’’ملک بھر کے علماء کا یہ اجتماع عام مسلمانوں کے اس احساس میں برابر کا شریک ہے کہ ہمارا ملک جن گوناگوں مسائل سے دوچار ہے اور اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نفاذ اسلام کے جس عظیم مقصد کے لئے یہ مملکت خداداد حاصل کی گئی اس کی طرف سے مجرمانہ غفلت برتی گئی ہے اور عملاً اسلامی نظام زندگی اور اسلامی نظام عدل کی طرف پیش قدمی کے بجائے ہم اس منزل سے دور ہوتے چلے گئے ہیں۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک بھر کے عوام ہمہ جہتی مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ملک بھر میں کسی کی جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں ہے، قتل و غارت گری اور دہشت گردی سے ہر شخص سہما ہوا ہے اور مجرم دندناتے پھرتے ہیں۔ سرکاری محکموں میں رشوت ستانی اور بدعنوانی کا عفریت ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور عوام کے لئے اپنا جائز حق حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ہے۔ ناقص منصوبہ بندی کے نتیجے میں مہنگائی اور بجلی کی قلت نے عوام کو عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے، جس سے بیروزگاری میں مزید ضافہ ہو رہا ہے۔ "لاہور اجتماع اور علمائے دیوبند کا مشترکہ مؤقف " پڑھنا جاری رکھیں
Author: Abu Zar
مذہبی طبقہ اور دہشت گردی
مملکت خداداد پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا جب تک مسلم لیگ نے اسلام کا لبادہ نہیں اوڑھا تھا تب تک یہ تحریک کامیاب نہیں ہورہی تھی، اسلام کے نعرے پر مسلمانوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا، چونکہ لیبل اسلام کا لگایا تھا اس لئے سازشی اور مسلم دشمن عناصر نے اُس وقت سے سازشیں کرنا شروع کردیں اور پاکستان کو اسلامی اسٹیٹ کے بجائے سیکولر اسٹیٹ بنانے کی تگ و دو شروع کردی، اسلام کے نام پر ایک نئے ملک کا قیام ان شرپسندوں کی آنکھوں میں تنکا بن گیا۔ فکری، نظریاتی، معاشی، معاشرتی ہر قسم کے حملے کرکے پاکستان کو موجودہ حالت میں پہنچا دیا، تاہم وہ جماعت جنہوں نے برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے داخلے کے وقت سے ہی اس خطے پر برطانوی راج کی مزاحمت کا آغاز کردیا تھا اور مختلف اوقات، مراحل اور علاقوں میں سراج الدولہؒ سے لے کر شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی تحریک ریشمی رومال تک مسلح مزاحمت اور اس کے بعد سے 1947ء تک عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کے ذریعے برطانوی تسلط سے وطن عزیز کی آزادی کے لئے متحرک کردار ادا کیا تھا، ان کا مقصد اور ایجنڈا یہ تھا کہ مسلمانوں کے لئے اور اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس نئی ریاست میں معاشرتی ڈھانچے کی تشکیل اسلامی شریعت اور احکام و قوانین کی بنیاد پر ہو اور پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ملک کے طور پر دنیا میں اپنا کردار ادا کرے۔ "مذہبی طبقہ اور دہشت گردی " پڑھنا جاری رکھیں
حدیث نبویؐ…تمام علوم کا سرچشمہ
حدیث نبوی ﷺ اپنے عمومی مفہوم میں جناب نبی اکرمﷺ کے اقوال واعمال اور احوال وواقعات پر مشتمل ہے اور تمام علوم دینیہ کا سرچشمہ اور ماخذ ہے ہمیں قرآن کریم حدیث نبویﷺ کی وساطت سے ملا ہے‘ سنت نبویﷺ کے حصول کا ذریعہ بھی یہی ہے اور فقہ کا استنباط بھی اسی سے ہوتا ہے‘ اسی لئے حدیث نبویﷺ کو ہمارے نصاب میں سب سے زیادہ مقدار میں اور تفصیل کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔
"حدیث نبویؐ…تمام علوم کا سرچشمہ " پڑھنا جاری رکھیں
قرار داد مقاصد کی بنیاد پر قانون سازی کی جائے
’’قرار داد مقاصد‘‘ کا آئین سے ’’بالاتر دفعہ‘‘ کی حیثیت سے خاتمہ اسلامائزیشن کی دستوری جدوجہد کا راستہ روکنے کے مترادف ہے
جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ نے اس کی حیثیت کو متنازع بنایا‘ آئین میں اس کو پھر سے بالاتر دفعہ کی حیثیت دلانے کے لئے مذہبی
’’قرار داد مقاصد‘‘ ایک بار پھر میڈیا میں زیر بحث ہے‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری نے قرار داد مقاصد کے بارے میں جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے چند ریمارکس دیے ہیں جن پر ’’قرار داد مقاصد ‘‘ پھر سے گفتگو کا عنوان بن گئی ہے‘ قرار داد مقاصد پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ملک کے دستور کی بنیاد اور اساس کے طور پر منظور کی تھی اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ نے دستور ساز اسمبلی کے منتخب ممبر کی حیثیت سے اس کی تیاری اورمنظوری میں اہم کردار ادا کیا تھا‘ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم اور تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما لیاقت علی خان مرحوم کی پیش کردہ اس قرار داد کا متن درج ذیل ہے۔ "قرار داد مقاصد کی بنیاد پر قانون سازی کی جائے " پڑھنا جاری رکھیں
مدرسہ انسان کی بنیادی پہچان ہے
گزشتہ دو دہائیوں سے راقم الحروف کا یہ معمول ہے کہ مدرسے کی تعطیلات میں ملک وبیرون ملک کے اسفار اور فکری اور دعوتی تقریبات میں شرکت اور عالم اسلام کے حالات کا مطالعہ کا موقع مل جاتا ہے‘ اس سال شوال کے وسط سے رمضان المبارک کے وسط تک ایک ماہ کیلئے امریکا کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں اجتماعات سے بیانات کا موقع ملا جس کا خلاصہ یہ ہے۔
اسلام آفاقی مذہب ہے، اس کی تعلیمات پوری نسل انسانی کے لئے دارین میں کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہیں، اسلامی نظام حیات ہر دور میں انسانی سوسائٹی کے لئے مفید، مؤثر اور کارآمد ہے جس نے سوسائٹی کی ضروریات اور مسائل کو ’’نظام فطرت‘‘ ہونے کے سبب حل کیا ہے، یہ حقیقت مسلم ہے کہ پوری انسانیت کے تمام مسائل کا حل اسلام ہی پیش کرسکتا ہے ،اسلام کے مقابلے میں دوسرا نظام اس وقت مغرب کا ہے جس کی بنیاد وحی کے بجائے عقل پر ہے جس طرح انسانی عقل ناقص ہے اسی طرح اس کے بل بوتے پر بنایا جانے والا نظام بھی ناتمام اور ناقص ہوگا۔ اس وقت مغرب کے لئے پریشانی کی بات یہ بنی ہوئی ہے کہ اس نے انسانی عقل اور سوسائٹی کی خواہشات پر مبنی جو نظام دنیا کے سامنے پیش کیا تھا وہ غیر فطری ہونے کی وجہ سے کامیابی کی طرف نہیں بڑھ رہا بلکہ انسانی سوسائٹی کو مزید انتشار اور خلفشار کا شکار بنا کر مکمل ناکامی کے کنارے پر کھڑا ہے اور اس کے متبادل کے طور پر اسلام کے سوا کوئی اور نظام سامنے نہیں آرہا، مغرب کی دانش گاہیں اس پر غور کر رہی ہیں اور اس پر بحث و تمحیص کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے "مدرسہ انسان کی بنیادی پہچان ہے " پڑھنا جاری رکھیں
امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار
چند عرصہ قبل روزنامہ پاکستان لاہور کے زیر انتظام ’’اسلام اور مغرب کے مابین درپیش چیلنجز اور مواقع‘‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار منعقد ہوا جس کا اہتمام پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز (پائنا) نے کیا ہے اور صدارت ملک کے معروف دانشور اور قانون دان جناب ایس ایم ظفر نے فرمائی ۔ سیمینار سے خطاب کرنے والوں میں جسٹس (ر) خلیل الرحمن‘ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری‘ سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد اور دیگر ارباب دانش کے علاوہ اسپین سے تشریف لانے والے دو معروف دانش پروفیسر پری ویلا نووہ اور پروفیسر راحیل بیونو بھی شامل تھے۔
"امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار " پڑھنا جاری رکھیں
نفاذ شریعت کے لئے اتحاد امت کی ضرورت
24 ستمبر 2011ء کو ایمبیسیڈر ہوٹل لاہور میں ’’ملّی مجلس شرعی‘‘ کے زیراہتمام ’’اتحاد امت کانفرنس‘‘ کا انعقاد عمل میں لایا گیا، جس میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے شرکت کی، ان میں مولانا فضل الرحیم اشرفی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا اللہ وسایا، مولانا قاری احمد میاں تھانوی، مولانا مفتی رفیق احمد، مولانا عبدالرؤف فاروقی، مولانا محمد یوسف خان، مولانا مفتی محمد طیب، مولانا مفتی طاہر مسعود، مولانا محمد امجد خان، مولانا رشید میاں، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مولانا قاری محمد طیب حنفی، مولانا قاری گلزار احمد قاسمی، مولانا عزیزالرحمن ثانی، مولانا پیر عبدالخالق قادری بھرچونڈی شریف، مولانا مفتی محمد خان قادری، مولانا احمد علی قصوری، مولانا راغب حسین نعیمی، علامہ خلیل الرحمن قادری، مفتی شیر محمد سیالوی، صاحبزادہ محب اللہ نوری، مولانا قاری زوار بہادر، پروفیسر ساجد میر، پروفیسر حافظ محمد سعید، مولانا حافظ عبدالغفار روپڑی، مولانا عبیداللہ عفیف، مولانا قاری شیخ محمد یعقوب، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، مولانا سیدضیاء اللہ شاہ بخاری، مولانا امیرحمزہ، جناب سید منور حسن، مولانا عبدالمالک خان، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ڈاکٹر وسیم اختر، جناب محمد ایوب بیگ، علامہ نیازحسین نقوی، حافظ کاظم رضا نقوی اور علامہ حسین اکبر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
"نفاذ شریعت کے لئے اتحاد امت کی ضرورت " پڑھنا جاری رکھیں
مذہبی ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالمہ
عالمی اور قومی سطح پر یہ کہا جاتا ہے کہ امن کے قیام کے لئے مذہبی ہم آہنگی ضروری ہے ۔ میں اس وقت قومی حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت ملک میں بدامنی کی جو صورت حال ہے اس کے ساتھ مذہب کا تذکرہ معمول بن گیا ہے۔ مجھے اس سے انکار نہیں ہے کہ مذہب کا غلط یا جذباتی استعمال بھی بدامنی کا ایک باعث ہے لیکن اسے صرف مذہب کے ساتھ نتھی کردینادرست نہیں بلکہ مذہب کو بدنام کرنے کے ایجنڈے کا حصہ ہے کیونکہ ہمارے ملک میں بدامنی، لاقانونیت اور قتل وغارت کے اسباب میں زبان ونسل کے جھگڑے بھی ہیں اور علاقائی وقومی تنازعات بھی شامل ہیں۔ یہاں سیاسی بنیاد پر بھی قتل وغارت ہوتی ہے اور دیگر وجوہ سے بھی بدامنی کو فروغ ملتا ہے۔ ان سب کے پیچھے عالمی قوتوںکے وہ مفادات اور ایجنڈے ہیں جو اس علاقے اور خطے کے بارے میں انہوں نے طے کررکھے ہیں۔ اس لئے بدامنی کے سدباب اور امن کے قیام کے لئے صرف اہل مذہب کو بدنام کرتے چلے جانے کی بجائے مجموعی صورت حال کو دیکھنا ہوگا۔
"مذہبی ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالمہ " پڑھنا جاری رکھیں
اسلامی خلافت…دلیل اور قانون کی حکمرانی
2، 3 ، 4 جنوری کو جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی کی مجلس صوت الاسلام کے زیراہتمام فضلائے درس نظامی کے ایک تربیتی کورس میںمسلسل تین روز تک ’’خلافت‘‘ کے عنوان پر گفتگو کا موقع ملا۔ یہ کورس ایک تعلیمی سال کے دورانیے پر مشتمل ہوتا ہے اور کئی سالوں سے جاری ہے۔ مختلف اصحابِ فکر ودانش اپنے اپنے پسندیدہ موضوعات پر اس میں گفتگو کرتے ہیں۔ مجھے بھی ہر سال چند روز کے لیے حاضری کی سعادت حاصل ہوتی ہے اور منتظمین کے ساتھ ساتھ فضلائے درس نظامی کا ذوق اور طلب دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ اس سال کراچی میں حاضری کے موقع پر مجھے تین نشستوں میں بات کرنا تھی، میں نے خود ہی اپنے لیے یہ موضوع منتخب کیا کہ ’’خلافت‘‘ کے بارے میںکچھ عرض کرنا زیادہ مناسب بات ہوگی۔ اس کے بعد 12جنوری کو اسلام آباد کے آب پارہ کمیونٹی سینٹر میں ’’مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘‘ کے زیراہتمام منعقدہ سیمینار میں بھی اسی موضوع کے بعض پہلوؤں پر گزارشات پیش کیں، کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ ان معروضات کو قلمبند ہوجانا چاہیے، چنانچہ ان حضرات کی فرمائش، بلکہ اصرار پر مذکورہ محافل میں اس موضوع پر ہونے والی گفتگو کو ترتیب کے ساتھ پیش کررہا ہوں۔ "اسلامی خلافت…دلیل اور قانون کی حکمرانی " پڑھنا جاری رکھیں
دینی طلبہ کا ایک سنجیدہ مسئلہ
عید الفطر کی تعطیلات ختم ہوتے ہی دینی مدارس میں تعلیمی سرگرمیوں کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ نئے داخلوں کے آغاز کے ساتھ ہی ہزاروں مدارس میں لاکھوں طلبہ و طالبات نئے سال کی تعلیمی ترجیحات طے کرنے میں مصروف ہیں، جبکہ گزشتہ سال فارغ ہونے والے ہزاروں طلبہ و طالبات اپنے لیے نئی سرگرمیوں اور روزگار کے مواقع کی تلاش کر رہے ہیں۔ دینی مدارس کے فضلاء کے لیے روزگار اور مختلف قومی شعبوں میں دینی خدمات کے حوالہ سے ذہن سازی اور منصوبہ بندی ہماری ترجیحات میں عمومی طور پر شامل نہیں ہوتی، بلکہ اسے دینی دائرے سے انحراف کے مترادف سمجھا جاتا ہے، مگر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے 1937ء کے دوران علی گڑھ میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی پچاس سالہ تقریب میں صدارتی خطبہ کے دوران اس مسئلہ کو دینی اداروں کے لیے انتہائی اہم قرار دیا تھا۔ حضرت مدنیؒ کے خطبۂ صدارت کا اس عنوان سے متعلقہ حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس پہلو پر سنجیدہ غور و خوض کی درخواست کے ساتھ کہ دینی مدارس کے فضلاء کے بارے میں جن تجاویز پر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے برطانوی حکومت سے معاملات طے کرنے کی بات فرمائی تھی، کیا ان تجاویز پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسلمان حکومت کے ساتھ گفتگو نہیں کی جا سکتی؟ "دینی طلبہ کا ایک سنجیدہ مسئلہ " پڑھنا جاری رکھیں