فرقہ واریت پر کیسے قابو پایا جائے؟

حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ فرماتے ہیں کہ قادیان میں ہر سال ہمارا جلسہ ہو اکرتا تھا اور حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحبؒ بھی اس میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔ ایک سال اسی جلسہ میں تشریف لائے‘ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ ایک صبح نمازِ فجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت مغموم بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا: حضرت کیسا مزاج ہے؟ کہا: ہاں! ٹھیک ہی ہے‘ میاں مزاج کیا پوچھتے ہو؟ عمر ضائع کردی۔ میں نے عرض کیا: حضرت ! آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں‘ دین کی اشاعت میں گزری ہے ‘آپ کے ہزاروں شاگرد علماء ہیں ‘مشاہیر ہیں جو آپ سے مستفید ہوئے اور خدمت دین میں لگے ہوئے ہیں ‘آپ کی عمر ضائع ہوئی تو پھر کس کی عمر کام میں لگی؟ فرمایا: میں تم سے صحیح کہتا ہوں ‘عمر ضائع کردی۔ میں نے عرض کیا۔ حضرت بات کیا ہے؟ فرمایا: ہماری عمر کا ‘ہماری تقریروں کا ‘ہماری ساری کدوکاوش کا یہ خلاصہ رہا ہے کہ دوسرے مسلکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کردیں۔ امام ابو حنیفہؒ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں‘ یہ رہا ہے محور ہماری کوششوںکا ‘تقریروں کا اور علمی زندگی کا ‘اب غور کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی؟ امام ابوحنیفہؒ ہماری ترجیح کے محتاج ہیں کہ ہم ان پر کوئی احسان کریں؟ ان کو اﷲ تعالیٰ نے جو مقام دیا ہے وہ مقام لوگوں سے خود اپنا لوہا منوالے گا‘وہ تو ہمارے محتاج نہیںاور امام شافعیؒ ‘امام مالکؒ ‘امام احمد بن حنبلؒ اور دوسرے مسالک کے فقہاء جن کے مقابلے میں ہم یہ ترجیح قائم کرتے آئے ہیں ‘کیا حاصل ہے اس کا ؟ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے مسلک کو ’’صواب محتمل الخطاء ‘‘(درست مسلک جس میں خطاء کا احتمال موجود ہے) ثابت کردیں اور دوسرے کے مسلک کو ’’خطاء محتمل الصواب‘‘ (غلط مسلک جس کے حق ہونے کا احتمال موجود ہے) کہیں‘ اس سے آگے کوئی نتیجہ نہیں۔ ان تمام بحثوں ‘تدقیقات اور تحقیقات کا جن میں ہم مصروف ہیں۔ پھر فرمایا: ارے میاں اس کا تو کہیں حشر میں بھی راز نہیں کھلے گا کہ کون سا مسلک صواب تھا اور کون سا خطاء؟ اجتہادی مسائل میں صرف یہی نہیں کہ دنیا میں ان کا فیصلہ نہیں ہو سکتا‘قبر میں بھی منکر نکیر نہیں پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترک ِ رفع یدین حق تھا؟ آمین بالجہر حق تھا یا بالسّرحق تھا؟ برزخ میں بھی اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا۔ 
"فرقہ واریت پر کیسے قابو پایا جائے؟ " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

’احتجاج‘‘ کے نام پر ملکی املاک کا نقصان کیوں؟

ایک خوفناک دھماکہ ہوا، پھر ہر طرف لاشیں ہی لاشیں نظر آنے لگیں، زخمیوں کی چیخ و پکار، مائوں کی صدائیں، اپنوںکی بے چینی، ایمبولینسوں کے سائرن، آہ و بکا، انسانی اعضاء پتوں کی طرح بکھرے پڑے، ہر طرف خون ہی خون، دہشت ہی دہشت، بھگدڑ، افراتفری، کوئی دھماکے کا شکار ہوا تو کوئی پائوں تلے کچلا گیا، غرض قیامت صغریٰ کا منظر، شہدائے کربلا سے وابستہ یوم عاشور اہل کراچی کے لئے بھی یوم کرب و بلا بن گیا۔ 
"’احتجاج‘‘ کے نام پر ملکی املاک کا نقصان کیوں؟ " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مسلمانوں پر شک و شبہے کے اظہار سے صرف نفرت ہی پھیلے گی‘

اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے 

سب سے پہلے میں اپنی معزز مہمان محترمہ فرح انور پنڈت ’’امریکی صدر کی نمائندہ خصوصی برائے اسلامی ممالک ‘‘کو اس تقریب میں یہاں موجود علماء کرام، جامعہ کے اساتذہ اور طلباء کی جانب سے خوش آمدید کہتا ہوں۔
امریکی صدر جناب بارک حسین ابامہ نے صدر منتخب ہونے کے بعد عالم اسلام کے لئے آپ کو نمائندہ خصوصی مقرر کرکے امت مسلمہ اور اسلام سے جس یکجہتی کا اظہار کیا ہے اس پر ہم ان کے مشکور ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ باہمی تبادلہ خیال اور ایک دوسرے کے قریب آنا ہی واحد حل ہے جس سے دنیا امن و سلامتی کا مرکز بن سکتی ہے ۔ "مسلمانوں پر شک و شبہے کے اظہار سے صرف نفرت ہی پھیلے گی‘ " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم

برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں نے اپنے اوپر مسلط ظالم وجابر حکمرانوں کے سامنے جب اپنے حقوق کے لئے انگڑائی لی تو ظالموں نے مظلوموں پر ظلم وستم کہ وہ پہاڑ توڑے کہ جو رہتی دنیا تک تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ وسائل کے فقدان اور افرادی قوت کی کمی کے باوجود ان کے حوصلے چٹانوں کی طرح مضبوط اور ہمالیہ سے بھی بلند رہے۔ جذبہ ایمانی کی قوت حرارت تھی کہ مسلمانوں میں اپنی آزادی کی تحریک دن بدن زور پکڑتی رہی۔ "جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

اقلیتیں مقدس امانت

پاکستان چونکہ کلمہ طیبہ لاالٰہ الا اللہ کے نام پر وجود میں آنے والی دوسری بڑی اسلامی ریاست ہے جہاں اقلیتی برادری کو آئین میں اسلامی حقوق تو میسر ہیں ہی اس کے ساتھ عالمی قوانین کے تحت بھی ان کو دوہرے حقوق میسرہیںان کو اکثریت اوراقلیت کے ووٹ کا بھی حق حاصل ہے
ہم پاکستان میں بطور مسلمان اکثریت میں ہیں لہٰذا ہمارے اوپر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہمارے آئین ہی نہیں اسلامی تعلیمات کا بھی لازمی جزوہے،ہمارے اکابرین اور اسلاف کے حسن سلوک اور رواداری کے نتیجے میں غیرمسلموں کی ایک کثیر تعداد دائرہ اسلام میں داخل ہوئی "اقلیتیں مقدس امانت " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

دینی مدارس کے ساتھ سندھ حکومت کی محاذ آرائی

مدارس کی تاریخ بڑی قدیم ہے ،مدارس کی اہمیت وافادیت، مدارس کی آفاقیت ووسعت، مدارس کی ہمہ گیریت اور عالمگیریت کا قوموں کی تاریخ میں بڑا رول رہاہے، جب سے اہل عالم نے مدارس کی اہمیت کو سمجھا اوران کے کام کو سراہا تو زندگی کے ہر میدان میں نت نئے علوم وفنون کاوجود عمل میں آیا اورزندگی کے تمام شعبوں میں مدارس کے فروغ کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔جب یہ مدارس ، مدارس اسلامیہ ہوں اور ان کی نسبت خالق کائنات کے پسندیدہ دین مذہب اسلام سے ہوتو پھر ان کی افادیت بھی آفاقی اور عالمگیرمذہب کی طرح عالیشان ہوتی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ دنیا میں چند بزعم خویش ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ، تہذیب یافتہ اور متمدن لوگ ان مدارس کی نسبت کو قدامت پرست، بنیاد پرست،دقیانوسی سمجھتے اور دہشت گردی کے اڈے وغیرہ جیسے گھناؤنے اور غیر اخلاقی الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ "دینی مدارس کے ساتھ سندھ حکومت کی محاذ آرائی " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

اسلام کا تصورعلم 

نبی کریم کی نبوت وبعثت‘ قرآن مجید فرقان حمید کے نزول اور اسلام کی آمد سے قبل مذہبی اور علمی روایات واقدار میں فاصلے پائے جاتے تھے‘ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ مذہب حصول علم کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کرتا ہے‘ اس تصور کا بنیادی اور اساسی سبب پاپائیت اور رہبانیت کے وہ تصورات تھے جو مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے اپنے مذاہب میں داخل کرلئے تھے۔
پاپائیت نے تصور علم کی اس لئے نفی کی، تاکہ عامۃ الناس مذہب کی تعلیم کی طرف متوجہ نہ ہوں اور وہ مذہبی روایات واقدار کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق توڑ موڑ کر پیش کر سکیں اور مذہب کو اپنے من پسند دائرہائے زندگی تک محدود ومسدود کر سکیں، جہاں کہیں جب بھی کبھی مذہب کو من پسند دائروں میں مسدود کیا جائے وہاں علم کی حوصلہ شکنی ضروری ہوتی ہے کہ مذہب ان دائروں میں اسی صورت میں بند رہ سکتا ہے جبکہ عامۃ الناس پر علم کے دروازے بند کردیئے جائیں‘ مذہبی روایت وقدر کے طور پر علم اور حصول علم کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ "اسلام کا تصورعلم  " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

’’تصوف صدیق اکبرؓ ‘‘

تاریخ انسانی کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ میں سب سے بڑا معاشرتی اور اخلاقی انقلاب قرآن کریم اور صاحب قرآن کریم یعنی خاتم الانبیاء‘ امام الرسل، محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے برپا کیا‘ ساتویں صدی عیسوی کے ان ابتدائی سالوں میں جبکہ علماء وفلاسفہ اخلاقیات یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ انسانی اخلاق میں تبدیلی اسی طرح ناممکن ہے جس طرح اس کے جسمانی ساخت میں تبدیلی ناممکن ہے۔ آنکھ کو ناک اور ناک کو آنکھ‘ ہاتھ کو پائوں یا پائوں کو ہاتھ‘ دل کو دماغ اور دماغ کو دل سے جس طرح تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح انسانی اخلاق میں بھی تبدیلی پیدا کرنا ناممکن ہے۔ یہ تصور ان کے اندر اس لئے موجود تھا کہ انسان آگ‘ ہوا، مٹی اور پانی کے عناصر ترکیبی سے بنا ہے‘ نہ تو انسان سے ان عناصر میں سے کسی عنصر کو نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان عناصر کی خاصیتوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ آگ میں سے جلانے اور حرارت کی خاصیت کون نکال سکتا ہے‘ پانی میں سے بہانے کی صفت وخصوصیت کو کون نکال سکتا ہے۔ اس لئے انسانی اخلاق میں تبدیلی کا امکان موجود نہیں ہے۔ اخلاقیات کے اس تصور ونظریہ میں نبی کریم ﷺ نے ایسا اخلاقی انقلاب اور ایسی تبدیلی پیدا کی کہ تاریخ انسانی میں نہ اس سے پہلے کبھی ایسی تبدیلی ہو سکی اور نہ ہی آئندہ ہو سکتی ہے۔ اس اخلاقی تبدیلی کے دو بڑے منابع اور سرچشمے تھے۔ "’’تصوف صدیق اکبرؓ ‘‘ " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

’’محمد عربی ﷺ کا اخلاقی انقلاب

پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی کے ماہرین معاشریات اور فلاسفر اخلاق، اخلاقی تبدیلی کے سلسلے میں ایک فکر اور ایک نظریہ کے قائل تھے اور بڑی مضبوطی سے اُس پر کار بند تھے، وہ نظریہ یہ تھا کہ انسانی اخلاق میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ 
اس نظریہ کی حمایت میں وہ حسب ذیل دلائل دیا کرتے تھے۔ 
الف: انسان دو چیزوں کا مجموعہ ہے، خَلَقْ اور خُلُقْ "’’محمد عربی ﷺ کا اخلاقی انقلاب " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

عالمی سیرت کانفرنس …تاثرات

نبی کریم ﷺ کی تعلیمات ‘آپ کی سیرۃ مطہرہ اور آپﷺ کی حیات مبارکہ یوں تو ہر زمانے کیلئے ہر دور کیلئے ہدایت وراہنمائی کا سرچشمہ رہی ہے لیکن عصر حاضر میں امت مسلمہ پر مصائب وآلام کا جو طوفان برپاہے اس طوفان سے اور مسائل کے اس گرداب سے نکلنے کیلئے سیرت النبیﷺ کی اہمیت میں جس قدر آج اضافہ ہوا ‘اس کا اندازہ ہر ذی شعور کو بخوبی ہوگا‘ اس پر مستزاد کہ ہمارے نظریات وافکار اور ہمارے اعمال واخلاق سیرت طیبہ سے دن بدن دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ سیرت طیبہ پر سیمینارز‘ کانفرنسیں اور جلسوں کا انعقاد ملک میں سارا سال عموماً اور ماہ ربیع الاول میں خصوصاً زیادہ ہوا کرتا ہے ‘لیکن سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح معنوں میں سمجھنے ‘ "عالمی سیرت کانفرنس …تاثرات " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us: