلام اے ظل رحمانی سلام اے نور یزدانی
ترا نقشِ قدم ہے زندگی لوحِ پیشانی
فخرِ موجودات، باعثِ تخلیق کائنات، شافعِ محشر، ساقی کوثر، صاحب لوح و قلم، محمدِ مصطفی، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور قدسی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا میں تشریف آوری پوری کائنات پر پروردگار عالم کا سب سے عظیم احسان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو اللہ تعالیٰ نے جو بلند مقام جو عظمت و رفعت اور محبوبیت عطا فرمائی جس میں کوئی آپ کا شریک و سہیم نہیں۔ 
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کیا خوب کہتے ہیں:
ہو نہ ہو یہ پھول، تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو 
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو 
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے 
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے 
دشت میں، دامنِ کہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراکش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے 
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
علامہ قاضی سلیمان منصور پوری خصائص مصطفی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔’’ بحر الکاہل کے مغربی کنارے سے دریائے ہوانگ ہو کے مشرقی کنارے تک رہنے والوں میں سے کون ہے، جس نے صبح کے روح افزا جھونکوں کے ساتھ اذان کی آواز نہ سنی ہو جس نے رات کی خاموشی میں ’’اشہدُانّ محمد الرسول اللہ‘‘ کی سُریلی آواز کو جاں بخش نہ پایا ہو، یہی وہ الفاظ ہیں جو جاگنے والوں اور سونے والوں کو ان کی ہستی کے بہترین آغاز و انجام کے اعلان سے سامعہ نواز ہیں۔ کیا رفعتِ ذکر کی کوئی مثال اس سے بالاتر پائی جاتی ہے؟ آج کسی بادشاہ کو اپنی مملکت میں، کسی ہادی کو اپنے حلقۂ اثر میں یہ بات کیوں حاصل نہیں کہ اس کے مبارک نام کا اعلان ہر روز و شب اس طرح کیا جاتا ہو کہ خواہ کوئی سننا پسند کرے یا نہ کرے لیکن یہ اعلان ہے کہ وہ ہائے گوش چیرتا ہوا دل کی گہرائی تک ضرور پہنچ جاتا ہے۔ 
موصوف مزید لکھتے ہیں ’’ وقت واحد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم موسیٰ علیہ اسلام کی طرح صاحب حکومت تھے اور ہارون علیہ السلام کی طرح صاحب امامت بھی، ذات مبارک میں نوح علیہ السلام کی سی گرمی، ابراہیم علیہ السلام جیسی نرمی، یوسف علیہ السلام کی سی درگزر، دائود علیہ السلام کی سی فتوحات، حضرت ایوب اور یعقوب علیہ السلام کا سا صبر، سلیمان علیہ السلام کی سی سطوت، عیسیٰ علیہ السلام کی سی خاکساری، یحییٰ علیہ السلام کا سا زہد، اسمعیٰل کی سی سبک روحی کامل ظہور بخش تھی۔ 
اے کہ بر تختِ سیادت زازل جاداری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
معروف محقق، ادیب اور سیرت نگار ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی کے الفاظ میں ’’آپ کی رسالت نے مشرق و مغرب کو مستقبل کے سفر کے لئے ایک دوسرے سے بہت قریب کردیا ہے، شاید ابھی انسانیت کو دوچار سخت جھٹکوں کی ضرورت ہے ایسے جھٹکے جو فراعین عہد حاضر کو اپنی فرعونیت کے دریا میں غرق کردیں اور یوں انسان محمدِ عربیؐ کے ساحل تک پہنچ جائے۔‘‘ 
یاں مشرق و مغرب میں تفاوت نہیں کشفی
دامانِ رسالتؐ کی ہوا سب کے لئے ہے
اور آج
دیارِ مشرق سے لے کر دیارِ مغرب تک 
یہ مُشت خاک تری جستجو میں زندہ ہے  

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے