ایام حج میں سرکاری اسکیم کے حجاج کی پر یشا نیاں

 

کروڑہا شکر مالک کائنات کا، کروڑہا درود وسلام پیارے نبی آخرالزماں، خاتم المرسلین ،رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ومقدس ذات پر جن کے روزہ¿ اقدس اور خالق کائنات کے گھر کی زیارت نصیب ہوئی اور دین اسلام کے پانچویں رکن حج مبارک کی سعادت حاصل کی۔
طواف کعبہ اور زیارت رسول ﷺ سال کے بارہ مہینے جاری رہنے والا عمل ہے لیکن حج سال میں ایک مرتبہ ادا کرنے والی عبادت ہے، اس عبادت کے لیے سفری مصائب ومشکلات بھی نیکیوں اور رضائے الٰہی کا موجب ہوتی ہیں۔ پرانے وقتوں میں لوگ لاکھوں میل کا سفر پیدل، اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے طے کیا کرتے تھے۔18ویں اور 19ویں صدی میں سفری سہولیات میں بہتری آئی پھر 20ویں صدی میں سفر کی جدید سہولیات ہر ملک میں سرایت کرگئیں جیسے جیسے جدت آتی گئی ویسے ویسے زمانے نے بھی کروٹیں لینی شروع کیں اور انسان کے لیے ہر طرح کی آسائش کا حصول آسان ہوتا گیا، انہی آسائش اور سہولیات کا نتیجہ ہے کہ آج کا انسان ہر معاملے میں سہولت کا متمنی ہے، ان معاملات کی حد نہیں۔ گھر میں گھر سے باہر، گھر سے دفتر، فیکٹری، کھیت کھلیان یعنی ہر اس مقام پر جہاں تک اس کی رسائی ہونی ہے اور وہاں جہاں اس کے شب وروز گزرنے ہیں۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث مبارکہ کے مفہوم میں یہ بات ملتی ہے کہ سفر میں مانگی گئی دعا قبول ہوتی ہے، یعنی اس امر سے ہم سفر کی مشکلات ومصائب کا اندازہ لگاسکتے ہیں اور آپ ﷺ کی تعلیمات اور اسوہ¿ حسنہ سے سفر کی آسانیاں بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
حج کا سفر ایک عبادت ہے آج اگر کسی ملک کا کوئی باشندہ دوران سفر کی مشکل کا ذکر کرتا ہے تو اکثر جواب یہ ہوتا ہے کہ حج نام ہی سفری مشکلات کا ہے جبکہ ایسا ہے نہیں ۔ کیوں،کیوں کہ اللہ رب العزت نے حج فرض ہی اس شخص پر کیا ہے جو صاحب استطاعت ہے، مالی اور جسمانی لحاظ سے طاقت ور ہے، لہٰذا سفر کی تیز ترین اور جدید سہولیات کی موجودگی میں اس طرح کا موقف اختیار کرنا سوائے جان چھڑانے کے اور کچھ نہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنی بدانتظامیوں پر غور وفکر کرنے کی بجائے ناک بچانے کے لیے مختلف حیلے بہانے تراشتے اور لمبی تان کر سو جاتے ہیں اور پھر ہر سال ہمارے حجاج کرام کسی نہ کسی انتظامی مسئلے کا شکار ہوتے ہیں۔ ماسوائے گزشتہ 3،4سال کے ہر دور میں حجاج کرام مسائل کا شکار رہے لیکن سال رواں(عیسوی) جس طرح کی بدانتظامی کا مشاہدہ ہو ایہ بڑی شرمندگی اور ندامت کا باعث بنی، یعنی آپ اندازہ لگائیے کہ 45سینٹی گریڈ کی جھلسادینے والی گرمی میںطویل سفرپیدل طے کیا، بیچارے حجاج کا کیا حال ہوا ہوگا۔ ان حجاج میں بوڑھے، بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔
حکومت پاکستان ہر سال حجاج کرام کو سرکاری اسکیم اور ٹور آپریٹرز (نجی شعبہ) کے تحت اس عظیم عبادت کے لےے بھیجتی ہے ۔اب کی بارمجموعی طور پر 1,78000سے زاہدحجاج کرام میں سے 107,526سرکاری اور 71000 کو پرائیویٹ ٹورآپریٹرز کے ذریعے بھیجا گیا۔ سرکاری اسکیم کے تحت فی حاجی تقریباً ڈھائی لاکھ سے زائد روپے وصول کئے گئے جبکہ نجی شعبہ (ٹور آپریٹرز) نے ساڑھے 4لاکھ سے 25لاکھ روپے تک وصول کئے۔
اگرچہ نجی شعبے کے تحت حج مہنگا ضرورتھا اور کئی جانب سے اعتراضات بھی سامنے آئے تاہم ارض مقدس پر حج کے پانچ دنوں میں گزشتہ سال کی نسبت اس سال مناسب اور اطمینان بخش انتظامات دیکھنے میں آئے،ٹورآپریٹرز کا سب سے اچھا اورعمدہ کام یہ تھا کہ 100حاجیوں پر مشتمل گروپ تشکیل دےے گئے تھے جن کی خدمت پرکئی لوگ مامورکئے گئےجو ان کے قیام وطعام سے لے کر ٹرانسپورٹ اور منیٰ،مزدلفہ اور عرفات میں ہرطرح کی سہولیات اور آسائش کے ذمے دار تھے،اور ان لوگوں نے اپنے فرائض منصبی انتہائی جانفشانی اور فرض شناسی سے نبھائے جس کے نتیجے میں کسی جانب سے بھی حقیقی شکایات نہ ہونے کے برابر رہیں تاہم بعض اس نوعیت کی شکایات ضرور تھیں کہ بہت سے حاجیوں کو پاکستان میں فراڈ کا سامنا کرنا پڑا، اس کی وجہ یہ تھی کہ کچھ ٹورآپریٹرز جو کہ رجسٹرڈ نہیں تھے اور انہیں حکومت کی جانب سے کوٹہ بھی نہیں ملا تھا انہوں نے لوگوں سے پیسے اکھٹے کئے اور رفوچکر ہوگئے ان کے خلاف حکومت کو فوری کارروائی کرنی چاہےے۔حکومت پاکستان نے بھی نجی شعبہ کی کارکردگی جانچنے کے لےے باقاعدہ ایک مانیٹرنگ کا شعبہ قائم کررکھا تھاجو ہروقت اور ہرلمحہ ٹورآپریٹرز پر نظررکھے ہوا تھا جس کے باعث نجی شعبے کی کارکردگی میں کافی بہتری آئی اگر حکومت کا یہ نظام تسلسل کے ساتھ جاری رہا اور اس میں مزید بہتری لائی گئی تو امید ہے انشاءاللہ نجی شعبہ سے متعلق جوچند شکایات ہیں وہ بھی ختم ہوجائیں گی۔
دوسری جانب سرکاری اسکیم کے تحت جانے والے بعض حاجیوں کو مشکلات درپیش تھیں تاہم مجموعی طورپرصورتحال قدرے بہترتھی۔حج کے 5دنوں میں منیٰ،عرفات اور مزدلفہ میں بعض مقامات پر حاجیوں کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔اس کی بڑی وجہ خدام کی تربیت میں کمی اور ٹرانسپورٹ کے ناقص انتظامات تھے ۔
وزارت مذہبی امور نے کئی معاملات میں اچھی کارکردگی ضرور دکھائی اوراس سال بھی مدینہ منورہ اورمکہ مکرمہ کی رہائش کے انتظامات عمدہ تھے،کھانے کا معیار بھی کسی حدتک مناسب تھا،مکہ میں نمازوں کے لےے ٹرانسپورٹ بھی مہیا تھی،لیکن حج کے 5ایام میں حاجیوں کو پیش آنے والی دشواریوں اور پریشانیوں نے ان سب خدمات پر پانی پھیر دیا،ان ایام میں بعض حجاج کو عبادت کا موقع تک میسر نہیں تھا،وہ حجاج جنہیں ٹرین کی ٹکٹیں میسر نہ تھیں انہیں بسوں سے سفر کا کہاگیا لیکن بسیں بھی نہیں دی گئیں جس کی وجہ سے ان حجاج کو سخت گرمی میں مکہ سے منیٰ اوربقیہ سارا حج پیدل کرنا پڑاجبکہ منیٰ پہنچ کر جگہ کی تنگی کا سامنا الگ سے رہا،حجاج کو الاٹ شدہ جگہ نہیں دی گئی جنہیں ملی بھی توایسے خیموں میں جہاں سے آنے جانے میںان کوسخت مشکلات پیش آئیں۔منیٰ میں ایک مسئلہ بوتل پیک صاف پانی میسر نہ ہونابھی تھا،پینے کا فلٹر شدہ ٹھنڈا پانی کولروں میں رکھاگیا تھا جس شاید ٹریٹمنٹ سے گزارہ گیا تھاجس کی وجہ سے اس پانی میں جھاگ بننے لگی ،لہٰذا حجاج نے یہ پانی استعمال نہیں کیا۔سواری نہ ملنے،سخت گرمی میں پیدل سفر،بوتل پیک صاف پانی ،صحت کے تمام اصولوں کے مطابق کھانے کی عدم فراہمی اور جگہ کی تنگی یہ وہ مسائل تھے جن کی وجہ سے حجاج کے سفرحج کا یہ اہم ترین حصہ تکلیف وپریشانی اور ذہنی کرب میں گزرا۔
اس بدانتظامی کااگر چہ حکومت پاکستان کی وزارت مذہبی امور نے اعتراف بھی کرلیا لیکن ساتھ ہی یہ موقف بھی پیش کیا کہ معلمین کے معاملے میں ہمار اختیار ختم ہوجاتا ہے اور یہ کہ حاجیوں کو پہنچنے والی ان تکلیفات سے حکومت بری الذمہ ہے۔یہ بذات خود سوالیہ نشان ہے۔یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ حکومت پاکستان انتہائی جانفشانی ، فرض شناسی اور مذہبی جوش وجذبے کے ساتھ حج کے لےے سرگرم ہوتی ہے اور سستا ترین پیکیج دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔لیکن سوچنے کی بات یہ کہ ایسے سستے پیکیج جس میں حاجیوں کو پینے کے لےے صاف پانی نہ ملے،سفر کے لےے ٹرانسپورٹ نہ ملے،جینے کے لےے معیاری کھانا نہ ملے،کس کام کا۔پرانے وقتوںمیں اگر مشکلات اور مصائب برداشت کےے بھی جاتے تھے تو اس وقت عصر حاضر کے جیسی سہولیا ت بھی نہیں تھیں۔لہٰذا اپنے حاجیوں کی تکلیف کو معلمین کے کھاتے میں ڈال کر بری الذمہ ہونا کسی بھی طور قابل قبول موقف نہیں،کیوں کہ پرائیویٹ ٹورآپریٹرز اور دیگر ممالک کے سرکاری حکام انہی معلمین سے اپنے حجاج کی سہولیات پوری کرواتے ہیں تو پھر حکومت پاکستان کیوں نہیں کرواسکتی؟۔ہماری وزارت مذہبی امور کے موقف پر سعودی وزارت مذہبی امور کا موقف یہ سامنے آیا کہ حجاج کرام کو معاہدے کے مطابق تمام تر سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔جس سے بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ حکومت نے سستے حج کے لےے ناقص انتظامات کا معاہدہ کیاتھا!!!۔ اگر معاہدے میں معیاری انتظامات شامل تھے تو حکومت پاکستان کو سہولیات کی عدم فراہمی پر سعودی حکومت اور معلمین سے احتجاج کرنا چاہئے اور اس مد میں حاجیوں سے لی گئی اضافی رقم واپس کرنی چاہئے۔حاجیوں کو سہولیات دینا ہماری حکومتوں کا اولین فرض ہے۔وزارت حج سعودی عرب نے نجی شعبے کے انتظامات دیکھنے کے بعد حکومت پاکستان کو یہ بھی تجویز دی ہے کہ حکومت کو مراعات وسہولیات چاہئیں تو حج کو بھی پرائیوٹائز کردے اور سار انتظام ٹورآپریٹرز کے ذریعے کرائے۔یہ تجویز اگر چہ قابل عمل نہیں لیکن حکومت کی کارکردگی کے لےے آنکھیں کھول دینے کے لےے کافی ہے اور حکومت کوسوچنا چاہئے کہ اسے کیوں ڈیکٹیڈکیاجارہاہے۔
ایک اور بات مشاہدے میں یہ آئی ہے کہ حاجیوں کی مشکلات کے مسئلے کا بنیادی تعلق ہی حکومت پاکستان،سعودی حکومت اور معلمین (کمپنیوں)کے درمیان طے پانے والے معاہدوں سے ہوتا ہے۔اور یہاں ہماری حکومت کا رویہ مودبانہ اور مرعوبانہ ہوتاہے،معاہدے کے وقت کھل کرگزشتہ تجربات ،تحفظات اور ممکنہ خدشات پر بات نہیں کی جاتی جبکہ دیگر ممالک جن میں ایران،ترکی ،بھارت ،بنگلہ دیش وغیرہ وغیرہ شامل ہیں وہ معاہدوں میں اپنے حجاج کے لےے مراعات اورسہولیات پرکسی قسم کا کمپرومائز نہیں کرتے۔جہاں مراعات وسہولیات کے لےے اضافی رقوم کی بات آتی ہے وہ فراہم کرتے ہیں ۔اب چونکہ آنے والے کئی سیزن گرمیوں کے دنوں کے ہیں توہمارے حج مشن کو اپنے روےوں میں مثبت تبدیلی لاتے ہوئے اپنے حجاج کے لےے ضروری مراعات لینے میں کسی پس وپیش کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہےے۔معاہدہ کرتے وقت اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اتنی گرمی میں حاجی کو پیدل سفر نہ کرنا پڑے اب پیدل سفر گرمی کی شدت کی وجہ سے ممکن بھی نہیں رہا،بلکہ ٹرین ہویا بس سیٹ بائی سیٹ ٹرانسپورٹ یقینی بنائی جائے،مشاعر میں منرل بوتل پیک پانی کی دستیابی یقینی بنائی جائے ،منیٰ میں وزارت حج سعودیہ کی طرف سے الاٹ کردہ ہر حاجی کے مطابق جگہ کا حصول یقینی بنایا جائے مشاعر میں کھانے کا معیار بہتر کیا جائے۔اسی طرح خدام کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔90فیصد حجاج بالکل نئے ہوتے ہیں ان میںبھی اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو سعودی عرب کی آب و ہواسے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں حج کی مشکلات کا اندازہ ہوتاہے۔ایسی صورت میں ناتجربہ کار اور غیرتربیت یافتہ خدام یا انتظامی افسران کو بھیجنا انتہائی غیرذمے دارانہ اور حاجیوں کی بددعائیں لینے کے متراد ف ہے۔حکومت کو چاہئے کہ حج سے 6ماہ قبل ہی خدام کی تربیت کا انتظام کرے نہ صرف انتظام کیاجائے بلکہ ریہرسل بھی کرائی جائے تاکہ یہ لوگ وہاں جاکر انتظامات میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں۔اور پھر سرکاری اسکیم کے تحت مقررہ تعداد میں 100،200کے گروپ کے حساب سے خدام کی تعیناتی کیجائے۔کم ازکم 100حاجیوں کے گروپ کے لےے ایک ذمہ دار کا تقرر ضروری ہے۔پھر اسی طرح مانیٹرنگ کاانتظام بھی کیا جائے اور خصوصاً معلمین کی نگرانی کی جائے تاکہ کہیں کوئی کمی بیشی رہے جائے تو فوری طور پر اس کا ازالہ کیا جاسکے۔
٭٭٭٭٭٭

 

Please follow and like us:

فضائل رمضان

روزہ کے اجروثواب…بے حد وبے حساب

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابن آدم کے ہر نیک عمل کا اجروثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھادیا جاتا ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’روزہ اس سے مستثنیٰ ہے‘ اس لئے کہ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں خود (اپنے شایان شان) اس کا بدلہ دوں گا کہ روزہ دار میری ہی خاطر نفسانی خواہشات اور کھانے پینے کو قربان کرتا ہے۔ روزہ دار کیلئے دو فرحتیں ہیں‘ ایک فرحت افطار کے وقت ملتی ہے اور دوسری فرحت اپنے رب سے ملاقات کے وقت نصیب ہوگی اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ اور پسندیدہ ہے۔‘‘
روزہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے حالت ایمان میں ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا‘ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ (بخاری)مسند احمد کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اگلے گناہ بھی معاف کردیئے جائیں گے۔ "فضائل رمضان " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

عدل ومساوات کا معاشرہ

حضور نبی کریم ﷺ اور آپﷺ کے صحابہؓ کے دور کی روشن مثالیں

قانون کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی کے بغیر قوم صحیح معنی میں قوم نہیں رہتی، ایسے لوگوں میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں جن میں قانون کی بالادستی نہ ہو، اگر قانون باندی یا غلام بن جائے تو پھر نہ تھمنے والی ناانصافی وظلم کا طوفان بپا ہوجاتا ہے، جو دھیرے دھیرے ہر چیز کی تباہی وبربادی کا باعث بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک دن وہ پورے معاشرے کو بھی تہس نہس اور تہہ بالا کردیتا ہے۔
قانون کی حکمرانی اور انصاف کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان دونوں کا رشتہ ٹوٹتے ہی سماج اور معاشرے پر سیاہی پھرجاتی ہے۔ دنیا کے تمام مہذب نظریات اور ان پر یقین رکھنے والے باشعور انسانوں نے قانون کی بالادستی اور انصاف کا بول بالا رکھنے پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ کا تاریخی جملہ بہت مشہور ہے انہوں نے فرمایا’’ کفر کا معاشرہ تو قائم رہ سکتا ہے، مگر ناانصافی والا معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا‘‘۔ یعنی جس معاشرے میں ظلم وزیادتی کا دور دورہ ہو، جہاں امیر کیلئے الگ غریب کیلئے الگ قاعدے وقوانین ہوں جہاں قانون کے نفاذ کے تمام باب بند کئے جائیں ایسا معاشرہ تباہی وبربادی کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ اس کا انجام کار بالآخر ہلاکت ہی ہوتا ہے۔  "عدل ومساوات کا معاشرہ " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

کفر اور شرک کا بیان

آج سے ہم منافی ایمان عقائد کفر اور شرک کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
بخاری شریف میں ایک حدیث مبارک ہے جو دل کو ڈرا دینے والی ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا بھی وقت آئے گا کہ صبح بحالفت ایمان کریں گے اور شام بحالفت کریں گے ۔ یا شام کو بحالت ایمان ہوں گے اور صبح بحالت کفر کریں گے اور پھر سب سے زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہوگا کہ اس کو نہ اپنے ایمان کا علم ہوگا اور نہ ہی اپنی حالت کفر کا پتہ ہوگایعنی اس کو اپنی حالت ایمان اور حالت کفر کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہوگی یہ ایک انتہائی پریشان عالم ہوگا۔
جس وقت ہم پڑھتے تھے مدرسے کے ماحول میں تو صرف اور صرف قرآن وحدیث کا علم اور استاذہ ، علماء، صلحاء کی ہی باتیں ہوتی ہیں۔ تو اس وقت ہمیں تعجب ہوتا تھا کہ یہ کیسے ہوگا کہ ایک آدمی اپنی حالت ایمان اور کفر کا پتہ نہ چلے اس بات پر ہمیں تعجب ہوتا تھا۔ آج اپنے بعض ساتھیوں کی حالت دیکھ کر یہ حدیث مبارکہ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ حدیث مبارکہ بالکل صحیح ہے اور برحق ہے۔ "کفر اور شرک کا بیان " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

افغان مہاجرین کی واپسی… مگرغورطلب پہلو

گزشتہ کئی ماہ سے افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے پورے ملک میںایک تحریک ہے،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے لے چائے خانوں تک یہ موضوع زیر بحث ہے اوررائے عامہ دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک حصے کا موقف ہے کہ بس بہت ہوگیا 30 سال ہوگئے ہیں۔ افغان مہاجرین کو اب اپنے ملک واپس چلے جانا چاہیے۔ دوسرے کا موقف ہے کہ اول افغانستان کے حالات اتنے اچھے نہیں ہیں کہ مہاجرین کو کھلی آنکھوں دھکتی آگ میں جھونک دیاجائے، کسی جذباتی حماقت کی اس معاملے میں کوئی گنجائش نہیں… "افغان مہاجرین کی واپسی… مگرغورطلب پہلو " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

کبوتربازی اور بھارت کی چالبازی

گزشتہ شمارے میں بھی عرض کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں اورزوردے کر یہ بات کہی تھی کہ اس صورت حال میں پاکستان کو انتہائی احتیاط سے قدم اٹھانا ہوں گے، یہ بھی عرض کیا تھا کہ بھارت جنگ نہیں لڑے گا۔ مگر کبھی بھی کہیں بھی کسی بھی صورت اپنی شر انگیز کارروائی سے بھی باز نہیں آئے گا جس کا ایک ڈرامہ وہ ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کی شکل میں سامنے لایا۔ اگرچہ اس نے پاکستان کے 2 فوجی شہید کئے مگر جوابی وار میں اپنے بیسوں باوردی جوانوں سے ہاتھ دھوبیٹھا اور پاکستان کی بروقت سفارتکاری اور پاک فوج کے موثر اقدامات کی بدولت آج دنیا بھر میں منہ کالا کئے پھر رہا ہے۔ اندرون بھارت بھی مودی سرکارکو کئی محاذوں پر سبکی کا سامنا ہے۔اپوزیشن رہنما الگ لعن طعن کررہے ہیں اور عوام بھی تھو تھو کررہے ہیں ایسے میں صرف ایک انتہا پسند میڈیا ہی ہے جو چائے کے کپ میں طوفان برپا کیے ہوئے ہے۔ سرجیکل اسٹرائیک کے ثبوت تو نہیں ملے تاہم اب انڈین پولیس بیچارے بھولے بھٹکے ایک کبوتر کو سامنے لے آئی ہے جس پر بھارتی میڈیا میں کافی دلچسپ تبصرے جاری ہیں، ادھر مقبوضہ کشمیر میں تشدد اور بربریت کی تازہ لہر کو قریباً 150دن ہونے کو آئے ہیں مگر بھارتی مظالم ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے، آزادی کے متوالے بھی اپنے جذبات کا بھر پور اظہار کرتے ہوئے باوجود کرفیو اور دیگر پابندیوں کے ہر دم سڑکوں پر آزادی کے نعرے لگانے سے نہیں چوکتے،اب تو ان حریت پسندوں نے پاکستان کے سبزہلالی پرچم کے ساتھ ساتھ چین کا پرچم بھی لہرا دیا ہے اور قابض فوج وہندوانتہاپسندوں کے دلوں پر خوب مونگ دل رہے ہیں۔
"کبوتربازی اور بھارت کی چالبازی " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

اسلامی فوجی اتحاد وقت کی ضرورت

سعودی عرب کی زیر قیادت اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ممالک کی تعداد 39تک جا پہنچی ہے اور اس اتحاد کے سپہ سالار کی حیثیت سے پاک فوج کے ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف کا نام بھی تصدیق ہوچکا ہے اسلامی فوجی اتحاد کا ہیڈ کوارٹر ریاض ہوگا جبکہ بعض حلقوں کی جانب سے اتحاد سے متعلق شکوک وشبہات اور تحفظات بھی سامنے آرہے ہیں۔ 15دسمبر 2015ء کو جب اس اسلامی فوجی اتحاد سے متعلق خبر سامنے آئی تو اس میں 34ملک شامل تھے جن میں سعودی عرب کے علاوہ پاکستان‘ متحدہ عرب امارات‘ بحرین‘ بنگلہ دیش‘ ترکی‘ چاڈ‘ تیونس‘ ٹوگو‘ بینن‘ سوڈان‘ صومالیہ‘ سینگال‘ قطر‘ فلسطین‘ گینی‘ گبون‘ مراکش‘ مصر‘ مالی‘ مالدیپ‘ لیبیا‘ موریتانیہ‘ نائیجیر‘ نائیجیریا‘ یمن‘ کویت‘ کمروز‘ جبوتی‘ لبنان‘ سپر الیون اور اردن حصے دار ٹھہرے تاہم آہستہ آہستہ ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوا جس سے ثابت ہوتا ہے تمام اسلامی ممالک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ایک صفحے پر ہیں۔ "اسلامی فوجی اتحاد وقت کی ضرورت " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

اسلامی شدت پسندی کے خاتمے کا نیا عزم

سال 2016ء پاکستان سمیت دنیا بھر کے لئے غم و پریشانی کا سال رہا۔اس سال دنیا کے مختلف حصوں میں کئی بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں،عرب بہار کے بعد یہ سال گزشتہ آدھی دہائی میںشام اور سوادودہائیوں میں کشمیر کے لئے انتہائی بھاری ثابت ہوا۔جہاں انسانیت سوز مظالم کے مناظر دیکھنے میں آئے جن کے بارے میں سوچ کر ہی دل دہل جاتاہے۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی جنونیت کا وہ کھیل کھیلا کہ انسانیت شرما گئی۔تحریک آزادی کے دوران سال گزشتہ اس نے جس طرح کا اسلحہ(پیلٹ گن) استعمال کیا اس سے کشمیری بچے،بوڑھے،خواتین اور مرد نہ صرف شہید وزخمی ہوئے بلکہ سیکڑوں کی بینائی بھی چلی گئی،ان مظالم کے باوجود عالمی برادری ،اقوام متحدہ اوراسلامی تعاون تنظیم کا کردارافسوسناک حد تک شرمناک رہا۔پاکستان نے اپنے نہتے کشمیری بھائیوں پر مظالم کے خلاف سفارتی مشنز کو متحرک کیااورپہلی بار پوری قوت کے ساتھ دنیا کے سامنے بھارتی مظالم اور پاکستان کے اندر اس کی دہشت گردی کے ثبوت رکھے مگران مقتدر قوتوں نے کشمیریوں کا حق خود ارادیت کیا تسلیم کرناتھا اُلٹا بھارتی واویلے پر پاکستانی مشنز کو ہی لتاڑا جس کا منہ توڑ جواب دینے کی بجائے ہمارے مشنز اپنا سامنہ لے کر واپس آگئے اور اپنے ہی لوگوں پر برسنا شروع کردیانتیجتاً آزادی کشمیر کی تازہ لہر جس کو برہان مظفروانی نے اپنے خون سے نیا جوش وولولہ دیاتھااس کے درجہ حرارت میں قدرے فرق پڑا لیکن یہ ماند نہیں پڑی۔اوراب 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے تحت اس میں نئی جان پڑجائے گی،تحریک آزادی کو منطقی انجام تک پہنچانے اور ہندوستان سے چھٹکارا دلانے کے لئے آج کا وقت شاید گزشتہ وقتوں سے زیادہ بہتراور مناسب ہے۔ "اسلامی شدت پسندی کے خاتمے کا نیا عزم " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us: