دینی مدارس کا پیغام
چیئرمین شعبہ علوم اسلامیہ ‘پنجاب یونیورسٹی
آج اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں کل پاکستان دینی مدارس کے طلباء کے تقریری مقابلے کا فائنل ہوا۔ یہ مقابلہ جات ڈویژنل اور پھر صوبائی سطح پر گزشتہ کئی مہینوں سے جاری تھے۔ ان مقابلوں میں شریک ہر طالب علم اس خواہش اور جذبے کے ساتھ شریک ہوا کہ میں فائنل کیلئے منتخب ہوں گا اور فائنل میں اول انعام (10لاکھ )روپے کی خطیر رقم حاصل کروں گا۔ مجھے ان مقابلوں میں بیشتر میں بحیثیت منصب شرکت کا موقع ملا اور میں نے طلبہ کے اندر ایک نیا جوش وولولہ اور ایک تحریک دیکھی ۔
آج ایسے دور میں جب میڈیا کی اثر انگیزی چاروں اُوٹ اپنے عروج کمال پر نظر آتی ہے لیکن اس کے باوجود منبر ومحراب کا میڈیا آج بھی اپنی طاقت کا لوہا منواتا ہے۔ اس میڈیا کو صحیح طور پر استعمال کرنے اور اس کی اثر انگیزی میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کیلئے دینی مدارس کے طلباء کے درمیان یہ مقابلے کروائے گئے۔
ان مقابلوں کے گرینڈ فنالے میں پاکستان کے چاروں صوبوں سے تین تین خطباء نے شرکت کی اور وقت کی ضرورت کے اعتبار سے بہت اہم اور قابل قدر موضوعات پر طلباء نے بہت خوبصورت اور بہت جامع گفتگو کی۔
فائنل مقابلوں کے بینچ منصفین کے سربراہ ڈاکٹر ظفر اقبال نے اپنے تاثرات میں بجا طور پر یہ بات کہی کہ ان مقررین میں سے ہر مقرر اس بات کا مستحق تھا کہ اسے اول انعام دیا جائے لیکن ظاہر ہے کہ اول انعام کسی ایک ہی کو دیا جانا تھا اور وہ اس کے مستحق کو دیا گیا۔ فائنل مقابلے میں جن موضوعات پر طلباء نے اظہار خیال کیا وہ موضوعات اگر پورے پاکستان میں محراب ومنبر کی آواز بن جائیں تو ہمارے ملک میں عدم برداشت کا ماحول رواداری ‘ قتل وغارت گری کا ماحول امن واخوت اور ایک دوسرے کے مذہب پر حملوں کا ماحول‘ مشاورت اور مکالمہ کی فضاء میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار کی مجال نہیں کہ اسلام رواداری اور برداشت ‘امن واخوت اور انسانی جان کی حرمت کے حوالے سے جس اہمیت کے ساتھ تعلیم دیتا ہے اس کی نظیر اور مثال پیش کرنا کسی اور نظام زندگی کیلئے ممکن نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دینی مدارس کے ان طبقات کو کہ جن کی زبان وبیان کے اثرات عامۃ الناس کے دلوں پر بہت گہرے ہوتے ہیں ان کو ان موضوعات پر گفتگو کیلئے تیار کریں جس سے اخوت ورواداری اور امن وسلامتی کی فضا قائم ہوسکتی ہے۔
اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار کی مجال نہیں ہوسکتی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مبین کی آیات کریمہ میں اور نبی کریمﷺ نے اپنے فرامین مبارکہ میں انسانی جان کا جو تقدس اور حرمت بیان کی ہے‘ آج ہمارے معاشرے میں اگر اس کا احساس پیدا ہوجائے تو ہم بدامنی اور فساد‘ دھماکوں‘ خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ جیسے المناک اور اندوہناک حادثات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
آج نہ معلوم ہمارا رخ کس جانب ہے‘ہم کس کے اشاروں پر امن وسلامتی کو پامال کررہے ہیں ‘ہم کس کی ایماء پر قتل وغارت گری کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں‘ ہم کس کے اشارے پر دھماکوں اور خودکش حملوں میں مصروف ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺنے تو کہیں بھی اور کبھی بھی اس طرح کی سرگرمیوں کا حکم نہیں دیا۔ یہ پیغام تھا جو دینی مدارس کے طلباء کے فائنل مقابلے میں ہونے والی گفتگوئوں نے ہمیں دیا اور ہمیں باور کرایا کہ دینی مدارس اسی طرح کی تعلیم وتربیت کے فلاحی ادارے ہیں۔
ان مدارس میں من احیاہا فکانما احیا الناس جمیعاً کا درس دیا جاتا ہے نہ کہ قتل وغارت گری کی تربیت۔ ان مدارس میں مملکت خداداد پاکستان سے والہانہ محبت اور اس میں امن وامان کا قیام اور اس کے فروغ کی تربیت دی جاتی ہے نہ کہ فساد جھگڑے اور بدامنی کی۔ ان مدارس میں مذہبی اور مسلکی رواداری کی تربیت دی جاتی ہے اور یہ اصول سکھایا جاتا ہے کہ علمی اختلاف کو علمی حدوں اور علمی بنیاددوں تک رہنے دیا جائے۔ اپنی بات کو علمی دلائل سے ثابت کردیا جائے لیکن دوسرے کے نظریئے اور اس کی فکر کو بھی رواداری اور برداشت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی مدارس کے اس پیغام کو سمجھنے اور اپنے ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کرنے کی ہمت و توفیق مرحمت فرمائے اور دینی مدارس سے متعلق لوگوں میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہے ان غلطیوں کو غلط ثابت کرنے کی ہمت اور قوت عطا فرمائے۔