حضرت معقل بن یسارؓ نے (بنوامیہ کے گورنر) عبیداللہ سے فرمایا کہ میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مسلمان رعیت کا حاکم ہو اور وہ اس حال میں مرجائے کہ اس رعیت کے ساتھ خیانت کررہا ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردے گا۔ (بخاری)
حقیقت یہ ہے کہ جس ملک کا حکمران دیانتداری سے اپنے فرائض سرانجام دیتا ہو اور ملکی خزانے کی کماحقہ حفاظت کرتا ہو وہ ملک بھی خوش بخت ہے اور اس کا حکمران بھی خوش نصیب ہے کیونکہ ایسا ملک خوشحال اور مضبوط ہوگا اور اس کے حکمران کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ بھلائی نصیب ہوگی۔ کسی علاقے کے صاحب اختیار لوگوں کے دیانتدار ہونے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ اس کے عوام بھی دیانتداری اختیار کرلیتے ہیں کیونکہ لوگ عموماً اپنے حکمران طبقے کی پیروی کرتے ہیں۔ پھر خواص اور عوام کی اس دیانتداری سے علاقے کو بے پناہ خیرو برکت حاصل ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو کام بھی دیانتدار لوگوں کے ہاتھوں سرانجام پاتا ہے اس پر خرچ نسبتاً کم اٹھتا ہے اور نتائج زیادہ نکلتے ہیں کیونکہ جودولت اس پر صرف ہوتی ہے اس کا کوئی حصہ بددیانتی کے باعث ضائع نہیں ہوتااور چونکہ اس کام کو فرض شناسی کے باعث محنت اور توجہ سے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہوتا ہے۔ اس لئے اس میں مضبوطی، پائیداری اور فائدہ مندی زیادہ ہوتی ہے۔
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایسے مسلم حکمرانوں کی کمی نہیں رہی جو نیکوکار، پاکباز، خداترس، آخرت کا خوف رکھنے والے اور دیانتداری سے کام لینے والے تھے۔تاریخ اسلام میں ایسے مثالی حکمرانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کی تفصیل بیان کرنے کے لئے پوری کتاب بھی کم ہے مگر ذیل میں ان میں سے صرف چند کے بارے میں کچھ حقائق پیش کیے جاتے ہیں جن سے پتہ چل سکتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے فرائض کو کتنی دیانتداری سے سرانجام دیا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بیت المال کے معاملے میں اتنے محتاط تھے کہ اس کا ایک درہم بھی بے محل صرف نہیں ہونے پاتا تھا۔ اس زمانے میں دولت جانوروں کی شکل میں بھی ہوتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیت المال کے ایک ایک اونٹ کو مع حلیے کے درج رجسٹر کرواتے تھے۔ ایک مرتبہ بیت المال کا ایک اونٹ بھاگ گیا، آپ خودبنفس نفیس اس کی تلاش میں نکلے۔ اس دوران ایک رئیس احنف بن قیس آپ کو ملنے کیلئے آگئے۔ انہوں نے دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دامن چڑھائے اونٹ کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں۔ احنف کو دیکھ کر فرمایا کہ آئو تم بھی میرا ساتھ دو۔ بیت المال کا ایک اونٹ بھا گ گیا ہے، تم جانتے ہو کہ ایک اونٹ میں کتنے غریبوں کا حق ہے۔ کسی شخص نے کہا کہ امیر المومنین آپ کیوں تکلیف فرماتے ہیں۔ کسی غلام کو حکم دیجئے ،وہ ڈھونڈلائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے بڑا غلام کون ہوسکتا ہے؟
اپنی ذات اور اولاد کے معاملے میں خصوصی طور پر بہت زیادہ احتیاط برتتے تھے۔ آپ کے زمانے میں روم اور ایران کے ساتھ جنگیں ہورہی تھیں اور بکثرت مال غنیمت آرہا تھا مگر آپ بیت المالک سے ضرورت کے مطابق وظیفہ لینے کے سوا کچھ اور لینا اپنے اوپر حرام سمجھتے تھے اور وظیفہ بھی بس اتنا ہوتا تھا جس سے گزارا چل جائے۔ ایک دفعہ بیمار تھے اور شہد کی ضرورت تھی۔ بیت المال میں شہد موجود تھا مگر اسے بطور خود لینا گوارا نہ کیا۔ مسجد نبویؐ میں آکر مسلمانوں سے کہا کہ اگر آپ لوگ اجازت دیں تو تھوڑا سا شہد لے لوں۔
ایسے ہی حضرت علی ؓ کو بھی بیت المال کی حفاظت کا بہت اہتمام ہوتا تھا۔ آپ بیت المال کی معمولی معمولی چیزیں بھی اپنی ذات اور اپنے متعلقین پر صرف نہیں ہونے دیتے تھے۔ ایک دفعہ اصفہان سے خراج آیا تو اس میں شہداور چربی بھی تھی۔ حضرت علی ؓ کی صاحبزادی ام کلثوم نے مانگ بھیجا تو خراج لانے والے صاحب عمرو بن سلمہ نے خاص مقدار میں دونوں چیزیں بھیج دیں۔ جب حضرت علیؓ کو پتہ چلا تو دونوں چیزیں واپس کرائیں اور جو جو چیز جتنی خرچ ہوچکی تھی اس کا اندازہ لگاکر اس کی قیمت ادا کی۔
آپ مالی سختیاں سہتے رہتے تھے مگر بیت المال سے کچھ لینے کے معاملے میں ہمیشہ محتاط رہتے تھے۔ ایک دفعہ تیز سردی میں پرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور سردی سے کانپ رہے تھے۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ امیرالمومنین! بیت المال میں آپ کا اور آپ کے اہل وعیال کا بھی حق ہے ،آپ اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں؟ فرمایا کہ میں تمہارے حصے کو نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ آپ کی مراد یہ تھی کہ اگر میں بیت المال سے اپنے حصے سے زیادہ لوں گا تو دوسرے مسلمانوں کی حق تلفی ہوگی۔ آپ کی یہ مالی تکالیف دیکھ کر ایک دفعہ آپ کے غلام قنبر نے بیت المال سے کچھ سونے چاندی کے برتن آپ کیلئے علیحدہ کرلئے۔ جب آپ کو پتہ چلا تو فرمایا ’’تیری ماں تجھے روئے تو میرے گھر کو اتنی بڑی آگ میں دھکیلنا چاہتا تھا۔‘‘ اور اسی وقت وہ برتن مسلمانوں میں تقسیم کردیے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی بیت المال کے معاملے میں ایسے ہی محتاط تھے اور اس کی پوری پوری حفاظت کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔ایک بار یمن کے بیت المال سے ایک دینار گم ہوگیا تو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس کے افسر کو لکھا کہ میں تمہاری امانت پر کوئی الزام نہیں لگاتا لیکن تمہاری بے پروائی اور غفلت کو مجرم قرار دیتا ہوں۔ میں مسلمانوں کے مال کا ان کی طرف سے مدعی ہوں ،تم پر فرض ہے کہ قسم کھائو۔اسی طرح اپنے معاملے میں بھی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ رات کو بیت المال کی شمع جلاکر خلافت کا کام کرتے تھے لیکن جب کوئی ذاتی کام کرنا ہوتا تو اس شمع کو اٹھوادیتے اور ذاتی چراغ جلا کر کام کرتے۔
یہ اور اس طرح کے اور بے شمار واقعات افسانے نہیں حقیقت ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر موجودہ دور میں ایسے مخلص حکمران کیوں دستیاب نہیں ہیں ؟ تو اس حوالے سے اﷲ تعالیٰ کا قاعدہ یہ چلا آرہا ہے کہ جیسے عوام ہوتے ہیں، اﷲ تعالیٰ ان پر ویسے ہی حکمرن مسلط فرمادیتا ہے ۔ جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں اللہ ہوں‘ میرے سوا کوئی معبود نہیں ،بادشاہوں کا مالک ہوں اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں‘ بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں‘ میرے بندے جب میری اطاعت کرتے ہیں تو میں ان کے بادشاہوں کے دل ان کی طرف رحمت اور شفقت سے متوجہ کردیتا ہوں اور بندے جب میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کی طرف بادشاہوں کے دل غصہ اور انتقام سے متوجہ کردیتا ہوں سو وہ انہیں سخت عذاب چکھاتے ہیں‘ اس لئے خود کو بادشاہوں پر بددعا میں مشغول نہ کرو بلکہ خود کو ذکر اللہ اور تضرع میں مشغول کرو تاکہ میں تمہیں تمہارے بادشاہوں کے مظالم سے محفوظ رکھوں (مشکوۃ)۔
ایک اور حدیث ہے: بے شک تمہارے اعمال تم پر حاکم بنائے جاتے ہیں اور جیسے تم ہوگے ویسے ہی تم پر حاکم مسلط کئے جائیں گے (المقاصد الحسنہ)۔
حضرت علی ص سے کسی نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ سے پہلے جو خلفاء گزرے ہیں ان کے دور میں بڑا امن و امان تھا‘ حالات بہت اچھے تھے‘ ہر شخص مطمئن تھا مگر آپ کے دور میں ایسا نہیں ہے؟ حضرت علی ص نے جواب دیا: اس لئے کہ وہ میرے جیسے لوگوں کے اوپر حکمران تھے اور میں تمہارے جیسے لوگوں پر حکمران ہوں۔
اللہ نے قرآن پاک میں بار بار تنبیہ فرمائی ہے کہ دنیا میں آفات و مصائب انسانوں کی نافرمانیوں اور گناہوں کا نتیجہ ہیں۔ جیسا کہ ایک جگہ ارشاد فرمایا۔ ’’خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب بلائیں پھیل رہی ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض اعمال کا مزا انہیں چکھا دے تاکہ وہ باز آجائیں‘‘۔ ایک اور جگہ فرمایا ’’اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کئے کاموں سے اور بہت سے (گناہ) تو وہ درگزر ہی کردیتا ‘‘ہے۔
اگر ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں اچھے اور مخلص حکمران میسر ہوں تو ہمیں اپنے حکمرانوں کو کوسنے کے بجائے اپنے رب کے ساتھ معاملات درست کرناہوں گے ،جب ہمارا رب ہم سے راضی ہوگا تو وہ ہمیں ایسے حکمران عطا فرمائے گاجو ہمارے دین ودنیا ،دونوں کی کامیابی کا ذریعہ بنیں گے ،ملک میں امن وامان ہوگا ،خوشحالی ہوگی ،روزگار ہوگا، ارزانی ہوگی ،پانی ،بجلی وگیس کی فراوانی ہوگی اور سکون واتحاد ہوگا مگر اس کے لئے ہمیں خود کو من حیث القوم بدلنا ہوگالیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم خود کو بدلنے کے لئے تو تیار نہیں اور چاہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اپنی سنت تبدیل لے اور یہ ممکن نہیں۔