عقل ونقل کی کشمکش

عبادت وبندگی

عبادت کے معنی کسی کے آگے اپنی بے بسی اور ذلت کے اقرار واظہار کے ہیں، غلام کو عبد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنے آقا کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کرتا ہے‘ شریعت کی اصطلاح میں عبادت عناصر ثلاثہ یعنی تین معانی کے مجموعہ کا نام ہے‘ چنانچہ حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں سورۂ فاتحہ کی آیت نمبر 5کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’والعبادۃ فی اللغۃ من الذلۃ …وفی الشرع عبارۃ عما یجمع کمال المحبۃ والخضوع والخوف‘‘ یعنی عبادت سو فیصد محبت‘ عاجزی اور خوف کا نام ہے ۔ "عقل ونقل کی کشمکش " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

انسان کی پیدائش اور اس کا مقصد

ہماری نظروں سے کائنات کے جو حصے اوجھل ہیں یا ہمارے دائرہ علم سے باہر ہیں نہ معلوم کہ ان کا حال کیا ہے مگر جن مخلوقات کا ہم کسی حد تک احاطہ علمی کرچکے ہیں‘ اس سے اللہ عزوجل کی حاکمیت‘ قدرت اور حکمتوں کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ جو ذات اتنی وسیع کائنات پر حکم نافذ کرے اور کوئی اس کے فرمان سے سرمواختلاف نہ کرسکے اس کی عظمت وکبریائی کا کیا حال ہوگا؟ وہ اللہ کتنا حکیم ہوگا؟ کتنا قادر ہوگا؟ اور کتنا علیم ہوگا؟ اور نقص وعیب سے کتنا منزہ اور پاک ہوگا؟ یہ سب کائنات بزبان حال اس کی تسبیح وتقدیس کرتی ہے بلکہ ان میں بہت سے بزبان قال بھی اللہ کی حمد وثنا اور تسبیح میں پوری طرح مشغول ہیں مگر ان اشیاء کو اس عبادت میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں۔ فرشتے اگر اللہ کے لئے نماز پڑھیں تو انہیں یہ سہولت حاصل ہے کہ ان پر معاش کی فکر سوار نہیں ‘اگر وہ روزہ رکھیں تو وہ بھوک سے بے نیاز ہیں اور زندگی بھر تسبیح ہی پڑھتے رہیں تو وہ تھکن سے مبرا ہیں اسی طرح دیگر کائنات عبادات میں پیش آنے والی مشکلات سے محفوظ ہیں گویا ایسی صورت حال میں ان کی قوت عبادت بطور کمال کے ظاہر نہیں ہوسکتی ‘کسی چیز کی قوت اور طاقت کا پتہ تب چلتا ہے جبکہ اس کی ضد موجود ہو۔ کوئی شہ سوار اس وقت تک اپنی مسابقت کا ثبوت نہیں دے سکتا جب تک کہ اس کے ساتھ میدان میں مدمقابل نہ ہو۔ پہلوان اپنی طاقت کا اظہار تب کرسکتا ہے جبکہ اسے عاجز کرنے والی قوت اس کے مقابلہ میں آئے۔  "انسان کی پیدائش اور اس کا مقصد " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

عقل ونقل کی کشمکش

فرض شناسی اور حقوق کی ادائیگی:

اس سے پہلے کہ فرض اور حقوق شناسی پر بحث کی جائے اسلام اور عقل کے تقاضوں اور ہر ایک کے مشن کو اجاگر کرنا مناسب ہے پس عقل کا دائرہ کار انتہائی محدود اور خود غرض پر مبنی ہے جبکہ اسلام کا دائرہ عمل انتہائی وسیع اور خیر خواہی پر قائم ہے۔
ارباب عقل اس بات کو مان چکے ہیں کہ عقل کی نظر مفاد خویش کے گرد گھومتی ہے گو کہ عقول کے تفاوت کی وجہ سے ہر ایک کا دائرہ کار مختلف ہوسکتا ہے لیکن مجموعی طور پر عقل کے سوچنے کا محور خود غرضی ہی ہے خواہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ۔ "عقل ونقل کی کشمکش " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

عقل ظاہری ماحول اور ذاتی مفاد کا اسیر

عقل کی ایک کمزوری کا بیان تو ہوچکا کہ عقل ہمیشہ مفاد خویش کے درپے رہتی ہے جبکہ اسلام اور دین سماوی میں مفاد عامہ کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، حدود اس کی بہترین مثال ہے جس پر آگے چل کر مختصر بات کی جائے گی۔
عقل کی دوسری بڑی خامی ماحول کے زیر اثر رہنا ہے، اس کے برعکس اسلامی تعلیمات کا فوکس حقیقت اُجاگر کرنے اور اسے اپنانے پر ہوتا ہے خواہ حالات جیسے ہی کیوں نہ ہوں اور ماحول جیسا بھی ہو لیکن جو بات حق ہے اسی کا اتباع، اسی کی تبلیغ اور اسی کی تلقین ووصیت اسلام کا نصب العین ہے جبکہ عقل ماحول سے بہت جلد متاثر ہوجاتی ہے گویا عقل ہمیشہ کیلئے اشیاء کو حالات اور ماحول کی عینک سے دیکھتی ہے۔ "عقل ظاہری ماحول اور ذاتی مفاد کا اسیر " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

عقل ونقل کی کشمکش

ماحول عقل کے علاوہ فطرت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے
جیسا کہ عرض کیا جاچکا کہ انسانی عقل ماحول سے متاثر ہوجاتی ہے اور پھر بڑے بڑے ارباب عقل بھی اسی سمت سفر کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس رخ پر عوام الناس کا ریلہ رواں دواں ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ یہ بھی جاننا چاہیے کہ ماحول کی تباہ کاری صرف عقل کو برباد کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ ا نسانی فطرت کو بھی اپنی آغوش میں سلاکر اسے میٹھی میٹھی ماحولیاتی کہانیاں سناتا ہے ،اس طرح فطرت ماحول کی تلقین کو قبول کرلیتی ہے ،یہ سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے اور دنیا کے تمام خطوں میں ساری ہے ،مثال کے طور پر ماں کا اپنے بچوں سے محبت ایک فطری عمل ہے خواہ وہ ماں نوع انسانی کا فرد ہو یا کسی دوسری نوع سے تعلق رکھتی ہو ،چرند پرند سارے جانور اپنے بچوں سے طبعاً وفطرتاً محبت کرتے ہیں لیکن اسلام سے قبل جب عربوں میں اس تاثر نے جڑپکڑ لی کہ کسی عورت کے بطن سے لڑکی کا جنم لینا بڑا عیب ہے اور اس تاثر کو غیر معمولی پذیرائی ملی اور پورے عرب میں اس نے فروغ پایا تو ہر عرب ماں کے دل میں اپنی بچی سے نفرت رچ بس گئی، اس نفرت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ عربی ماں اپنی بچی کو دیکھنا بھی گوارا نہ کرتی ،باپ کو جب لڑکی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی تو وہ شرم کے مارے اپنا سر نیچے کرتا تھا، اس کا رنگ اڑجاتا اور بیوی پر غصہ ہوجاتا، دونوں میاں بیوی میں ریس لگتی کہ کون اس معصوم سی بچی کو پہلے زندہ درگور کرے گا، بچی کو زمین میں زندہ گاڑنے سے ان کا مقصد صرف اپنی نفرت کا اظہار تھا ورنہ اس کا گلا دباکر بھی وہ اسے دفن کرنے کا بہانہ تلاش کرسکتے تھے لیکن اس سے ان کی نفرت کا برملا اظہار نہ ہوتا۔ "عقل ونقل کی کشمکش " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

جعلی ڈگری کا مثبت سدباب

آپ نے اپنے بزرگوں سے سنا ہوگا اور بعض لوگ تو قرآن شریف کی تعلیمات سے بھی کسی حد تک آگاہ ہوتے ہیں کہ انسان علم وکردار کی وجہ سے اشرف المخلوقات ہے، بے شمار احادیث اور لاتعداد اہل دانش کے کلام بھی اس پر ناطق ہیں کہ علم بڑی دولت ہے‘‘ ایک زمانے تک انسانوں میں ارباب علم ودانش کی بڑی قدر ہوا کرتی تھی جب تک زمانے میں سادگی تھی تو لوگوں میں صداقت تھی لیکن جوں جوں زمانے کے تیور بدلنے لگے لوگوں کے مزاجوں میں بھی فرق اور انقلاب آنے لگا، پہلے کے انسان کے علم کا پتہ اس کی گفتگو سے چلایا جاسکتا تھا لیکن جب معاشرے میں علمی گراوٹ آنے لگی تو علم پرکھنے کے لئے ایک کاغذ کو معیار مقرر کیا گیا جس کو قدیم اصطلاح میں ’’سند‘‘ کہا جاتا تھا اور آج کے عرف میں اسے ’’ڈگری‘‘ کہتے ہیں، اس پر جو عبارت درج کی جاتی ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ ’’یہ شخص …فلاں … ولد …فلاں … ہمارے یہاں سے پڑھ کر کامیاب ہوا ہے اور ادارہ اس کو یہ سند دیتا ہے کہ وہ اس فن میں کام کرنے کے قابل ہے‘‘۔
"جعلی ڈگری کا مثبت سدباب " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

اکثریت کے بھی حقوق کا خیال رکھئے!

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ ہے بلکہ رہتی دنیا تک ساری انسانیت کے لئے رہنما اصول ہے، دنیا کا ہر ملک آپﷺ کی سیرت سے استفادہ کرتا ہے ۔
ہمیں بحیثیت پاکستانی بلکہ بحیثیت ایک انسان کے مندرجہ بالا دفعات سے ایک اچھا سبق ملتا ہے کہ مسلمانوں کے ذمے اقلیت کی جان اور مال کی حفاظت لازم ہے اور اقلیتوں کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ مسلمان شرعاً اور قانوناً ہمیں جائز رعایت دینے کے پابند ہیں، اسلام کے عروج کے تمام ادوار کا جائزہ لیا جائے تو ہر دور اس پر گواہ ہے کہ جو رعایت اسلام میں اقلیتوں کو دی گئی ہے بلکہ عین حالت جنگ میں ان کے ساتھ جو برتائو کیا گیا ہے دنیا کا کوئی مذہب اور کوئی قوم اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی، بیسویں صدی کی عظیم کتابوں میں شمار ہونے والی برٹرینڈرسل کی کتاب ’’فلسفہ، مغرب کی تاریخ‘‘ کا ایک مختصر اقتباس پیش کرتا ہوں وہ لکھتے ہیں‘‘ قرون وسطی کے پورے عہد میں عیسائیوں کی نسبت مسلمان زیادہ مہذب اور زیادہ رحم دل تھے عیسائی یہودیوں کو، خصوصاً مذہبی جوش کے مواقع پر، اذیتیں دیتے تھے، صلیبی جنگیں ہیبت ناک منظم قتل سے منسوب ہیں اس کے برعکس مسلم ممالک میں یہودیوں کے ساتھ اکثر اوقات کبھی بھی کسی طرح کی بدسلوکی نہیں کی گئی (ص۳۹۰ ترجمہ پروفیسر محمد بشیر صاحب)  "اکثریت کے بھی حقوق کا خیال رکھئے! " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

نبوت سے پوشیدہ حقائق کھلتے ہیں

اگر نبوت نہ ہوتی تو انسان اصل حقائق سے ہمیشہ بے خبر رہتا
ہمارے سامنے جتنے بھی موجودات ہیں جن کا کسی نہ کسی طرح ہمیں مادی ذرائع سے علم حاصل ہوا ہے یا ہوسکتا ہے مجموعی اعتبار سے ان کی حقیقت کے دو رخ ہیں‘ ایک وہ جو ہمارے دائرہ علم میں آسکتا ہے ۔دوم وہ جو اس مادی آنکھ سے ہمیشہ اوجھل رہتا ہے‘ جو رخ ہمیں نظر آتا ہے اس کی حیثیت ایک مستعار شے سے زیادہ نہیں اس کی منفعت بھی وقتی اور عارضی ہے اور اس کی ملکیت بھی ‘جبکہ دوسرا رخ بالکل مختلف حقیقت ہے‘ مثال کے طور پر موت کی ظاہری شکل یہ ہے کہ اس سے انسانی زندگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے لیکن اسی موت میں دوسرا پیغام یہ ہے کہ یہ ہمیشہ کی دائمی زندگی کا دروازہ ہے اور اصل زندگی کی ابتداء ہی موت سے ہوتی ہے گویا ایک جانب دنیوی زندگی کے خاتمہ کی مہر ہے تو دوسری جانب اخروی زندگی کا نقطۂ آغاز ہے‘ فرق یہ ہے کہ پہلی زندگی انتہائی مختصر اور ایک نوعیت کی حامل ہے جبکہ دوسری لامحدود اور مختلف نوعیت کی حامل ہے۔ علیٰ ھذا القیاس۔ "نبوت سے پوشیدہ حقائق کھلتے ہیں " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

ماحول کے اچھے، برے اثرات

اس دنیا میں دو قسم کے سسٹم رائج ہیں ایک وہ ہے جسے لوگ اپنے طور پر بناتے ہیں خواہ اس کا تعلق نظریہ سے ہو یا عمل سے ،مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں کی تہذیبوں اور ثقافتوں کے متعلق ہم بخوبی جانتے ہیں کہ کچھ لوگ ایک رسم بناتے ہیں اور پھر اسے فروغ دیتے ہیں کچھ عرصہ بعد یا دور افتادہ علاقہ میں اس رسم ورواج کے اثرات یا تو کم ہوجاتے ہیں یا وہ پہنچ نہیں پاتے اس لئے ما بعد میں اور دور دراز علاقوں میں دوسری رسومات مقبول ہوجاتی ہیں۔ اس طرح یہ سلسلہ ہمیشہ چلتا رہتا ہے عام آدمی اس سسٹم پر بہت مطمئن ہوتا ہے۔
"ماحول کے اچھے، برے اثرات " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

توہین رسالت کی سزا فقہ حنفی کی نظر میں

فطری بات ہے کہ جب بھی کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہوتا ہے تو لوگوں کی توجہ اس کی جانب ہوجاتی ہے اور پھر تبصروں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، 29فروری کو ممتاز حسین قادری کی پھانسی کی خبر سنتے ہی اہلیان پاکستان کے مختلف ردعمل سامنے آنا شروع ہوئے جو ابھی تک جاری ہیں ہمارے لئے تو یہ دکھ کی بات ہے مگر شاید کسی کو خوشی بھی ہوئی ہوگی، بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ توہین رسالت کے مسئلہ پر فقہائے کرام کی مفید ابحاث بھی سامنے لائی جائیں کہ وہ اس بارے میں کیا کہنا چاہتے ہیں چونکہ یہاں بہت سارے سوالات نے جنم لیا ہے کہ آیا گورنر پنجاب، سلمان تاثیر نے جو الفاظ کہے تھے، وہ ان کے حلف کے منافی تھے یا نہیں؟ وہ توہین رسالت کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں؟ اگر آتے تھے تو انہوں نے اس سے توبہ کی تھی یا نہیں؟ اگر نہیں کی تھی تو ان کو سزا کیوں نہیں ہوئی؟ اور کیا ایک عام شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ازخود مجرم کو سزا دے دے؟ سلمان تاثیر نے اپنے کلام کی کوئی وضاحت کی تھی یا نہیں؟ اور کیا قادری صاحب کی سزائے موت شرعی وقانونی تقاضوں کے مطابق تھی یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لئے ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے میں یہاں علامہ شامی رحمہ اللہ کے رسالہ ’’تنبیہُ الولاۃ والحکام علیٰ احکام شاتم خیر الانام واحدا صحابہ الکرام علیہ وعلیہم السلام‘‘ کا مختصر خلاصہ نقل کرنا چاہتا ہوں جو اس موضوع پر فقہہ حنفی میں جامع اور مدلل ومعتدل موقف پر مشتمل کتاب ہے۔ علامہ شامی نے اپنے اس رسالہ کو دو بابوں پر منقسم کیا ہے جیسا کہ نام سے واضح ہے۔ پہلا باب شاتم رسول اور دوسرا شاتم اصحاب رسول سے متعلق ہے یہاں پہلے باب کا خلاصہ پیش ہے۔
"توہین رسالت کی سزا فقہ حنفی کی نظر میں " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us: