یونائٹ کے چیئرمین مفتی ابوہریرہ محی الدین

ہم کیا چا ہیتے ہیں
محترم ومعزز سامعین اور ہماری اس تقریب کے معزز مہمانان گرامی
اس تاریخ ساز موقع پر میں دنیا کے تمام براعظموں سے تعلق رکھنے والے 24ممالک اور دنیا کے سات بڑے مذاہب کے مذہبی راہنمائوں نامور اسکالرز اور دنیا بھر میں مذہبی رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے جدوجہد کرنے والی شخصیات کو پاک سرزمین پر دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں اور مجھے اس بات کا یقین ہے کہ آپ کے تجربات اور خیالات سے ہم استفادہ کریں گے اور اس کانفرنس سے ہمارے ملک میں مذہبی رواداری اور مختلف مذاہب کے درمیان غلط فہمیوں کے زائل ہونے میں مدد ملے گی۔
جناب معزز مہمانان گرامی اور معزز سامعین کرام! بحیثیت مسلمان میرا یہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ دین اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے اور جس طرح ہمارے دین نے انسانیت کو تحفظ فراہم کیا ہے اسی طرح انسانوں کے عقائد اور نظریات کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے جس کا اندازہ قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’دین میں یعنی دین اسلام قبول کرنے میں کسی قسم کا جبر اور زبردستی نہیں ہے،یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ہمارے مذہب نے ہمیں یہ اجازت نہیں دی کہ ہم کسی بھی انسان کو اس کے نظریہ یا عقیدہ سے طاقت کے ذریعے ہٹادیں بلکہ ہمارے دین نے ہر شخص کو یہ احترام دیا ہے کہ وہ اپنی سوچ اور اپنی فکر کے مطابق آزادانہ زندگی گزارے ، اسی طرح ہمارے مذہب نے ہمیں اس بات کا بھی پابند کیا ہے کہ ہم دوسرے مذاہب کی تعلیمات اور ان کی مذہبی شخصیات کے بارے میں کسی قسم کی نازیبا گفتگو نہ کریں تاکہ کسی انسان کی دل آزاری نہ ہو، میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ بنیادی تعلیمات ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نہ صرف دوسروں کے عقائد کو برداشت کرتا ہے بلکہ انہیں یہ تحفظ بھی فراہم کرتا ہے کہ وہ آزادی سے معاشرہ میں اپنی مذہبی روایات کے مطابق زندگی گزاریں اور کوئی بھی شخص کسی دوسرے کو طاقت وقوت سے ان کے نظریات اور عقائد سے ہٹانے کی کوشش نہ کرے۔ 
یہی وہ اصول اور تعلیمات ہیں جو ہمیں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مطہرہ میں بھی نظر آتی ہیں، مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمانے کے بعد نبی رحمت نے جو معاشرہ قائم فرمایا اس میں غیر مسلم رعایا کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی کس قدر رعایت رکھی گئی اس کو بیان کرنے کے لیے صرف ایک یہ فرمان ہی کافی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’خبردار جو کسی معاہد یعنی غیر مسلم شہری پر ظلم کرے گا یا اس کے حقوق میں کمی کوتاہی کرے گا یا اس کی طاقت وقوت سے زیادہ اس سے کام لے گا یا کسی غیر مسلم شہری کی کوئی چیز بغیر اس کی اجازت کے استعمال میں لائے گا کل قیامت کے دن میں اس غیر مسلم شہری کا حجیج یعنی وکیل بن کر اس کا بدلہ دلوائوں گا‘‘۔ یہ حدیث مبارکہ اسلامی ریاست میں موجود غیر مسلموں کو تحفظ فراہم کرتی ہے ، ہم سب کو اس بات کا پابند بناتی ہے کہ معاشرے میں موجود غیر مسلم شہریوں کو نہ صرف برابر کے حقوق دیں بلکہ ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد بھی کریں، معاشرے میں موجود کسی غیر مسلم کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا یا اس کو قتل کرنا یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس مسلمان نے معاہد یعنی غیر مسلم شہری کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں محسوس نہیں کرے گا ‘‘اتنی بڑی وعید کے بعد کسی مسلمان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ غیر مسلموں کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی سکے۔
جناب معزز مہمانان گرامی! اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے جسے برصغیر کے مسلمانوں نے بڑی قربانیوں کے بعد حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں حاصل کیا لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس ریاست میں بھی موجود غیر مسلم شہریوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو دین اسلام نے انہیں عطا کیے ہیں اور یہی اسلامی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کرے اور ان سے کسی بھی قسم کا تعصب نہ رکھا جائے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں واضح طور پر غیر مسلم شہریوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے جس پرہم سب کو فخر ہونا چاہیے، ہمارے آئین کے آرٹیکل 20کے تحت یہاں بسنے والے تمام غیر مسلم شہریوں کو اپنی مذہبی عبادات ادا کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے، اسی طرح آئین پاکستان کا آرٹیکل 22ہم سب کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ غیر مسلم شہری کو زبردستی کسی مذہبی تقریب یا عبادت میں شریک نہیں کیا جائے گا اور سب سے بڑھ کر آرٹیکل 34اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بطور ریاست اس بات کا پابند کرتا ہے کہ اس میں بسنے والے تمام غیر مسلم شہریوں اور اقلیتوں کو تحفظ دینا اور ان کے مفادات کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور آئین پاکستان اس حد تک اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے کہ ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا قابل تعزیر جرم ہے اور اس قبیح حرکت کے مرتکب شخص کو قید اور جرمانہ کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
جناب معزز مہمانان گرامی ! ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے غیر مسلم شہری کئی اعتبار سے دنیا میں موجود دیگر اقلیتوں سے بہت بہتر حالات میں زندگی گزار رہے ہیں لیکن ہمیں یہ جدوجہد جاری رکھنی چاہیے کہ ہمارے غیر مسلم بھائیوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں جو دین اسلام اور آئین پاکستان نے انہیں دیے ہیں اوریہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ایسی قوتوں اور طاقتوں کے خلاف جدوجہد کریں جو ہمارے غیر مسلم بھائیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم ہیں ۔
جناب معزز مہمانان گرامی! یونائیٹ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ، مذہبی رواداری اور ملک کے مختلف حصوں میں مذہبی منافرت کے خاتمے کے لیے اور ملک میں امن وامان ،محبت واخوت اور انسانیت کی عظمت کو فروغ دینے کے لیے تشکیل دی گئی ہے اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی محترم جناب سردار محمد یوسف اس تنظیم کے سرپرست اعلیٰ اور میں اس کا چیئرمین ہوں۔
اور آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ جون 2015ء کو قائم ہونے والی اس تنظیم نے نہایت ہی قلیل وقت میں وہ کارنامہ سرانجام دیا ہے جو اب تاریخ کا حصہ بن رہا ہے، آج آپ جس کانفرنس کا افتتاح فرمارہے ہیں یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ میں اس موضوع پر ہونے والی پہلی عالمی کانفرنس ہے اور مجھے خوشی ہے کہ نامساعد حالات اور قلیل وقت کے باوجود 26ممالک کے مندوبین آپ کے سامنے موجود ہیں اور الحمدللہ! اس کانفرنس میں دنیا کے سات بڑے مذاہب کے رہنما اور اسکالرز شرکت کررہے ہیں جو ملکی تاریخ میں ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ اس کانفرنس سے ملکی وقار میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں کیے جانے والے منفی پروپیگنڈے کو بھی زائل کرنے میں مدد ملے گی۔
جناب معزز مہمانان گرامی! اس کانفرنس میں شریک عالمی شخصیات اور اداروں کی آراء اور تجاویز کی روشنی میں ملک میں مذہبی رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ایک لائحہ عمل بھی تشکیل دیا جاسکے گا اور ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہم شدت پسندی، دہشت گردی اور مذہبی منافرت پھیلانے والے عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور بھرپور کوشش کی جائے گی کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کاا میج بہتر ہوسکے۔
جناب معزز مہمانان گرامی! اس عظیم موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں آپ کی خدمت میں یہ گزارش بھی پیش کرنا چاہوں گا کہ ہماری تنظیم یونائیٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ مستقبل میں دارالحکومت اسلام آباد میں ڈائیلاگ سینٹر کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا اور ان شاء اللہ اس ڈائیلاگ سینٹر کے ذریعے ہم نہ صرف ملکی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ اور مذہبی منافرت کے خاتمہ کے لیے کام کریں گے بلکہ اس سینٹر 
میرےکے ذریعے ہم عالمی سطح پر بھی انٹرفیتھ ھارمنی اور ڈائیلاگ کے فروغ کے لیے سرگرم تمام اداروں سے بھی منسلک ہوں گے اور بین الاقوامی سطح پر بھی مذہبی رواداری کے فروغ میں کردار ادا کریں گے جس سے یقینا ملکی وقار میں اضافہ ہوگا۔یہ ڈائیلاگ سینٹر نہ صرف مختلف مذاہب کے درمیان غلط فہمیوں کا ازالہ کرے گا بلکہ ملک کے کسی بھی حصے میں ہونے والی مذہبی منافرت اور تنازعات کے خاتمے کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کرے گا اور عوامی سطح پر غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھی کردار ادا کرے گااور دین اسلام اور آئین پاکستان میں اقلیتوں کو دیے گئے حقوق کے بارے میں آگاہی مہم بھی جاری رکھے گا جس سے نہ صرف ملک میں موجود غیر شہریوں کے حقوق ان کی مذہبی آزادی اور ان کی جان ومال کا تحفظ بھی ہوگا بلکہ ملک میں مذہبی رواداری بھی فروغ پائے گی اور ملک میں موجود تمام مذہبی طبقات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوکر ملک کی تعمیر وترقی میں گرانقدر خدمات انجام دے سکیں گے۔
جناب معزز مہمانان گرامی! آج دنیا کے حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ محبت واخوت کو فروغ دیا جائے، امن وسلامتی کا پیغام عام کیا جائے، انسانیت کے احترام اور اس کی عظمت کی بات کی جائے، دلوں کو جوڑنے کی کوشش کی جائے، نفرت ،عداوت، قتل وغارت گری اور دہشت گردی کے خلاف منظم جدوجہد کی جائے اور مذہبی رواداری کے فروغ کے لیے کام کیا جائے۔
مذہبی لبادہ اوڑھ کر تخریب کاری اور دہشت گردی کرنے والوں نے معاشروں میں تباہی پھیلارکھی ہے اور ان شدت پسند تحریکوں نے مذاہب کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے اور آج کا نوجوان تخریب کاری، قتل وغارت گری اور دہشت گردی کا ذمہ دار مذہبی تعلیمات کو سمجھنے لگا ہے اور ردعمل کے طور پر وہ مذہب سے بیزار ہوتا جارہا ہے۔
ہماری اس عالمی کانفرنس کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہر شخص اپنے مذہب کی طرف لوٹ جائے اور مذہبی تعلیمات کو اپناکر دنیا کو امن وسکون کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔نوجوانوں میں مذہبی تعلیمات کو فروغ دینے کی جدوجہد کی جائے اور عالمی سطح پر اس تاثر کی نفی کی جائے کہ مذاہب اقوام عالم کے درمیان نفرت وعداوت کو فروغ دینے کا باعث بن رہے ہیں اور دہشت گردی اور شدت پسندی کا تعلق مذہبی تعلیمات سے ہے۔
اس موقع پر میں دنیا کے امن وامان تباہ کرنے والی تمام دہشت گرد تنظیموں تمام شدت پسند تنظیموں سے لاتعلقی کا اظہار کرتا ہوں اور بحیثیت مسلمان اس بات کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کرتا ہوں کہ ان شدت پسند تنظیموں کا اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور ان کی سرگرمیاں اسلامی تعلیمات کے برعکس ہیں اور خالصتاً دہشت گردی اور تخریب کاری ہیں جن کی ہم کھل کر مذمت کرتے ہیں۔
اور یہی توقع میں یہاں موجود تمام معزز مہمانوں سے رکھتا ہوں کہ وہ اپنے معاشروں میں موجود ایسے عناصر اور ایسی تنظیموں کی کھل کر مذمت کریں اور نوجوانوں کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ ان دہشت گردوں اور تخریب کاروں کا مذہب یا مذہبی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 
آخر میں، میں ایک مرتبہ پھر دنیا سے تشریف لائے ہوئے تمام معزز وفود اور اس تقریب کے انعقاد میں تعاون کرنے والے تمام افراد اور اداروں کا مشکور ہوں کہ جن کے گراں قدر تعاون سے یہ تاریخی تقریب منعقد ہوئی خصوصاً وفاقی وزیر برائے مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی محترم جناب سردار محمد یوسف صاحب، وفاقی سیکریٹری برائے مذہبی امور محترم جناب مرزا سہیل عامر، وفاقی سیکریٹری برائے داخلہ جوائنٹ سیکریٹریز اور تمام احباب کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ جن کی سرپرستی ہمیں حاصل رہی، اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور اس کانفرنس کو ملک وقوم کے لیے نافع بنائے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے