محبت کی شادیاں اور ہماری اعلیٰ عدالتیں

ہماری اعلیٰ عدالتوں میں کچھ عرصہ سے محبت کی شادیوں کے مقدمات کثرت اور تواتر کے ساتھ آرہے ہیں۔ ان کا ایک پہلو یہ ہے کہ ان سے ہمارے معاشرے میں شادی اور نکاح کے حوالے سے لڑکوں اور لڑکیوں کی رضامندی اور خوشی کو نظر انداز کرنے کے رجحانات کا اندازہ ہوتا ہے جو بلاشبہ زیادتی ہے اور شریعت کے تقاضوں کے منافی ہے۔ کیونکہ اسلام نے بالغ لڑکے اور لڑکی کے رشتہ و نکاح کے معاملہ میں ان کی رضامندی کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ مغربی حکومتوں اور اداروں کی طرف سے اپنے کلچر اور تمدن و ثقافت کو مشرقی اور اسلامی ممالک میں رواج دینے کی خواہش کے پورا ہونے میں ہمارا خاندانی نظام اور خاندانی روایات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس لیے لڑکوں اور لڑکیوں کی مکمل آزادی کے اس نوعیت کے عدالتی سرٹیفکیٹس مسلم معاشرے کے فیملی سسٹم اور خاندانی روایات و اقدار کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
چنانچہ اس قسم کے مقدمات اور ان کے فیصلوں کا جائزہ ان دونوں پہلوو¿ں کو سامنے رکھ کر لینا ہوگا۔ اور چونکہ ہائی کورٹس کے فیصلے ملک کے قانون کا حصہ بن رہے ہیں اس لیے دینی اور علمی مراکز کی ذمے داری میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ان فیصلوں اور سوسائٹی پر پڑنے والے ان کے اثرات پر نظر رکھیں اور قرآن و سنت اور اسلامی روایات کی روشنی میں قوم کی رہنمائی کریں۔
جہاں تک محبت کا تعلق ہے یہ ایک فطری جذبہ ہے۔ اسلام نے نہ صرف یہ کہ اس کی نفی نہیں کی بلکہ جائز حدود میں ہو تو اس کا احترام کیا ہے اور ایک جائز رجحان کے طور پر اسے تسلیم کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث نبوی کا حوالہ دینا چاہوں گا جو امام ابن ماجہؒ ، امام حاکمؒ ، امام بیہقیؒ اور امام طبرانیؒ نے اپنی اپنی کتابوں میں روایت کی ہے اور حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی نے اعلاءالسنن میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ ارشاد نبویﷺ ہے کہ”دو محبت کرنے والوں کے مسئلہ کا نکاح جیسا کوئی حل نہیں دیکھا گیا۔“
یعنی اگر کسی مرد اور عورت میں محبت ہو جائے تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ان کا آپس میں نکاح کر دیا جائے۔ جبکہ امام جلال الدین سیوطیؒ نے ”اسباب درود الحدیث“ میں اس حدیث کا پس منظر یہ بیان کیا ہے جو حضرت جابر بن عبد اللہؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ دونوں سے روایت ہے۔ وہ یہ کہ ایک شخص جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہماری ایک لڑکی ہے جس کی ہم شادی کرنا چاہتے ہیں۔ مگر قصہ یہ ہے کہ ہم اس کی شادی ایک مالدار نوجوان سے کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ایک غریب نوجوان سے محبت کرتی ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس پر جناب نبی اکرمﷺ نے وہ بات فرمائی جس کا اوپر تذکرہ ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک عورت کی کسی مرد سے محبت کے جذبہ کو بھی اسلام رد نہیں کرتا اور جناب نبی اکرمﷺ نے اسے ملحوظ رکھنے کی ہدایت فرمائی ہے۔
لیکن محبت کا دائرہ اور اس کی حدود کیا ہیں؟ اس سلسلہ میں بھی قرآن کریم اور سنت نبویﷺ میں واضح ہدایات ملتی ہیں۔ مثلاً قرآن کریم نے سورة النساءآیت 25 اور سورة المائدہ آیت 5 میں کسی بھی مرد اور عورت کے خفیہ تعلقات کو ناجائز قرار دیا ہے۔ اور آنحضرتﷺ نے واضح اور صحیح احادیث میں غیر محرم عورت کو بلاوجہ دیکھنے، اور آپس میں حرمت کا رشتہ نہ رکھنے والے کسی بھی مرد اور عورت کے کسی جگہ تنہا ہونے کی ممانعت فرمائی ہے۔ چنانچہ مرد اور عورت کے باہمی روابط و تعلقات اور پردہ و خلوت کے معاملہ میں شرعی احکام کو سامنے رکھا جائے تو اس محبت کا کسی درجہ میں کوئی جواز نہیں بنتا جو ہمارے ہاں خفیہ تعلقات سے شروع ہوتی ہے اور خطوط کے درپردہ باہمی تبادلہ سے لے کر تنہائی کی ملاقاتوں کے مراحل طے کرتے ہوئے لو میرج کی منزل تک جا پہنچتی ہے۔
چنانچہ محبت کی جائز صورت یہی سامنے آتی ہے کہ کوئی لڑکا کسی لڑکی کے بارے میں یا لڑکی کسی لڑکے کے بارے میں دوسروں سے معلومات حاصل کر کے یا پھر کسی مجلس میں اتفاقیہ ملاقات ہونے پر اسے دیکھ کر متاثر ہو جائے اور دونوں میں انس اور محبت کا رجحان پرورش پانے لگے۔ اس صورت میں محبت اس وقت قابل قبول ہوگی جب کوئی اور رکاوٹ موجود نہ ہو اور اس سے کوئی شرعی یا معاشرتی خرابی پیدا نہ ہو۔ مثلاً حافظ ابن القیمؒ نے سیرت نبویﷺ پر اپنی شہرہ آفاق کتاب ”زاد المعاد“ میں درجہ بدرجہ ان پانچ خرابیوں کی نشاندہی کی ہے جو مرد اور عورت کے خفیہ تعلقات کی صورت میں پیدا ہوتی ہیں۔
غیر محرم عورت سے بے تکلفانہ گفتگو، علیحدگی میں ملاقات اور خفیہ مراسم اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔اگر وہ عورت کسی اور شخص کی بیوی ہے تو یہ عمل اس کے خاوند کی حق تلفی ہے۔اگر مرد کی طرف سے یہ بے تکلفی پیدا کرنے میں کسی طرح کے جبر اور دباو¿ کا دخل ہے تو یہ خود اس عورت کی بھی حق تلفی شمار ہوگی۔ان تعلقات کے انکشافات پر عورت کے خاندان کو معاشرے میں ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس صورت میں یہ اہل خاندان کی حق تلفی ہوگی۔اور اگر خدانخواستہ کسی ایسی عورت سے بے تکلفی جائز حدود کو پھلانگ رہی ہے جو محرم عورتوں میں شمار ہوتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی دوہری نافرمانی ہے۔
حافظ ابن القیمؒ نے یہ 5 حق تلفیاں زنا کے نقصانات میں شمار کی ہیں۔ لیکن اگر محبت کے اس تصور اور پراسیس کو دیکھا جائے جو ہمارے ہاں مروج ہے اور جس پر ”لو میرج“ کے کم از کم 95 فیصد واقعات کی بنیاد ہوتی ہے تو اپنے نتائج کے لحاظ سے وہ بھی اس سے کسی صورت میں مختلف نہیں ہے اور یہ 5 خرابیاں اس میں بھی واضح طور پر پائی جاتی ہیں۔
مگر ہمارے فاضل جج صاحبان اس پورے پراسیس سے آنکھیں بند کرتے ہوئے محبت اور رضامندی کی شادیوں کو جواز کا سرٹیفکیٹ مہیا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس لیے بڑے ادب کے ساتھ معزز عدلیہ سے یہ سوال کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ محبت اور رضامندی دونوں کی اہمیت مسلم ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں اس محبت اور رضامندی تک پہنچنے کے جو مراحل مروج ہیں، کیا قرآن و سنت نے ان مراحل کے بارے میں بھی کوئی حکم دیا ہے یا نہیں؟ اور اگر قرآن و سنت میں ان کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں تو ہمارے جج صاحبان نے ان پر عملدرآمد کے لیے کون سا طریق کار تجویز کیا ہے؟

 

Please follow and like us:

سیاسی جما عتیں ان کے منشور اور عوام

 

منشور ودستور آج کے جمہوری نظام میں ہر سیاسی جماعت کی اساس اور ایک لازمی جُز ہے۔ اس کے ذریعے وہ الیکشن کمیشن کے ضروری تقاضے پورے کرنے کے علاوہ عوام کو بہلانے پھسلانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں بہت کم ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جنہوں نے اپنے منشور کے کم ازکم بڑے بڑے نکات اور عوام سے کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنایا ہو، اس کمی کوتاہی کی کیا وجوہات ہیں، اس پر تفصیلی بات کرنے کی ضرورت ہے لیکن اتنی بات سب کو معلوم ہے کہ منشور میں درج بڑے بڑے وعدے صرف وہ سبز باغ ہوتے ہیں جو عوام کے ووٹ ہتھیانے کے لیے دکھائے جاتے ہیں۔ ورنہ کیا بات ہے کہ 70 برس گزرنے کے باوجود تعلیم جیسی بنیادی ضرورت اور ہر شہری کا بنیادی حق ہونے کے باوجود وطن عزیز میں عام اور ارزاں نہ ہوسکی۔ اقراءکے مبارک وحی ربّانی پر مبنی لفظ کے باوجود پاکستان کی شرح خواندگی ،تعلیم نہیں (شرح خواندگی اور تعلیم میں بہت بڑا فرق ہے) چالیس پچاس فیصد نہ بڑھ سکی۔ خواتین میں تو شاید یہ شرح اور بھی کم ہے، حالانکہ میٹرک تک تعلیم عام کرنے، لازمی کرنے اور مفت کرنے کے دعوے ہر سیاسی جماعت کے منشور میں جلی حروف سے لکھے ہوتے ہیں ۔ اگر حکومت میں آنے اور اقتدار حاصل کرنے والی کوئی جماعت اس بات میں واقعی سنجیدہ ہو کہ وطن عزیز کے عوام پڑھے لکھے، مہذّب اور شائستہ وبااخلاق ہوں، تو اِن اہم نکات کو معاشرتی زندگی کا لازمی جزو بنانے کے لیے تعلیم وتربیت کے علاوہ کوئی دوسرا فارمولا آج تک سامنے نہیں آیا ہے۔
اسلام نے تو اسی لیے حصول علم پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ طلب علم فرض ہے اس لیے اسلامی ملک اور معاشرے میں یہ تصور حرام ہے کہ اس کے باشندے ان پڑھ ہوں گے، دنیا کی ساری ترقی یافتہ اقوام نے اسلام کے زریں اصولوں بالخصوص علم کے لیے شدید پیاس وتڑپ ہی سے سیکھ کر علمی میدانوں میں تفتیش وتحقیق کے ذریعے کامیابی کے جھنڈے گاڑھے ہیں۔ یورپ کے وہ عوام جو مطلق العنان جابر بادشاہوں کے ظلم واستبداد کے تحت غلاموں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور تھے اور یکسائی نظام تعلیم میں عام آدمی کو بائبل کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں تھی کہ یہ ”خدائی مخلوق “ یا خدائی فریستادہ پادری فادر کا فریضہ تھا، سپین میں مسلمانوں ہی کے میل جول سے علوم کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور انسانی آزادی اور احترام انسانیت سے شناسا ہوگئے۔ یہی حال ہندومت کا تھا، مقدس ویدوں کو ہاتھ لگانا، اس کی تعلیم دنیا اور توضیح وتشریح کرنا صرف برھمن پنڈتوں کا مقدس فریضہ تھا۔
یہ اسلام ہی ہے جس نے ساری انسانیت کے لیے تعلیم کو امر قرار دے کر لازمی کرلیا، اسلام میں ہر مسلمان قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرکے اور عمل پیرا ہوکر اس مقدس وکامیابی وکامرانی سے مزین تعلیمات دوسروں تک پہنچا سکتا ہے یہ صرف مولوی مولانا کا کام نہیں ہے، اسی بات نے مسلمانوں کے اندر بحیثیت فرد وقوم احترام انسانیت کے ساتھ خودی اور خودداری اور خود اعتمادی کا ایسا جوہر پھیلایا کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی کو غلام بنالے۔ اسلام ہی نے سکھایا کہ ہر انسان اپنی ماں کی کوکھ سے آزاد پیدا ہوا ہے۔ یہ سلسلہ ایک مدت تک مسلمان معاشروں میں جاری وساری رہا اور مسلمان ایک غالب وطاقتور قوم وامت کی حیثیت سے جیتے رہے۔
لیکن جب استعمار نے امت پر غلبہ پایا تو نظام تعلیم کے ساتھ مقاصدِ تعلیم بھی تبدیل ہوئے اور پھر جب مسلمان ممالک میں استعماری طاقتوں اور ملکوں نے خلافت کو پارہ پارہ کرکے 57 ملکوں میں تقسیم کیا تو یہاں جو سیاسی نظام ورثے میں دیا وہ نام کا جمہوری نظام تھا لیکن مغرب اور مسلمانوں کے ہاں جمہوری نظام میں زمین وآسمان کا فرق ہے، اسی سبب ہمارے ہاں کی سیاسی جماعتیں منشور ودستور کے حاملین ہونے کے باوجود کبھی مغربی سیاسی جماعتوں کی طرح عوام کو جوابدہ نہ ٹھہریں۔ بلکہ وطن عزیز میں گزشتہ 70 برسوں سے جو کھیل جاری ہے وہ یوں ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ذریعے جب کبھی لولی لنگڑی جمہوریت آتی ہے، سب کچھ منشور ودستور کے برعکس کرتی ہے اور نتیجتاً اس جمہوریت سے تنگ آکر عوام کسی آمر کے آنے کی دعائیں مانگنے لگتے ہیں اور آمر کے آنے پر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں اور جب آمر دس گیارہ سال کے لیے قبضہ جمالیتا ہے تو جمہوری سیاسی جماعتیں عوام کو جمہوریت کے نام پر دہائی دے دے کر سڑکوں پر لے آتی ہیں اور خدا خدا کرکے آمر کو رخصت کرلیتے ہیں اور پھر وہی پرانی روش کہ عوام سیاسی جماعتوں سے ان کے منشور کے مطابق کارکردگی کا مطالبہ وتقاضا کرتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور کے اہم نکات یاد تک نہیں رہتے۔
اگر ہماری سیاسی جماعتیں خواہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر، تہیہ کرلیں کہ ہم نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے عوام کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے اپنا کردار خلوص اور خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کرنا ہے تو اس کے مثبت نتائج بہت جلد قوم کے سامنے ہوں گے۔
کیا ہمارے امیر کبیر کروڑ پتی ارب پتی سیاستدان اپنے اپنے حلقہ¿ انتخاب میں دو تین اچھے اسکول جس میں تعلیم مفت ہو، قائم کرکے ایک مخلص ٹیم کے ذریعے نہیں چلاسکتے۔ اسی طرح ہر حلقہ میں ایک ایسا ہسپتال جس میں فوری طبی امداد کے علاوہ آﺅٹ ڈور مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات موجود ہوں نہیں بنواسکتیں؟۔ یہ دونوں کام یعنی اسکول وہسپتال بنانا اتنا مشکل نہیں ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں کو یہ بات وارہ نہیں کھاتی کہ عوام تعلیم یافتہ ہوکر اپنے آپ کو دریافت کرتے ہوئے سیاستدانوں سے اپنے بنیادی جمہوری حقوق کے ساتھ انسانی حقوق کا بھی سوال کرسکیں۔ ان کو محتاج، مجبور، معذور اور بے بس وبے چارے عوام کی ضرورت ہے جو چار پانچ سال بعد ان کے صندوقوں کو ووٹ سے بھردیں۔تعلیم یافتہ انسان میں خودی کا پیدا ہونا لازمی امر ہے اور خود دار انسان ٹوٹ سکتا ہے جھک نہیں سکتا۔تعلیم یافتہ انسان شعور رکھتا ہے اور خیروشر میں تمیز کی پہچان رکھتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر ہمارے اٹھانوے فیصد عوام تعلیم یافتہ ہوجائیں تو کیا ہمارا سیاسی نظام اسی طرح چلے گا۔ عوام پارلیمنٹ میں ایسے ہی نمائندے بھیجیں گے جو پانچ سال میں پارلیمنٹ سے ساری مراعات حاصل کرکے بھی ایک گھنٹہ کبھی عوام کے مسائل پر نہ بات کرسکتا ہو اور نہ بات کرنے کا اہل ہو۔
سرکاری خزانے سے اسکول کالج، یونیورسٹی ،ہسپتال ،سڑک، عمارتیں ودفاتر بنواکر ان پر اپنے ناموں کی تختیاں لگوانا اور اس پر تو تو میں میں کرنا کہ یہ منصوبہ ہم نے بنایا تھا ، کوئی بڑی بات نہیں، بڑی بات تب ہوگی جب ہمارے یہ ارب کھرب پتی سیاستدان، عوام کے درد میں اپنا پیسہ خرچ کرکے کوئی خیروفلاح کا ادارہ قائم کریں اور پھر اس کی پیشانی پر چمکتی دمکتی لوح لگالے تو عوام اسے جب بھی دیکھیں گے، عقیدت سے جھک کر سلام کریں گے، پاکستان میں شوکت خانم، اور نمل جیسے ادارے بنانے کی اشد ضرورت ہے، عبدالستار ایدھی اور الخدمت فاﺅنڈیشن کی طرح مزید فلاحی اداروں کی عوام راہیں تک رہے ہیں۔
وقت بدل رہا ہے، زمانہ بدل چکا ہے، پاکستان بدل رہا ہے، ہماری سیاسی جماعتوں کو بدلنا ہوگا ورنہ عوام کے دلوں میں ان کے لیے عقیدت واحترام میں کمی ہوتی رہے گی جو اچھا شگون نہیں ہوگا۔ وطن عزیز کے اردگرد جو طوفان برپا ہیں اس میں سیاسی جماعتوں کو اپنی ذات اور جماعتی سیاست سے اوپر آکر صرف اور صرف پاکستان اور عوام کے لیے سوچنا اور کرنا ہوگا۔
٭٭٭٭٭

 

Please follow and like us:

ایام حج میں سرکاری اسکیم کے حجاج کی پر یشا نیاں

 

کروڑہا شکر مالک کائنات کا، کروڑہا درود وسلام پیارے نبی آخرالزماں، خاتم المرسلین ،رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ومقدس ذات پر جن کے روزہ¿ اقدس اور خالق کائنات کے گھر کی زیارت نصیب ہوئی اور دین اسلام کے پانچویں رکن حج مبارک کی سعادت حاصل کی۔
طواف کعبہ اور زیارت رسول ﷺ سال کے بارہ مہینے جاری رہنے والا عمل ہے لیکن حج سال میں ایک مرتبہ ادا کرنے والی عبادت ہے، اس عبادت کے لیے سفری مصائب ومشکلات بھی نیکیوں اور رضائے الٰہی کا موجب ہوتی ہیں۔ پرانے وقتوں میں لوگ لاکھوں میل کا سفر پیدل، اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے طے کیا کرتے تھے۔18ویں اور 19ویں صدی میں سفری سہولیات میں بہتری آئی پھر 20ویں صدی میں سفر کی جدید سہولیات ہر ملک میں سرایت کرگئیں جیسے جیسے جدت آتی گئی ویسے ویسے زمانے نے بھی کروٹیں لینی شروع کیں اور انسان کے لیے ہر طرح کی آسائش کا حصول آسان ہوتا گیا، انہی آسائش اور سہولیات کا نتیجہ ہے کہ آج کا انسان ہر معاملے میں سہولت کا متمنی ہے، ان معاملات کی حد نہیں۔ گھر میں گھر سے باہر، گھر سے دفتر، فیکٹری، کھیت کھلیان یعنی ہر اس مقام پر جہاں تک اس کی رسائی ہونی ہے اور وہاں جہاں اس کے شب وروز گزرنے ہیں۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث مبارکہ کے مفہوم میں یہ بات ملتی ہے کہ سفر میں مانگی گئی دعا قبول ہوتی ہے، یعنی اس امر سے ہم سفر کی مشکلات ومصائب کا اندازہ لگاسکتے ہیں اور آپ ﷺ کی تعلیمات اور اسوہ¿ حسنہ سے سفر کی آسانیاں بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
حج کا سفر ایک عبادت ہے آج اگر کسی ملک کا کوئی باشندہ دوران سفر کی مشکل کا ذکر کرتا ہے تو اکثر جواب یہ ہوتا ہے کہ حج نام ہی سفری مشکلات کا ہے جبکہ ایسا ہے نہیں ۔ کیوں،کیوں کہ اللہ رب العزت نے حج فرض ہی اس شخص پر کیا ہے جو صاحب استطاعت ہے، مالی اور جسمانی لحاظ سے طاقت ور ہے، لہٰذا سفر کی تیز ترین اور جدید سہولیات کی موجودگی میں اس طرح کا موقف اختیار کرنا سوائے جان چھڑانے کے اور کچھ نہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنی بدانتظامیوں پر غور وفکر کرنے کی بجائے ناک بچانے کے لیے مختلف حیلے بہانے تراشتے اور لمبی تان کر سو جاتے ہیں اور پھر ہر سال ہمارے حجاج کرام کسی نہ کسی انتظامی مسئلے کا شکار ہوتے ہیں۔ ماسوائے گزشتہ 3،4سال کے ہر دور میں حجاج کرام مسائل کا شکار رہے لیکن سال رواں(عیسوی) جس طرح کی بدانتظامی کا مشاہدہ ہو ایہ بڑی شرمندگی اور ندامت کا باعث بنی، یعنی آپ اندازہ لگائیے کہ 45سینٹی گریڈ کی جھلسادینے والی گرمی میںطویل سفرپیدل طے کیا، بیچارے حجاج کا کیا حال ہوا ہوگا۔ ان حجاج میں بوڑھے، بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔
حکومت پاکستان ہر سال حجاج کرام کو سرکاری اسکیم اور ٹور آپریٹرز (نجی شعبہ) کے تحت اس عظیم عبادت کے لےے بھیجتی ہے ۔اب کی بارمجموعی طور پر 1,78000سے زاہدحجاج کرام میں سے 107,526سرکاری اور 71000 کو پرائیویٹ ٹورآپریٹرز کے ذریعے بھیجا گیا۔ سرکاری اسکیم کے تحت فی حاجی تقریباً ڈھائی لاکھ سے زائد روپے وصول کئے گئے جبکہ نجی شعبہ (ٹور آپریٹرز) نے ساڑھے 4لاکھ سے 25لاکھ روپے تک وصول کئے۔
اگرچہ نجی شعبے کے تحت حج مہنگا ضرورتھا اور کئی جانب سے اعتراضات بھی سامنے آئے تاہم ارض مقدس پر حج کے پانچ دنوں میں گزشتہ سال کی نسبت اس سال مناسب اور اطمینان بخش انتظامات دیکھنے میں آئے،ٹورآپریٹرز کا سب سے اچھا اورعمدہ کام یہ تھا کہ 100حاجیوں پر مشتمل گروپ تشکیل دےے گئے تھے جن کی خدمت پرکئی لوگ مامورکئے گئےجو ان کے قیام وطعام سے لے کر ٹرانسپورٹ اور منیٰ،مزدلفہ اور عرفات میں ہرطرح کی سہولیات اور آسائش کے ذمے دار تھے،اور ان لوگوں نے اپنے فرائض منصبی انتہائی جانفشانی اور فرض شناسی سے نبھائے جس کے نتیجے میں کسی جانب سے بھی حقیقی شکایات نہ ہونے کے برابر رہیں تاہم بعض اس نوعیت کی شکایات ضرور تھیں کہ بہت سے حاجیوں کو پاکستان میں فراڈ کا سامنا کرنا پڑا، اس کی وجہ یہ تھی کہ کچھ ٹورآپریٹرز جو کہ رجسٹرڈ نہیں تھے اور انہیں حکومت کی جانب سے کوٹہ بھی نہیں ملا تھا انہوں نے لوگوں سے پیسے اکھٹے کئے اور رفوچکر ہوگئے ان کے خلاف حکومت کو فوری کارروائی کرنی چاہےے۔حکومت پاکستان نے بھی نجی شعبہ کی کارکردگی جانچنے کے لےے باقاعدہ ایک مانیٹرنگ کا شعبہ قائم کررکھا تھاجو ہروقت اور ہرلمحہ ٹورآپریٹرز پر نظررکھے ہوا تھا جس کے باعث نجی شعبے کی کارکردگی میں کافی بہتری آئی اگر حکومت کا یہ نظام تسلسل کے ساتھ جاری رہا اور اس میں مزید بہتری لائی گئی تو امید ہے انشاءاللہ نجی شعبہ سے متعلق جوچند شکایات ہیں وہ بھی ختم ہوجائیں گی۔
دوسری جانب سرکاری اسکیم کے تحت جانے والے بعض حاجیوں کو مشکلات درپیش تھیں تاہم مجموعی طورپرصورتحال قدرے بہترتھی۔حج کے 5دنوں میں منیٰ،عرفات اور مزدلفہ میں بعض مقامات پر حاجیوں کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔اس کی بڑی وجہ خدام کی تربیت میں کمی اور ٹرانسپورٹ کے ناقص انتظامات تھے ۔
وزارت مذہبی امور نے کئی معاملات میں اچھی کارکردگی ضرور دکھائی اوراس سال بھی مدینہ منورہ اورمکہ مکرمہ کی رہائش کے انتظامات عمدہ تھے،کھانے کا معیار بھی کسی حدتک مناسب تھا،مکہ میں نمازوں کے لےے ٹرانسپورٹ بھی مہیا تھی،لیکن حج کے 5ایام میں حاجیوں کو پیش آنے والی دشواریوں اور پریشانیوں نے ان سب خدمات پر پانی پھیر دیا،ان ایام میں بعض حجاج کو عبادت کا موقع تک میسر نہیں تھا،وہ حجاج جنہیں ٹرین کی ٹکٹیں میسر نہ تھیں انہیں بسوں سے سفر کا کہاگیا لیکن بسیں بھی نہیں دی گئیں جس کی وجہ سے ان حجاج کو سخت گرمی میں مکہ سے منیٰ اوربقیہ سارا حج پیدل کرنا پڑاجبکہ منیٰ پہنچ کر جگہ کی تنگی کا سامنا الگ سے رہا،حجاج کو الاٹ شدہ جگہ نہیں دی گئی جنہیں ملی بھی توایسے خیموں میں جہاں سے آنے جانے میںان کوسخت مشکلات پیش آئیں۔منیٰ میں ایک مسئلہ بوتل پیک صاف پانی میسر نہ ہونابھی تھا،پینے کا فلٹر شدہ ٹھنڈا پانی کولروں میں رکھاگیا تھا جس شاید ٹریٹمنٹ سے گزارہ گیا تھاجس کی وجہ سے اس پانی میں جھاگ بننے لگی ،لہٰذا حجاج نے یہ پانی استعمال نہیں کیا۔سواری نہ ملنے،سخت گرمی میں پیدل سفر،بوتل پیک صاف پانی ،صحت کے تمام اصولوں کے مطابق کھانے کی عدم فراہمی اور جگہ کی تنگی یہ وہ مسائل تھے جن کی وجہ سے حجاج کے سفرحج کا یہ اہم ترین حصہ تکلیف وپریشانی اور ذہنی کرب میں گزرا۔
اس بدانتظامی کااگر چہ حکومت پاکستان کی وزارت مذہبی امور نے اعتراف بھی کرلیا لیکن ساتھ ہی یہ موقف بھی پیش کیا کہ معلمین کے معاملے میں ہمار اختیار ختم ہوجاتا ہے اور یہ کہ حاجیوں کو پہنچنے والی ان تکلیفات سے حکومت بری الذمہ ہے۔یہ بذات خود سوالیہ نشان ہے۔یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ حکومت پاکستان انتہائی جانفشانی ، فرض شناسی اور مذہبی جوش وجذبے کے ساتھ حج کے لےے سرگرم ہوتی ہے اور سستا ترین پیکیج دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔لیکن سوچنے کی بات یہ کہ ایسے سستے پیکیج جس میں حاجیوں کو پینے کے لےے صاف پانی نہ ملے،سفر کے لےے ٹرانسپورٹ نہ ملے،جینے کے لےے معیاری کھانا نہ ملے،کس کام کا۔پرانے وقتوںمیں اگر مشکلات اور مصائب برداشت کےے بھی جاتے تھے تو اس وقت عصر حاضر کے جیسی سہولیا ت بھی نہیں تھیں۔لہٰذا اپنے حاجیوں کی تکلیف کو معلمین کے کھاتے میں ڈال کر بری الذمہ ہونا کسی بھی طور قابل قبول موقف نہیں،کیوں کہ پرائیویٹ ٹورآپریٹرز اور دیگر ممالک کے سرکاری حکام انہی معلمین سے اپنے حجاج کی سہولیات پوری کرواتے ہیں تو پھر حکومت پاکستان کیوں نہیں کرواسکتی؟۔ہماری وزارت مذہبی امور کے موقف پر سعودی وزارت مذہبی امور کا موقف یہ سامنے آیا کہ حجاج کرام کو معاہدے کے مطابق تمام تر سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔جس سے بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ حکومت نے سستے حج کے لےے ناقص انتظامات کا معاہدہ کیاتھا!!!۔ اگر معاہدے میں معیاری انتظامات شامل تھے تو حکومت پاکستان کو سہولیات کی عدم فراہمی پر سعودی حکومت اور معلمین سے احتجاج کرنا چاہئے اور اس مد میں حاجیوں سے لی گئی اضافی رقم واپس کرنی چاہئے۔حاجیوں کو سہولیات دینا ہماری حکومتوں کا اولین فرض ہے۔وزارت حج سعودی عرب نے نجی شعبے کے انتظامات دیکھنے کے بعد حکومت پاکستان کو یہ بھی تجویز دی ہے کہ حکومت کو مراعات وسہولیات چاہئیں تو حج کو بھی پرائیوٹائز کردے اور سار انتظام ٹورآپریٹرز کے ذریعے کرائے۔یہ تجویز اگر چہ قابل عمل نہیں لیکن حکومت کی کارکردگی کے لےے آنکھیں کھول دینے کے لےے کافی ہے اور حکومت کوسوچنا چاہئے کہ اسے کیوں ڈیکٹیڈکیاجارہاہے۔
ایک اور بات مشاہدے میں یہ آئی ہے کہ حاجیوں کی مشکلات کے مسئلے کا بنیادی تعلق ہی حکومت پاکستان،سعودی حکومت اور معلمین (کمپنیوں)کے درمیان طے پانے والے معاہدوں سے ہوتا ہے۔اور یہاں ہماری حکومت کا رویہ مودبانہ اور مرعوبانہ ہوتاہے،معاہدے کے وقت کھل کرگزشتہ تجربات ،تحفظات اور ممکنہ خدشات پر بات نہیں کی جاتی جبکہ دیگر ممالک جن میں ایران،ترکی ،بھارت ،بنگلہ دیش وغیرہ وغیرہ شامل ہیں وہ معاہدوں میں اپنے حجاج کے لےے مراعات اورسہولیات پرکسی قسم کا کمپرومائز نہیں کرتے۔جہاں مراعات وسہولیات کے لےے اضافی رقوم کی بات آتی ہے وہ فراہم کرتے ہیں ۔اب چونکہ آنے والے کئی سیزن گرمیوں کے دنوں کے ہیں توہمارے حج مشن کو اپنے روےوں میں مثبت تبدیلی لاتے ہوئے اپنے حجاج کے لےے ضروری مراعات لینے میں کسی پس وپیش کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہےے۔معاہدہ کرتے وقت اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اتنی گرمی میں حاجی کو پیدل سفر نہ کرنا پڑے اب پیدل سفر گرمی کی شدت کی وجہ سے ممکن بھی نہیں رہا،بلکہ ٹرین ہویا بس سیٹ بائی سیٹ ٹرانسپورٹ یقینی بنائی جائے،مشاعر میں منرل بوتل پیک پانی کی دستیابی یقینی بنائی جائے ،منیٰ میں وزارت حج سعودیہ کی طرف سے الاٹ کردہ ہر حاجی کے مطابق جگہ کا حصول یقینی بنایا جائے مشاعر میں کھانے کا معیار بہتر کیا جائے۔اسی طرح خدام کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔90فیصد حجاج بالکل نئے ہوتے ہیں ان میںبھی اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو سعودی عرب کی آب و ہواسے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں حج کی مشکلات کا اندازہ ہوتاہے۔ایسی صورت میں ناتجربہ کار اور غیرتربیت یافتہ خدام یا انتظامی افسران کو بھیجنا انتہائی غیرذمے دارانہ اور حاجیوں کی بددعائیں لینے کے متراد ف ہے۔حکومت کو چاہئے کہ حج سے 6ماہ قبل ہی خدام کی تربیت کا انتظام کرے نہ صرف انتظام کیاجائے بلکہ ریہرسل بھی کرائی جائے تاکہ یہ لوگ وہاں جاکر انتظامات میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں۔اور پھر سرکاری اسکیم کے تحت مقررہ تعداد میں 100،200کے گروپ کے حساب سے خدام کی تعیناتی کیجائے۔کم ازکم 100حاجیوں کے گروپ کے لےے ایک ذمہ دار کا تقرر ضروری ہے۔پھر اسی طرح مانیٹرنگ کاانتظام بھی کیا جائے اور خصوصاً معلمین کی نگرانی کی جائے تاکہ کہیں کوئی کمی بیشی رہے جائے تو فوری طور پر اس کا ازالہ کیا جاسکے۔
٭٭٭٭٭٭

 

Please follow and like us:

والدین کے احترام کی اخلاقی قد ر کی عظمت

 

تمام تعریفیں اس خالق کائنات کے لیے ہیں جس نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام سے انسانی تخلیق کا آغاز فرمایا، انسان کو اپنانائب اور خلیفہ بنانے کا اعلان فرمایا،بفحوائے ارشاد ربانی زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے انسان کے لیے تخلیق کیا ،انسان کو اپنی عبادت کا حکم دیا اور اس کی رہنمائی کے لیے انبیاءعلیہم السلام کا سلسلہ جاری فرمایا اورحضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو امام الانبیاءاور خاتم النبیین ، قرآن کو خاتم الکتب اور اسلام کو خاتم الشریعة بناکربھیجا تاکہ خاتم النبیین کے قول و عمل سے اسلام کی تعلیمات بذریعہ قرآن وحدیث تاقیامت نافذ کی جاسکیں۔اسلامی تعلیمات کی عملی مشق کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظیم جماعت پیدا فرمائی اور ان میں حضرت ابوبکر صدیقؓ ، حضرت عمر فاروق ؓ، حضرت عثمان غنیؓ ،حضرت علی المرتضیؓ اور حسنین کریمینؓ جیسے ہیرے پیدا فرمائے جنہوں نے اپنی رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرتے ہوئے پیارے نبی کے ہر حکم و ادا پر نہ صرف عمل کیا بلکہ آئندہ نسلوں تک دین کو پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ پیدائشی طور پر انسان اجتماعیت پسند ہے اور فطری طور پرمل جل کررہنے اور کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے اسی مل جل کررہنے اور کام کرنے کو معاشرت کہتے ہیں۔ اسلام ایک پرامن اجتماعیت پسند دین ہے جس کے معنی ہی امن اور سلامتی کے ہیں اور یہ سلامتی صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ کائنات کی ہرچیز کو شامل ہے۔ اسلام اپنے پیروکاروں کو پرامن معاشرے کی تشکیل کے لیے ایک دوسرے کے حقوق وفرائض کے احترام کا پابند بناتا ہے۔معاشرہ مختلف افراد سے مل کر تشکیل پاتا ہے جس میں تمام افراد آپس میں مختلف معاملات انجام دیتے ہیں۔ ان معاملات کو بہترین انداز سے انجام دینے اور مفید بنانے کے لیے اللہ رب العزت نے ہر ایک کے لیے حقوق و فرائض متعین فرمائے ہیں۔ کائنات کے نظام میں معاشرہ کی بنیادی اکائی فرد ہے۔گزشتہ مضامین میں معاشرہ کی ضرورت و اہمیت اور انفرادی حیثیت سے انسان کی خصوصیات کا ذکر کیا گیا تھا۔یہ افراد مل کر خاندان بناتے ہیں۔خاندانی نظام کاآغاز رشتہ نکاح سے ہوتا ہے ، انسانی زندگی میں مختلف اور متعدد رشتے پائے جاتے ہیں لیکن ان رشتوں کے لیے افراد کے انتخاب میں انسان کے شعور اور ارادہ کا دخل نہیں ہوتا اور نہ ہی ان رشتوں کو ختم کیا جاسکتا ہے جبکہ رشتہ نکاح انسان اپنے شعور اور ارادہ اور اپنے انتخاب کے نتیجہ میں قائم کرتا ہے اور یہی رشتہ خاندانی اکائی کے قیام میں اہم ترین حیثیت رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی پاکیزگی کابھی اور نسب و نسل کے ہر قسم کے شکوک وشبہات سے پاک ہونے کابھی ضامن ہے۔
مغربی دنیا کی رنگینیوں سے متاثر ہوکر نئی نسل اسلامی اقدار کو فراموش کرتی جارہی ہے اور ایمان کمزوری کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مغرب سے آنے والے مساوی حقوق کے نعرے نے ذاتی مفاد کو فوقیت دی ہے اس لیے ہرکوئی اپنی دھن میں مگن اپنے حقوق کی آواز اٹھاتا ہے۔ نہ عورت کا احترام اور نہ ہی والدین کا خیال، یہاں تک کہ اگر والدین بچوں کو تربیت کی خاطر کچھ کہہ بھی دیں تو اولاد پولیس کو شکایت کرکے والدین کو جیل بھجوا دیتی ہے، جب اولاد بالغ ہوجائے تو والدین ان کی کفالت سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور نتیجے میں جب والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں تو ان کو اولڈ ہاسز میں بے یارو مددگار دوسروں کے چندے کے سہارے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسلام فرائض کو ترجیح دیتا ہے پہلے اپنے فرائض پورے کریں جب ہرکوئی اپنے فرائض پورے کرے گا تو حقوق خود بخود پورے ہوتے چلے جائیں گے۔ اس سے آگے بڑھتے ہوئے اللہ رب العزت نے احسان کا سلسلہ بنایا کہ اپنے فرائض ادا کرو اور اپنے حقوق چھوڑ کر دوسرے کا خیال کرو ، احسان کے اتنے فضائل بیان کیے گئے ہیں انسان اپنے حقوق کو احسان پر قربان کردیتا ہے۔دیگر افراد کے ساتھ معاملات اپنی جگہ، اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان کی تخلیق کا سبب والدین ہیں اس لیے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو سب سے زیادہ ترجیح دی گئی ہے۔اگرچہ والدین نے اولاد پر ظلم ہی کیوں نہ کیا ہو پھر بھی اولاد کو والدین کا احترام اور حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔اسلامی معاشرتی نظام میں اولاد والدین کے تابع ہوتی ہے کبھی حقوق کے اعتبار سے اور کبھی احسان کے اعتبار سے۔قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ رب العزت نے والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود مت بناو¿ ورنہ تو بد حال بے مددگار ہو کر بیٹھا رہے گا اور تیرے رب کا حکم ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت مت کر اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں سو ان کو کبھی اُف بھی مت کرنا اور نہ ان کوڈانٹنا اور ان سے بہت ہی ادب سے بات کرنااور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہو ں نے مجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒاپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
والدین کی خدمت و اطاعت والدین ہونے کی حیثیت سے کسی زمانے اور کسی عمر کے ساتھ مقید نہیں ہر حال اور ہر عمر میں والدین کے ساتھ اچھا سلوک واجب ہے۔ والدین کے بڑھاپے کا زمانہ جبکہ وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہوجائیں ان کی زندگی اولاد کے رحم و کرم پر رہ جائے اس وقت اگر اولاد کی طرف سے ذرا سی بے رخی بھی محسوس ہوتو وہ ان کے دل کا زخم بن جاتی ہے۔ دوسری طرف بڑھاپے کے عوارض طبعی طور پر انسان کو چڑچڑا بنادیتے ہیں ، تیسرے بڑھاپے کے آخری دور میں جب عقل و فہم بھی جواب دینے لگتے ہیں تو ان کی خواہشات و مطالبات کچھ ایسے بھی ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ قرآن حکیم نے ان حالات میں والدین کی دلجوئی اور راحت رسانی کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت یاد دلایا کہ کسی وقت تم سبھی اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں تو جس طرح انہوں نے اپنی راحت و خواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بے عقلی کی باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا اب جبکہ ان پر محتاجی کا یہ وقت آیا تو عقل و شرافت کا تقاضا ہے کہ ان کے اس سابق احسان کا بدلہ ادا کرو۔ آیت سے اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے (معارف القرآن:466)۔
قرآن کریم نے ایک سے زائد مقامات پرشرک سے منع کرنے کے فورا ًبعد والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ، ارشاد ربانی ہے :ترجمہ: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی مت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔(البقرة 83) مزید فرمایا :
ترجمہ:آپ ان سے کہیے کہ آﺅ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناو¿ں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرمایا ہے وہ یہ کہ (۱) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراﺅ (۲) اور ماں باپ کے ساتھ احسان کیا کرو۔ (الانعام:151)
حضرت لقمانؓ کی نصائح نقل کرتے ہوئے رب العٰلمین ارشاد فرماتے ہیں:
ترجمہ: اے پیارے بیٹے دیکھو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بلا شبہ شرک بڑاظلم ہے اور ہم نے انسان کو وصیت کی کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ (سورہ¿ لقمان :13۔14)
شرک سب سے بڑا گناہ ہے جس کو اللہ رب العزت نے ظلم عظیم کہا ہے اور قابل غور بات یہ ہے کہ ان تمام آیات میں اللہ رب العزت نے شرک کے فوراً بعد والدین کے احترام کا حکم دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی نا قدری اور ان کے احترام میں کوتاہی کرنا شرک کے بعد دوسرا بڑا گناہ ہے۔مفتی محمد شفیع عثمانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شرک کے فوراً بعد والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ ممکن ہے والدین کے شرک کی دعوت دینے پر انسان غصہ میں آکر ان سے بدتمیزی نہ کربیٹھے اس لیے ساتھ ہی باوجود کفر کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔
شرک سے ممانعت کے فورا ًبعد والدین سے حسن سلوک کے حکم میں یہ حکمت بھی محسوس ہوتی ہے کہ اللہ انسان کا خالق حقیقی اور رب حقیقی ہے جبکہ والدین مجازی طور پر اس کے خالق اور اس کو پالنے والے ہیں ، خالق حقیقی اور رب حقیقی کے بعد خالق مجازی ورب مجازی کا حق ہے۔خالق حقیقی کا حق اس کی وحدانیت میں ہے اور خالق مجازی کا اس کی خدمت میں ہے۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح انسان کے عمل ،عبادت میں عقیدہ توحید بنیاد واساس کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس عقیدہ کے بغیر کوئی عبادت قابل قبول نہیں ، اسی طرح اس کے معاملات و معاشرت میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اسی طرح کی بنیاد واساس ہے کہ والدین سے حسن و سلوک کے بغیر اس کا کوئی معاشرتی حسن عمل ایسا ہی ہے جیسے عقیدہ توحید کے بغیر کوئی شخص عبادت کرنے لگے۔
انسان اس کائنات رنگ و بو پر غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ اس کائنات میں رب العالمین کی توحید کا واحد عملی نمونہ والدین کا رشتہ ہے کہ انسان کے ہر رشتے میں تعدد ہوسکتاہے اس کے ایک سے زائد بہن بھائی، خالہ و پھوپھیاں اور چچا ماموں ہوسکتے ہیں لیکن نہ مائیں 2 ہوسکتی ہیں اور نہ باپ۔ یوں اللہ کی وحدانیت کا کائنات میں پائے جانے والا واحد عملی نمونہ ہے اسی لیے اللہ کی ہستی اور اس کی ذات کو شرک کی ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کرنے کے بعد اہم ترین حکم والدین کے ساتھ حسن سلوک ہے۔
قرآن کریم کے اس اسلوب سے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی عظمت و اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور ہمیں اس رشتہ کے تقدس کو اسی عظمت و اہمیت کے ساتھ سمجھنا بھی چاہیے اور اس کاحق ادا کرنے کی پوری شعوری کوشش کرنی چاہئے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے کچھ مزید احکام قرآن حکیم نے عطا فرمائے ہیں جن کو ان شاءاللہ اس سلسلے کی اگلی تحریر میں قارئین کی نذر کیا جائے گا۔

والدین کے احترام کی اخلاقی قد ر کی عظمت
تمام تعریفیں اس خالق کائنات کے لیے ہیں جس نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام سے انسانی تخلیق کا آغاز فرمایا، انسان کو اپنانائب اور خلیفہ بنانے کا اعلان فرمایا،بفحوائے ارشاد ربانی زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے انسان کے لیے تخلیق کیا ،انسان کو اپنی عبادت کا حکم دیا اور اس کی رہنمائی کے لیے انبیاءعلیہم السلام کا سلسلہ جاری فرمایا اورحضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو امام الانبیاءاور خاتم النبیین ، قرآن کو خاتم الکتب اور اسلام کو خاتم الشریعة بناکربھیجا تاکہ خاتم النبیین کے قول و عمل سے اسلام کی تعلیمات بذریعہ قرآن وحدیث تاقیامت نافذ کی جاسکیں۔اسلامی تعلیمات کی عملی مشق کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظیم جماعت پیدا فرمائی اور ان میں حضرت ابوبکر صدیقؓ ، حضرت عمر فاروق ؓ، حضرت عثمان غنیؓ ،حضرت علی المرتضیؓ اور حسنین کریمینؓ جیسے ہیرے پیدا فرمائے جنہوں نے اپنی رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرتے ہوئے پیارے نبی کے ہر حکم و ادا پر نہ صرف عمل کیا بلکہ آئندہ نسلوں تک دین کو پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ پیدائشی طور پر انسان اجتماعیت پسند ہے اور فطری طور پرمل جل کررہنے اور کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے اسی مل جل کررہنے اور کام کرنے کو معاشرت کہتے ہیں۔ اسلام ایک پرامن اجتماعیت پسند دین ہے جس کے معنی ہی امن اور سلامتی کے ہیں اور یہ سلامتی صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ کائنات کی ہرچیز کو شامل ہے۔ اسلام اپنے پیروکاروں کو پرامن معاشرے کی تشکیل کے لیے ایک دوسرے کے حقوق وفرائض کے احترام کا پابند بناتا ہے۔معاشرہ مختلف افراد سے مل کر تشکیل پاتا ہے جس میں تمام افراد آپس میں مختلف معاملات انجام دیتے ہیں۔ ان معاملات کو بہترین انداز سے انجام دینے اور مفید بنانے کے لیے اللہ رب العزت نے ہر ایک کے لیے حقوق و فرائض متعین فرمائے ہیں۔ کائنات کے نظام میں معاشرہ کی بنیادی اکائی فرد ہے۔گزشتہ مضامین میں معاشرہ کی ضرورت و اہمیت اور انفرادی حیثیت سے انسان کی خصوصیات کا ذکر کیا گیا تھا۔یہ افراد مل کر خاندان بناتے ہیں۔خاندانی نظام کاآغاز رشتہ نکاح سے ہوتا ہے ، انسانی زندگی میں مختلف اور متعدد رشتے پائے جاتے ہیں لیکن ان رشتوں کے لیے افراد کے انتخاب میں انسان کے شعور اور ارادہ کا دخل نہیں ہوتا اور نہ ہی ان رشتوں کو ختم کیا جاسکتا ہے جبکہ رشتہ نکاح انسان اپنے شعور اور ارادہ اور اپنے انتخاب کے نتیجہ میں قائم کرتا ہے اور یہی رشتہ خاندانی اکائی کے قیام میں اہم ترین حیثیت رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی پاکیزگی کابھی اور نسب و نسل کے ہر قسم کے شکوک وشبہات سے پاک ہونے کابھی ضامن ہے۔
مغربی دنیا کی رنگینیوں سے متاثر ہوکر نئی نسل اسلامی اقدار کو فراموش کرتی جارہی ہے اور ایمان کمزوری کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مغرب سے آنے والے مساوی حقوق کے نعرے نے ذاتی مفاد کو فوقیت دی ہے اس لیے ہرکوئی اپنی دھن میں مگن اپنے حقوق کی آواز اٹھاتا ہے۔ نہ عورت کا احترام اور نہ ہی والدین کا خیال، یہاں تک کہ اگر والدین بچوں کو تربیت کی خاطر کچھ کہہ بھی دیں تو اولاد پولیس کو شکایت کرکے والدین کو جیل بھجوا دیتی ہے، جب اولاد بالغ ہوجائے تو والدین ان کی کفالت سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور نتیجے میں جب والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں تو ان کو اولڈ ہاسز میں بے یارو مددگار دوسروں کے چندے کے سہارے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسلام فرائض کو ترجیح دیتا ہے پہلے اپنے فرائض پورے کریں جب ہرکوئی اپنے فرائض پورے کرے گا تو حقوق خود بخود پورے ہوتے چلے جائیں گے۔ اس سے آگے بڑھتے ہوئے اللہ رب العزت نے احسان کا سلسلہ بنایا کہ اپنے فرائض ادا کرو اور اپنے حقوق چھوڑ کر دوسرے کا خیال کرو ، احسان کے اتنے فضائل بیان کیے گئے ہیں انسان اپنے حقوق کو احسان پر قربان کردیتا ہے۔دیگر افراد کے ساتھ معاملات اپنی جگہ، اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان کی تخلیق کا سبب والدین ہیں اس لیے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو سب سے زیادہ ترجیح دی گئی ہے۔اگرچہ والدین نے اولاد پر ظلم ہی کیوں نہ کیا ہو پھر بھی اولاد کو والدین کا احترام اور حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔اسلامی معاشرتی نظام میں اولاد والدین کے تابع ہوتی ہے کبھی حقوق کے اعتبار سے اور کبھی احسان کے اعتبار سے۔قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ رب العزت نے والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود مت بناو¿ ورنہ تو بد حال بے مددگار ہو کر بیٹھا رہے گا اور تیرے رب کا حکم ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت مت کر اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں سو ان کو کبھی اُف بھی مت کرنا اور نہ ان کوڈانٹنا اور ان سے بہت ہی ادب سے بات کرنااور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہو ں نے مجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒاپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
والدین کی خدمت و اطاعت والدین ہونے کی حیثیت سے کسی زمانے اور کسی عمر کے ساتھ مقید نہیں ہر حال اور ہر عمر میں والدین کے ساتھ اچھا سلوک واجب ہے۔ والدین کے بڑھاپے کا زمانہ جبکہ وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہوجائیں ان کی زندگی اولاد کے رحم و کرم پر رہ جائے اس وقت اگر اولاد کی طرف سے ذرا سی بے رخی بھی محسوس ہوتو وہ ان کے دل کا زخم بن جاتی ہے۔ دوسری طرف بڑھاپے کے عوارض طبعی طور پر انسان کو چڑچڑا بنادیتے ہیں ، تیسرے بڑھاپے کے آخری دور میں جب عقل و فہم بھی جواب دینے لگتے ہیں تو ان کی خواہشات و مطالبات کچھ ایسے بھی ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ قرآن حکیم نے ان حالات میں والدین کی دلجوئی اور راحت رسانی کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت یاد دلایا کہ کسی وقت تم سبھی اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں تو جس طرح انہوں نے اپنی راحت و خواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بے عقلی کی باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا اب جبکہ ان پر محتاجی کا یہ وقت آیا تو عقل و شرافت کا تقاضا ہے کہ ان کے اس سابق احسان کا بدلہ ادا کرو۔ آیت سے اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے (معارف القرآن:466)۔
قرآن کریم نے ایک سے زائد مقامات پرشرک سے منع کرنے کے فورا ًبعد والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ، ارشاد ربانی ہے :ترجمہ: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی مت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔(البقرة 83) مزید فرمایا :
ترجمہ:آپ ان سے کہیے کہ آﺅ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناو¿ں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرمایا ہے وہ یہ کہ (۱) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراﺅ (۲) اور ماں باپ کے ساتھ احسان کیا کرو۔ (الانعام:151)
حضرت لقمانؓ کی نصائح نقل کرتے ہوئے رب العٰلمین ارشاد فرماتے ہیں:
ترجمہ: اے پیارے بیٹے دیکھو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بلا شبہ شرک بڑاظلم ہے اور ہم نے انسان کو وصیت کی کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ (سورہ¿ لقمان :13۔14)
شرک سب سے بڑا گناہ ہے جس کو اللہ رب العزت نے ظلم عظیم کہا ہے اور قابل غور بات یہ ہے کہ ان تمام آیات میں اللہ رب العزت نے شرک کے فوراً بعد والدین کے احترام کا حکم دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی نا قدری اور ان کے احترام میں کوتاہی کرنا شرک کے بعد دوسرا بڑا گناہ ہے۔مفتی محمد شفیع عثمانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شرک کے فوراً بعد والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ ممکن ہے والدین کے شرک کی دعوت دینے پر انسان غصہ میں آکر ان سے بدتمیزی نہ کربیٹھے اس لیے ساتھ ہی باوجود کفر کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔
شرک سے ممانعت کے فورا ًبعد والدین سے حسن سلوک کے حکم میں یہ حکمت بھی محسوس ہوتی ہے کہ اللہ انسان کا خالق حقیقی اور رب حقیقی ہے جبکہ والدین مجازی طور پر اس کے خالق اور اس کو پالنے والے ہیں ، خالق حقیقی اور رب حقیقی کے بعد خالق مجازی ورب مجازی کا حق ہے۔خالق حقیقی کا حق اس کی وحدانیت میں ہے اور خالق مجازی کا اس کی خدمت میں ہے۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح انسان کے عمل ،عبادت میں عقیدہ توحید بنیاد واساس کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس عقیدہ کے بغیر کوئی عبادت قابل قبول نہیں ، اسی طرح اس کے معاملات و معاشرت میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اسی طرح کی بنیاد واساس ہے کہ والدین سے حسن و سلوک کے بغیر اس کا کوئی معاشرتی حسن عمل ایسا ہی ہے جیسے عقیدہ توحید کے بغیر کوئی شخص عبادت کرنے لگے۔
انسان اس کائنات رنگ و بو پر غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ اس کائنات میں رب العالمین کی توحید کا واحد عملی نمونہ والدین کا رشتہ ہے کہ انسان کے ہر رشتے میں تعدد ہوسکتاہے اس کے ایک سے زائد بہن بھائی، خالہ و پھوپھیاں اور چچا ماموں ہوسکتے ہیں لیکن نہ مائیں 2 ہوسکتی ہیں اور نہ باپ۔ یوں اللہ کی وحدانیت کا کائنات میں پائے جانے والا واحد عملی نمونہ ہے اسی لیے اللہ کی ہستی اور اس کی ذات کو شرک کی ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کرنے کے بعد اہم ترین حکم والدین کے ساتھ حسن سلوک ہے۔
قرآن کریم کے اس اسلوب سے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی عظمت و اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور ہمیں اس رشتہ کے تقدس کو اسی عظمت و اہمیت کے ساتھ سمجھنا بھی چاہیے اور اس کاحق ادا کرنے کی پوری شعوری کوشش کرنی چاہئے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے کچھ مزید احکام قرآن حکیم نے عطا فرمائے ہیں جن کو ان شاءاللہ اس سلسلے کی اگلی تحریر میں قارئین کی نذر کیا جائے گا۔

 

Please follow and like us:

مذاہب کے درمیان خوفناک ٹکر اﺅ کا خد شہ

 

صدی کی جاری دہائی میں روہنگیا مسلمانوں سے زیادہ مظلوم، بے کس، مقہور ومجبور، درماندہ اور مدد کی مستحق کوئی قوم ونسل نہیں، اگرچہ اس فہرست میں سوچ مقبوضہ کشمیر، فلسطین، عراق، شام اور دیگر مسلم وغیر مسلم ریاستوں کی طرف بھی جاتی ہے لیکن جس انداز میں روہنگیا مسلمانوں کو نسل کشی کا سامنا ہے اس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی، باقی کی ریاستوں میں بالخصوص کلمہ طیبہ پر عمل پیرا افراد کیخلاف ریاستی دہشت گردی حالیہ صدیوں کی پیداوار ہے لیکن روہنگیا مسلمان اس ملک میں بے بسی کی تصویر بنے ہوئے جہاں وہ صدیوں سے آباد اور اس سرزمین کے بلا شرکت غیرے مالک ہیں۔ ہم اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو روہنگیا مسلمانوں کی تاریخ خلیفہ ہارون الرشید کے دور سے شروع ہوتی ہے۔
راکھین (میانمار کا موجودہ حصہ) کے باسی خلیفہ ہارون رشید کے عہد خلافت میں مسلمانوں تاجروں کی تبلیغ اور اسلام کی فطری تعلیمات سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور 1430ءمیں سلیمان شاہ نے اس خطے میں باضابطہ طور پر اسلامی حکومت قائم کردی، اس کے بعد ساڑھے 3صدیوں تک راکھین پر مسلمانوں کی حکومت رہی اس دوران ریاست راکھین مساجد کی تعمیر، دینی درسگاہیں اور عصری علوم کی جامعات بھی قائم کی گئیں جبکہ راکھین کے مسلمانوں کی اپنی کرنسی بھی رہی جس پر کلمہ طیبہ کنندہ تھا اس کے نیچے حضرت صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے نام مبارک بھی لکھے ہوتے تھے، اسی سلطنت کے پڑوس میں بدھ مت کے پیروکاروں کی ریاست برما بھی تھی۔ اگرچہ ان کی تعلیمات بھی یہی تھیں کہ کسی ذی روح کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور ننگے پاﺅں زمین پر چلا جائے تاکہ چیونٹی بھی محفوظ رہے مگر مسلمان کے طور طریقے اور امن وسلامتی والے دین کی روشن تعلیمات سے یہ خوفزدہ تھے انہیں یہ خوف لاحق تھا کہ دین اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کے حسن سلوک کے چرچے ان کے عقائد کے لیے خطرناک ہیں۔
راکھین جہاں اس وقت بھی مسلمانوں کی آبادی تقریباً11 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اس وقت یہ آبادی ہزاروں میں تھی۔ برما چونکہ بدھ مت ریاست تھی لہٰذا اس کے پاس وسائل اور افرادی قوت کی کوئی کمی نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ 1784ءمیں برما نے راکھین پر حملہ کردیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور یوں مسلمان بدھ مت کی رعایا بن گئے۔ 1848ءمیں برما برطانیہ کی غلامی میں آگیا اور 1948ءتک یہ برطانیہ کی نو آبادیات رہا۔ برطانیہ سے آزادی ملتے ہی برمی حکومت نے پہلی فرصت میں مسلمانوں کے تمام حقوق سلب کرتے ہوئے انہیں اقلیت کے زمرے سے ہی خارج کردیا۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور بھارت سمیت دیگر پڑوسی ملکوں میں ہجرت کرگئے، جنہوں نے اپنی سرزمین کا دفاع کیا انہیں انتہائی بے دردی سے شہید کردیا گیا اور یوں تعصب اور لسانیت کی اس جنگ کا آغاز ہوگیا جو آج کے ترقی یافتہ اور جدید دور میں بھی جاری ہے ۔ مسلمان ملکوں میں سعودی عرب نے روہنگیا مہاجرین کی داد رسی کے اقدامات کیے جس کے باعث ان لاچار مسلمانوں کو جینے کا حوصلہ ملا۔ مگر حسب دستور اور حسب معمول مسلمان ریاستوں کی عدم دلچسپی، عالمی قوتوں، بااثر اداروں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی مجرمانہ چشم پوشی کے نتیجے میں بدھسٹ حکمرانوں کو شہ ملی اور پھر وہ ہوا جس کی پوری دنیا میں مثال نہیں ملتی یعنی 1982ءمیں میانمر (سابقہ برما) کی حکومت نے ملکی آئین وقانون میں روہنگیا مسلمانوں کو باضابطہ طور پر نامعلوم اور ناقابل شناخت بنادیا۔ برمی حکومت نے ملک میں موجود دیگر 135نسلی گروپوں اور مذاہب کے ماننے والوں کو تو تسلیم کرلیا لیکن مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر نہ صرف ان کی ملکیتی سرزمین ہتھیالی بلکہ خلیفہ ہارون الرشید کی روح کو بھی زخمی کردیا۔ اس وقت ہمارے مسلمان ملک شاہد سورہے تھے یا پھر کسی وجود کی تخلیق میں مصروف تھے جو بعد ازاں ان مظلوموں کی داد رسی کے لیے میدان میں نکلتا لیکن روہنگیا مسلمانوں کو آج تک ایسے کسی وجود نے سہارا نہیں دیا جس کا صاف مطلب ہے کہ مسلمان حکمران واقعی یا تو سورہے تھے یا پھر اپنی عیاشیوں میں غرق تھے جس کا خمیازہ آج کا روہنگیا اپنے خون بہا اور اپنی عزت کی تباہی کی صور ت میں بھگت رہا ہے۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے اقلیت (ذمی) کے حقوق کے بارے میں سخت تاکید کی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا اور انتباہ کیا ہے کہ اگر کسی مسلمان ریاست میں کسی ذمی کو بے جا تنگ کیا گیا اس کے حقوق ضبط کیے گئے، اس کی جائیداد کو نقصان پہنچایا گیا تو دن قیامت میں اس کا وکیل ہوں گا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ نے غیر مسلم ریاستوں میں مسلمانوں کے حقوق اور ان کی حفاظت کے لیے بھی مسلمانوں کو تعلیمات دی ہیں، آج کے مسلم حاکم ذمی کے حقوق کے حوالے سے کسی حد تک اپنی ذمے داریاں تو پوری کررہے ہیں لیکن کیا انہوں نے کبھی غیر مسلم ریاستوں میں اپنے مسلمان بھائیوں پر ہونے والے مظالم کیخلاف حضور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات اور خلفاءراشدین کے طور طریقوں کے مطابق کوئی اقدامات بھی اٹھائے ہیں؟ جب روہنگیا مسلمانوں کو غیر برمی قرار دیا گیا ، ان کے بنیادی حقوق غضب کیے گئے، ان کا قتال کیا گیا ۔ انہیں ملک بدر ہونے پر مجبور کیا گیا اس وقت مسلم حکمراں کیوں سامنے نہیں آئے، کیوں انہوں نے خلیفہ ہارون الرشید کے عہد خلافت کی یادگاروں کی حفاظت نہیں کی؟ آج کوئی مسلم حکمران دنیا کے 6ارب مسلمانوں کو اس سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ اس قتل ناحق کا ذمے دار کون ہے؟ راکھین میں ایک روہنگیا کا قتل نہیں ہوا بلکہ اعداد وشمار بتاتے ہیں صرف گزشتہ 2سالوں میں یعنی 2015سے اب تک 80ہزار کے لگ بھگ مسلمان شہید اور لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کرچکے ہیں۔ ہمارے نبی آخر الزماں رحمت اللعالمین حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے تو پھر صرف ہزار گیارہ سو دنوں میں 80ہزار مسلمانوں کے ناحق قتل کا شمار کون کرے گا۔
تادم تحریر 3لاکھ سے زائد مسلمان ہجرت کرکے بنگلہ دیش اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں پناہ گزین ہوچکے ہیں جن میں بیشتر زخمی ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے اور ہزاروں بے کس وبے بس مسلمان بیچ سمندر کی بے رحم موجوں کے رحم وکرم پر ڈول رہے ہیں۔2000سے زائد افراد قتل اور ہزاروں کی تعداد میں ان کے گھر خاکستر ہوچکے ہیں۔ چنگاری کیسے بڑھکی اور پھر کس نے پھیلائی اس کے چشم دید گواہ عالمی میڈیا کے وہ نمائندے ہیں جنہیں سوچی حکومت کی نگرانی میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کرایا گیا اور قدم قدم پر جھوٹی کہانیوں کا بھانڈا پھوٹتا رہا۔ اب تک صرف ترکی نے عملاً آگے بڑھ کر ان مظلوم کے زخموں پر مرحم رکھا ہے باقی پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا اور غیر مسلم دنیا بیانات سے آگے نہیں بڑھی۔ خصوصاً عرب ریاستوں کی معنی خیز خاموشی اس المیے کو طول دینے کا سبب بن رہی ہے۔ پاکستان کے پڑوس میں بھارت روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی پر بھی سیاست کررہا ہے اور متاثرہ مسلمانوں کو پاکستان کے خلاف اکسارہا ہے جس کی ایک واضح مثال بھارتی وزیر داخلہ کے بیانات ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو عملی طور پر آگے بڑھ کر روہنگیا مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے پوری امت مسلمہ کو باور کرانا چاہیے کہ پاکستان ہر دکھی مسلمان کے دکھ میں برابر کا شریک ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کو راکھین سے نکال کر بنگلہ دیش،بھارت، تھائی لینڈ اور دیگر ملکوں میں مہاجرین کی سہولیات کی فراہمی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ مسلمان ریاستوں کو یک زبان ہوکر عالمی قوتوں کو باور کرانا چاہیے کہ روہنگیا مسلمان صدیوں سے راکھین کے وارث اور شہری ہیں۔ عالمی طاقتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اقوام متحدہ، او آئی سی، عرب لیگ اور دیگر چھوٹے بڑے گروپ مل کر میانمر کی حکومت پر دباﺅ ڈالیں کہ یا تو وہ مسلمانوں کو باقاعدہ اقلیت کا درجہ دیتے ہوئے ان کے بنیادی حقوق بحال کرے یا پھر راکھین کو 3صدی پرانی پوزیشن پر بحال ہونے کا موقع دے۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں سمیت دنیا بھر میں اس وقت صرف مسلمان ریاستیں شورش کا شکار ہیں خصوصاً کشمیر اور فلسطین اور پھر افغانستان۔ ان ریاستوں میں بھی انسانی حقوق کی بحالی کے عالمی قوتوں اور اداروں کو ازسر نو اپنی پالیسی پر غور کرکے دنیا کو امن وسلامتی کی طرف لانا چاہیے اور اس میں اقوام متحدہ کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ اس تنظیم کے موجودہ سربراہ انٹو نیو گوٹیرز عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی اس عزم کا اظہار کرچکے تھے کہ وہ دنیا کو پرامن بنانے کے لیے شورش زدہ ممالک میں تصفیے کی بھرپور اور عملی کوششیں کریں گے لیکن ابھی تک ان کا کوئی عملی اقدام ہمارے سامنے نہیں آیا بلکہ میانمر میں جاری حالیہ بربریت پر وہ از خود یہ کہہ چکے ہیں کہ میانمر حکومت روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کررہی ہے اور ان کے گھر جلارہی ہے۔ ایسی ہی رپورٹ انسانی حقوق کی مختلف عالمی تنظیمیں گزشتہ کئی سالوں سے پیش کررہی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ جناب گوئیرز صاحب عملی اقدام کی بجائے صرف زبانی جمع خرچ پر ہی کام چلارہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کوششیں جاری ہیں اور خود اقوام متحدہ، مغربی ویورپی اور مسلم ممالک بھی اس کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں تو روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے پیغامات انتہائی مہلک ہیں۔ اسی تناظر میں میں ذاتی حیثیت میں بین المذاہب ہم آہنگی کی عالمی تنظیم یونائٹ کے پلیٹ فارم سے برمی حکومت اور بدھ مت کے پیشوا آشن وراتھو کے نام خط لکھ چکا ہوں جس میں اپنے مسلمان بھائیوں کے بنیادی حقوق کا مطالبہ کیا گیا ہے اور ان کے قتل وقتال اور غیر انسانی سلوک کے نتیجے میں امن عالم کو خطرات اور ہم آہنگی کی کوشیں سبوتاژ ہونے سے متعلق انتباہ بھی کیا گیا ہے۔
میرا ذاتی خیال اور تجویز ہے تمام مسلم اور غیر مسلم ممالک حکومتی سطح پر تمام مذاہب کے پیشواﺅں کو وقتاً فوقتاً بٹھائیں، ڈائیلاگ کریں۔ انسان اور انسانیت کی عظمت پر گفتگو کا اہتمام کریں تو کئی مسائل جو بندوق اور گولی سے حل نہیں ہورہے وہ بھی پرامن طریقے سے حل ہوسکتے ہیں اس کا ذاتی تجربہ مجھے 2015ءکے آخر میں
جب میں نے عالمی بین المذاہب ہم آہنگی کی تنظیم ”یونائٹ“ کے تحت اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں ”پرامن بین المذاہب طرز زندگی کی جستجو“ کے عنوان سے دو روزہ عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا توہوا اس کانفرنس میں دنیا بھر کے تمام بڑے مذاہب کے رہبروں کو شرکت کی دعوت دی اور خلاف توقع 26ممالک سے بڑے مذاہب کے رہبر شریک ہوئے جن میں بدھ مت کے بنی گالا نامی بااثر رہنما بھی موجود تھے اور یہ میرے لیے حوصلہ افزا اور میرے ملک کے لیے اعزاز تھا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس بڑے پیمانے پر ایسی نتیجہ خیز کانفرنس منعقد ہورہی تھی۔ اس کانفرنس کا مقصد ہی اپنے اپنے مذاہب اور تہذیب کے اندر دنیا کو پرامن اور اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے جستجو تھی اور ایسا ہی ہوا کہ کانفرنس میں شامل تمام شرکاءاس بات پر متفق تھے کہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا کسی بھی مذہب ومسلک سے کوئی تعلق نہیں اور سب نے یک زبان ہوکر اقلیت کو ان کے حقوق کی فراہمی کے لیے آواز اٹھانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔بدھ مت کی تعلیمات کا بھی اس کانفرنس میں کافی چرچا رہا اور اس دوران روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی طرف بھی توجہ دلائی گئی۔اس کانفرنس کی میزبان جہاں ایک غیرسرکاری تنظیم تھی وہیں اس میں حکومتی سطح کی نمائندگی بھی نمایاں تھی ،کانفرنس میں وزیرمذہبی امورجناب سردار محمد یوسف،راجہ ظفرالحق سمیت دیگر حکومتی زعما بھی شریک تھے اور جید علما کرام کی بھی معاونت حاصل تھی ۔کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ ہی یہ تھا کہ مذاہب کے درمیان دوریوں کو ختم کرنے کے لےے کردار اداکیا جائے اور اقلیت کو اس کے بنیادی حقوق دےے جائیں۔کانفرنس کا اعلامیہ انتہائی حوصلہ افزا تھا جس پر مقتدرحلقوں اور بیرون ممالک سے بھی مختلف مذاہب بشمول دین اسلام کے پیشواﺅںنے مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا اور اس کام کو جاری رکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی اور زور دیا کہ تمام ممالک کے حکمران اپنے اپنے ممالک میں اسی طرح کی ڈائیلاگ کانفرنس کا انعقاد کریں جس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے لیکن افسوس کہ حکومتی سطح پر ان کاوشوں کو پذیرائی نہیں ملی اور آج مذاہب کے درمیان کھلم کھلا جنگ کی سی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔
٭٭٭٭٭٭

 

Please follow and like us:

ایک طالب علم کی ایوان اقتدار میں حاضری

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الدین النصیحۃ،النصیحۃ للّٰہ و لکتابہ و لرسولہ و لأئمۃ المسلمین و عامۃ الناس
نصیحت کا مفہوم: نصیحت ہر وہ بات یا عمل جو اخلاص سے ہو اور جوڑ پیدا کرنے کے لئے ہو، عام طور پر اس کا معنی خیر خواہی لیا جاتا ہے۔ 
النصیحۃ للّٰہ کا مفہوم: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اس سے شرک کی نفی کرنا، اس کی جملہ صفات کمالیہ کو ماننا اور اس کو جملہ نقائص سے پاک ماننا، اس کی اطاعت پر کمربستہ رہنا اور نافرمانی سے بچنا۔  "ایک طالب علم کی ایوان اقتدار میں حاضری " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

عذاب الٰہی اور اس کے اسباب

واتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ واعلموا ان اللہ شدید العقاب
ترجمہ: اور بچتے رہو اس فساد سے کہ نہیں پڑے گا تم میں سے خاص ظالموں ہی پر اور جان لو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔ (انفال آیت ۲۵)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایمان والوں کو ایک ایسے عذاب سے بچنے کا حکم کیا ہے جو صرف مجرموں کو ہی نہیں پہنچتا بلکہ مجرم اور غیر مجرم دونوں کو پہنچتا ہے۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب دو قسم پر ہے ایک خاص جو کہ صرف مجرموں کو پہنچتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے اپنے اختیا ر میں ہے کہ اس دنیا میں ڈھیل دے کر آخرت میں دے اور دوسرا عذاب عام جو کہ اس دنیا میں مجرم اور غیر مجرم سب پر آتاہے۔ اس عذاب ِعامہ کے اسباب کیا ہیں ؟ "عذاب الٰہی اور اس کے اسباب " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

دہشت گردی روکی جائے

وقتاً فوقتاً سربراہان مملکت اعلان کرتے رہتے ہیں کہ دہشت گردی روکیں گے‘ دہشت گردی جڑ سے اکھیڑ دیں گے دہشت گردی ختم کرنے میں ایک دوسرے کا تعاون کریں گے۔ خصوصاً صدر مملکت آصف علی زرداری جہاں کہیں بھی دورے پر گئے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ دہشت گردی ختم کرنے میں ایک دوسرے کا تعاون کریں گے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دہشت گردی کی وضاحت نہیں کی جاتی کہ دہشت گردی کیا ہے؟
"دہشت گردی روکی جائے " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

اہل فکر ودانش کی ذمے داریاں

امت مسلمہ کو اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے اسے مختلف حوالوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ مسلم امہ کو سیاسی ، داخلی، خارجی، معاشی، تعلیمی و تکنیکی ، دفاعی و عسکری، معاشرتی و اخلاقی ، تہذیبی و ثقافتی، سائنسی و ابلاغی اور فکری و نظریاتی چیلنجز درپیش ہیں۔
حالات کا تجزیہ کیا جائے تو سیاسی پہلو سے اس کی صورت حال یہ ہے کہ اس وقت ساٹھ کے لگ بھگ مسلم ممالک دنیا کے نقشے پر موجود ہیں جو باقاعدہ آزاد ممالک کہلاتے ہیں اور قوت و اقتدار سے بہرہ ور سمجھے جاتے ہیں‘ لیکن وہ عالمی سطح پر انفرادی یا اجتماعی طور پر کسی مسئلہ میں بھی کوئی مؤثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، ان کی ایک عالمی تنظیم بھی اسلامی سربراہ کانفرنس (او آئی سی) کے عنوان سے کام کررہی ہے لیکن عالمی مسائل اور اُمت مسلمہ کو درپیش اجتماعی معاملات میں ایک قرار داد پاس کرنے اور کسی ڈھیلے ڈھالے مؤقف کا اظہار کردینے کے سوا کچھ بھی اس کے بس میں نہیں۔ اقوام عالم کے مشترکہ فورم اقوام متحدہ میں ساٹھ کے لگ بھگ مسلم ممالک کا یہ گروپ بالکل بے دست و پا ہے، تمام معاملات کا کنٹرول سلامتی کونسل کے پاس ہے اور اس میں بھی اصل قوت اور پاور ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک کے ہاتھ میں ہے اور عملاً صورتحال یہ ہے کہ جس مسئلے پر یہ پانچ ممالک متفق ہوجائیں وہی پوری دنیا کی تقدیر کا فیصلہ بن جاتا ہے اور جس معاملے میں ان میں سے کوئی ایک اڑ جائے اس میں کسی قسم کی پیش رفت ناممکن ہوکر رہ جاتی ہے‘ اس طرح عالمی نظام کا کنٹرول ان پانچ ممالک کے پاس ہے اور پوری دنیا ان کے رحم و کرم پر ہے مگر ان میں ایک بھی مسلم ملک نہیں ہے اور نہ ہی مسلم ممالک کو انفرادی طور پر، علاقائی سطح پر یا اجتماعی حیثیت سے اس میں شریک کئے جانے کا بظاہر کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔ "اہل فکر ودانش کی ذمے داریاں " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

آندھیوں کا انتظار مت کیجئے!

موجودہ حالات میں علماء کرام کی ذمہ داریاں؟
موجودہ صورتحال دو حوالوں سے انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور مزید ناگفتہ بہ ہوتی جارہی ہے۔ ایک اس حوالے سے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں اور مغرب کی کشمکش بڑھتی جارہی ہے اور فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ کشمکش سیاسی بھی ہے، معاشی بھی ہے، عسکری بھی ہے، سائنسی بھی ہے اور تہذیبی و فکری بھی ہے۔ اول الذکر چاروں شعبوں میں عالم اسلام مغرب کے سامنے مظلومیت اور بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے صرف عقیدہ و فکر اور تہذیب و ثقافت کے محاذ پر جنگ جاری ہے کہ مسلم دنیا کے عوام اور دینی حلقے اعتقادی، فکری اور ثقافتی طور پر مغرب کے سامنے سپر انداز ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں اور مغرب عالم اسلام میں اپنے وفا دار حلقوں کے ذریعے انہیں مغلوب اور بے بس کرنے کیلئے پوری قوت کے ساتھ مصروف عمل ہے اس کشمکش کا تناظر دن بدن واضح تر ہوتا جارہا ہے ،اس کی شدت اور سنگینی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اس لئے علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال سے واقف ہوں اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات پر ان کی مسلسل نظر ہو،تا کہ وہ قوم کی صحیح طور پر رہنمائی کر سکیں اس حوالہ سے مجھے اس طرز عمل سے قطعی اتفاق نہیں ہے کہ سرے سے حالات سے ہی بے خبر رہا جائے ۔میں نے کئی مدارس میں دیکھا ہے اور بہت سے علماء کرام کو دیکھا ہے کہ ان کے ہاں اخبارات کا داخلہ ہی بند ہے کہ صورتحال سے واقف ہوں گے اور نہ حالات کی سنگینی پر جلنے کڑھنے کا موقع آئے گا یہ فرار راستہ ہے اور طوفان کو دیکھ کر شتر مرغ کی طرح ریت میں سردے کو مطمئن ہو جانے والی بات ہے کہا جاتا ہے "آندھیوں کا انتظار مت کیجئے! " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us: