آج سے ہم منافی ایمان عقائد کفر اور شرک کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
بخاری شریف میں ایک حدیث مبارک ہے جو دل کو ڈرا دینے والی ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا بھی وقت آئے گا کہ صبح بحالفت ایمان کریں گے اور شام بحالفت کریں گے ۔ یا شام کو بحالت ایمان ہوں گے اور صبح بحالت کفر کریں گے اور پھر سب سے زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہوگا کہ اس کو نہ اپنے ایمان کا علم ہوگا اور نہ ہی اپنی حالت کفر کا پتہ ہوگایعنی اس کو اپنی حالت ایمان اور حالت کفر کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہوگی یہ ایک انتہائی پریشان عالم ہوگا۔
جس وقت ہم پڑھتے تھے مدرسے کے ماحول میں تو صرف اور صرف قرآن وحدیث کا علم اور استاذہ ، علماء، صلحاء کی ہی باتیں ہوتی ہیں۔ تو اس وقت ہمیں تعجب ہوتا تھا کہ یہ کیسے ہوگا کہ ایک آدمی اپنی حالت ایمان اور کفر کا پتہ نہ چلے اس بات پر ہمیں تعجب ہوتا تھا۔ آج اپنے بعض ساتھیوں کی حالت دیکھ کر یہ حدیث مبارکہ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ حدیث مبارکہ بالکل صحیح ہے اور برحق ہے۔
اللہ پاک حفاظت فرمائے۔ اللہ پاک ہم سب کی حفاظت فرمائے! آج بہت سارے لوگ کلمہ گو اور نماز پڑھنے والے ان کو بھی اپنی حالت ایمان اور حالت کفر کا پتہ نہیں چلتا۔ اللہ پاک اپنی پناہ میں رکھے۔
اس بات کو خوب اچھی طرح سے سمجھنا چاہیے کہ کون سے عقائد ہیں جو ایمان کے منافی ہیں۔
سب سے پہلے کفر کو پسند کرنا یا کفر کی بات کرنا یا کسی سے کفر کی بات کروانا۔ یا اپنی حالت ایمان پر پیشمان ہونا یا مایوس ہونا اور اس طرح بات کرنا کہ اگر ہم مسلمان نہ ہوتے تو یہ کرتے، وہ کرے تو یہ ساری باتیں منافی ایمان ہیں اور کفر ہیں۔
ان مسائل کو آج ہم نے مذاق بنا رکھا ہے اور ہم ان مسائل کو ایسے خلط ملط کردیتے ہیں کہ وہ مذاق بن جاتے ہیں۔
جیسے مثال کفر کو پسند کرنا یا کفر کی باتوں کو پسند کرنا۔ تو ایسے وقت میں لوگ آگے سے کہتے ہیں کہ پھر تو بجلی، پنکھا، گاڑی، جہاز ایسی وغیرہ یہ تمام چیزیں کافروں نے بنائی ہیں۔
تو بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم نے پہلے سے ہی بتادیا ہے کہ ان باتوں اور ان چکروں میں نہ پڑیں کیونکہ لوگ تو کہتے ہیں سود بھی وہی ہے جو کاروبار (بیع) ہے اور کاروبار بھی وہی ہے جو سود ہے۔
حالانکہ ان دوننوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ کاروبار حلال اور جائز ہے جبکہ سود حرام ہے۔
پیسہ، روپیہ آپ کا ہے اگر آپ نے اس کو کاروبار میں لگادیا تو اس سے جو نفع آپ کو ملے گا وہ آپ کے لیے جائز ہے۔ اگر آپ نے اس کو سود میں لگادیا یعنی پیسہ پر پیسہ لیا تو یہ آپ کے لئے ناجائز ہے۔ قرآن کریم نے ان دونوں کو واضح کرکے بتادیا کہ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔
میرے عزیزو! کفر کو پسند کرنا یہ ایمان کے منافی بات ہے اور پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ یہاں کفر کی بات ہورہی ہے کافر کی نہیں ۔
کہ کفر ہی کیا چیز؟ یہ بجلی، پنکھے، گاڑی وغیرہ کفر تو نہیں نا۔
تو کفر کی معنی ہے انکار کرنا یعنی اللہ کے حکم کا انکار کرنا یہ کفر ہے۔ اللہ کے حکم کے مقابل نظریہ لانا یہ ہے کفر۔
کافر یا اس کی اشیاء کو پسند کرنا یہ کفر نہیں ہے ۔تو بات یہ ہے کہ اللہ کے احکامات کے منافی نظریہ اختیار کرنا یہ کفر ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے۔
یہ جو کرسمس ڈے آتا ہے یا اسکے علاوہ جو مختلف تہوار آتے ہیں یا جو مسلمان دیگر غیر مسلم ممالک میں بستے ہیں اور ان ممالک کی آزادی وغیرہ کے دن منائے جاتے ہیں وہ بالکل الگ مسئلہ ہے اور ان کا ایمان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایمان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے احکامات کے موافق نظریہ کے ساتھ ہے اور کفر کا تعلق ایمان کے مخالف نظریہ کے ساتھ ہے۔ کسی مسئلہ میں اللہ کے حکم کو چھوڑ کر کسی کافر کے نظریہ کو اپنالینا یہ منافی ایمان ہے اور اسے کہتے ہیں کفر کو پسند کرنا۔ یہ بالکل واضح اور بے بے غبار بات ہے کہ کسی جگہ اللہ کے حکم کو چھوڑ کر یا توڑ کر کسی کفریہ نظریہ کو اختیار کروگے تو یہ منافی ایمان ہے یا کسی سے کفریہ بات کروگے تو یہ منافی ایمان ہے۔
یا اپنے ایمان پر پیشمان ہونگے (مثلاً ہم مسلمان ہیں اس لیے روزے رکھ رہے ہیں۔ اللہ معاف کرے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو کہتے اب روزہ ہے کھا نہیں سکتے، پی نہیں سکتے) تو تب یہ منافی ایمان ہے اور یہ سب باتیں منافی ایمان ہیں۔ اللہ پاک معاف فرمائے!
یا کسی قریبی عززیز یا رشتے دار کی وفات کے وقت یہ بات کرنا کہ بس اللہ کو مارنے کے لئے یہی ملا تھا، خدا کو اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا، یہ ظلم ہے یہ سارے جملے منافی ایمان ہیں اور کفر ہیں۔
خدا کے رسول کے کسی حکم کو برا سمجھنایا اس میں کوئی عیب نکالنا، کسی نبی یا فرشتے کی حقارت کرنا یا کوئی عیب لگانا۔ دیکھئے یہ بہت اہم بات ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ خدا تعالیٰ یا اس کے رسول کی کسی بات کو برا سمجھنا یا اس میں کوئی عیب نکالنا۔ ( یہ تمام باتیں منافی ایمان ہیں)۔
اللہ معاف فرمائے، بہت سارے لوگ ایسے ہیں جب ان کے سامنے حدیث بیان کی جاتی ہے تو انہیں اچھی نہیں لگتی۔ مثال کے طور پر حدیث پاک میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانا کھانے کے بعد انگلیاں چاٹ لیا کرتے تھے ۔تو بہت سارے لوگوں کو یہ بات اچھی نہیں لگتی۔ (حالانکہ یہ حدیث مبارک میں ہے کہ یہ ایک سنت ہے لیکن بعض لوگوں کو اچھا نہیں لگتا) اس طرح ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کسی کا نوالہ (روٹی کا ٹکڑا گرجائے تو اس کو چاہیے کہ صاف کرکے کھائے تو یہ بات بھی بہت سارے لوگوں کو عجیب لگتی ہے اور برملا کہتے ہیں کہ جی یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
اس طرح کے اظہار سے آپ کے دلوں میں سنت کی عظمت ہوجائے گی۔
تو یاد رکھو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سنت میں عیب نکالنا یا اس کو ناپسند سمجھنا یہ منافی اسلام ہے اور اس طرح کسی نبی کی طرف کسی عیب کی نسبت کرنا یہ بھی منافی ایمان ہے اور کفر ہے۔
کسی پیر یا بزرگ کے متعلق یہ خیال رکھنا یہ ہمارے تمام حالات کا علم رکھتا ہے یہ بھی منافی ایمان اور کفر ہے۔ اس طرح کسی انسان کے متعلق یہ خیال رکھنا کہ اس کو میرے حال کا، آج کا اور میرے کل کا علم ہے ۔تو یہ سب چیزیں منافی ایمان ہیں اور کفر ہیں۔ یہ سب عقائد کفر ہیں۔ کوئی بھی انسان کسی کے حال پر بغیر اطلاع کے مطلع نہیں ہوسکتا۔ چاہے کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ یہ علم غیب ہے جو صرف اور صرف اللہ پاک کی ذات کا خاصہ ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔
نجومی کی باتیں پھر اس پر یقین کرنا، جادوگر کی باتوں کو حقیقت سمجھنا، فال نکلوانہ پھر اس کو سچ سمجھنا، کسی بزرگ سے فال نکلواکر اس کو یقینی سمجھنا، یا کسی کو اللہ کی صفت سے پکارنا جیسے یا غوث اعظم، یا پیران پیر تو اس طرح کے عقائد سے ایمان جاتا رہے گا۔
بزرگوں کے واسطے سے دعا تو مانگ سکتے ہیں لیکن دعا اللہ تعالیٰ ہی سے مانگی جائے کسی بزرگ وغیرہ سے نہیں کیونکہ وہ کچھ بھی نہیںدے سکتے دینے والی ذات صرف اللہ پاک ہی ہے ۔ کسی کو نفع ونقصان دینے میں خود مختیار سمجھنا (جیسے بعض لوگ یہ خیال رکھتے ہیں فلاں مزار پر چادر چڑھانے سے یہ فائدہ ہوگا فلاں مزار پر کھانا پکواکر کھلانے کا یہ فائدہ ہوگا جیسے لوگوں نے بہت سی باتیں مشہور کررکھی ہیں جیسے رزق کا مسئلہ، اولاد کا مسئلہ، نوکری کا مسئلہ یا شادی وغیرہ کا مسئلہ کہ فلاں مزار پر جائو تو شادی کا مسئلہ حل ہوجائیگا تو یہ ساری باتیں اور سارے عقائد شرکیہ ہیں اور ان سے بچنا چاہیے۔ ٍ
نفع پہنچانے والی ذات اللہ پاک کی ہے مال، اولاد وغیرہ کوئی بھی چیز نفع نہیں پہنچاسکتی جب تک اللہ نہ چاہے، اس طرح نقصان، مصیبت سے بھی اولاد، پیر بابا یا کسی مزار کا دھاگا وغیرہ نہیں بچا سکتا نقصان بچانے والی ذات اللہ کی ہے۔ اللہ سے پناہ مانگو، تعوذ پڑھو، سورہ الناس، الفلق پڑھو، (اللہ )اس سے پناہ مانگو وہیں سے سب کچھ ہوسکتا ہے دوسری چیزوں سے کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ مزار کے دھاگے اور تاگے یہ کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ عقیدہ ہی غلط ہے کہ ان سے نفع یا نقصان ہوسکتا ہے۔ یاد رکھیں اللہ پاک سوا کسی شخص سے یا کسی جگہ سے مرادیں رکھنا یا مانگنا یہ منافی ایمان ہے اور شرک ہے۔
کسی سے اولاد مانگنا، روزی مانگنا یا کسی کو سجدہ کرنا جیسے آج کل بہت سے جہلاء لوگ کرتے ہیں یہ ساری باتیں اور ساری رسومات شرک ہیں اور کفر ہیں۔ بعض مزاروں پر تو چھوٹے چھوٹے دروازے بنالئے ہیں تاکہ بندہ جب داخل ہوتو رکوع کی حالت میں ہو تو یہ اس طرح کی ترتیب بنانا جس میں تعظیماً کسی کے سامنے جھکنے کی صورت بن رہی ہو تویہ ناجائز اور کفر ہے کیونکہ تعظیمی سجدہ صرف اور صرف اللہ کے لئے ہی ہے کسی اور کے لئے نہیں ۔ سجدہ صرف اللہ پاک کا حق ہے کسی قبر کے آگے اور کسی مزار کے آگے سجدہ بالکل نہیں کرنا چاہیے۔
کسی مزار کے نام پر جانور چھوڑنا جیسے ہمارے گائوں، دیہاتوں میں ہوتا ہے یا چڑھاوے چڑھانا، دیکھیں میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا ایک ہے کہ آپ مزار پر کھانا پکواتے ہیں اور آپ کی نیت ہوتی کہ نذر اللہ اور ایصال ثواب اس مزار والے کو پھر تو یہ شرک نہیں کیونکہ آپ نے اس کو ثواب میں شامل کرلیا اور آپ ثواب میں والدین کو رشتہ داروں کو بھی شامل کرسکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر آپ کھانا وغیرہ اس نیت سے پکواتے ہیں کہ یہ مزار والا خوش ہوجائے، یہ راضی ہوجائے تو یہ شرک ہے۔ اس سے بچنا ضروری ہے اور یہ منافی ایمان ہے۔ کسی کی قبر یا مکان کا طواف کرنا یہ منافی ایمان ہے کیونکہ طواف صرف بیت اللہ ہی کا ہے کسی اور جگہ کا نہیں۔
غیر اللہ کے نام پر جانوروں کو چھوڑنا یا ذبح کرنا جیسے آج کل جعلی پیر لوگوں سے کرواتے ہیں (اللہ پاک معاف فرمائے) ہمارے شہر میں ایسے جعلی پیر زیادہ آگئے ہیں جنہوں نے بڑا اودہم مچا رکھا ہے یہ بات یاد رکھیں (100) سو میں سے 90فیصد لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جن پر جادو یا جنات وغیرہ کا کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ میڈیکل کا مسئلہ ہوتا ہے اور ایسے ان پیروں اور جعلی بابوں کے چکروں میں پھنس جاتے ہیں۔
دوسری بات! یہ یاد رکھو اگر کسی کوجادو ہو بھی گیا ہے تو کوئی عالم، پیر بابا یہ نہیں بتاسکتا کہ کس نے کرایا ہے۔
مولانا محمد صدیقؒ خیر المدارس ملتان کے شیخ الحدیث گزر چکے ہیں بڑے عالم تھے اور عوام الناس کا بھی کثرت سے ان کے پاس آنا جانا لگا رہتا تھا ۔ میں نے ایک دفعہ ان سے پوچھا کہ حضرت کوئی ایسا عمل ہے جس سے پتہ چلے کہ اس پر جادو ہے یا نہیں اگر ہے تو کس نے کروایا ہے۔
تو حضرت نے فرمایا کہ میری زندگی گزرچکی ہے، میرا یہ تجربہ ہے کہ کوئی ایسا عمل نہیں ہے جس سے پتہ چلے کہ جادو ہے یا نہیں اگر ہے تو کس نے کروایا ہے تو کوئی ایسا عمل نہیں ہے جس سے جادو کے ہونے کا پتہ چلے۔ ہاں علامات ہوتی ہیں انہیں دیکھ کر بتایا جاتا ہے اور علاج بھی ہے لیکن علاج بھی سادہ ہے۔ دیکھیں آگ جلانے کی دھواں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں یہ شعبدہ بازیاں ہیں۔ بعض جگہوں پر سنجیدہ عامل بھی اس طرح کرتے ہین وہ اس لئے کرتے ہیں کیونکہ لوگ اس کے بغیر مانتے ہی نہیں ہیں ورنہ ان مسائل کا علاج سادہ ہوتا ہے۔
کیونکہ آپ لوگ مانتے نہیں اس کے واسطے وہ آگ ،دھواں کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ آپ کو کہیں جی سورۂ الفلق، الناس پڑھیں تو آپ لوگ ان پر اعتماد نہیں کریں گے۔
تو عزیزو! ان چیزوں کا یہی علاج ہے، یہ نماز، وضو اور معوذ تین اس کا یہی علاج ہے اور شہد اللہ والی آیت یہ بھی علاج ہے اس طرح سورہ بقرۂ بھی علاج ہے۔ بڑے بڑے جادو کا یہی علاج ہے اور قرآن نے بھی یہی بتایا ہے لیکن ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ آدمی اس طرح کی صورتحال سے گھبرا جاتا ہے اور وہ اس کے لئے ہر کام کر بیٹھتا ہے اور وہ شرک بھی کرتا ہے اور کفر بھی کرتا ہے۔
پتہ نہیں ایسے میں آدمی کیا سے کیا کرجاتا ہے؟ کبھی قبرستان ، کبھی مزار کے چکر، کبھی تو آدمی خون بھی پی رہا ہوتا ہے۔
یہ یاد رکھیں انسان کے لئے کسی صورت میں یہ جائز نہیں کہ وہ جادو یا جنات کے اثر کو اتارنے کے لئے شرکیہ یا کفریہ کام کرے ۔ چاہے پیر بابا کچھ بھی کہے آپ شریعت کے خلاف کام نہیں کرسکتے۔ اللہ پاک اپنی حفاظت میں لے لے اور ہم سب کو محفوظ رکھے، کسی کے نام پر بچے کے کان شیدنا یا بالیاں پہنانا، کالے دھاگے یا سکے وغیرہ گلے میں ڈالنا (جیسے آج کل بعض لوگ کرتے ہیں ) یا گاڑی کے نیچے بعض لوگ جوتے لٹکادیتے ہیں تو یہ سب شرکیہ کام ہیں۔
(فائدہ! قرآنی آیات وغیرہ کا تعویز جو بچوں کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے یہ صحابہؓ کے اثر سے جائز معلوم ہوتا ہے) اس کے علاوہ سب بیکار کی باتیں ہیں اور یہ سب شرکیہ کام ہیں۔ لہٰذا ان سب سے بچنا چاہیے بلکہ ان سے بچنا ضروری ہے۔
چوٹی بنانا، بالوں کو گوندنا، یا ایسے نام رکھنا جن میں بندہ ہونے کی نسبت دوسرے بندہ (انسان) کی طرف ہورہی ہو تو یہ ناجائز ہے مثلاً حسین بخش، علی بخش، نبی بخش جیسے نام رکھنا تو ان چیزوں سے بچنا ہے یا آدم کے نام کے کاروبار کو اپنے لئے قسمت کا ستارہ سمجھنا یا نجومی لوگ جو ستاروں کے متعلق مختلف قسم کی باتیں بتاتے ہیں انہیں حقیقت سمجھنا یا تاثیر کا ذریعہ سمجھنا یہ درست نہیں (ان پر یقین رکھنے سے شریعت میں وعیدیں آئی ہیں ) ان میں کوئی تاثیر نہیں ہوتی کیونکہ ہر کام کرنے والی ذات اللہ کی ہے ہاں البتہ ان کو بطور علامت سمجھنا اور بات ہے۔
اچھے بھلے دن یا تاریخ کا پوچھنا جیسے کہ بعض لوگ اور بالخصوص عورتیں کہتی ہیں کہ فلاں دن اچھا ہے اس میں کام کرو اور فلاں دن منہوس ہے یا فلاں تاریخ مبارک ہے اور فلاں تاریخ منہوس ہے یہ ساری باتیں خلاف شرع ہیں اور خلاف ایمان ہیں۔
ویسے یہ بات بظاہر تو معمولی لگتی لیکن حقیقت میں بہت بڑی ہے جیسے لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ فلاں دن اچھا ہے اس میں کام کرو تو یہ اچھائی کی نسبت اللہ پاک کی طرف ہونی چاہیے دن کی طرف نہیں یا جیسے یہ عقیدہ رکھنا کہ فلاں دن برا ہے تو یہ بھی درست نہیں ہے۔
یہ یاد رکھیں کہ اچھائی یا برائی کا تعلق دن کے ساتھ خاص نہیں کوئی بھی دن کسی کے لئے اچھائی یا برائی پیدا نہیں کرسکتا بلکہ ان دنوں میں تاثیر پیدا کرنے والی ذات اللہ پاک کی ہے ہاں البتہ بعض دن مبارک ہوتے ہیں اور ان میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی ہوتی ہے تو یہ برکت اور بات ہے۔
تو کوئی بھی دن برا نہیں ہوتا بلکہ سارے دن برابر ہیں ہم نے عجیب عجیب چیزیں بنالی ہیں جیسے بعض لوگ کہتے ہیں کہ محرم ، صفر میں شادی نہ کرو اگر کروگے تو یہ ہوجائے گا یا وہ ہوجائے گا۔ یہ بری باتیں ہیں اور ہمارے معاشرے کی بیکار رسومات ہیں شریعت کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
ذکر اور وظیفہ صرف اللہ کے نام کا ہوتاہے تو کسی بزرگ کے نام کو بطور وظیفہ پڑھنا جیسے یا غوث اعظم، یا خواجہ اجمیر وغیرہ درست نہیں ۔ کیونکہ ذکر صرف اللہ کے نام کا ہوتا ہے اور درود ہوتا ہے قرآن پاک میں بھی ہے ولذکر اللہ اکبر۔
اگر اللہ چاہے یا اس کا رسول چاہے تو کام ہوجائے گا تو اس طرح نہیں کہنا چاہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہوجائے گا (صرف اللہ) مختار ذات اللہ کی اس کے ساتھ کسی اور کو شامل نہیں کرنا چاہیے چاہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ حکم تو صرف اللہ پاک کا ہی چلتا ہے۔
اس طرح اللہ کے نام کے علاوہ کسی اور کے نام کی قسم کھانا یہ بھی درست نہیں کیونہ قسم صرف اللہ پاک کے نام کی ہوتی ہے۔ اس لیے غیر اللہ کے نام کی قسم نہیں اٹھانی چاہیے اور پھر دوسری بات یہ کہ فضول میں قسم بالکل نہیں اٹھانی چاہیے آج کل لوگ فضول میں معمولی معمولی باتوں پر قسم اٹھاتے ہیں جو کہ درست نہیں) ہاں اگر بڑی بات ہو اورقسم کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو پھر اللہ کے نام کی قسم اٹھانی چاہیے غیر اللہ کے نام کی نہیں ۔ آج کل تو بیوی، بچوں پتہ نہیں لوگ کن کن کی قسمیں اٹھاتے ہیں تو یہ ساری چیزیں فضول کی ہیں۔
آج کل بعض لوگ بزرگوں کی تصویریں گھر میں لگاتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس تصویر کے رکھنے سے یا لگانے سے گھر میں برکت آئے گی یہ شرکیہ عقیدہ ہے اس سے بچنا نہایت ضروری ہے بلکہ گھروں کو تو ہر قسم کی تصاویر سے صاف رکھنا چاہیے کیونکہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے جس گھر میں تصویریں ہوتی ہیں اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ اس لئے گھروں کو تصویریوں سے پاک رکھنا چاہیے اگر آپکے گھر میں کوئی ایسا کام ہورہا ہو تو اس کے متعلق علماء سے پوچھیں۔ رسم ورواج میں نہ پڑھیں۔ اللہ پاک ہمیں اس طرح کی شرکیہ چیزوں سے بچائے اور اس طرح غلط عقائد سے محفوظ رکھے۔
کفر اور شرک کا بیان
Please follow and like us: