ہمارے مسائل کا حل کیا ہے؟

حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ اے مہاجرین کی جماعت ! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر تم ان میں مبتلا ہو جائو اور میں اﷲ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ تم ان میں مبتلا ہو۔ ایک تو یہ کہ فحش، بدکاری جس قوم میں بھی کھلم کھلا ہونے لگے تو اس میں ایسی نئی نئی بیماریاں پیدا ہوں گی جو پہلے کبھی سننے میں نہ آئی ہوں اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں گے، ان پر قحط اور مشقت اور بادشاہ کا ظلم مسلط ہو جائے گا اور جو قوم زکوٰۃ کو روک لے گی اس پر بارش روک دی جائے گی، اگر جانور نہ ہوں توایک قطرہ بھی بارش نہ ہو اور جو لوگ معاہدوں کی خلاف ورزی کریں گے ان پر دوسری قوموں کا تسلط ہو جائے گا اور ان کے مال و متاع کو لوٹ لیں گے اور جو لوگ اﷲ کے قانون کے خلاف حکم جاری کریں گے ان میں خانہ جنگی ہو جائے گی۔ (ترغیب)

اس طرح کی بہت سی احادیث ہیں جن میں مختلف بدعملیوں کی مختلف دنیوی سزائوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اگر ہم اسی حدیث پر غو رکریں تو یہی ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ ذرا سوچئے! کیا ہم ان تمام مصائب کا شکار نہیں ہیں؟ لیکن افسوس کہ پھر بھی ہم کبھی برے حکمرانوں کا رونا روتے ہیں، کبھی حالات پر آنسو بہاتے ہیں ، کبھی سیاستدانوں کو لعن طعن کرتے ہیں اور کبھی بیرونی طاقتوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، مگر ہماری بداعمالیاں جن کی سزا کے طور پر ہم ان پریشانیوں میں مبتلا ہیں، ان کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا بلکہ اگر کوئی توجہ دلائے بھی تو اسے دقیانوسی اور بے وقوف جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔
آج اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم من حیث القوم گناہوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، ناچ گانا، بے حیائی اور عریانی عام ہوچکی ہے، حلال و حرام کی تمیز باقی نہیں رہی، نمازیں ضائع ہو رہی ہیں، رمضان کی پروا ہی نہیں، رشوت اور سود کو تجارت و کاروبار کا لازمی حصہ بنا دیا گیا ہے، شراب کی کھلے عام خرید و فروخت ہو رہی ہے، منشیات فروشی کو بہترین کاروبار تصور کیا جانے لگا ہے، جوا، سٹہ مشغلہ بن چکا ہے، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، دھوکہ اور ناجائز منافع خوری تجارت کے گر بن چکے ہیں، جھوٹ اور فریب کو فن سمجھا جانے لگا ہے، بدکاری عام کرنے کے لئے نت نئے رستے تلاش کئے جا رہے ہیں، غیبت اور الزام تراشی وقت گزاری کا مشغلہ سمجھا جانے لگا ہے، ماں باپ کی عزت ختم ہوچکی ہے، اولاد کی دینی تربیت کا تو خیال بھی نہیں آتا، لہٰذا اولاد نافرمان ہوچکی ہے، رشتے داروں، پڑوسیوں اور دوسرے مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی حماقت تصور کی جانے لگی ہے، فرائض ترک کئے جا رہے ہیں، سنتیں مٹ رہی ہیں، نئی نئی بدعات فروغ پا رہی ہیں حتیٰ کہ شرعی احکام اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ اسکے باوجود ہم مطمئن ہیں کہ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں، رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہیں اور جنت ہماری ہی تو ہے، لہٰذا کیوں نہ دنیا کے بھی مزے اڑالئے جائیں۔
بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا کا ہر کام اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے، وہی غم بھی لاتا ہے، وہی خوشی بھی بھیجتا ہے، وہی کامیاب بھی کرتا ہے، وہی ناکام بھی کرتا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے باوجود پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ مہنگائی بڑھتی چلی جارہی ہے، لوڈشیڈنگ عروج پر ہے، فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، کاروبار تباہ ہو رہے ہیں، بے روزگاری اور فاقہ کشی بڑھ رہی ہے، لوگ خودکشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں، بدامنی بڑھتی چلی جا رہی ہے، زلزلے ، طوفان، سیلاب، ناگہانی آفات و حادثات بڑھتے چلے جا رہے ہیں، قتل وغارت کا بازار گرم ہے، ہر آنے والا حکمران پہلے والے سے بدتر ثابت ہو رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس قوم کی پریشانیاں اور مصائب بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
ان تمام حالات کی وجہ صرف ایک ہے کہ ہم نے اپنا تعلق رب کائنات سے توڑ لیا ہے، ہم دوسروں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، ہم مسبب الاسباب کو چھوڑ کر کامیابی کے دوسرے اسباب کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں، ہم ببول بو کر گلاب کے متمنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ یہ اس رحمن و رحیم کا کرم ہے کہ وہ ہمیں ان مصائب کے ذریعے جھٹکے دے رہا ہے، ہمیں غفلت کی نیند سے بیدار کر رہا ہے کہ اے میرے بندو! تم تمام جہانوں کے مالک کو چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو؟ سخی داتا کے در کو چھوڑ کر کہاں در در بھٹک رہے ہو؟ اپنے رب، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام انسانوں کے دشمن شیطان سے کیوں دوستی نبھا رہے ہو؟ یہ آفات و مصائب رب کائنات کی جانب سے تنبیہ ہے کہ اے میرے بندو! اب تو باز آجائو، شیطان کی اطاعت بہت کر لی، اب ذرا میری اطاعت بھی کرکے دیکھ لو۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہوں کا مالک ہوں اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں، میرے بندے جب میری اطاعت کرتے ہیں تو میں ان کے بادشاہوں کے دل ان کی طرف رحمت اور شفقت سے متوجہ کر دیتا ہوں اور بندے جب میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کی طرف بادشاہوں کے دل غصہ اور انتقام سے متوجہ کر دیتا ہوں، سو وہ انہیں سخت عذاب چکھاتے ہیں، اس لئے خود کو بادشاہوں پر بددعا میں مشغول نہ کرو بلکہ خود کو ذکر اللہ اور تضرع میں مشغول کرو، تاکہ میں تمہیں تمہارے بادشاہوں کے مظالم سے محفوظ رکھوں۔ (مشکوٰۃ)
ایک اور حدیث ہے ’’ بے شک تمہارے اعمال تم پر حاکم بنائے جاتے ہیں اور جیسے تم ہوگے ویسے ہی تم پر حاکم مسلط کئے جائیں گے‘‘۔ (المقاصد الحسنہ)
حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایک گویا تھا، چھپ چھپ کر گاتا تھا، لوگ کچھ پیسے دے دیتے تھے۔ جب بوڑھا ہوگیا، آواز کا حسن ختم ہوگیا، فاقوں کی نوبت آگئی۔ جنت البقیع میں ایک جھاڑی کے پیچھے بیٹھ گیا۔ کہنے لگا: یا اللہ! جب آواز تھی تو سب سنتے تھے، جب آواز نہ رہی تو سب سننا چھوڑ گئے مگر تو تو سب کی سنتا ہے۔ تجھے پتہ ہے میں ضعیف ہوں۔ اے اللہ! میری ضرورت کو پورا فرما۔
اللہ کی رحمت جوش میں آئی۔ حضرت عمرؓ مسجد میں لیٹے تھے۔ آواز آئی کہ میرا بندہ بقیع میں مجھے پکار رہا ہے، اس کی مدد کو پہنچو۔ عمرؓ ننگے پائوں دوڑے۔ دیکھا تو بڑے میاں جھاڑی کے پیچھے اپنا قصہ سنا رہے تھے۔ اس نے عمر ؓ کو دیکھا تو ڈر کر بھاگا۔ انہوں نے کہا کہ ٹھہرو، ٹھہرو! میں آیا نہیں بھیجا گیا ہوں۔ کہا: کس نے بھیجا ہے؟ کہنے لگے: جسے تم پکار رہے تھے اسی نے بھیجا ہے۔ اس نے آسمان پر نگاہ ڈالی، پھر کہنے لگا۔ اے اللہ! ستر سال تیری نافرمانی میں گزرے۔ تجھے کبھی یاد نہ کیا۔ جب کیا بھی تو اپنے پیٹ کی خاطر یاد کیا۔ تونے پھر بھی میری آواز پہ لبیک کہا… اے اللہ مجھ نافرمان کو معاف کر دے … پھر ایسا رویا کہ روتے روتے جان نکل گئی۔ حضرت عمر ؓ نے خود اس کا جنازہ پڑھایا۔
ہر شخص نے سکون قلب کے لئے اپنے اپنے نسخے آزما لئے، کبھی شراب میں ڈوبا، کبھی موسیقی میں ڈوبا، کبھی حسن و جمال میں ڈوبا، کبھی مال و دولت میں ڈوبا، کبھی سیاست میں ڈوبا تو کبھی سیاحت میں ڈوبا پَر اس کے دل کی دنیا آباد نہ ہو سکی اور نہ ہی ہوگی، کیونکہ جن کے دل کی دنیا ویران ہے، جو سکون کو ترس رہے ہیں جو چین کے متلاشی ہیں، جو اطمینان قلب چاہتے ہیں، ان کے لئے یہ سب نسخے بے کار ہیں، یہ شفا کے نسخے نہیں بلکہ زہر قاتل ہیں۔ شفا کا نسخہ تو وہی ہے جو انسان کے خالق و مالک نے بتایا ہے یعنی مجھے یاد کرو دل کی دنیا آباد ہوجائے گی، کیونکہ دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ کس قدر تعجب و افسوس کی بات ہے کہ آج جبکہ دنیا بھر کے کافر سکون کے حصول کیلئے اسلام کا سہارا لے رہے ہیں۔ قرآن و حدیث سے شفا حاصل کررہے ہیں، ہم گھر کے نسخے کو چھوڑ کر اغیارِ تہی دست کے طریقوں سے سکون کے طالب ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندے! ایک ارادہ تو کرتا ہے اور ایک ارادہ میں کرتا ہوں، جو تو چاہتا ہے وہ میرے بغیر ہوتا نہیں اور جو میں چاہتا ہوں وہ تم سب کے بغیر کر لیتا ہوں، لہٰذا تو بس ایک کام کر، جو میں چاہتا ہوں وہ کر، نفع و نقصان کو مت دیکھ پھر جو تو چاہے گا وہ میں کردوں گا۔ ایک اور جگہ فرمایا: جس نے نیک عمل کیا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان کامل والا بھی ہو تو ہم اسے دنیا میں بھی سکون کی زندگی دیں گے…………. اس کا یہ مطلب نہیں کہ دولت زیادہ ہوجائے گی بلکہ اسے اللہ تعالیٰ اطمینان قلب نصیب فرمائے گا۔ اس کے دل کو بادشاہ اور غنی کر دے گا، اس کے مقدر کی دنیا اس کے پائوں پڑتے آئے گی، سر پہ سوار نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا کہ اے میرے بندے! تو میرے تابع ہوجا میں تیرے دل کو سارے غموں سے نجات دے دوں گا اور تیرے دل کو غنی کرکے میں تیرے فقر و فاقے کو دور کردوں گا اور اگر تو نے میری طرف رجوع نہ کیا تو پھر یاد رکھ! میں تیرے اندر مصیبتیں، پریشانیاں اور بے سکونی بھر دوں گا اور تجھے مصروفیت میں پھنسا دوں گا اور تیرے اوپر مشغولی کے عذاب کو مسلط کردوں گا۔ پس جو سکون چاہتا ہے وہ اپنی زندگی اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقوں کے مطابق ڈھال لے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر عمل اس قدر پسند ہے کہ جو شخص جس وقت بھی کسی سنت پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور جسے اللہ محبت کی نظر سے دیکھے تو اس پر رحمت کی بارش ہوتی ہے اور سکون کا دوسرا نام رحمت الٰہی ہے۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے