گزشتہ شمارے میں بھی عرض کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں اورزوردے کر یہ بات کہی تھی کہ اس صورت حال میں پاکستان کو انتہائی احتیاط سے قدم اٹھانا ہوں گے، یہ بھی عرض کیا تھا کہ بھارت جنگ نہیں لڑے گا۔ مگر کبھی بھی کہیں بھی کسی بھی صورت اپنی شر انگیز کارروائی سے بھی باز نہیں آئے گا جس کا ایک ڈرامہ وہ ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کی شکل میں سامنے لایا۔ اگرچہ اس نے پاکستان کے 2 فوجی شہید کئے مگر جوابی وار میں اپنے بیسوں باوردی جوانوں سے ہاتھ دھوبیٹھا اور پاکستان کی بروقت سفارتکاری اور پاک فوج کے موثر اقدامات کی بدولت آج دنیا بھر میں منہ کالا کئے پھر رہا ہے۔ اندرون بھارت بھی مودی سرکارکو کئی محاذوں پر سبکی کا سامنا ہے۔اپوزیشن رہنما الگ لعن طعن کررہے ہیں اور عوام بھی تھو تھو کررہے ہیں ایسے میں صرف ایک انتہا پسند میڈیا ہی ہے جو چائے کے کپ میں طوفان برپا کیے ہوئے ہے۔ سرجیکل اسٹرائیک کے ثبوت تو نہیں ملے تاہم اب انڈین پولیس بیچارے بھولے بھٹکے ایک کبوتر کو سامنے لے آئی ہے جس پر بھارتی میڈیا میں کافی دلچسپ تبصرے جاری ہیں، ادھر مقبوضہ کشمیر میں تشدد اور بربریت کی تازہ لہر کو قریباً 150دن ہونے کو آئے ہیں مگر بھارتی مظالم ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے، آزادی کے متوالے بھی اپنے جذبات کا بھر پور اظہار کرتے ہوئے باوجود کرفیو اور دیگر پابندیوں کے ہر دم سڑکوں پر آزادی کے نعرے لگانے سے نہیں چوکتے،اب تو ان حریت پسندوں نے پاکستان کے سبزہلالی پرچم کے ساتھ ساتھ چین کا پرچم بھی لہرا دیا ہے اور قابض فوج وہندوانتہاپسندوں کے دلوں پر خوب مونگ دل رہے ہیں۔
ان کے اس حوصلے اور ہمت کی داد دینی چاہیے اور یقین کامل ہونا چاہیے کہ مقبوضہ وادی کے باسیوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوکر رہے گا۔بلاشبہ پاکستان نے انتہائی مؤثر سفارتکاری کا آغاز کررکھا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اپنے اس جذبے کو کسی طور سرد نہ ہونے دے اور بھارت کے خلاف تمام ثبوت بغیر کسی لیت ولعل کے عالمی برادری کے سامنے رکھے جائیں تاکہ وہ دنیا جو آج تک حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کا ہی نام سنتی آئی ہے اس کو بھارت کا گھنائونا چہرہ بھی دیکھنے کو ملے اور ساتھ ہی اپنے وزراء اور مشران کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے کہ کوئی ایسی بات یا حرکت سرزد نہ ہو جسے سفارتی کوششوں کو زک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
عالمی برادری پر اب یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستانی ثبوت کا باریک بینی سے جائزہ لے کر مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو حق آزادی دلائے اور بھارت کو خطے میں انتشار پھیلانے سے روکے۔ خود امریکی محکمہ خارجہ اس بات کا اعتراف کرچکا ہے کہ ممبئی حملوں میں بھارت پاکستان کے ملوث ہونے کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دے سکا تو اس کے بعد پاکستان مخالف بھارتی پروپیگنڈے پر کان دھرنے سے پہلے حالات کا جائزہ لینا ضروری ہوجاتاہے۔ اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹری جنرل اس عزم کے ساتھ مسند اقتدار سنبھال رہے ہیں کہ وہ کسی ایک یا دو ملکوں کی خدمت کی بجائے عوام کے مسائل کے حل پر توجہ دیں گے، انتہائی خوش آئند بات ہے۔مسلمہ امہ ان سے یہی امید رکھتی ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین، کشمیر، افغانستان اور دیگر ممالک میں جاری شورش کو منصفانہ طریقے سے ختم کریں گے۔
اب ملاحظہ فرمائیے کبوتروں پربھارتی چالبازی کے حوالے سے خود ایک بھاری مصنف شوون چوہدری کے قلم سے ایک طنزیہ تحریر جو اپنی فورسز کی صلاحیتوں کا کچھ اس انداز میں اعتراف کرتے ہیں۔
میں کہوں گا کہ کبوتر کے معاملے میں ساری غلطی موبائل سروس فراہم کرنے والے کی ہے۔ وہ زیادہ خدمات فراہم نہیں کر رہے ہیں۔ دہلی میں ہمارے گھر تو صورت حال یہ ہے کہ ہم صرف اسی وقت بات کر سکتے ہیں جب ہم کسی خاص کمرے کی کھڑکی سے ہاتھ باہر نکال کر فون پکڑے کھڑے رہیں۔ایک ہم ہی نہیں تنہا، اتوار کی صبح کئی پڑوسیوں کو گلیوں میں فون کرنے کی کوشش کرتے دیکھنا عام بات ہے۔ بہت اچھا لگتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور مسکراتے ہیں۔ ایک ایسے زمانے میں جو روز بروز بے رحم ہوتا جا رہا ہے، ہم ایک دوسرے کے قریب لائے جا رہے ہیں۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ آخر کیوں چند پاکستانی محبانِ وطن نے انڈیا کے وزیر اعظم مودی کے نام پیغام کبوتر کے گلے میں ڈال کر سرحد پار روانہ کر دیا۔ اس کی وجہ ضرور یہ رہی ہوگی کہ ان کا فون نہیں کام کر رہا۔
ایسا لگتا ہے کہ وہ چیزوں پر غور نہیں کرتے۔ فی الوقت انڈیا اور پاکستان کے درمیان شدید کشیدگی ہے اور اس طرح کے بہت سے پیغامات کی ترسیل ہو رہی ہے۔ جذبہ انتقام بیدار کیا جا رہا ہے۔ منہ توڑ جواب دیا جا رہا ہے۔ سفارت کار اپنے الفاظ کے نشتر کو آب دے رہے ہیں۔ اور وقتاً فوقتاً جوہری اسلحے کا بھی ذکر آ جاتا ہے۔یہ آخری چیز قدرے پریشان کن ہے کیونکہ دہلی اور لاہور اتنے قریب ہیں کہ اگر ان میں سے کسی پر آپ جوہری اسلحہ استعمال کرتے ہیں دوسری جگہ لاکھوں لوگ مر جائیں گے۔ یہ ایسا ہی کہ آپ ساتھ کھڑے شخص پر قے کرنے کا ارادہ ظاہر کریں۔
لیکن پیغام رسانی کے بھی اورکئی بہتر وسیلے تھے پھر محبت کے پروں جنگ کی چنگاری بھڑکانے کی کیا وجہ تھی۔
سب سے اچھا طریقہ ہمارے کسی انگریزی چینل پر آنا تھا جہاں تقریباً دو ہفتے قبل جنگ چھیڑ دی گئی ہے۔ایک میزبان تو جنگی پوشاک میں بھی دیکھا گیا ہے۔ دوسرے کو ہر ہفتے کئی دورے پڑتے ہیں کیونکہ اس سے مکرو فریب برداشت نہیں ہوتا۔ اس کا غصہ تو یادگار ہے۔ اس کا سوٹ پھول جاتا ہے۔ اس کے بال اپنے آپ لہرانے لگتے ہیں۔ آنکھوں میں انگارے دہکنے لگتے ہیں۔اور قوم سانس روک کر دیکھ رہی ہے کیونکہ یہ دو ہی طرح سے ختم ہو سکتا ہے۔ یا تو وہ لائیو ٹی وی پر پھٹنے والا تاریخ کا پہلا شخص ہوگا یا پھر اگر اس سے مزید برداشت نہیں ہوتا تو وہ اپنی میز پر کود کر رائفل اٹھائے گا اور اپنے کار ڈرائیور کو کہے گاکہ سیدھے اسلام آباد لے چلو۔
پاکستان کے کبوتربازوں نے یہ محسوس کر لیا ہو گا کہ یہ ان کے نفرت انگیز پیغامات بھیجنے کا منطقی وسیلہ ہے۔ پاکستان کو ان کی خدمات کی ضرورت ہے اور اس محاذ پر ان کی شکست ہو رہی ہے۔اس طرح کے ہر ایک شو پر بس برائے نام کسی پاکستانی کو رکھ لیا جاتا ہے جن میں زیادہ تر ریٹائرڈ فوجی افسران ہوتے ہیں۔یہ بات قابل غور ہے کہ وہ ایک نہیں بلکہ دو کبوتر تھے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ہم پر پے در پے حملہ کر رہے ہیں اور وہ دور تک اندر چلے آئے۔دونوں حملے پنجاب کے دارالحکومت امرتسر سے بہت قریب تھے دہشت گردوں نے واضح طور پر طویل مدتی راہ اپنائی ہے۔ان کا طریقہ کار ترقی کر رہا ہے۔ پہلے مغلظات بھرے پیغام غباروں سے بھیجے گئے۔ پھر ایک کبوتر کو پکڑا گیا جس کے پروں پر اردو زبان میں پیغام لکھے تھے۔جب ان پیغامات کا ترجمہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس پر تو ہفتے کے دنوں کے نام لکھے ہیں۔ اس طرح اس سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا مشکل تھا سوائے اس کے کہ جہادیوں کے پاس کاغذ کی کمی ہو گئی ہے۔ دوسرے حملے کے وقت تک دہشت گردوں کو کاغذ ہاتھ لگ گئے تھے جس کا انہوں نے پیغام لکھنے کے لیے استعمال کیا۔اس درانداز کبوتر کو پنجاب پولیس نے روکا اور پولیس ڈائری میں اس کا اندراج ’’مشتبہ جاسوس‘‘ کے طور پر کیا گیا اور اسے فی الحال ایک ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں پولیس کی سخت نگرانی میں رکھا گیا ہے۔پٹھان کوٹ کے پولیس افسر راکیش کمار نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ’’پولیس اس معاملے کی سنجیدگی سے جانچ کر رہی ہے۔ ہم نے یہاں چند جاسوس پکڑ رکھے ہیں۔ یہ حساس علاقہ ہے کیونکہ یہ جموں سے قریب ہے اور جہاں دراندازی بہت عام ہے۔‘‘
قسمت کی خوبی دیکھئے کہ انڈیا میں پولیس کو جنگلی جانوروں کا بھی بہت تجربہ ہے۔کیونکہ اترپردیش میں ایک معروف سیاست داں کی بھینس جب اغوا ہو گئی تو 100 سے زیادہ پولیس اہلکاروں اور دو اعلیٰ افسران کو تفتیش پر تعینات کیا گیا۔حالانکہ ان کی شناخت کے بارے میں بعض سوالات اٹھے تھے تاہم انہوں نے ایک ہفتے میں بھینس بازیاب کروا لی۔ اس امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھینس بدل گئی ہو گی لیکن کیس کو بند کر دیا گیا۔اس طرح ہم امید کر سکتے ہیں کہ وہ کامیابی کے ساتھ’’جہادی کبوتروں‘‘ کے خطرے سے نمٹ لیں گے۔ فی الحال انہوں نے کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ہے۔
اطلاعات کے مطابق وہ مختلف قسم کے سوالات پر غور کر رہے ہیں جیسے:۔
کبوتر مسلمان ہے یا پھر ہندو؟
کیا اس میں کسی طور گائے کے گوشت کا تو معاملہ شامل نہیں؟
اگر کبوتر کو ضمانت پر رہائی مل جاتی ہے تو کیا وہ گواہوں کو متاثر کرنے کی کوشش تو نہیں کرے گا؟
کیا اسے انڈیا کے کبوتر سے کسی قسم کی مدد ملی ہے؟
کیا ہمیں فضائیہ کا استعمال کرنا چاہیے؟
یہ جتنا کھانا کھا رہا ہے اس کا بل کون ادا کرے گا؟
ہم اپنی سیکورٹی فورسز کی عزت کرتے رہیں گے نہیں تو وہ ہمیں گولی مار سکتے ہیں۔ لیکن کبوتر کے بارے میں بھی تو ذرا سوچیں۔ یہ معصوم کبوتر جو کبھی ’’امن کے علمبردار‘‘ ہوتے تھے اب جہادی ان کی بھی برین واشنگ کر رہے ہیں۔کل جب ہم پڑوس کے پارک میں ٹہلنے کے لئے نکلیں گے تو ہوا خوری کے ساتھ فون کرنے کی بھی کوشش کررہے ہوں گے، ایسے میں ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ کون سے کبوتر پر بھروسہ کرنا ہے؟
ہم اچھے اور پاکستان کی حمایت کرنے والے کبوتروں میں تمیز کیسے کریں گے؟ سب تو ایک جیسے ہی نظر آتے ہیں۔ اور لندن اور نیویارک میں رہنے والو ہم پر ہنسنے سے پہلے ذرا سوچ لو کہ تمہارے پاس بھی کبوتر ہیں۔