لفظ اسلام کے لغوی معنیٰ امن اور سلامتی کے ہیں اور یہ سلامتی کائنات میں بسنے والے جن و انس ، چرند، پرند سمیت تمام مخلوقات کے لیے یکساں مفید ہے۔ اسلام کا فلسفہ امن کسی وقتی ضرورت و حادثہ کے وجوہ و نتائج کی بنا پر معرض وجود میں نہیں آیا بلکہ تخلیق انسان کے وقت فرشتوں کے انسان کے فساد فی الارض کے خدشے سے پہلے ہی اللہ رب العزت نے قرآن و سنت میں رہنما اصول بنادیے تھے۔انہی کی تعلیم و تبلیغ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔
"اقلیتوں کے حقوق اور ان کی حفاظت " پڑھنا جاری رکھیں
Author: Abu Zar
تاثرات بین المذاہب کانفرنس
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عالمی بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد ہوا جو معروف معنیٰ کے اعتبار سے بھی بین الاقوامی کانفرنس تھی کہ اس میں دنیا کے ۲۶ سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنمائوں اورا سکالرز حضرات کے علاوہ پاکستان میں موجود مختلف مذاہب کے رہنمائوں نے شرکت کی اورشرعی اعتبار سے بھی بین الاقوامی کانفرنس تھی کہ اس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنمائوں نے اظہارِ خیال کیا ۔
"تاثرات بین المذاہب کانفرنس " پڑھنا جاری رکھیں
قیامت اور میدان حشر
تمام تعریفیں اس مالک کائنات کے لیے ہیں جس نے ہمیں انسان اور مسلمان پیدا فرمایا اور ہمیں اپنے دین کی سمجھ کے لیے کچھ وقت نکالنے کی توفیق دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ اللہ رب العزت جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں اسے اپنے دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔ اللہ رب العزت کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے دین کی سمجھ کے لیے منتخب فرمایا۔ "قیامت اور میدان حشر " پڑھنا جاری رکھیں
سنت کی دستوری اور آئینی حیثیت
سنت کی تعریف جن علمائے اصولیین اور ماہرین اصول فقہ نے کی ہے‘ ان میں سے علامہ آمدی ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں سنت کی تعریف یہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’سنت کا اطلاق ان تمام امور پر ہوتا ہے جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں یا وہ تمام دلائل جو آپ سے قولاً یا عملاً ثابت ہیں لیکن وہ قرآن نہیں ہیں۔‘‘ تعریف کا آخری جزء یہ بتلاتا ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً اور عملاً ثابت ہیں، لیکن وہ قرآن نہیں ہیں۔ اس کا معنی یہ ہوئے کہ ہم اسے اس واسطے چھوڑ نہیں سکتے کہ یہ آپ سے ثابت، آپ کا قول اور عمل تو ہیں لیکن چونکہ قرآن نہیں ہیں‘ اس لیے ہمیں اس کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘ بلکہ ہمیں اس کی عظمت اور اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ علامہ آمدی کی تعریف کا یہ جز اسی طرف اشارہ کررہا ہے۔ "سنت کی دستوری اور آئینی حیثیت " پڑھنا جاری رکھیں
سنت کی دستوری اور آئینی حیثیت
سنت کی تعریف جن علمائے اصولیین اور ماہرین اصول فقہ نے کی ہے‘ ان میں سے علامہ آمدی ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں سنت کی تعریف یہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’سنت کا اطلاق ان تمام امور پر ہوتا ہے جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں یا وہ تمام دلائل جو آپ سے قولاً یا عملاً ثابت ہیں لیکن وہ قرآن نہیں ہیں۔‘‘ تعریف کا آخری جزء یہ بتلاتا ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً اور عملاً ثابت ہیں، لیکن وہ قرآن نہیں ہیں۔ اس کا معنی یہ ہوئے کہ ہم اسے اس واسطے چھوڑ نہیں سکتے کہ یہ آپ سے ثابت، آپ کا قول اور عمل تو ہیں لیکن چونکہ قرآن نہیں ہیں‘ اس لیے ہمیں اس کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘ بلکہ ہمیں اس کی عظمت اور اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ علامہ آمدی کی تعریف کا یہ جز اسی طرف اشارہ کررہا ہے۔ "سنت کی دستوری اور آئینی حیثیت " پڑھنا جاری رکھیں
قیامت اور میدان حشر
تمام تعریفیں اس مالک کائنات کے لیے ہیں جس نے ہمیں انسان اور مسلمان پیدا فرمایا اور ہمیں اپنے دین کی سمجھ کے لیے کچھ وقت نکالنے کی توفیق دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ اللہ رب العزت جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں اسے اپنے دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔ اللہ رب العزت کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے دین کی سمجھ کے لیے منتخب فرمایا۔
مسلمان کے لیے جن عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے ان میں سے ایک اہم عقیدہ ـــ’’قیامت کا وقوع ‘‘ہے۔علامہ طحاویؒ عقائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : "قیامت اور میدان حشر " پڑھنا جاری رکھیں
ایمان اور عمل کا باہمی تعلق
تمام تعریفیں اللہ رب العزت کے لیے ہیں جس نے ہمیں انسان بنایا اور ہمارے لیے اسلام کو بطور دین پسند فرمایا۔ اسلام کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، پہلے حصے کا تعلق اعتقاد سے ہے اور دوسرے کا عمل سے۔ دونوں حصے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ راہ عدل کے زیر عنوان گزشتہ مضامین میں توحید و رسالت اور آخرت سے متعلق چند اہم بنیادی عقائد قرآن و سنت کے روشنی میں بیان کیے گئے۔ اس مضمون میں اسلام کے عملی حصے پر بات کریں گے۔ عمل ایمان کا حصہ ہے۔ جہاں اعتقاد ضروری ہے وہیں عمل بھی ضروری ہے۔
اعتقاد ایک چابی ہے جس سے انسان اسلام میں داخل ہوجاتا ہے اور اس کے نام جنت میں ایک خالی پلاٹ الاٹ کردیا جاتا ہے اب انسان جیسے جیسے عمل کرتا ہے ویسے اس کے اندر تعمیرات ہوتی جاتی ہیں اور اگر انسان گناہ والے کام کرتا ہے تو یہ اپنے عذاب کے لیے جہنم میں سامان اکٹھا کرنا شروع کردیتا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ رب العزت نے ایمان لانے کے بعد بالخصوص عمل کو ذکر کیا اور جزا و سزا کی وجہ بھی عمل کو قرار دیا۔ ارشاد ربانی ہے:
أَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ فَلَہُمْ جَنّٰتُ الْمَأْوَیٰ نُزُلاً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ وَأَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَأْواہُمُ النَّارُ کُلَّمَآ أَرَادُوْا أَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَآ أُعِیْدُوْا فِیْہَا وَقِیْلَ لَہُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ (السجدہ :۱۹،۲۰)
ترجمہ: سو وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو ان کے ان کاموں کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں اور جنہوں نے نافرمانی کی ان کا ٹھکانہ آگ ہے جب وہاں سے نکلنے کا ارداہ کریں گے تو اس میں پھر لوٹا دیئے جائیں گے اور انہیں کہا جائے گا آگ کا وہ عذاب چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ "ایمان اور عمل کا باہمی تعلق " پڑھنا جاری رکھیں
اسلام کا فلسفہ حج
گزشتہ مضمون کا خلاصہ :عقیدہ و ایمان باہم لازم و ملزوم ہیں اس لیے جس طرح عقائد میں پختہ ہونا ضروری ہے وہیں عملی زندگی سے تعلق رکھنے والے اسلامی احکام پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ ان پر عمل کرنا بھی انتہائی ضروی ہے۔ گزشتہ مضامین میں روزہ کی اہمیت و فضیلت انسانی زندگی پر روزہ کے اثرات کا جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ اس مضمون میںالحج اشہر معلومات کی نسبت سے حج سے متعلق بیان کیا جائے گا۔
حج کے لغوی معنی ہیں قصد کرنا اور شرعی اعتبار سے مخصوص ایام میں مخصوص جگہ پر مخصوص عبادت کا ارادہ کرنا ۔یعنی اسلامی سال کے آخری تین ماہ شوال ، ذی قعدہ اور ذی الحجہ میں حدود حرم میں مخصوص ارکان کی ادائیگی کا ارادہ کرنا۔دیگر بنیادی ارکان کے مقابلے میں حج وہ عظیم رکن ہیں جس میں ہر طرح کی جسمانی و مالی عبادت گویا کہ بقیہ ارکان بھی کسی نہ کسی طرح سے شامل ہیں۔ حج ہر صاحب حیثیت کے لیے زندگی میں ایک مرتبہ فرض کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: "اسلام کا فلسفہ حج " پڑھنا جاری رکھیں
اسلام کا فلسفہ قربانی
گزشتہ مضمون میں حج سے متعلق ذکر کیا گیا تھا کہ حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے ۔ حج کی فرضیت پر نہ صرف ایمان لانا ضروری ہے بلکہ اس حکم پر عمل کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ حج ادا کرنا انسان کے اعتقاد کا عملی نمونہ ہے جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اعتقادات کے ساتھ ساتھ عمل بھی مسلمان کے لیے ضروری قراردیا گیا ہے۔ حج ایک عظیم الشان عبادت ہے جو صاحب حیثیت لوگوں پر زندگی میں ایک بار فرض کیا گیا ہے۔ حج کے اعمال میں قربانی بھی شامل ہے۔ قربانی کا لغوی معنی ہے قرب حاصل کرنا اور اصطلاحی معنی ہے اللہ کے نام پر خون بہانا ہے اور مقصد اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔تمام حجاج کے لیے قربانی لازم ہونے کے ساتھ ساتھ تمام صاحب حیثیت مسلمانوں کے لیے بھی قربانی کرنا واجب ہے۔دیگر مسلمان قربانی کے ذریعہ حج کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِّیَذْکُرُو اسْمَ اللّٰہِ عَلیٰ مَا رَزَقَہُمْ مِّنْ بَہِیْمَۃِ الْأَنْعَامِ فَإِلٰہُکُمْ إِلٰـہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗ أَسْلِمُوْا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ (الحج:۳۴) "اسلام کا فلسفہ قربانی " پڑھنا جاری رکھیں
نمازکی ادائیگی کے چند فقہی اختلافات
تمام تعریفیں اللہ رب العزت کے لیے ہیں جس نے بنی آدم کی رہنمائی کے لیے انبیاء کے ذریعے اپنے احکام نازل فرمائے اور اسلام کو تمام ادیان پر فضیلت بخشی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی طرح اسلام کو آخری دین قرار دیا۔ اس کے بعد کوئی دین یا شریعت نہیں آئے گی۔ اسلام کو تاقیام قیامت آنے والے ہر رنگ ونسل ، ہر تہذیب و تمدن کے لیے جامع دین بنایا۔ اللہ رب العزت نے اسلام کو لوگوں میں راسخ کرنے کے لیے بتدریج نازل فرمایا اور اس تدریج کی وجہ سے لوگوں کے لیے اس پر عمل کرنا آسان ہوگیا۔ جیسے شراب کو براہ راست ممنوع قرار نہیں دیا بلکہ پہلے ارشاد فرمایا اس میں نفع اور نقصان دونوں ہیں اور نقصان زیادہ ہے ، اس کے گناہ کو منفعت سے بڑا قرار دینے سے بہت حساس ذہن متوجہ ہوئے اور انہوں نے اسی پرشراب چھوڑدی۔ پھر فرمایا نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ، اس حکم پر مزیدلوگ شراب سے پرہیز کرنے لگ گئے تو اب شراب کی حرمت نازل فرمادی۔ اسی طرح دیگر بہت سے احکام ایسے ہیں جن میں تدریج کے ساتھ ساتھ تنوع بھی پایا جاتا ہے۔ایسے ہی کچھ احکام اولاً مشروع تھے اور بعد میں ممنوع یا متروک ہوگئے ، اولاً مشروع اور پھر ممنوع قرار دیے جانے والے معاملات کے لیے ناسخ و منسوخ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔اور کچھ معاملات ایسے بھی ہیں جن سے ممانعت صراحت کے ساتھ بیان نہیں کی گئی اور وہ تنوع کے ساتھ نقل کیے جاتے رہے۔ایسے ہی نماز کے بعض احکام ایسے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنائے لیکن بعد میں ترک فرمادیے۔ یہ تمام طریقے بعد میں آنے والوں تک نقل کیے گئے ، جس تک جو طریقہ پہنچا اس نے اسی پر عمل کرنا شروع کردیا، پھر ایک وقت آیا کہ نقد و جرح شروع ہوئی اور متعدد طرق کو پرکھنا شروع کردیااختلاف اس حد تک پہنچ گیا کہ فریقین میں تعصب کی بو نظر آنے لگی ۔ زیر نظر مضمون میں انہی اختلافات میں راہ عدل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ "نمازکی ادائیگی کے چند فقہی اختلافات " پڑھنا جاری رکھیں