اعلیٰ سرکاری مناسب کے حوالے سے جاری بحثوں کا سلسلہ اب حتمی ہوجانا چاہیے تاہم جہاں تک ایسی باتوں کا تعلق ہے اس پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آخر ہمارے دینی حلقے اس قدر الرجک اور حساس کیوں ہیں کہ کسی بھی کلیدی اسامی پر کسی نئی شخصیت کی آمد کے ساتھ ہی اس کے بارے میں شکوک وشبہات پھیلنا شروع ہوجاتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم نے ایک نشری تقریر میں ختم نبوت کے حوالہ سے اپنے عقیدہ کی وضاحت کی تھی، جنرل محمد ضیاء مرحوم پر کھلے جلسوں میں قادیانی ہونے کا الزام لگا تھا جس پر انہیں صرف زبانی نہیں بلکہ امتناع قادیانیت آرڈیننس کی صورت میں اپنے عقیدہ کی عملی وضاحت بھی دینا پڑی تھی اور جب جنرل پرویز مشرف کو بھی اس قسم کا سامنا کرنا پڑا تھا تو اس دور میں کچھ دوستوں کے پوچھنے پر میں نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف قادیانی تو نہیں البتہ میرے خیال میں ان پر یہ الزام لگانے والے حضرات شاید ان کا گریڈ کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کا سادگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ میرے خیال میں اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ ہمارے دینی حلقوں میں یہ حساسیت بسا اوقات جذباتیت اور سطحیت اس حد کو چھونے لگتی ہے کہ وضاحت اور صفائی کی کوئی بات سننا بھی گوارا نہیں کی جاتی۔ اس کی تازہ مثال ہمارے ایک محترم دوست ڈاکٹر عبدالماجد حمید المشرقی ہیں جو گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، راسخ العقیدہ انسان ہیں، تعلیمی اور دینی سرگرمیوں میں شب وروز مشغول رہتے ہیں اور والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے متعلقین میں سے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دنوں لاہور کی کسی محفل میں قادیانیوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کے بارے میں ایک غلط سی بات کہہ دی جس کی وہیں اسٹیج پر بعض دوستوں نے تردید کردی اور خود انہوں نے بھی اخبار میں باقاعدہ اشتہار دے کر وضاحت کی کہ ان سے یہ بات بے خبری اور غلط فہمی کی وجہ سے ہوگئی ہے وہ اس سے رجوع کرتے ہیں اور معافی مانگتے ہیں۔ اس کے باوجود بعض حضرات کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہورہا اور وہ ان کے خلاف منافرت کی مہم کو جاری رکھنے میں ہی تسکین محسوس کررہے ہیں۔اس قسم کی اور مثالیں بھی موجود ہیں، ظاہر بات ہے کہ یہ کوئی پسندیدہ رجحان نہیں ہے۔
مگر اس کا ایک پہلو اور بھی ہے جو زیادہ سنجیدگی کے ساتھ توجہ کا مستحق ہے۔ وہ یہ کہ جو حضرات قادیانیوں اور ان کے طریق واردات سے آگاہ نہیں ہیں یا جنہیں کبھی قادیانیوں سے براہ راست واسطہ نہیں پڑا، ان کے لیے اس حساسیت کو سمجھنا فی الواقع بہت مشکل بات ہے اور وہ اس رویے کو جذباتیت پر ہی محمول کریں گے۔ لیکن جن لوگوں کا قادیانیوں سے واسطہ ہے اور وہ ان کے طریق کار اور نفسیات سے واقف ہیں وہ اس حساسیت کی وجہ کو سمجھتے ہیں۔
علامہ محمد اقبالؒ نے قادیانیوں کے بارے میں کہا تھا کہ وہ مسلم معاشرہ میں یہودیوں کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے بھی یہ کہہ کر اس کی تائید کی تھی کہ قادیانی گروہ پاکستان میں وہ مقام حاصل کرنا چاہتا ہے جو یہودیوں کو امریکا میں حاصل ہے کہ ملک کی تمام پالیسیوں پر ان کا کنٹرول ہو۔ اس حوالے سے قادیانیوں کا طریق کار اس قدر پیچیدہ اور دجل آمیز ہوتا ہے کہ اسے بروقت سمجھنا اور اس جال سے نکلنا بسا اوقات بہت مشکل ہوجاتا ہے اور وہ اہم کلیدی اسامیوں تک رسائی حاصل کرکے ان کے ذریعہ اپنا کام صفائی کے ساتھ کرجاتے ہیں۔ یہی یہودیوں کا طریق واردات ہے کہ اعلیٰ ترین مناصب تک پوری قابلیت، صلاحیت اور مہارت کے ساتھ رسائی حاصل کرتے ہیں اور اپنے منصبی فرائض کو بہترین طور پر سرانجام دیتے ہیں لیکن اس کی آڑ میں اپنا کام کرجاتے ہیں ۔ قادیانیوں کے بارے میں علامہ محمد اقبالؒ اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا مذکورہ بالا تبصرہ بلاوجہ نہیں ہے اس لئے بعض اہم قادیانی شخصیات کے حوالے سے اس کا تھوڑا سا واقعاتی پس منظر سامنے لانا ضروری سمجھتا ہوں۔
چودھری ظفر اللہ خان معروف قادیانی تھے اور اس درجہ کے قادیانی تھے کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی کابینہ کا اہم رکن ہونے کے باوجود انہوں نے قائد اعظمؒ کا جنازہ نہیں پڑھا اور غیر حاضر رہنے کا تکلف بھی گوارا نہیں کیا بلکہ وہاں موجود رہ کر جنازے سے الگ غیر مسلموں کی صف میں کھڑے رہے۔ وہ ایک لائق اور قابل شخص تھے، انہوں نے مسلم لیگ میں محنت کرکے قائد اعظمؒ کا قرب حاصل کیا اور پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ بنے۔ بلکہ قیام پاکستان سے قبل پنجاب کی سرحدی تقسیم کے موقع پر ریڈ کلف کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس بھی انہوں نے پیش کیا۔ انہوں نے اس موقع پر کمال ہوشیاری کے ساتھ ضلع گورداسپور میں مسلم اور غیر مسلم آبادی کے تناسب کے بارے میں قادیانیوں کا کیس مسلمانوں سے الگ کرکے پیش کیا جس سے قادیانیوں کی آبادی مسلمانوں سے الگ شمار ہوئی اور گرداسپور غیر مسلم اکثریت کا ضلع قرار پاکر پاکستان کی بجائے بھارت میں چلاگیا۔ اسی سے بھارت کو کشمیر کا راستہ ملا اور وہ مسلح یلغار کرکے کشمیر پر قابض ہوگیا۔ اگر بھارت کو کشمیر کے لئے اس وقت یہ راستہ نہ ملتا تو شاید کشمیر کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا۔ پاکستان بننے کے بعد وزیر خارجہ کے طور پر انہوں نے مختلف ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں کو قادیانیت کی تبلیغ کے لیے استعمال کیا، فارن سروس میں قادیانیوں کی مسلسل بھرتی کی، امریکا وروس کی کشمکش اور سرد جنگ میں پاکستان کو امریکی کیمپ میں شامل کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا جبکہ ان کی قابلیت ومہارت کا ایک کامیاب تکنیکی استعمال یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ایک موقع پر سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف پر انہوں نے طویل تقریر کی جسے ان کی زندگی کی طویل ترین تقریر کے طور پر ان کا کریڈٹ شمار کیا جاتا ہے لیکن اس کا یہ نتیجہ نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے کہ اس تقریر کی طوالت کے دوران سلامتی کونسل میں اس مسئلہ پر رائے شماری کا وقت ختم ہوگیا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس وقت اگر لمبی تقریر کی بجائے رائے شماری ہوجاتی تو وہ پاکستان کے حق میں جاتی۔