اسلام اور انتہا پسندی

مشرق کا مقدمہ مغرب کی عدالت میں

انسان کہاں سے آیا؟ کیوں آیا؟ اس کی زندگی کا مقصد کون متعین کرے گا؟ ان سوالات کا صحیح جواب ’’اسلام‘‘ دیتا ہے
انسان ظاہری وجود کا نام نہیں ہے بلکہ درحقیقت انسان طبعی میلانات، نفسی جذبات، ذہنی تصورات اور قلبی معتقدات کا نام ہے، جس طرح کے خیالات و افکار انسان کے وجود کا حصہ ہوں گے اسی طرح کے رویئے و عادات اور خصائل کا اس سے اظہار ہو گا۔ اعتدال مزاجی اور انتہا پسندی، نرمی اور محبت اور شدت و نفرت دراصل ان جذبات و معتقدات اور افکار و نظریات کی عکاسی کرتے ہیں، جو ہر انسان کے وجود میں پیوست اور اس کی جان و روح کا حصہ بنے ہوئے ہوتے ہیں۔
کسی مذہب یا نظریہ کے بارے میں یہ جاننے کیلئے کہ اس کے اختیار کرنے والے اور اس کو ماننے والے لوگوں کے ذہن و قلب پر اور روح و جاں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اور پھر ان کے عملی اظہار کی صورتیں معتدل ہوں گی یا حد اعتدال سے تجاوز کرکے مائل بہ انتہا پسندی ہوں گی؟ ضروری ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ وجود کے بارے میں، وجود مطلق (Absolute Existenc) کے بارے میں کائنات اور اس میں سرگرم عمل انسان کے بارے میں وہ مذہب کیا تصورات عطا کرتا ہے۔ کائنات اور ہستی موجود کے بارے میں، خالق کائنات کے بارے میں، خود انسان کے بارے میں مذہبی نظریات و معتقدات ہی وہ اصول فراہم کرتے ہیں جن پر تہذیبی عمارت استوار ہوتی اور تمدن کے بلند و بالا مینار تعمیر ہوتے ہیں۔ "اسلام اور انتہا پسندی " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مولانا ابو الحسن علی ندویؒ 

طلباء و نوجوانوں کی سیرت و کردار
کسی ملک کی ترقی اور استحکام اور کسی معاشرہ کے تحفظ اور اس کے باعزت زندگی گزارنے کے بہت سے سرچشمے، بہت سی شرطیں اور بہت سی علامتیں ہیں، مثلاً کوئی ملک بڑی فوجی طاقت کا ملک ہے، کسی ملک کے پاس معدنی، حیوانی، زراعتی دولت کا بہت بڑا ذخیرہ ہے، کسی ملک میں جامعات سے بڑے دوستانہ ہیں اور کسی ملک کے تعلقات عظیم ترین سلطنتوں اور عظیم ترین ملکوں سے بڑے دوستانہ ہیں اور اس ملک کو ان پر بڑا اعتماد ہے، کسی ملک میں انسانی ذہانت کا بڑا ذخیرہ ہے، وہاں بہت انسانی توانائی پائی جاتی ہے۔ وہاں کے لوگ جسمانی طور پر بہت صحت مند ہیں۔ یہ سب چیزیں کسی ملک کی طاقت و استحکام اور کسی ملک کی عزت اور اس کے احترام کی علامتیں سمجھی جاتی ہیں۔ میں ان کا انکار نہیں کرتا، لیکن اگر میرے سامنے کسی ملک کی بڑائی، کسی ملک کے استحکام کا، اور کسی معاشرے کے باعزت زندگی گزارنے کا ذکر آئے اور کسی ملک کی تعریف کی جارہی ہو تو میں ایک سوال کروں گا، وہ یہ کہ ’’مجھے یہ بتایئے کہ وہاں کے اسکولوں اور کالجوں سے لے کر یونیورسٹیوں کے طلباء تک نئی نسل کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں کس درجہ کا احساسِ ذمہ داری پایا جاتا ہے، ان میں ضبط نفس کی کتنی طاقت ہے، ان میں اپنے تاثرات کو حد اعتدال میں رکھنے کی کتنی صلاحیت ہے، ان میں کسی ملک کے صالح نظام اور جائز قوانین کے احترام کی کتنی عادت ہے، اور ان میں احساس شہریت (civic sense) کتنا پایا جاتا ہے؟‘‘ میں تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے بھی اور تاریخ کے حدود سے نکل کر زندہ معاشروں میں چلنے پھرنے اور لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے ایک انسان کی حیثیت سے بھی اس نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ میں صرف کتابوں کے صفحات اور گزشتہ تاریخ پر اس کی بنیاد نہیں رکھتا، بلکہ اکبر الہٰ آبادی مرحوم کے اس شعر پر عمل کرتا ہوں "مولانا ابو الحسن علی ندویؒ  " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مولانا ابو الحسن علی ندوی کا خطاب

علماء کی ذمہ داریاں مئی 1984ء
عزیزانِ گرامی! دنیا کے صالح و صحت مند تغیرات و انقلابات اور انسانی عزیمت کی فتوحات کی تاریخ پر اگر کوئی کتاب مستقل طور سے لکھی جائے تو نائبین انبیاء اور افراد امت کی زبان سے جو جملے نکلے ہیں ان میں ایک جملہ کو سب سے نمایاں اور ممتاز مقام دیا جائے گا اور اس کو آب زر سے لکھا جائے گا۔ یہ جملہ ایسا ہے جس نے حالات کی رفتار کو ایسا بدلا ہے جس کی مثال ملل وادیان کی تاریخ میں ملنی مشکل ہے ۔ جزیرۃ العرب کے ایک حصہ میں اور بعض قبائل میں ارتداد نے سر اٹھایا۔ یہ نازک ترین مرحلہ تھا۔ ابھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا ہے اور اس کو کچھ ہی مہینے گزرے ہیں کہ عرب جن کو ساری دنیا میں اسلام پھیلانا تھا اور جن کو ایک امت مبعوثہ کی طرح اسلام کی دعوت دینی تھی، وہ خود ارتداد کے خطرے سے دوچار ہورہے ہیں۔ ایسا نازک وقت پوری تاریخ اسلام میں نہیں آیا۔ اُس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی زبان سے ایک فقرہ نکلا جس نے تاریخ کا رخ اور واقعات کا دھارا بدل دیا اور خطرہ کا کہرا اس طرح چھٹ گیا جس طرح آفتاب کے نکلنے سے چھٹ جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا ’’اَیُنْقَصُ الدین و اناحیُّ‘‘ (کیا دین میں کوئی قطع و برید ہوسکتی ہے اور میں زندہ ہوں) ابوبکر زندہ ہو اور پھر اللہ اور رسول اللہ کے دین میں کوئی قطع و برید ہو کوئی کتربیونت ہو، کوئی انتخاب کا مسئلہ ہو کہ اس رکن کو لیں گے اور اس رکن کو چھوڑیں گے۔ "مولانا ابو الحسن علی ندوی کا خطاب " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

عبدالجبارناصر

گلگت بلتستان کی داخلی خودمختاری اور تاریخی حقائق

وفاقی کابینہ نے 29اگست 2009ء کو گلگت بلتستان (شمالی علاقہ جات) کے لیے خصوصی اصلاحاتی پیکیج کی منظوری دے دی۔ اس پیکیج کی صدائے بازگشت بالعموم 2007ء اور بالخصوص پیپلزپارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد اپریل 2008ء سے سنائی دے رہی تھی۔ 7ستمبر2009ء کوصدرپاکستان آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد تحسین اور مذمت کا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد، جو خطے کے جغرافیائی، تاریخی اور معروضی حالات سے نا واقف ہے، نے اس فیصلے پر بھرپور خوشی کا اظہارکیا۔ دوسری طرف مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے اکثر سیاسی قائدین نے حکومت پاکستان کے اصلاحاتی پیکیج کو تقسیم کشمیر کی سازش قرار دیتے ہوئے نہ صرف اس کی مذمت کی بلکہ کلی طور پر مسترد کیا۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد بھی حکومت کے پیکیج کو ڈرامہ قرار دے کر مسترد کرچکی ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت مقامی لوگوں کی مرضی اور منشاء کے مطابق خطے کے لیے اصلاحات تیار کرے، جبکہ خطے کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے تاحال محتاط رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ خصوصی اصلاحاتی پیکیج کے مندرجات کاکے حقائق سے باخبر نہ ہونا ہے۔ مختلف فریقوں کی جانب سے مختلف موقف اور دعوؤں کے بعد گلگت بلتستان کی تاریخی، جغرافیائی اور آئینی پوزیشن کے حوالے سے نہ صرف عام آدمی بلکہ باشعور طبقہ بھی شدید تذبذب کا شکار ہے، کیونکہ پاکستان اور گلگت بلتستان کے بعض افراد کا موقف ہے کہ یہ خطہ پاکستان کا حصہ ہے، اس لیے اسے پاکستان میں کلی طور پر شامل کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی قیادت کلی جبکہ گلگت بلتستان کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس خطے کو متنازع ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان کے پیکیج کو تنازعہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے اصولی موقف سے انحراف قرار دیتی ہے۔دوسری جانب گلگت بلتستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد خطے کو خودمختار قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان اور بالخصوص کشمیری قیادت سے سخت نالاں نظر آتی ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز میں ہونے والے پروگراموں اور تاریخی حقائق کی بجائے سنی سنائی باتوں، روایتوں اور ذاتی تصورات پر مشتمل مضامین نے گلگت بلتستان کے آئینی تشخص کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں اس خطے کے دعویداروں نے دنیا اور خطے کے عوام کو ان علاقوں کے جغرافیائی، تاریخی اور معروضی حالات سے حقائق سے آگاہ کرنے کی بجائے ذاتی موقف یاتصور کا ہی پر چارکیا، جس کی وجہ سے آج بھی اہل پاکستان، گلگت بلتستان اور کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد اصل حقائق سے لاعلم ہے۔ "عبدالجبارناصر " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مولانا مفتی تقی عثمانی ؒ

انسانی جان کی حرمت 
بیت اللہ شریف کے اس مقام بلند کو ذہن میں رکھئے، اور پھر ایک حدیث کا مطالعہ کیجئے جو میں حدیث کی مشہور کتاب ابن ماجہ سے ترجمے کے ساتھ نقل کر رہا ہوں:
عن عبداللہ بن عمر و قال: رأیت رسول اللہ ﷺ یطوف بالکعبۃ و یقول، ما أطیبک و أطیب ریحک! ما أعظمک و أعظم حرمتک! والذی نفس محمد بیدہ الحرمۃ المؤمن أعظم عنداللہ حرمۃ منک مالہ ودمہ۔ 
حضرت عبداللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے ہیں اور (بیت اللہ سے خطاب کرتے ہوئے) یہ فرما رہے ہیں کہ ’’تو کتنا پاکیزہ ہے اور تیری ہوا کتنی پاکیزہ! تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم! (مگر) میں اس ذات کی قسم کھاتا ہوں جس کے ہاتھ میںمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے! ایک مؤمن کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک یقینا تیری حرمت سے بھی زیادہ عظیم ہے، اس کا مال بھی اور اس کا خون بھی‘‘۔ 
اللہ اکبر! اس روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کی قسم کھا کر بتایا کہ ایک مؤمن کی جان و مال کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک بیت اللہ شریف کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔ 
"مولانا مفتی تقی عثمانی ؒ " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مفتی نذیر احمد خان

آئین کی اسلامی شقوں میں مجوزہ ترامیم
آئین اور قانون کسی بھی ملک کے قیام و استحکام کا اہم ترین ستون ہیں۔ آئین کے ذریعے ہر شخص، ہر حکمران اور ہر ادارے کے لئے حد بندی کردی جاتی ہے اور قانون کے ہاتھ ان حدود کو جانچنے اور ضابطوں میں لانے کے لئے متحرک رہتے ہیں۔ اسلام ایک نظام حیات ہے اور اسلامی قانون جس کا مآخذ قرآن و حدیث ہیں پاکستانی آئین اور قانون میں اس کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے چنانچہ 1973ء کے متفقہ آئین کے آرٹیکل 2میں واضح درج ہے کہ۔
’’اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا‘‘ "مفتی نذیر احمد خان " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مفتی نذیر احمد خان

آئین کی اسلامی شقوں 
وفاقی شرعی عدالت میں شریعت کا علم جاننے والوں کا تقرر کیا جائے
اگر درج بالا عبارت کے درج میں مشکلات پیدا ہوں، اور یہ موجودہ حالات سے بھی ظاہر ہے، تو آرٹیکل 30 کے حذف پر زور دیا جائے، حذف سے درج بالا دفعات کا قانونی، عدالتی اور آئینی تحفظ خود بخود نکھر جائے گا۔ ہمارے خیال میں درج کے مقابلہ میں حذف زیادہ مؤثر اور سہل ذریعہ ہے۔
آرٹیکل 203… "مفتی نذیر احمد خان " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

اوریا مقبول جان

مغرب کا اسلام کی طرف بڑھتا ہوا رجحان

وہ جو مغرب کے تعیش اور رنگارنگ تہذیب کے دلدادہ تھے انہیں ایک بار پھر اپنا خوف بھرا غصہ نکالنے کا موقع مل گیا۔ طرح طرح کے الزامات اور فقرے کسے گئے۔ یہ اعداد و شمار تم نے کہاں سے لیے، یورپ کے بارے میں تمہیں کیا پتہ، تم مسلمانوں کو خوابوں کی دنیا میں لے جاتے ہو، تم نے تمام معلومات یوٹیوب کی ایک فلم سے لے کر کالم لکھ ڈالا اورنام بھی کیا رکھا ’’مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے‘‘ واہ، تم سے پہلے جمال الدین افغانی اور علامہ اقبال بھی پوری دنیا میں مسلمانوں کی برتری کے خواب دیکھتے قبر میں جا سوئے، تم ایک کاہل، خواب دیکھنے والے دانشور ہو جو مسلمان قوم کو گمراہ کر رہے ہو۔ ہم مغرب میں رہتے ہیں۔ ہمیں پتہ ہے وہاں سبگ چل رہا ہے۔ ٹھیک ٹھاک، عیش و عشرت بھی ہے اور آسائش بھی۔ ایسے بہت سے فقرے مجھے اپنے گزشتہ کالم کے جواب میں ملے جس میں میں نے مغرب میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور یورپ کے بدلتے ہوئے نقشوں کے بارے میں گفتگو کی تھی۔  "اوریا مقبول جان " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

کرپشن کی کہانی

ملک کے کروڑوں عوام ایسے ہیں جو اس منظر سے بالکل بے خبر اور ناآشنا ہیں جو کسی بڑے سرکاری افسر‘ کسی وزیر یا پھر اعلیٰ شخصیت کے دفتر کے کسی خاموش کمرے‘ کسی اعلیٰ ترین ہوٹل کی لابی‘ بیرون ملک دورے پر گئی ہوئی کسی شخصیت کے ہوٹل کے کمرے یا پھر کسی مخوص مقام پر برپا ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی امیر ملک کی امیر ترین ملٹی نیشنل کمپنی کا کوئی نمایندہ اپنی چرب زبانی اور مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کسی اعلیٰ افسر‘ وزیر یا اعلیٰ شخصیات کو ترغیبات دے رہا ہوتا ہے۔ تمام معاملے کو خفیہ رکھنے کی یقین دہانی کے ساتھ پیسے کی کسی بیرون ملک بینک میں باہر ہی باہر منتقلی کے انتظامات بھی بتاتا ہے اور پھر اس ڈیل کی کامیابی کے بعد اپنی کمپنی کے ہیڈ کوارٹر لوٹ کر اس کمیشن کی رقم کو کسی پلانٹ کی قیمت‘ کسی ٹھیکے کی لاگت یا کسی چیز کے سپلائی آرڈر میں شامل کرکے اپنی کمپنی میں ایک بہترین مارکیٹنگ آفیسر کی حیثیت سے شاباش وصول کرتا ہے۔ اس لیے کہ اب تو یہ ڈیل اس کی کمپنی کیلئے پکی ہوگئی کہ منظوری کے دستخط کے ساتھ کرپشن کی مہر تصدیق بھی ثبت ہوچکی ہے۔ "کرپشن کی کہانی " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

عذاب برداشت کرنے کی حد

کیا بجلی کا یہ بُحران واقعی وجود رکھتا ہے یا اس قوم کو مستقل بے اطمینانی کی کیفیت میں رکھنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، تاکہ وہ کسی اور سمت سوچ ہی نہ سکے۔ آئیے وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں یہ بُحران بالکل موجود ہی نہیں تھا۔ 
یہ سب بحران جولائی 2007ء میں سانحہ لال مسجد کے بعد شروع کئے گئے۔ ہم یہاں صرف حکام کے دیئے گئے اعداد و شمار سے کہانی بیان کریں گے ۔ فروری2007ء میں ملک میں 12,552 میگا واٹ بجلی پیدا ہوئی جب کہ اُس ماہ بجلی کی ضرورت 11,590 میگا واٹ تھی یعنی ملک میں 962 میگا واٹ بجلی زیادہ تھی۔ اپریل سے ستمبر2007ء تک کی گرمیوں میں 13,002 میگا واٹ بجلی پیدا ہوئی جب کہ ضرورت13,843 تھی، یعنی کمی صرف 841 میگا واٹ کی تھی۔ اکتوبر 2007ء میں پھر موسم سرد ہوا تو پیداوار 13,492 تھی اور ضرورت 13,737 تھی یعنی صرف 245 میگا واٹ کی کمی تھی۔ یہاں تک تمام ملک پر سکون اور آرام کی زندگی گزار رہا تھا۔ "عذاب برداشت کرنے کی حد " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us: