مذہبی ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالمہ

عالمی اور قومی سطح پر یہ کہا جاتا ہے کہ امن کے قیام کے لئے مذہبی ہم آہنگی ضروری ہے ۔ میں اس وقت قومی حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت ملک میں بدامنی کی جو صورت حال ہے اس کے ساتھ مذہب کا تذکرہ معمول بن گیا ہے۔ مجھے اس سے انکار نہیں ہے کہ مذہب کا غلط یا جذباتی استعمال بھی بدامنی کا ایک باعث ہے لیکن اسے صرف مذہب کے ساتھ نتھی کردینادرست نہیں بلکہ مذہب کو بدنام کرنے کے ایجنڈے کا حصہ ہے کیونکہ ہمارے ملک میں بدامنی، لاقانونیت اور قتل وغارت کے اسباب میں زبان ونسل کے جھگڑے بھی ہیں اور علاقائی وقومی تنازعات بھی شامل ہیں۔ یہاں سیاسی بنیاد پر بھی قتل وغارت ہوتی ہے اور دیگر وجوہ سے بھی بدامنی کو فروغ ملتا ہے۔ ان سب کے پیچھے عالمی قوتوںکے وہ مفادات اور ایجنڈے ہیں جو اس علاقے اور خطے کے بارے میں انہوں نے طے کررکھے ہیں۔ اس لئے بدامنی کے سدباب اور امن کے قیام کے لئے صرف اہل مذہب کو بدنام کرتے چلے جانے کی بجائے مجموعی صورت حال کو دیکھنا ہوگا۔
"مذہبی ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالمہ " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

اسلامی خلافت…دلیل اور قانون کی حکمرانی

2، 3 ، 4 جنوری کو جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی کی مجلس صوت الاسلام کے زیراہتمام فضلائے درس نظامی کے ایک تربیتی کورس میںمسلسل تین روز تک ’’خلافت‘‘ کے عنوان پر گفتگو کا موقع ملا۔ یہ کورس ایک تعلیمی سال کے دورانیے پر مشتمل ہوتا ہے اور کئی سالوں سے جاری ہے۔ مختلف اصحابِ فکر ودانش اپنے اپنے پسندیدہ موضوعات پر اس میں گفتگو کرتے ہیں۔ مجھے بھی ہر سال چند روز کے لیے حاضری کی سعادت حاصل ہوتی ہے اور منتظمین کے ساتھ ساتھ فضلائے درس نظامی کا ذوق اور طلب دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ اس سال کراچی میں حاضری کے موقع پر مجھے تین نشستوں میں بات کرنا تھی، میں نے خود ہی اپنے لیے یہ موضوع منتخب کیا کہ ’’خلافت‘‘ کے بارے میںکچھ عرض کرنا زیادہ مناسب بات ہوگی۔ اس کے بعد 12جنوری کو اسلام آباد کے آب پارہ کمیونٹی سینٹر میں ’’مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘‘ کے زیراہتمام منعقدہ سیمینار میں بھی اسی موضوع کے بعض پہلوؤں پر گزارشات پیش کیں، کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ ان معروضات کو قلمبند ہوجانا چاہیے، چنانچہ ان حضرات کی فرمائش، بلکہ اصرار پر مذکورہ محافل میں اس موضوع پر ہونے والی گفتگو کو ترتیب کے ساتھ پیش کررہا ہوں۔ "اسلامی خلافت…دلیل اور قانون کی حکمرانی " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

دینی طلبہ کا ایک سنجیدہ مسئلہ

عید الفطر کی تعطیلات ختم ہوتے ہی دینی مدارس میں تعلیمی سرگرمیوں کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ نئے داخلوں کے آغاز کے ساتھ ہی ہزاروں مدارس میں لاکھوں طلبہ و طالبات نئے سال کی تعلیمی ترجیحات طے کرنے میں مصروف ہیں، جبکہ گزشتہ سال فارغ ہونے والے ہزاروں طلبہ و طالبات اپنے لیے نئی سرگرمیوں اور روزگار کے مواقع کی تلاش کر رہے ہیں۔ دینی مدارس کے فضلاء کے لیے روزگار اور مختلف قومی شعبوں میں دینی خدمات کے حوالہ سے ذہن سازی اور منصوبہ بندی ہماری ترجیحات میں عمومی طور پر شامل نہیں ہوتی، بلکہ اسے دینی دائرے سے انحراف کے مترادف سمجھا جاتا ہے، مگر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے 1937ء کے دوران علی گڑھ میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی پچاس سالہ تقریب میں صدارتی خطبہ کے دوران اس مسئلہ کو دینی اداروں کے لیے انتہائی اہم قرار دیا تھا۔ حضرت مدنیؒ کے خطبۂ صدارت کا اس عنوان سے متعلقہ حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس پہلو پر سنجیدہ غور و خوض کی درخواست کے ساتھ کہ دینی مدارس کے فضلاء کے بارے میں جن تجاویز پر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے برطانوی حکومت سے معاملات طے کرنے کی بات فرمائی تھی، کیا ان تجاویز پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسلمان حکومت کے ساتھ گفتگو نہیں کی جا سکتی؟  "دینی طلبہ کا ایک سنجیدہ مسئلہ " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس کے مطالبات

یکم فروری کو اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت منعقد ہونے والی ’’آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس‘‘ کے مطالبات کی بازگشت ملک بھر میں مسلسل سنائی دے رہی ہے اور مختلف مقامات پر دینی حلقے اس سلسلہ میں سرگرم عمل ہیں۔ اس کانفرنس کے مطالبات درج ذیل ہیں:
’’(۱) 29C کے قانون کے خلاف سرگرمیوں کا نوٹس لیا جائے اور اس قانون کے بہرحال تحفظ کا دوٹوک اعلان کیا جائے۔
(۲) ادارہ فزکس کا ڈاکٹر عبد السلام قادیانی کے نام پر رکھنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔
(۳) چناب نگر میں ’’ریاست در ریاست‘‘ کا ماحول ختم کیا جائے۔ حکومت کی دستوری اور قانونی رٹ بحال کرنے کے ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور متوازی عدالتیں ختم کر کے ملک کے قانونی نظام کی بالادستی بحال کی جائے۔ "آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس کے مطالبات " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کے مختلف پہلو

ہمیں چونکہ اپنے علاقے میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے حوالہ سے قادیانیوں سے سابقہ درپیش رہتاہے اس لئے تحفظ ختم نبوت اور رد قادیانیت ایک ہی موضوع کے مختلف عنوان سمجھے جاتے ہیں۔میں آج کے حالات کے تناظر میں اس موضوع پر گفتگو اور جدوجہد کے چند اہم پہلوؤں کی نشاندہی کرنا چاہتاہوں۔
"تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کے مختلف پہلو " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی چہل قدمی ہائیڈ پارک کے چند تاریخی وخصوصی پہلو

گزشتہ دنوں اخبارات میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی یہ تصویر دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ لندن کے ہائیڈ پارک میں چہل قدمی کر رہے ہیں، جو ان کی صحت کی مسلسل بحالی کی علامت ہے، دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ و عاجلہ سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ اس کے ساتھ ہی ہائیڈ پارک کے بعض ماضی کے مناظر نگاہوں کے سامنے گھومنے لگے۔ 
"وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی چہل قدمی ہائیڈ پارک کے چند تاریخی وخصوصی پہلو " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

کلیدی مناسب اور دینی طبقات کے خدشات؟

اعلیٰ سرکاری مناسب کے حوالے سے جاری بحثوں کا سلسلہ اب حتمی ہوجانا چاہیے تاہم جہاں تک ایسی باتوں کا تعلق ہے اس پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آخر ہمارے دینی حلقے اس قدر الرجک اور حساس کیوں ہیں کہ کسی بھی کلیدی اسامی پر کسی نئی شخصیت کی آمد کے ساتھ ہی اس کے بارے میں شکوک وشبہات پھیلنا شروع ہوجاتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم نے ایک نشری تقریر میں ختم نبوت کے حوالہ سے اپنے عقیدہ کی وضاحت کی تھی، جنرل محمد ضیاء مرحوم پر کھلے جلسوں میں قادیانی ہونے کا الزام لگا تھا جس پر انہیں صرف زبانی نہیں بلکہ امتناع قادیانیت آرڈیننس کی صورت میں اپنے عقیدہ کی عملی وضاحت بھی دینا پڑی تھی اور جب جنرل پرویز مشرف کو بھی اس قسم کا سامنا کرنا پڑا تھا تو اس دور میں کچھ دوستوں کے پوچھنے پر میں نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف قادیانی تو نہیں البتہ میرے خیال میں ان پر یہ الزام لگانے والے حضرات شاید ان کا گریڈ کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
"کلیدی مناسب اور دینی طبقات کے خدشات؟ " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us: