ملک کے کروڑوں عوام ایسے ہیں جو اس منظر سے بالکل بے خبر اور ناآشنا ہیں جو کسی بڑے سرکاری افسر‘ کسی وزیر یا پھر اعلیٰ شخصیت کے دفتر کے کسی خاموش کمرے‘ کسی اعلیٰ ترین ہوٹل کی لابی‘ بیرون ملک دورے پر گئی ہوئی کسی شخصیت کے ہوٹل کے کمرے یا پھر کسی مخوص مقام پر برپا ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی امیر ملک کی امیر ترین ملٹی نیشنل کمپنی کا کوئی نمایندہ اپنی چرب زبانی اور مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کسی اعلیٰ افسر‘ وزیر یا اعلیٰ شخصیات کو ترغیبات دے رہا ہوتا ہے۔ تمام معاملے کو خفیہ رکھنے کی یقین دہانی کے ساتھ پیسے کی کسی بیرون ملک بینک میں باہر ہی باہر منتقلی کے انتظامات بھی بتاتا ہے اور پھر اس ڈیل کی کامیابی کے بعد اپنی کمپنی کے ہیڈ کوارٹر لوٹ کر اس کمیشن کی رقم کو کسی پلانٹ کی قیمت‘ کسی ٹھیکے کی لاگت یا کسی چیز کے سپلائی آرڈر میں شامل کرکے اپنی کمپنی میں ایک بہترین مارکیٹنگ آفیسر کی حیثیت سے شاباش وصول کرتا ہے۔ اس لیے کہ اب تو یہ ڈیل اس کی کمپنی کیلئے پکی ہوگئی کہ منظوری کے دستخط کے ساتھ کرپشن کی مہر تصدیق بھی ثبت ہوچکی ہے۔
کیا یہ منظر میرے ملک کا ہے یا پھر میرے جیسے دوسرے غریب اور پسماندہ ممالک کا بھی ہے؟ کیا ہم شروع ہی سے بددیانت‘ کرپٹ اور چور تھے یا دنیا بھر کے ممالک میں قائم ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ہوس نے ہمارے اعلیٰ افسران‘ وزراء اور اعلیٰ شخصیات کے ضمیر خریدنے کیلئے ایک منظم اور مربوط نظام وضع کیا اورآج پوری تیسری دنیا بددیانت‘ چور‘ کرپٹ اور نااہل بناکر رکھ دی گئی؟ ہوس زر کا یہ کھیل مغرب نے شروع کیا جس کی رگوں میں کرپشن مدتوں سے سرایت کی ہوئی تھی۔ مائرڈل نے جب 1968ء میں اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’ایشین ڈرامہ‘‘ لکھی تو اس نے کہا صرف دو سو سال قبل تک انگلینڈ‘ ہالینڈ اور سیکنڈے نیویارک کے ممالک کرپشن کی لعنت میں اوپر سے نیچے تک ڈوبے ہوئے تھے۔ پھر مفتوحہ ممالک سے لوٹنے والی دولت سے ذرا سنبھلے لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد ان ملکوں نے کرپشن کو ایسے طریقے سے بناسنوارکر اپنے سسٹم کا حصہ بنایا کہ لوٹنے والا محترم اور لٹنے والا بدنام ترین شخص یا بدنام ترین قوم بن گئی۔
اس کا آغاز حکومتی ذمہ داریوں کو نجی شعبے میں منتقل کرنے سے ہوا۔ پہلے پانی‘ بجلی‘ صفائی‘ سڑکیں‘ پل اور عمارتیں سب حکومت کے محکمے اپنی نگرانی میں بناتے تھے‘ لیکن اب انہیں ٹھیکے پر دینے اور پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کرنے کا آغاز ہوا۔ یہاں سے دنیا کے ہر ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ملک میںکرپشن کا آغاز ہوااور یہ سلسلہ آج تک چل رہا ہے ۔ صرف 1996ء کے ایک سال میں برطانوی پولیس نے 130بڑے بڑے کرپشن کے کیس پکڑے ۔ برطانیہ کی یہ ٹھیکے دار کمپنیاں اپنے ملک کے ٹھیکوں تک محدود نہ رہیں بلکہ انہوں نے ایک وزیر ’’جوناتھن اپیکن‘‘ کو رشوت دیکر 1993ء میں فرانس اور سوئزر لینڈ بھیجا کہ وہاں ان کے مال کا سودا کروائے۔ کمیشن دے اور اپنا حصہ بھی لے۔
برطانیہ ہی کی تین کمپنیوں GEC‘ Marconiاور VSELپر یہ الزام ثابت ہوا۔ انہوں نے اسلحہ کی فروخت کیلئے سعودی عرب سمیت کئی ممالک کے افسران کے سوئس اکائونٹ میں ڈیل کا دس فیصد جمع کروایا۔ فرانس نے سرکار کے بجائے پرائیویٹ فرموں سے ٹھیکوں کا آغاز کیا تو یہی ہوا۔ ’’گرنوبل‘‘ کا میئر اور سابقہ وزیر ایک کمپنی لائنوزے کو شہر میں واٹر سپلائی سسٹم کا ٹھیکہ دے کر رشوت وصول کرنے کے الزام میں پکڑا گیا۔ اس کی بدترین مثال یہ ہے کہ 1999ء میں یورپی یونین کی سب سے اعلیٰ سیاسی مجلس ’’یورپی کمیشن‘‘ کے ارکان نے اجتماعی استعفے دے دیے کہ بددیانت سیاسی قیادتوں پر سے ان کا اعتماد اٹھ گیا تھا۔ اس استعفے کی بنیاد میں کئی کیسوں میں سے ایک کیس برسلز کے ہیڈ کوارٹر کی سیکورٹی کے ٹھیکے کا تھا جو بارہ ملین پونڈ کا تھا جس کی منظوری میں رشوت ثابت ہوئی تھی۔ 1993ء میں برطانیہ کی تین فرموں نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے اس سال ڈیفنس منسٹری کو 1.5ملین پونڈ رشوت دی ہے۔
ایک بہت بڑے عالمی تحقیقاتی ادارے Horse Comerنے ان تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کی رشوت کے حجم کا اندازہ لگاتے ہوئے اپنی رپورٹ میں بتایا دنیا میں یہ کمپنیاں 80ارب ڈالر سالانہ رشوت دیتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اتنی ہی رقم یعنی 80ارب ڈالر سالانہ دنیا کی غربت کے خاتمے کیلئے کافی ہیں۔ امریکا کے کامرس ڈپارٹمنٹ کی 1993ء کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں 294ٹھیکوں میں 145ارب ڈالر رشوت دی گئی۔ میگزین ورلڈ بزنس نے 1996ء میں لکھا صرف جرمن کمپنیوں نے اس سال 3ارب ڈالر رشوت دی۔ فرانس کی کمپنیوں نے 1994ء میں دو ملین ڈالر کی رشوت دی۔ پہلے سب کام‘ رشوت دینا‘ ڈیل کرنا کمپنی کے افسران کرتے تھے۔ لیکن اب گزشتہ بیسس سالوں سے نوے فیصد کمپنیوں نے اپنے افسران کے بجائے تمام ملکوں میں وہاں کے اہم سیاسی اور انتظامی لوگوںکو اپنا ایجنٹ بناکر ٹھیکے حاصل کرنے کا کام شروع کیا ہے۔ ان کو دی جانے والی رقم کو وہ ’’Success Fee‘‘ یعنی ’’کامیابی کا انعام‘‘ کہتے ہیں۔
’’کلیئر ہائوس‘‘ کے مطابق یہ انعام عالمی طور پر دس فیصد یا ’’ٹین پرسنٹ‘‘ طے شدہ ہے۔ اسی وجہ سے دنیا کے اکثر ممالک میں ان کمپنیوں کا کوئی نہ کوئی ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ ضرورموجود ہوتا ہے۔ کرپشن کو آگے بڑھانے اور اس کی نشوونما کیلئے ان ترقی یافتہ ممالک کے قوانین ایسے بنائے گئے تھے رشوت میں دی جانے والی رقم کو قانونی تجارتی اخراجات یعنی Expences Business‘Legitimatکہا جاتا اور اس پر ٹیکس کی چھوٹ دی جاتی ۔ فرانس‘ برطانیہ اور جرمنی میں یہ قوانین مدتوں سے نافذ العمل تھے۔ برطانیہ میں تیل کی تجارت میں دیے جانے والے ٹھیکے میں 1990ء کا اسکینڈل تاریخ کا حصہ ہے جس میں جاپان کی دو کمپنیاں اور برطانیہ کی تین کمپنیاں 1.4ارب پونڈ کی رشوت میں ملوث تھیں۔ یہ کمپنیاں ان ترقی پذیر یا پسماندہ ملکوں کے اعلیٰ افسران اورسیاسی شخصیات کی جیبیں بھرتی ہیں اور عوام اس ساری رشوت کا خمیازہ بھگتتے ہیں۔ صرف ایک مثال اس سارے گورکھ دھندے کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔ امریکا کی کمپنی ویسٹنگ ہائوس Westing Houseنے فلپائن میں 1970ء میں ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ کا ٹھیکہ لیا جس کیلئے انہوں نے صدر مارکوس کو 80ملین ڈالر رشوت دی‘ لیکن پلانٹ کی قیمت اصل قیمت سے تین گنا یعنی ستر 2.3ارب ڈالر لگائی۔ اس رقم پر اب تک فلپائن کے عوام 2ارب ڈالر سودا ادا کرچکے ہیں اور وہ روزانہ ایک لاکھ ہزار ڈالر اداکرتے ہیں جو وہ 2018ء تک ادا کرتے رہیں گے اور سب سے عبرت ناک بات یہ ہے پلانٹ ابھی تک بجلی پیدا نہیں کرسکا کیونکہ وہ ایسی جگہ لگایا گیا جہاں آتش فشاں تھے۔ ان سارے سودوں اور ٹھیکوں میں سب سے زیادہ رشوت اسلحے کے سودوں میں ہوتی ہے۔ صرف دو سالوں یعنی 1998-99ء میں امریکی کامرس محکمہ کے مطابق 37ارب ڈالر رشوت اسلحہ کے سودوں میں دی گئی۔
ان سارے سودوں اور ٹھیکوں سے حاصل کی گئی رشوت کو چھپانے اور ٹھکانے لگانے کیلئے پرائیویٹ بینکوں کا ایک جال ہے۔ آف شور کمپنیاں ہیں۔ 1994ء میں امریکی سینٹ کو ایک رپورٹ پیش ہوئی جس میں سٹی بینک کے اہم کھاتے داروں میں 350ایسے افراد تھے جو مختلف حکومتوں کے اعلیٰ عہدیدار یا ان کے رشتے دار تھے۔ رپورٹ کے مطابق ’’گیون‘‘ کے صدر ’’بونگو‘‘ نے اس بینک کی نیویارک برانچ میں ذاتی اکائونٹ میں 100ملین ڈالر منتقل کیے۔ نائیجیریا کے صدر اباچہ کے تین بیٹوں کے نام پر 110ملین ڈالر جمع ہوئے۔ میکسیکو کے صدر کارلوس کے بھائی رائولس لیز کے نام پر 100ملین ڈالر جمع کرائے گئے اور سب سے کم ایک پاکستانی حکمران خاندان نے جمع کروائے‘ جو 40بلین ڈالر تھے۔ یہ صرف ایک سٹی بینک کی کہانی ہے جہاں سے شوکت عزیز پاکستان کو تحفے میں ملے۔ سوئزر لینڈ کے بینکوں کی کہانیوں سے تو دنیا بھر میں کتابوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔
کرپشن کی یہ کہانی اور یہ وبا ہمارے ہاں مغرب اور اس کی ہوس زر میں ڈوبی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا تحفہ ہے۔ یہ سب ٹھیکوں اور پرائیویٹ سیکٹر کی تخلیق ہے۔ شاید بڑھے بوڑھوں کو وہ زمانہ یاد ہو جب پانی دینا‘ صفائی کرنا‘ سڑکیں بنانا اور عمارتیں تعمیر کرنا سرکاری محکموںکے اہل کاروں کا کام تھا۔ ایک چھوٹی سی چھوٹی میونسپل کمیٹی بھی یہ کام خوبی سے سرانجام دیتی تھی۔ سڑکیں دھلتی تھیں ‘ صفائی مسلسل ہوتی تھی‘ اسکول اور ہسپتال چلتے تھے۔ یہ پی ڈبلیو ڈی کا محکمہ تھا جس نے لاہور کا عجائب گھر‘ جی پی او‘ ہائی کورٹ اور ٹائون ہال جیسی عمارتیں اپنے بیلداروں سے بنوائیں۔ آج کیا کسی ٹھیکیدار سے وہ ایسا کام کروانے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ آپ ٹھیکہ‘ پرائیویٹ سیکٹر‘ کمپنیاں شروع کریں رشوت آپ کے دروازوں پر خود دستک دینے لگے گی۔ پہلے پورے معاشرے کو اس چھوٹی چھوٹی رشوت کا عادی کیا گیا‘ پھر بڑی بڑی عالمی سطح کی کمپنیاں لوٹنے کھسوٹنے اور خون چوسنے آگئیں۔ ان سے چند اہم اور انتظامی شخصیات کو چنا‘ پیٹ اس رشوت کے خون سے بھرا اور باقی خون اپنے اس ہوسناک پیٹ میں انڈیل لیا جو کبھی آج تک نہ بھرا ہے اور نہ بھرے گا۔ غریب ملکوں کے غریب عوام کا خون ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پیٹوں میں جاتا رہے گا اور اس ترسیل کا بندوسبت کرنے والے ہمارے درمیان سے خریدے جائیں گے۔ ہمارے رہنما‘ ہمارے افسران‘ ہمارے ڈکٹیٹر ہماری غربت مٹانے کا دعویٰ کرنے والے۔
کرپشن کی کہانی
Please follow and like us: