چند عرصہ قبل روزنامہ پاکستان لاہور کے زیر انتظام ’’اسلام اور مغرب کے مابین درپیش چیلنجز اور مواقع‘‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار منعقد ہوا جس کا اہتمام پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز (پائنا) نے کیا ہے اور صدارت ملک کے معروف دانشور اور قانون دان جناب ایس ایم ظفر نے فرمائی ۔ سیمینار سے خطاب کرنے والوں میں جسٹس (ر) خلیل الرحمن‘ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری‘ سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد اور دیگر ارباب دانش کے علاوہ اسپین سے تشریف لانے والے دو معروف دانش پروفیسر پری ویلا نووہ اور پروفیسر راحیل بیونو بھی شامل تھے۔
سیمینار میں ہونے والی گفتگو کے اہم نکات میں اسلام اور مغرب کے مابین مبینہ طور پر پائی جانے والی غلط فہمیاں‘ دہشت گردی‘ انتہا پسندی‘ مذہبی اختلافات‘ جنگ آزادی اور دہشت گردی میں فرق‘ فلسطین وکشمیر جیسے مسائل اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کا رویہ جیسے امور خاص طور پر قابل ذکر ہیں اور ان میں سے ہر نکتہ سنجیدہ گفتگو کا متقاضی ہے مگر ہم سردست اس تقریب کے صدر جناب ایس ایم ظفر کے بعض ارشادات کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنے کی ضرورت محسوس کررہے ہیں ۔
’’ایس ایم ظفر نے کہا کہ مغرب اور اسلام میں غلط فہمیاں دور ہورہی ہیں۔ اگر دونوں ایک دوسرے کی اچھی باتیں اپنالیں تو اسلام مغرب سے جمہوریت‘ شہریوں کے انسانی حقوق‘ علم اور ٹیکنالوجی کا سبق سیکھ سکتا ہے جبکہ مغرب اسلام کے خاندانی نظام کو اپناکر اپنے بہت سے معاشرتی مسائل دور کرسکتا ہے‘ انہوں نے کہا کہ اسلام کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ مسلمان جمہوری کلچر کی طرف آئیں۔ آج میڈیا کا دور ہے مگر اسلام اس سلسلے میں بہت پیچھے ہے۔ ہمیں میڈیا سینٹر بنانے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں مسلمانوں کو درپیش مسائل حل کرنا ہوں گے جن میں فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہے۔‘‘
ہم محترم ایس ایم ظفر صاحب کی اس گفتگو میں سے دونکات پر کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام اور مغرب کے درمیان مبینہ طور پر پائی جانے والی غلط فہمیوں کا دائرہ کیا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ مسلمانوں کو مغرب سے کون کون سی چیزیں سیکھنے کی ضرورت ہے؟
یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ مسلمانوں اور مغرب کے درمیان غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور ان کے مابین کشمکش کی موجودہ فضا زیادہ تر غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے‘ جنہیں اگر دور کردیا جائے تو کشمکش کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے اور مسلمان اور مغرب آپس میں قریب آسکتے ہیں۔ بظاہر یہ بات بہت قرین قیاس اور مستقبل کے حوالے سے امید افزا لگتی ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ معروضی صورت حال اور زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی‘ اس لیے کہ مغرب کے بارے میں یہ تصور رکھنا کہ وہ اسلام اور مسلمانوںکے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہے‘ خود مغرب کی ذہنی سطح‘ نفسیاتی ماحول اور تحلیل وتجزیہ کی استعداد وصلاحیت سے بے خبری یا اسے شک وشبہ کا شکار بنانے کے مترادف ہے کیونکہ مسلمانوں کے بارے میں تو یہ سوچا جاسکتا ہے کہ وہ علم وخبر کے ذرائع اور ذوق کی کمی کے باعث مغرب کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہیں اور تحلیل وتجزیہ‘ باریک بینی اور مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت کی کمزور کی وجہ سے مغرب کے مقاصد اور عزائم کو پوری طرح نہیں سمجھ پارہے ہیں لیکن کیا مغرب بھی مسلمانوں کے حوالے سے اسی سطح پر ہے؟ ہمارے خیال میں اس سوال کا اثبات میں جواب دینا مشکل ہوگا۔
یہ بات ہم تسلیم کرتے ہیں کہ سارے مغرب کی ذہنی سطح ایک نہیں ہے اور ہمیں یہ بات قبول کرنے میں بھی کوئی حجاب نہیں ہے کہ مغرب کے سارے طبقات اور افراد اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایک طرح سے نہیں سوچتے‘ لیکن یہ بات ہمارے نزدیک کسی بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ مغرب میں دانش‘ سیاست اور اقتدار کے حوالے سے جو طبقہ ’’رولنگ کلاس‘‘ سے تعلق رکھتا ہے اور جو اس وقت عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں سے نبرد آزما ہے‘ وہ کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہیں ہے‘ بلکہ وہ سالہا سال کی نہیں بلکہ صدیوں کی علمی وفکری محنت کے ذریعے سے اس بات کا خوب اچھی طرح شعور رکھتے ہوئے کام کررہا ہے کہ جس عالمی نظام اور گلوبل کلچر کو وہ دنیا میں مستقبل کے واحد نظام اور کلچر کے طور پر متعارف کرانے بلکہ اسے غلبہ دلانے کی کوشش کررہا ہے‘ اس کی راہ میں اگر کوئی فلسفہ حیات اور ثقافتی نظام رکاوٹ بن سکتا ہے تو وہ صرف اسلام ہے جسے راہ سے ہٹانے کیلئے مغرب کی رولنگ کلاس اسلام اور مسلمانوں کے اہل دین کو کردار کشی کے ذریعے سے بدنام اور جبروتشدد کے ذریعے سے بے بس بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ اس لیے ہم اپنے ارباب دانش سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ محض ’’غلط فہمیوں‘‘ کے چکر میں اپنا وقت اور صلاحیتیں ضائع نہ کریں‘ بلکہ مغرب کی رولنگ کلاس کے اہداف‘ پروگرام‘ طریق کار اور مراحل کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں۔
دوسری بات جناب ایس ایم ظفر کے اس ارشاد کے حوالے سے ہے کہ مسلمانوں کو مغرب سے جمہوریت‘ انسانی حقوق‘ علم اور ٹیکنالوجی سیکھنی چاہیے۔ جہاں تک جدید علوم‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کا تعلق ہے‘ ہمیں محترم ظفر صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ہم اس میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور دراصل اسی اجتماعی جرم اور کوتاہی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں‘ اس لیے ہمیں ان ضروریات کی تکمیل بہرحال مغرب کی مدد سے ہی کرنی ہے جس کیلئے ہم تو اب کسی درجہ میں تیار ہیں لیکن مغرب ایک خاص حد سے آگے ہمیں اس سلسلے میں کسی قسم کا تعاون یا سہولت فراہم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اور اس نے جدید علوم اور سائنس وٹیکنالوجی کے حوالے سے ہمارے گرد ایسی مضبوط ریڈ لائن کا گھیرا ڈال رکھا ہے کہ ہمارے لیے اس حصار کو توڑنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان کے قومی ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مقدمہ خود ایس ایم ظفر صاحب نے لڑا تھا‘ اس لیے ان سے بہتر ان معروضی حقیقت سے اور کون واقف ہوسکتا ہے کہ جدید علوم‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کا مغرب سے اس درجہ کا سبق سیکھنا جس کی ہمیں ملی سطح پر ضرورت ہے اب ممکن نہیں رہا‘ چنانچہ اب یہ بات بھی ہمارے دانشوروں کی ذمہ داری میں شامل ہوگئی ہے کہ وہ امت مسلمہ کو مغرب سے سائنس‘ ٹیکنالوجی اور جدید علوم سیکھنے کا مشورہ دیتے رہنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ کوئی متبادل راستہ بھی امت کو دکھائیں کہ مغرب نے علم‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کے معروف راستے امت مسلہ پر چاروں طرف سے بند کررکھے ہیں اور کوئی متبادل صورت نکالے بغیر امت مسلمہ کیلئے اب اس راستے میں آگے بڑھنے کا کوئی امکان بہ ظاہر دکھائی نہیں دے رہا۔
باقی رہی بات مغرب سے جمہوریت اور انسانی حقوق کا سبق حاصل کرنے کی تو ہمیں اس باب میں محترم ظفر صاحب کے ارشاد سے اتفاق نہیں ہے‘ اس لیے کہ مغرب نے جمہوریت اور انسانی حقوق دونوں کا توازن جس بری طرح بگاڑ دیا ہے اسے اسلام کے بنیادی معتقدات اور قرآن وسنت پر ایمان رکھتے ہوئے قبول کرنا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ مغرب نے جمہوریت اور جمہور کو آسمانی تعلیمات اور وحی کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دے کر جس مادر پدر آزادی کو فروغ دیا ہے‘ اسلام اسے تسلیم نہیں کرتا اور اس کے ساتھ ہی مغرب نے حقوق اللہ کو نظر انداز کرکے اور انسانوں کے باہمی حقوق کو مذہبی اخلاقیات سے آزاد کرکے خالصتاً مادہ پرستی پر مبنی انسانی حقوق کا جو نیٹ ورک قائم کررکھا ہے وہ بھی اسلام کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔
ہم جمہوریت اور انسانی حقوق‘ دونوں کو انسانی سوسائٹی کی ناگزیر ضرورت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور اس سلسلے میں مسلم معاشروں اور ممالک واقوام کی تمام تر کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان دونوں اصولوں کی طرف مسلم امہ کی واپسی کو امت مسلمہ کیلئے وقت کا سب سے بڑا تقاضا تصور کرتے ہیں لیکن یہ مغرب کا فلسفہ وفکر اور نظام وثقافت کے حوالے سے نہیں بلکہ قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کے سنہری اصولوں کی روشنی میں ہوگا‘ اس لیے ہمارے خیال میں بہت سے مسلم دانش وروں کا یہ طرز عمل درست نہیں کہ وہ مسلمانوں کو مغرب کے جمہوریت اور انسانی حقوق کے تصور کو اپنانے کا مشورہ دیتے رہیں‘ بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کی روشنی میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی وضاحت کریں اور مغرب کے ساتھ ان کے تضاد کی نشان دہی کرتے ہوئے امت مسلمہ کو قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کے سنہری اصولوں کی پیروی کیلئے تیار کریں۔