آئیں روح کی باتیں کریں

انسان روح اور جسم کا مجموعہ ہے۔ زندگی دونوں کی فعالیت اور اہمیت کا نام ہے لیکن دونوں میں تقابل کیا جائے تو روح افضل ہے کیونکہ روح کے بغیر جسم لاش کہلاتا ہے لیکن دوسری طرف جسم کے بغیر اکیلی روح بھی انسان نہیں کہلاتی۔ روح اور جسم کے درمیان بندھن کس نوعیت کا ہے اور خود روح کیا چیز ہے،اس کے بارے میں انبیاء کرام علیہم السلام سے لیکر حکماء وفلاسفر تک سوچتے رہے ہیں اور اس کی حقیقت پانے کیلئے ریاضت وجدوجہد کے مراحل سے بھی گزرے ہیں لیکن آج بھی اس خدائی کلام سے کہ ’’روح میرے رب کے امر میں سے ہے‘‘ کوئی زیادہ نہ سمجھ سکا ہے اور نہ اس پر بات کرسکا ہے۔ البتہ تخمینی اور ظنی طور پر بہت سارے فلسفے بگھارے جاتے رہے ہیں اور مزید بھی اس سلسلے میں غور وفکر اور تجسس جاری رہے گا۔
"آئیں روح کی باتیں کریں " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

قرآن کریم ، ایک دائمی معجزہ

ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم اللہ پاک کا پاک کلام ہے، یہ کلام پاک اللہ تعالیٰ کا قیامت تک زندہ معجزہ کے طور پر زندہ رہے گا۔ یہ وہی کلام مجید ہے جو آج سے تقریباً1437برس قبل جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ دنیا کے سارے باشعور لوگ اس کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کے منِ جانب اللہ ہونے کے قائل ہو ہی جاتے ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ لوگ اس کا مطالعہ کرتے رہیں گے اور اس کے اعجاز کے سامنے سر تسلیم خم کرتے رہیں گے…
"قرآن کریم ، ایک دائمی معجزہ " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

نصاب سازی اور نظریاتی اساس

یہ جملہ کسی دانشور کی کتاب میں نظر سے گزرا تھا کہ ’’قومیں نصاب سے بنتی ہیں‘‘ اور اس کے ساتھ اگر یہ بھی ملایا جائے کہ ’’قوموں کی تعمیر تعلیمی اداروں کے کلاس رومز میں ہوتی ہے‘‘…یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ساری اقوام اپنے عقائد، تہذیب وتمدن اور معاشی ومعاشرتی ضروریات کے مطابق نصاب سازی کرتی ہیں۔

اس دنیا میں اس وقت سے جب قابیل نے ہابیل کے قتل کے بعد قبیلہ ہابیل سے اپنی راہیں جدا کرلیں تو ان کی طرز معاشرت بھی الگ راہوں پر چل پڑی۔ اگر ہم ایک لمحے کے لیے یہ مان لیں کہ ڈارون کا نظریۂ ارتقا تو بہت بعد میں آیا ہے جس میں انسان کو اپنے خالق سے کاٹ کر رکھ دیا گیا اور اس کو ذرا ایک طرف بھی رکھیں تو اتنی بات تو پھر بھی قابل غور ہے کہ قصۂ آدمؑ وابلیس اور قابل وہابیل اس کائنات میں دو الگ الگ نظریاتی اساس کی پہچان کراتا ہے۔ "نصاب سازی اور نظریاتی اساس " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

امت مسلمہ ، ماضی، حال اور مستقبل

تاریخی لحاظ سے جب امت مسلمہ کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اس میں واضح طور پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہود ونصاریٰ کی جدوجہد کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ اگرچہ آج ہمارے ہاں دانشوروں کا ایک گروہ ایسا بھی موجود ہے جو سازشی تھیوری کو رد کرتے ہوئے مسلمانوں کے زوال کا سارا ملبہ مسلمانوں ہی پر گرانا چاہتے ہیں لیکن جو آدمی بھی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں ہجرت اور وہاں ایک پاک ریاست کے قیام اور آپﷺ کی وفات اور بعد خلفائے راشدہ کے ادوارِ حکومت پر غیر جانبدارانہ اور گہری نظر ڈالے گا تو سازشی تھیوری کا ضرور قائل ہوگا۔ "امت مسلمہ ، ماضی، حال اور مستقبل " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

غیرت کے نام پر قتل، روایتی اور سیکولر لابیز

کسی زمانے میں شاید مغرب میں بھی عورت کے حوالے سے ایسی ہی حساسیت پورے معاشرے میں موجود تھی جس طرح ہمارے ہاں آج بھی موجود ہے۔ اگرچہ طرز وانداز اور رویے میں تھوڑا بہت فرق ہوسکتا ہے۔ یونان سے لیکر روم اور روم سے موجودہ مغربی تہذیب تک، جہاں اٹھارہویں صدی سے قبل عورت کو مکمل انسان تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے ووٹ کا حق تو دور کی بات وراثت وغیرہ میں بھی حصہ ملنا محال تھا۔یہی حال ہندومت کے معاشرے کا تھا…ان ساری تہذیبوں کی جو مشترک بات تھی وہ یہ تھی کہ عورت بہرحال مرد سے ایک کمتر مخلوق ہے اور اس کے علاوہ یہ کہ عورت ایک ناقابل اعتماد حیوانِ ناطق ہے اور اس کا دل بھیڑیوں کی بِھٹ ہے اور استقلال سے خالی ہے۔ عورت سے متعلق ان بے بنیاد اور غیر فطری خیالات وتصورات کے سبب سنا ہے کہ لندن کے عجائب گھروں میں آج بھی وہ تالے (لاک اپ) موجود ہیں جو خاوند زیادہ مدت کے لئے گھر سے باہر رہنے کی صورت میں اپنی بیوی کوگھر میں بند کرکے لگایا کرتے تھے ۔مغرب میں خواتین کا لباس اس زمانے میں زیادہ تر سر سے لیکر ٹخنوں تک مکسی کی شکل کا ہوتا تھا۔ خاندانی نظام رائج تھا نکاح لازمی اور تقدس کا حامل تھا۔ معاشرے پر کلیسا کے اثرات کافی حد تک اثر انداز تھے۔ اسی بناء پر معاشرے بے حیائی اور اخلاق باختگی آج کی طرح کبھی نہ تھی اگرچہ بعض معاملات میں کلیسا کی بے جا اجارہ داری کی وجہ سے خواتین کے حقوق بری طرح متاثر ہوتے تھے۔
"غیرت کے نام پر قتل، روایتی اور سیکولر لابیز " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

تحریک آزادی کشمیر …اخلاقی وسیاسی مدد

ہم پاکستانیوں نے ہمیشہ کہنے کی حد تک کشمیریوں کو اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد کرنے کا دعویٰ دہرایا ہے لیکن آج تک کسی نے آزادی کشمیر کے لئے کوئی ٹھوس کام بہت کم کیا ہے۔حالانکہ جس مقام اور علاقے کو بانی وطن اپنے ملک کے لئے شہ رگ قرار دے دے اور وہ شہ رگ ایک ایسے ملک کے قبضے میں آجائے جو پاکستان کے وجود ہی کا مخالف ہی نہیں بلکہ دشمن ہو اور اس کے وجود کو (اللہ نہ کرے) مٹانے کے درپے ہو، تو اس علاقے کو پنجہ دشمن سے چھڑانے کے لئے کیا کرنا چاہیے، کیا یہ بات دو اور دوچار کی طرح ہر پاکستانی بالخصوص پاکستانی حکمرانوں کو معلوم نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ابھی تک معلوم نہیں تو مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان کی تحریک آزادی اور یورپ کے کئی ایک ملکوں میں کئی ایک اہم معاملات پر ریفرنڈم کی تاریخ کا مطالعہ کریں ۔ "تحریک آزادی کشمیر …اخلاقی وسیاسی مدد " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مسلمانوں کو ڈرنا نہیں سوچنا چاہیے

گزشتہ دو ڈھائی مہینے سے دنیا پر امریکی انتخابات کا خمار چھایا ہوا تھا جو ڈونالڈ ٹرمپ کی غیر متوقع کامیابی کے ساتھ دنیا کے بعض حصوں سے تو اترگیا البتہ بعض حصوں پر اور بھی گہرا ہوگیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا واقعی بہت بڑا ملک ہے۔ رقبے کے لحاظ سے، وسائل کے لحاظ سے اور پھر خاص کر عسکری قوت کے لحاظ سے تو اس وقت اس کا کوئی ثانی نہیں…سائنس کے میدان میں گاڑیاں اور گھڑیاں اور بعض دیگر چیزیں بنانے میں ہوسکتا ہے کہ جاپان امریکا کی آشیرواد کے ساتھ کچھ آگے ہو ورنہ دیوہیکل عسکری مصنوعات اور دنیا بھر سے پیسہ کھینچ کر لانے والی اہم اشیاء اور منصوبے امریکا ہی میں بنتے ہیں۔ اس لئے امریکی انتخابات کا اثر کسی نہ کسی طرح پوری دنیا پر مرتب ہوتا ہے۔ 
چین کے ساتھ اس وقت امریکا کا مقابلہ تجارت اور عسکری میدان میں جاری ہے اور ٹرمپ نے انتخابی نعرہ دیا تھا کہ اس وقت امریکا کو چین نے دنیا بھر میں تجارت کے حوالے سے مات دی ہوئی ہے، لہٰذا میں اگر صدر بنا تو چین کا اس لحاظ سے دنیا بھر میں تعاقب کیا جائیگا۔ "مسلمانوں کو ڈرنا نہیں سوچنا چاہیے " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

پاکستان، ایران اور افغانستان اتحاد!

میری شعوری زندگی میں ان تین ممالک کے درمیان کبھی بھی مثالی برادرانہ اور دوستانہ تعلقات استوارنہ دیکھے گئے۔ البتہ چند ایک مختصر وقفے ایسے ضرور آئے کہ ایران وافغانستان پر ایسے حالات آئے کہ ان کو پاکستان کی مدد وحمایت کی سخت ضرورت تھی۔ شاہ ایران کے عہد میں ایران اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات تھے لیکن اس کے پیچھے امریکہ کے سیٹھوں اور سینٹر کا کردار زیادہ تھا۔ پھر انقلاب ایران کے ایام میں انقلابیوں کو پاکستان کی طرف سے مدد وتعاون اور نئی حکومت کو تسلیم کرانے میں پاکستان کی ضرورت پڑی تو رابطے کئے گئے اور مذہبی، تاریخی وثقافتی حوالے دیئے گئے تو پاکستان نے سب سے پہلے انقلابی حکومت کو تسلیم کیا۔ لیکن بہت جلد یہ ہنی مون ختم ہوا کیونکہ تہران کے ذرائع ابلاغ صبح وشام پڑوسی ممالک میں انقلاب برآمد کرنے کی باتیں شروع ہوئیں۔  "پاکستان، ایران اور افغانستان اتحاد! " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

فلاحی معاشرے کے قیام میں علماء کا کردار

فلاحی معاشرہ اور فلاحی ریاست کی اصطلاح یورپ میں جمہوریت کی ترویج وتنفیذ کے بعد بتدریج معروف ومشہور رہی ہے۔ ورنہ ملوکیت اور بادشاہت کے ادوار اور زمانوں میں انسان بے چارے کو اس کے بارے میں اگر علم تھا بھی، تو خواہش کے باوجود اسے فلاحی معاشرے کے ثمرات اور فیوض میسر ہونا تصور سے باہر تھا۔ فلاح (Welfare)کا اصل اور حقیقی تصور اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے بنی نوع انسان کو اپنے عمل وکردار کے ذریعے دیا۔
تاریخ انسانی میں جہاں کہیں جابر وقاہر بادشاہوں کی حکومت رہی ہے وہاں انسانیت پر ظلم وستم ہی ہوتا رہا ہے۔ جب کبھی زمین پر کہیں بھی ظلم وبربریت انتہا تک پہنچنے لگتا تو اللہ تعالیٰ اپنی اشرف المخلوقات پر رحم فرماتے ہوئے کوئی نبی و رسول بھیجتا۔ جیسا کہ فرعون کے دست بردسے بنی اسرائیل کو نکالنے کے لیے موسیٰ علیہ السلام بھیجے گئے۔ "فلاحی معاشرے کے قیام میں علماء کا کردار " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

حقیقی منزل

میں اپنے مملکت خداداد پاکستان میں جب دولت اور سیاست یا سیاست اور مادہ پرستی کی مارا ماری شب وروز دیکھتا ہوں اور جب کبھی بڑے چھوٹے شہروں کے بازاروں میں نکلتا ہوں اور وہاں انسان کو مایہ کے ہوس اور حصول کے لئے اپنے خداداد مقام سے گرا ہوا پاتا ہوں، جب پیسے کی خاطر قریبی رشتوں کو ٹوٹتا ہوا دیکھتا ہوں تو میں زندگی کی تخلیق، مراتب ومراحل اور مقصد اور منزل کے بارے میں سوچنے لگتا ہوں۔
"حقیقی منزل " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us: