محبت کی شادیاں اور ہماری اعلیٰ عدالتیں

ہماری اعلیٰ عدالتوں میں کچھ عرصہ سے محبت کی شادیوں کے مقدمات کثرت اور تواتر کے ساتھ آرہے ہیں۔ ان کا ایک پہلو یہ ہے کہ ان سے ہمارے معاشرے میں شادی اور نکاح کے حوالے سے لڑکوں اور لڑکیوں کی رضامندی اور خوشی کو نظر انداز کرنے کے رجحانات کا اندازہ ہوتا ہے جو بلاشبہ زیادتی ہے اور شریعت کے تقاضوں کے منافی ہے۔ کیونکہ اسلام نے بالغ لڑکے اور لڑکی کے رشتہ و نکاح کے معاملہ میں ان کی رضامندی کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ مغربی حکومتوں اور اداروں کی طرف سے اپنے کلچر اور تمدن و ثقافت کو مشرقی اور اسلامی ممالک میں رواج دینے کی خواہش کے پورا ہونے میں ہمارا خاندانی نظام اور خاندانی روایات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس لیے لڑکوں اور لڑکیوں کی مکمل آزادی کے اس نوعیت کے عدالتی سرٹیفکیٹس مسلم معاشرے کے فیملی سسٹم اور خاندانی روایات و اقدار کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
چنانچہ اس قسم کے مقدمات اور ان کے فیصلوں کا جائزہ ان دونوں پہلوو¿ں کو سامنے رکھ کر لینا ہوگا۔ اور چونکہ ہائی کورٹس کے فیصلے ملک کے قانون کا حصہ بن رہے ہیں اس لیے دینی اور علمی مراکز کی ذمے داری میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ان فیصلوں اور سوسائٹی پر پڑنے والے ان کے اثرات پر نظر رکھیں اور قرآن و سنت اور اسلامی روایات کی روشنی میں قوم کی رہنمائی کریں۔
جہاں تک محبت کا تعلق ہے یہ ایک فطری جذبہ ہے۔ اسلام نے نہ صرف یہ کہ اس کی نفی نہیں کی بلکہ جائز حدود میں ہو تو اس کا احترام کیا ہے اور ایک جائز رجحان کے طور پر اسے تسلیم کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث نبوی کا حوالہ دینا چاہوں گا جو امام ابن ماجہؒ ، امام حاکمؒ ، امام بیہقیؒ اور امام طبرانیؒ نے اپنی اپنی کتابوں میں روایت کی ہے اور حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی نے اعلاءالسنن میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ ارشاد نبویﷺ ہے کہ”دو محبت کرنے والوں کے مسئلہ کا نکاح جیسا کوئی حل نہیں دیکھا گیا۔“
یعنی اگر کسی مرد اور عورت میں محبت ہو جائے تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ان کا آپس میں نکاح کر دیا جائے۔ جبکہ امام جلال الدین سیوطیؒ نے ”اسباب درود الحدیث“ میں اس حدیث کا پس منظر یہ بیان کیا ہے جو حضرت جابر بن عبد اللہؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ دونوں سے روایت ہے۔ وہ یہ کہ ایک شخص جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہماری ایک لڑکی ہے جس کی ہم شادی کرنا چاہتے ہیں۔ مگر قصہ یہ ہے کہ ہم اس کی شادی ایک مالدار نوجوان سے کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ایک غریب نوجوان سے محبت کرتی ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس پر جناب نبی اکرمﷺ نے وہ بات فرمائی جس کا اوپر تذکرہ ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک عورت کی کسی مرد سے محبت کے جذبہ کو بھی اسلام رد نہیں کرتا اور جناب نبی اکرمﷺ نے اسے ملحوظ رکھنے کی ہدایت فرمائی ہے۔
لیکن محبت کا دائرہ اور اس کی حدود کیا ہیں؟ اس سلسلہ میں بھی قرآن کریم اور سنت نبویﷺ میں واضح ہدایات ملتی ہیں۔ مثلاً قرآن کریم نے سورة النساءآیت 25 اور سورة المائدہ آیت 5 میں کسی بھی مرد اور عورت کے خفیہ تعلقات کو ناجائز قرار دیا ہے۔ اور آنحضرتﷺ نے واضح اور صحیح احادیث میں غیر محرم عورت کو بلاوجہ دیکھنے، اور آپس میں حرمت کا رشتہ نہ رکھنے والے کسی بھی مرد اور عورت کے کسی جگہ تنہا ہونے کی ممانعت فرمائی ہے۔ چنانچہ مرد اور عورت کے باہمی روابط و تعلقات اور پردہ و خلوت کے معاملہ میں شرعی احکام کو سامنے رکھا جائے تو اس محبت کا کسی درجہ میں کوئی جواز نہیں بنتا جو ہمارے ہاں خفیہ تعلقات سے شروع ہوتی ہے اور خطوط کے درپردہ باہمی تبادلہ سے لے کر تنہائی کی ملاقاتوں کے مراحل طے کرتے ہوئے لو میرج کی منزل تک جا پہنچتی ہے۔
چنانچہ محبت کی جائز صورت یہی سامنے آتی ہے کہ کوئی لڑکا کسی لڑکی کے بارے میں یا لڑکی کسی لڑکے کے بارے میں دوسروں سے معلومات حاصل کر کے یا پھر کسی مجلس میں اتفاقیہ ملاقات ہونے پر اسے دیکھ کر متاثر ہو جائے اور دونوں میں انس اور محبت کا رجحان پرورش پانے لگے۔ اس صورت میں محبت اس وقت قابل قبول ہوگی جب کوئی اور رکاوٹ موجود نہ ہو اور اس سے کوئی شرعی یا معاشرتی خرابی پیدا نہ ہو۔ مثلاً حافظ ابن القیمؒ نے سیرت نبویﷺ پر اپنی شہرہ آفاق کتاب ”زاد المعاد“ میں درجہ بدرجہ ان پانچ خرابیوں کی نشاندہی کی ہے جو مرد اور عورت کے خفیہ تعلقات کی صورت میں پیدا ہوتی ہیں۔
غیر محرم عورت سے بے تکلفانہ گفتگو، علیحدگی میں ملاقات اور خفیہ مراسم اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔اگر وہ عورت کسی اور شخص کی بیوی ہے تو یہ عمل اس کے خاوند کی حق تلفی ہے۔اگر مرد کی طرف سے یہ بے تکلفی پیدا کرنے میں کسی طرح کے جبر اور دباو¿ کا دخل ہے تو یہ خود اس عورت کی بھی حق تلفی شمار ہوگی۔ان تعلقات کے انکشافات پر عورت کے خاندان کو معاشرے میں ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس صورت میں یہ اہل خاندان کی حق تلفی ہوگی۔اور اگر خدانخواستہ کسی ایسی عورت سے بے تکلفی جائز حدود کو پھلانگ رہی ہے جو محرم عورتوں میں شمار ہوتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی دوہری نافرمانی ہے۔
حافظ ابن القیمؒ نے یہ 5 حق تلفیاں زنا کے نقصانات میں شمار کی ہیں۔ لیکن اگر محبت کے اس تصور اور پراسیس کو دیکھا جائے جو ہمارے ہاں مروج ہے اور جس پر ”لو میرج“ کے کم از کم 95 فیصد واقعات کی بنیاد ہوتی ہے تو اپنے نتائج کے لحاظ سے وہ بھی اس سے کسی صورت میں مختلف نہیں ہے اور یہ 5 خرابیاں اس میں بھی واضح طور پر پائی جاتی ہیں۔
مگر ہمارے فاضل جج صاحبان اس پورے پراسیس سے آنکھیں بند کرتے ہوئے محبت اور رضامندی کی شادیوں کو جواز کا سرٹیفکیٹ مہیا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس لیے بڑے ادب کے ساتھ معزز عدلیہ سے یہ سوال کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ محبت اور رضامندی دونوں کی اہمیت مسلم ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں اس محبت اور رضامندی تک پہنچنے کے جو مراحل مروج ہیں، کیا قرآن و سنت نے ان مراحل کے بارے میں بھی کوئی حکم دیا ہے یا نہیں؟ اور اگر قرآن و سنت میں ان کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں تو ہمارے جج صاحبان نے ان پر عملدرآمد کے لیے کون سا طریق کار تجویز کیا ہے؟

 

Please follow and like us:

اہل فکر ودانش کی ذمے داریاں

امت مسلمہ کو اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے اسے مختلف حوالوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ مسلم امہ کو سیاسی ، داخلی، خارجی، معاشی، تعلیمی و تکنیکی ، دفاعی و عسکری، معاشرتی و اخلاقی ، تہذیبی و ثقافتی، سائنسی و ابلاغی اور فکری و نظریاتی چیلنجز درپیش ہیں۔
حالات کا تجزیہ کیا جائے تو سیاسی پہلو سے اس کی صورت حال یہ ہے کہ اس وقت ساٹھ کے لگ بھگ مسلم ممالک دنیا کے نقشے پر موجود ہیں جو باقاعدہ آزاد ممالک کہلاتے ہیں اور قوت و اقتدار سے بہرہ ور سمجھے جاتے ہیں‘ لیکن وہ عالمی سطح پر انفرادی یا اجتماعی طور پر کسی مسئلہ میں بھی کوئی مؤثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، ان کی ایک عالمی تنظیم بھی اسلامی سربراہ کانفرنس (او آئی سی) کے عنوان سے کام کررہی ہے لیکن عالمی مسائل اور اُمت مسلمہ کو درپیش اجتماعی معاملات میں ایک قرار داد پاس کرنے اور کسی ڈھیلے ڈھالے مؤقف کا اظہار کردینے کے سوا کچھ بھی اس کے بس میں نہیں۔ اقوام عالم کے مشترکہ فورم اقوام متحدہ میں ساٹھ کے لگ بھگ مسلم ممالک کا یہ گروپ بالکل بے دست و پا ہے، تمام معاملات کا کنٹرول سلامتی کونسل کے پاس ہے اور اس میں بھی اصل قوت اور پاور ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک کے ہاتھ میں ہے اور عملاً صورتحال یہ ہے کہ جس مسئلے پر یہ پانچ ممالک متفق ہوجائیں وہی پوری دنیا کی تقدیر کا فیصلہ بن جاتا ہے اور جس معاملے میں ان میں سے کوئی ایک اڑ جائے اس میں کسی قسم کی پیش رفت ناممکن ہوکر رہ جاتی ہے‘ اس طرح عالمی نظام کا کنٹرول ان پانچ ممالک کے پاس ہے اور پوری دنیا ان کے رحم و کرم پر ہے مگر ان میں ایک بھی مسلم ملک نہیں ہے اور نہ ہی مسلم ممالک کو انفرادی طور پر، علاقائی سطح پر یا اجتماعی حیثیت سے اس میں شریک کئے جانے کا بظاہر کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔ "اہل فکر ودانش کی ذمے داریاں " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

آندھیوں کا انتظار مت کیجئے!

موجودہ حالات میں علماء کرام کی ذمہ داریاں؟
موجودہ صورتحال دو حوالوں سے انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور مزید ناگفتہ بہ ہوتی جارہی ہے۔ ایک اس حوالے سے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں اور مغرب کی کشمکش بڑھتی جارہی ہے اور فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ کشمکش سیاسی بھی ہے، معاشی بھی ہے، عسکری بھی ہے، سائنسی بھی ہے اور تہذیبی و فکری بھی ہے۔ اول الذکر چاروں شعبوں میں عالم اسلام مغرب کے سامنے مظلومیت اور بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے صرف عقیدہ و فکر اور تہذیب و ثقافت کے محاذ پر جنگ جاری ہے کہ مسلم دنیا کے عوام اور دینی حلقے اعتقادی، فکری اور ثقافتی طور پر مغرب کے سامنے سپر انداز ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں اور مغرب عالم اسلام میں اپنے وفا دار حلقوں کے ذریعے انہیں مغلوب اور بے بس کرنے کیلئے پوری قوت کے ساتھ مصروف عمل ہے اس کشمکش کا تناظر دن بدن واضح تر ہوتا جارہا ہے ،اس کی شدت اور سنگینی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اس لئے علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال سے واقف ہوں اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات پر ان کی مسلسل نظر ہو،تا کہ وہ قوم کی صحیح طور پر رہنمائی کر سکیں اس حوالہ سے مجھے اس طرز عمل سے قطعی اتفاق نہیں ہے کہ سرے سے حالات سے ہی بے خبر رہا جائے ۔میں نے کئی مدارس میں دیکھا ہے اور بہت سے علماء کرام کو دیکھا ہے کہ ان کے ہاں اخبارات کا داخلہ ہی بند ہے کہ صورتحال سے واقف ہوں گے اور نہ حالات کی سنگینی پر جلنے کڑھنے کا موقع آئے گا یہ فرار راستہ ہے اور طوفان کو دیکھ کر شتر مرغ کی طرح ریت میں سردے کو مطمئن ہو جانے والی بات ہے کہا جاتا ہے "آندھیوں کا انتظار مت کیجئے! " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

لاہور اجتماع اور علمائے دیوبند کا مشترکہ مؤقف

’’ملک بھر کے علماء کا یہ اجتماع عام مسلمانوں کے اس احساس میں برابر کا شریک ہے کہ ہمارا ملک جن گوناگوں مسائل سے دوچار ہے اور اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نفاذ اسلام کے جس عظیم مقصد کے لئے یہ مملکت خداداد حاصل کی گئی اس کی طرف سے مجرمانہ غفلت برتی گئی ہے اور عملاً اسلامی نظام زندگی اور اسلامی نظام عدل کی طرف پیش قدمی کے بجائے ہم اس منزل سے دور ہوتے چلے گئے ہیں۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک بھر کے عوام ہمہ جہتی مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ملک بھر میں کسی کی جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں ہے، قتل و غارت گری اور دہشت گردی سے ہر شخص سہما ہوا ہے اور مجرم دندناتے پھرتے ہیں۔ سرکاری محکموں میں رشوت ستانی اور بدعنوانی کا عفریت ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور عوام کے لئے اپنا جائز حق حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ہے۔ ناقص منصوبہ بندی کے نتیجے میں مہنگائی اور بجلی کی قلت نے عوام کو عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے، جس سے بیروزگاری میں مزید ضافہ ہو رہا ہے۔ "لاہور اجتماع اور علمائے دیوبند کا مشترکہ مؤقف " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مذہبی طبقہ اور دہشت گردی

مملکت خداداد پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا جب تک مسلم لیگ نے اسلام کا لبادہ نہیں اوڑھا تھا تب تک یہ تحریک کامیاب نہیں ہورہی تھی، اسلام کے نعرے پر مسلمانوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا، چونکہ لیبل اسلام کا لگایا تھا اس لئے سازشی اور مسلم دشمن عناصر نے اُس وقت سے سازشیں کرنا شروع کردیں اور پاکستان کو اسلامی اسٹیٹ کے بجائے سیکولر اسٹیٹ بنانے کی تگ و دو شروع کردی، اسلام کے نام پر ایک نئے ملک کا قیام ان شرپسندوں کی آنکھوں میں تنکا بن گیا۔ فکری، نظریاتی، معاشی، معاشرتی ہر قسم کے حملے کرکے پاکستان کو موجودہ حالت میں پہنچا دیا، تاہم وہ جماعت جنہوں نے برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے داخلے کے وقت سے ہی اس خطے پر برطانوی راج کی مزاحمت کا آغاز کردیا تھا اور مختلف اوقات، مراحل اور علاقوں میں سراج الدولہؒ سے لے کر شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی تحریک ریشمی رومال تک مسلح مزاحمت اور اس کے بعد سے 1947ء تک عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کے ذریعے برطانوی تسلط سے وطن عزیز کی آزادی کے لئے متحرک کردار ادا کیا تھا، ان کا مقصد اور ایجنڈا یہ تھا کہ مسلمانوں کے لئے اور اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس نئی ریاست میں معاشرتی ڈھانچے کی تشکیل اسلامی شریعت اور احکام و قوانین کی بنیاد پر ہو اور پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ملک کے طور پر دنیا میں اپنا کردار ادا کرے۔  "مذہبی طبقہ اور دہشت گردی " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

حدیث نبویؐ…تمام علوم کا سرچشمہ

حدیث نبوی ﷺ اپنے عمومی مفہوم میں جناب نبی اکرمﷺ کے اقوال واعمال اور احوال وواقعات پر مشتمل ہے اور تمام علوم دینیہ کا سرچشمہ اور ماخذ ہے ہمیں قرآن کریم حدیث نبویﷺ کی وساطت سے ملا ہے‘ سنت نبویﷺ کے حصول کا ذریعہ بھی یہی ہے اور فقہ کا استنباط بھی اسی سے ہوتا ہے‘ اسی لئے حدیث نبویﷺ کو ہمارے نصاب میں سب سے زیادہ مقدار میں اور تفصیل کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔
"حدیث نبویؐ…تمام علوم کا سرچشمہ " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

قرار داد مقاصد کی بنیاد پر قانون سازی کی جائے

’’قرار داد مقاصد‘‘ کا آئین سے ’’بالاتر دفعہ‘‘ کی حیثیت سے خاتمہ اسلامائزیشن کی دستوری جدوجہد کا راستہ روکنے کے مترادف ہے
جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ نے اس کی حیثیت کو متنازع بنایا‘ آئین میں اس کو پھر سے بالاتر دفعہ کی حیثیت دلانے کے لئے مذہبی 

’’قرار داد مقاصد‘‘ ایک بار پھر میڈیا میں زیر بحث ہے‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری نے قرار داد مقاصد کے بارے میں جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے چند ریمارکس دیے ہیں جن پر ’’قرار داد مقاصد ‘‘ پھر سے گفتگو کا عنوان بن گئی ہے‘ قرار داد مقاصد پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ملک کے دستور کی بنیاد اور اساس کے طور پر منظور کی تھی اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ نے دستور ساز اسمبلی کے منتخب ممبر کی حیثیت سے اس کی تیاری اورمنظوری میں اہم کردار ادا کیا تھا‘ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم اور تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما لیاقت علی خان مرحوم کی پیش کردہ اس قرار داد کا متن درج ذیل ہے۔ "قرار داد مقاصد کی بنیاد پر قانون سازی کی جائے " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مدرسہ انسان کی بنیادی پہچان ہے

گزشتہ دو دہائیوں سے راقم الحروف کا یہ معمول ہے کہ مدرسے کی تعطیلات میں ملک وبیرون ملک کے اسفار اور فکری اور دعوتی تقریبات میں شرکت اور عالم اسلام کے حالات کا مطالعہ کا موقع مل جاتا ہے‘ اس سال شوال کے وسط سے رمضان المبارک کے وسط تک ایک ماہ کیلئے امریکا کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں اجتماعات سے بیانات کا موقع ملا جس کا خلاصہ یہ ہے۔
اسلام آفاقی مذہب ہے، اس کی تعلیمات پوری نسل انسانی کے لئے دارین میں کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہیں، اسلامی نظام حیات ہر دور میں انسانی سوسائٹی کے لئے مفید، مؤثر اور کارآمد ہے جس نے سوسائٹی کی ضروریات اور مسائل کو ’’نظام فطرت‘‘ ہونے کے سبب حل کیا ہے، یہ حقیقت مسلم ہے کہ پوری انسانیت کے تمام مسائل کا حل اسلام ہی پیش کرسکتا ہے ،اسلام کے مقابلے میں دوسرا نظام اس وقت مغرب کا ہے جس کی بنیاد وحی کے بجائے عقل پر ہے جس طرح انسانی عقل ناقص ہے اسی طرح اس کے بل بوتے پر بنایا جانے والا نظام بھی ناتمام اور ناقص ہوگا۔ اس وقت مغرب کے لئے پریشانی کی بات یہ بنی ہوئی ہے کہ اس نے انسانی عقل اور سوسائٹی کی خواہشات پر مبنی جو نظام دنیا کے سامنے پیش کیا تھا وہ غیر فطری ہونے کی وجہ سے کامیابی کی طرف نہیں بڑھ رہا بلکہ انسانی سوسائٹی کو مزید انتشار اور خلفشار کا شکار بنا کر مکمل ناکامی کے کنارے پر کھڑا ہے اور اس کے متبادل کے طور پر اسلام کے سوا کوئی اور نظام سامنے نہیں آرہا، مغرب کی دانش گاہیں اس پر غور کر رہی ہیں اور اس پر بحث و تمحیص کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے "مدرسہ انسان کی بنیادی پہچان ہے " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار

چند عرصہ قبل روزنامہ پاکستان لاہور کے زیر انتظام ’’اسلام اور مغرب کے مابین درپیش چیلنجز اور مواقع‘‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار منعقد ہوا جس کا اہتمام پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز (پائنا) نے کیا ہے اور صدارت ملک کے معروف دانشور اور قانون دان جناب ایس ایم ظفر نے فرمائی ۔ سیمینار سے خطاب کرنے والوں میں جسٹس (ر) خلیل الرحمن‘ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری‘ سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد اور دیگر ارباب دانش کے علاوہ اسپین سے تشریف لانے والے دو معروف دانش پروفیسر پری ویلا نووہ اور پروفیسر راحیل بیونو بھی شامل تھے۔
"امت مسلمہ اور مغرب کے علوم وافکار " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

نفاذ شریعت کے لئے اتحاد امت کی ضرورت

24 ستمبر 2011ء کو ایمبیسیڈر ہوٹل لاہور میں ’’ملّی مجلس شرعی‘‘ کے زیراہتمام ’’اتحاد امت کانفرنس‘‘ کا انعقاد عمل میں لایا گیا، جس میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے شرکت کی، ان میں مولانا فضل الرحیم اشرفی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا اللہ وسایا، مولانا قاری احمد میاں تھانوی، مولانا مفتی رفیق احمد، مولانا عبدالرؤف فاروقی، مولانا محمد یوسف خان، مولانا مفتی محمد طیب، مولانا مفتی طاہر مسعود، مولانا محمد امجد خان، مولانا رشید میاں، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مولانا قاری محمد طیب حنفی، مولانا قاری گلزار احمد قاسمی، مولانا عزیزالرحمن ثانی، مولانا پیر عبدالخالق قادری بھرچونڈی شریف، مولانا مفتی محمد خان قادری، مولانا احمد علی قصوری، مولانا راغب حسین نعیمی، علامہ خلیل الرحمن قادری، مفتی شیر محمد سیالوی، صاحبزادہ محب اللہ نوری، مولانا قاری زوار بہادر، پروفیسر ساجد میر، پروفیسر حافظ محمد سعید، مولانا حافظ عبدالغفار روپڑی، مولانا عبیداللہ عفیف، مولانا قاری شیخ محمد یعقوب، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، مولانا سیدضیاء اللہ شاہ بخاری، مولانا امیرحمزہ، جناب سید منور حسن، مولانا عبدالمالک خان، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ڈاکٹر وسیم اختر، جناب محمد ایوب بیگ، علامہ نیازحسین نقوی، حافظ کاظم رضا نقوی اور علامہ حسین اکبر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
"نفاذ شریعت کے لئے اتحاد امت کی ضرورت " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us: