سیاسی جما عتیں ان کے منشور اور عوام

 

منشور ودستور آج کے جمہوری نظام میں ہر سیاسی جماعت کی اساس اور ایک لازمی جُز ہے۔ اس کے ذریعے وہ الیکشن کمیشن کے ضروری تقاضے پورے کرنے کے علاوہ عوام کو بہلانے پھسلانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں بہت کم ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جنہوں نے اپنے منشور کے کم ازکم بڑے بڑے نکات اور عوام سے کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنایا ہو، اس کمی کوتاہی کی کیا وجوہات ہیں، اس پر تفصیلی بات کرنے کی ضرورت ہے لیکن اتنی بات سب کو معلوم ہے کہ منشور میں درج بڑے بڑے وعدے صرف وہ سبز باغ ہوتے ہیں جو عوام کے ووٹ ہتھیانے کے لیے دکھائے جاتے ہیں۔ ورنہ کیا بات ہے کہ 70 برس گزرنے کے باوجود تعلیم جیسی بنیادی ضرورت اور ہر شہری کا بنیادی حق ہونے کے باوجود وطن عزیز میں عام اور ارزاں نہ ہوسکی۔ اقراءکے مبارک وحی ربّانی پر مبنی لفظ کے باوجود پاکستان کی شرح خواندگی ،تعلیم نہیں (شرح خواندگی اور تعلیم میں بہت بڑا فرق ہے) چالیس پچاس فیصد نہ بڑھ سکی۔ خواتین میں تو شاید یہ شرح اور بھی کم ہے، حالانکہ میٹرک تک تعلیم عام کرنے، لازمی کرنے اور مفت کرنے کے دعوے ہر سیاسی جماعت کے منشور میں جلی حروف سے لکھے ہوتے ہیں ۔ اگر حکومت میں آنے اور اقتدار حاصل کرنے والی کوئی جماعت اس بات میں واقعی سنجیدہ ہو کہ وطن عزیز کے عوام پڑھے لکھے، مہذّب اور شائستہ وبااخلاق ہوں، تو اِن اہم نکات کو معاشرتی زندگی کا لازمی جزو بنانے کے لیے تعلیم وتربیت کے علاوہ کوئی دوسرا فارمولا آج تک سامنے نہیں آیا ہے۔
اسلام نے تو اسی لیے حصول علم پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ طلب علم فرض ہے اس لیے اسلامی ملک اور معاشرے میں یہ تصور حرام ہے کہ اس کے باشندے ان پڑھ ہوں گے، دنیا کی ساری ترقی یافتہ اقوام نے اسلام کے زریں اصولوں بالخصوص علم کے لیے شدید پیاس وتڑپ ہی سے سیکھ کر علمی میدانوں میں تفتیش وتحقیق کے ذریعے کامیابی کے جھنڈے گاڑھے ہیں۔ یورپ کے وہ عوام جو مطلق العنان جابر بادشاہوں کے ظلم واستبداد کے تحت غلاموں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور تھے اور یکسائی نظام تعلیم میں عام آدمی کو بائبل کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں تھی کہ یہ ”خدائی مخلوق “ یا خدائی فریستادہ پادری فادر کا فریضہ تھا، سپین میں مسلمانوں ہی کے میل جول سے علوم کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور انسانی آزادی اور احترام انسانیت سے شناسا ہوگئے۔ یہی حال ہندومت کا تھا، مقدس ویدوں کو ہاتھ لگانا، اس کی تعلیم دنیا اور توضیح وتشریح کرنا صرف برھمن پنڈتوں کا مقدس فریضہ تھا۔
یہ اسلام ہی ہے جس نے ساری انسانیت کے لیے تعلیم کو امر قرار دے کر لازمی کرلیا، اسلام میں ہر مسلمان قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرکے اور عمل پیرا ہوکر اس مقدس وکامیابی وکامرانی سے مزین تعلیمات دوسروں تک پہنچا سکتا ہے یہ صرف مولوی مولانا کا کام نہیں ہے، اسی بات نے مسلمانوں کے اندر بحیثیت فرد وقوم احترام انسانیت کے ساتھ خودی اور خودداری اور خود اعتمادی کا ایسا جوہر پھیلایا کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی کو غلام بنالے۔ اسلام ہی نے سکھایا کہ ہر انسان اپنی ماں کی کوکھ سے آزاد پیدا ہوا ہے۔ یہ سلسلہ ایک مدت تک مسلمان معاشروں میں جاری وساری رہا اور مسلمان ایک غالب وطاقتور قوم وامت کی حیثیت سے جیتے رہے۔
لیکن جب استعمار نے امت پر غلبہ پایا تو نظام تعلیم کے ساتھ مقاصدِ تعلیم بھی تبدیل ہوئے اور پھر جب مسلمان ممالک میں استعماری طاقتوں اور ملکوں نے خلافت کو پارہ پارہ کرکے 57 ملکوں میں تقسیم کیا تو یہاں جو سیاسی نظام ورثے میں دیا وہ نام کا جمہوری نظام تھا لیکن مغرب اور مسلمانوں کے ہاں جمہوری نظام میں زمین وآسمان کا فرق ہے، اسی سبب ہمارے ہاں کی سیاسی جماعتیں منشور ودستور کے حاملین ہونے کے باوجود کبھی مغربی سیاسی جماعتوں کی طرح عوام کو جوابدہ نہ ٹھہریں۔ بلکہ وطن عزیز میں گزشتہ 70 برسوں سے جو کھیل جاری ہے وہ یوں ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ذریعے جب کبھی لولی لنگڑی جمہوریت آتی ہے، سب کچھ منشور ودستور کے برعکس کرتی ہے اور نتیجتاً اس جمہوریت سے تنگ آکر عوام کسی آمر کے آنے کی دعائیں مانگنے لگتے ہیں اور آمر کے آنے پر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں اور جب آمر دس گیارہ سال کے لیے قبضہ جمالیتا ہے تو جمہوری سیاسی جماعتیں عوام کو جمہوریت کے نام پر دہائی دے دے کر سڑکوں پر لے آتی ہیں اور خدا خدا کرکے آمر کو رخصت کرلیتے ہیں اور پھر وہی پرانی روش کہ عوام سیاسی جماعتوں سے ان کے منشور کے مطابق کارکردگی کا مطالبہ وتقاضا کرتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور کے اہم نکات یاد تک نہیں رہتے۔
اگر ہماری سیاسی جماعتیں خواہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر، تہیہ کرلیں کہ ہم نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے عوام کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے اپنا کردار خلوص اور خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کرنا ہے تو اس کے مثبت نتائج بہت جلد قوم کے سامنے ہوں گے۔
کیا ہمارے امیر کبیر کروڑ پتی ارب پتی سیاستدان اپنے اپنے حلقہ¿ انتخاب میں دو تین اچھے اسکول جس میں تعلیم مفت ہو، قائم کرکے ایک مخلص ٹیم کے ذریعے نہیں چلاسکتے۔ اسی طرح ہر حلقہ میں ایک ایسا ہسپتال جس میں فوری طبی امداد کے علاوہ آﺅٹ ڈور مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات موجود ہوں نہیں بنواسکتیں؟۔ یہ دونوں کام یعنی اسکول وہسپتال بنانا اتنا مشکل نہیں ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں کو یہ بات وارہ نہیں کھاتی کہ عوام تعلیم یافتہ ہوکر اپنے آپ کو دریافت کرتے ہوئے سیاستدانوں سے اپنے بنیادی جمہوری حقوق کے ساتھ انسانی حقوق کا بھی سوال کرسکیں۔ ان کو محتاج، مجبور، معذور اور بے بس وبے چارے عوام کی ضرورت ہے جو چار پانچ سال بعد ان کے صندوقوں کو ووٹ سے بھردیں۔تعلیم یافتہ انسان میں خودی کا پیدا ہونا لازمی امر ہے اور خود دار انسان ٹوٹ سکتا ہے جھک نہیں سکتا۔تعلیم یافتہ انسان شعور رکھتا ہے اور خیروشر میں تمیز کی پہچان رکھتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر ہمارے اٹھانوے فیصد عوام تعلیم یافتہ ہوجائیں تو کیا ہمارا سیاسی نظام اسی طرح چلے گا۔ عوام پارلیمنٹ میں ایسے ہی نمائندے بھیجیں گے جو پانچ سال میں پارلیمنٹ سے ساری مراعات حاصل کرکے بھی ایک گھنٹہ کبھی عوام کے مسائل پر نہ بات کرسکتا ہو اور نہ بات کرنے کا اہل ہو۔
سرکاری خزانے سے اسکول کالج، یونیورسٹی ،ہسپتال ،سڑک، عمارتیں ودفاتر بنواکر ان پر اپنے ناموں کی تختیاں لگوانا اور اس پر تو تو میں میں کرنا کہ یہ منصوبہ ہم نے بنایا تھا ، کوئی بڑی بات نہیں، بڑی بات تب ہوگی جب ہمارے یہ ارب کھرب پتی سیاستدان، عوام کے درد میں اپنا پیسہ خرچ کرکے کوئی خیروفلاح کا ادارہ قائم کریں اور پھر اس کی پیشانی پر چمکتی دمکتی لوح لگالے تو عوام اسے جب بھی دیکھیں گے، عقیدت سے جھک کر سلام کریں گے، پاکستان میں شوکت خانم، اور نمل جیسے ادارے بنانے کی اشد ضرورت ہے، عبدالستار ایدھی اور الخدمت فاﺅنڈیشن کی طرح مزید فلاحی اداروں کی عوام راہیں تک رہے ہیں۔
وقت بدل رہا ہے، زمانہ بدل چکا ہے، پاکستان بدل رہا ہے، ہماری سیاسی جماعتوں کو بدلنا ہوگا ورنہ عوام کے دلوں میں ان کے لیے عقیدت واحترام میں کمی ہوتی رہے گی جو اچھا شگون نہیں ہوگا۔ وطن عزیز کے اردگرد جو طوفان برپا ہیں اس میں سیاسی جماعتوں کو اپنی ذات اور جماعتی سیاست سے اوپر آکر صرف اور صرف پاکستان اور عوام کے لیے سوچنا اور کرنا ہوگا۔
٭٭٭٭٭

 

Please follow and like us:

اقتدار کی کرسی…دائمی یا عارضی

وزیر اعظم پاکستان جناب سید یوسف رضا گیلانی نے اٹھارہویں ترمیم پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے بہت تاریخی بات کہی ہے۔وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ہم اپنی کرسی کو مضبوط کرنے کے بجائے اداروں کو مضبوط کر رہے ہیں۔ ادارے مضبوط ہوں گے تو شاید کرسی بچ جائے۔ کرسی کی نوعیت اور تاریخ پر کتب میں بہت دلچسپ اور عبرت انگیز معلومات پائی جاتی ہیں، ان معلومات میں چند ایک اہم باتیں اپنے قارئین کی دلچسپی اور جناب وزیر اعظم کی اس اہم بات کے حوالے سے پیش خدمت ہیں۔ "اقتدار کی کرسی…دائمی یا عارضی " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مذہبی ہم آہنگی کے تقاضے اور مغرب کا طرزعمل

مغرب وامریکہ اور مشرق کے مسلمانوں کے درمیان حالات و معاملات کی تاریخ صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ یورپ میں مسلمانوں کے ہاتھوں اسپین سے علوم کی روشنی پھیلنے سے پہلے مغرب کے مذہبی اجارہ داروں کے ہاتھوں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں جو خیالات ، افکار اور عقائد پائے جاتے تھے، اُن کو آج مغربی تاریخ کی کتب میں پڑھ کر ہنسی کے ساتھ افسوس بھی ہوتا ہے کہ تعصب آخر انسان کی آنکھوں پر کیسی پٹی باندھ دیتا ہے۔ "مذہبی ہم آہنگی کے تقاضے اور مغرب کا طرزعمل " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

صوبے کے نام کی تبدیلی اور ہمارا طرز عمل

صوبۂ سرحد کا خیبرپختونخواہ بننے کے بارے میں گزشتہ چند دنوں سے قومی اخبارات وجرائد میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ صوبے کے نام کی تبدیلی کے بعد اثرات کے حوالے سے ہزارہ میں جو کچھ ہوا، جیسے ہوا، جو جو عناصر اس میں کسی نہ کسی طرح شامل رہے، کسی بھی لحاظ سے پسندیدہ نہیں کہلایا جا سکتا۔
باسٹھ برس گزرنے کے بعد اور اکیسویں صدی میں بھی پاکستان کے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی آج تک یہ تبدیلی بہت کم دیکھنے میں آئی کہ من حیث القوم یا جماعت یعنی اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ایک ایسا کردار ادا کریں جو ملک وقوم کے لئے ایک مثبت، تعمیری اور دور رس اثرات کا حامل ہو۔ "صوبے کے نام کی تبدیلی اور ہمارا طرز عمل " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مذہبی ہم آہنگی اور مغرب کا رویہ

مغرب وامریکہ اور مشرق کے مسلمانوں کے درمیان حالات و معاملات کی تاریخ صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ یورپ میں مسلمانوں کے ہاتھوں سپین سے علوم کی روشنی پھیلنے سے پہلے مغرب کے مذہبی اجارہ داروں کے ہاتھوں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں جو خیالات ، افکار اور عقائد پائے جاتے تھے، اُن کو آج مغربی تاریخ کی کتب میں پڑھ کر ہنسی کے ساتھ افسوس بھی ہوتا ہے کہ تعصب آخر انسان کی آنکھوں پر کیسی پٹی باندھ دیتا ہے۔ "مذہبی ہم آہنگی اور مغرب کا رویہ " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

اسلامی اقدار کی ترویج حکومت کی ذمہ داری

تعمیر وترقی کا سب سے مؤثر ذریعہ تعلیم ہے‘ بامقصد‘ واضح‘ جامع اور قومی نصب العین پر مبنی نصاب کی اشد ضرورت ہے
انسانی نفسیات اور سماجیات کے ماہرین اور اطباء وحکماء کے تجربات اور تعلیمات و مشاہدات کے مطابق انسانی عقل و شعور کی نشوونما چھ مہینے کی عمر سے شروع ہو کر پندرہ سال کی عمر تک مکمل ہو جاتی ہے۔ اِس کے بعد لوگوں کی ذہنی نشوونما میں کوئی خاص بڑھوتری تو نہیں ہوتی لیکن اُن کے اذہان کو پالش اور صیقل کرنے یا اُن میں کوئی تعمیری تبدیلی (Change of mindset) کے امکانات ضرور ہوتے ہیں۔ اِسی بناء پر دانا اقوام کے ماہرین سماجیات و عمرانیات ایک اچھی قوم کی تشکیل اور پروان چڑھانے کیلئے مذکورہ بالا عمر کے افراد پر محنت کی تلقین و ہدایت کرتے ہیں۔ یہ بات تو ہر ایک کو معلوم ہے کہ معاشرہ افراد اور خاندانوں اور قوم کے مجموعے سے بنتا ہے۔ لہٰذا ایک صالح معاشرہ کے ارتقاء میںفرد کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگر فرد کی اصلاح کا بندوبست اور انتظام منظم انداز میں کیا جائے تو ظاہر بات ہے کہ ایک صالح معاشرہ وجود میں آئے گا۔ فرد کی اصلاح میں جن اداروں کا بہت اہم اور بنیادی کردار ہوتا ہے۔ اُن میں سے پہلا کردار فرد کے والدین اور خاندان کا ہوتا ہے۔ وہ خاندان جس میں بچہ پیدا ہوتا ہے اور بچے کاجن لوگوں سے ابتدائی واسطہ پڑتا ہے اِن میں اُس کے والدین ، بہن بھائی اور وہ عزیز و رشتہ دار ہیں جو اِس خاندان کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں۔ اگر خاندان کے یہ لوگ اپنے قول و فعل سے اسلامی اخلاقیات کا نمونہ پیش کریں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ بچہ بھی اِسی سیرت و کردار کا مالک نہ بنے۔ لیکن اگر بچہ گھر میں اپنے ماں باپ کو آپس میں لڑتے جھگڑتے، تُو تُو، میں میں، میں مبتلا دیکھتا ہے ا وروالدین بچے کے سامنے چھوٹ بولتے ہیں، باپ گھر میں موجود ہے اور گھنٹی بجنے پر بچے کو کہہ کر بھیجتے ہیں۔ کہ دروازے پر کھڑے شخص سے کہو کہ، ابّا گھر پر نہیں تو لازماًبچہ بھی کل اپنے گھر آئے ملاقاتیوں سے یہی کہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ تربیت اولاد کے سلسلے میں سب سے پہلی اور بڑی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔ والدین کو اِس اہم اور بھاری ذمہ داری کی ادائیگی کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ نے اتنا اعلیٰ مقام دیا ہے کہ اولاد کا اُن کے سامنے "اُف "تک کرنا منع قرار دیا گیا ہے، والدین اولاد کی تربیت اُس صورت میں بہترین طور پر کرسکتے ہیں جب خود اُن کا اپنا عمل بھی اسلامی اقدار کا پاسدار ہو۔ "اسلامی اقدار کی ترویج حکومت کی ذمہ داری " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

امریکی صدر کا دورۂ بھارت، بحثیں اور نتائج

باراک اوباما کے دورۂ بھارت کے شیڈول ہونے سے لیکر اختتام پذیر ہونے تک دُنیا بھر کے اخبارات اور میڈیا میں کئے گئے مذاکروں، بحثوں اور تبصروں کو بالعموم اور بھارت و پاکستان کے اخبارات و میڈیا کے تبصروں کو بالخصوص اگر تحریری صورت میں لایا جائے تو اچھی بھلی کتاب کی اشاعت ممکن ہو سکے گی، اِس میں تو کوئی شک نہیں کہ اِس وقت سائنسی، صنعتی اور اقتصادی و معاشی لحاظ سے امریکہ کو دُنیا میں جو مقام حاصل ہے وہ دُنیا کے کسی اور ملک کو حاصل نہیں۔ دُنیا بھر سے مختلف علوم و فنون کے ماہر لوگ اپنے فن کی قدردانی کروانے اور اِس کے عوض اچھے مول حاصل کرنے کی غرض سے امریکہ ہی کی طرف رُخ کرتے ہیں ۔امریکہ میں محنت و مشقت کے نتیجے میں زندگی گزارنے کے لئے جو انفرااسٹرکچر قائم ہوا ہے، بعض یارانِ نکتہ داں اُسے زندگی کی بنیادی سہولیات کی بہترین صورت میں فراہمی کی بناء پر جنت ارضی سے تشبیہ دیتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ دُنیا بھر سے تقریباً ہر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ کہیں امریکی گرین کارڈ کا حصول ممکن ہو جائے ۔ اِس کارڈ کے حصول کو شاید آج کل بڑی کامیابی بھی تصور کیا جاتا ہے۔ 
"امریکی صدر کا دورۂ بھارت، بحثیں اور نتائج " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

آئیں روح کی باتیں کریں

انسان روح اور جسم کا مجموعہ ہے۔ زندگی دونوں کی فعالیت اور اہمیت کا نام ہے لیکن دونوں میں تقابل کیا جائے تو روح افضل ہے کیونکہ روح کے بغیر جسم لاش کہلاتا ہے لیکن دوسری طرف جسم کے بغیر اکیلی روح بھی انسان نہیں کہلاتی۔ روح اور جسم کے درمیان بندھن کس نوعیت کا ہے اور خود روح کیا چیز ہے،اس کے بارے میں انبیاء کرام علیہم السلام سے لیکر حکماء وفلاسفر تک سوچتے رہے ہیں اور اس کی حقیقت پانے کیلئے ریاضت وجدوجہد کے مراحل سے بھی گزرے ہیں لیکن آج بھی اس خدائی کلام سے کہ ’’روح میرے رب کے امر میں سے ہے‘‘ کوئی زیادہ نہ سمجھ سکا ہے اور نہ اس پر بات کرسکا ہے۔ البتہ تخمینی اور ظنی طور پر بہت سارے فلسفے بگھارے جاتے رہے ہیں اور مزید بھی اس سلسلے میں غور وفکر اور تجسس جاری رہے گا۔
"آئیں روح کی باتیں کریں " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

قرآن کریم ، ایک دائمی معجزہ

ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم اللہ پاک کا پاک کلام ہے، یہ کلام پاک اللہ تعالیٰ کا قیامت تک زندہ معجزہ کے طور پر زندہ رہے گا۔ یہ وہی کلام مجید ہے جو آج سے تقریباً1437برس قبل جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ دنیا کے سارے باشعور لوگ اس کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کے منِ جانب اللہ ہونے کے قائل ہو ہی جاتے ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ لوگ اس کا مطالعہ کرتے رہیں گے اور اس کے اعجاز کے سامنے سر تسلیم خم کرتے رہیں گے…
"قرآن کریم ، ایک دائمی معجزہ " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

نصاب سازی اور نظریاتی اساس

یہ جملہ کسی دانشور کی کتاب میں نظر سے گزرا تھا کہ ’’قومیں نصاب سے بنتی ہیں‘‘ اور اس کے ساتھ اگر یہ بھی ملایا جائے کہ ’’قوموں کی تعمیر تعلیمی اداروں کے کلاس رومز میں ہوتی ہے‘‘…یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ساری اقوام اپنے عقائد، تہذیب وتمدن اور معاشی ومعاشرتی ضروریات کے مطابق نصاب سازی کرتی ہیں۔

اس دنیا میں اس وقت سے جب قابیل نے ہابیل کے قتل کے بعد قبیلہ ہابیل سے اپنی راہیں جدا کرلیں تو ان کی طرز معاشرت بھی الگ راہوں پر چل پڑی۔ اگر ہم ایک لمحے کے لیے یہ مان لیں کہ ڈارون کا نظریۂ ارتقا تو بہت بعد میں آیا ہے جس میں انسان کو اپنے خالق سے کاٹ کر رکھ دیا گیا اور اس کو ذرا ایک طرف بھی رکھیں تو اتنی بات تو پھر بھی قابل غور ہے کہ قصۂ آدمؑ وابلیس اور قابل وہابیل اس کائنات میں دو الگ الگ نظریاتی اساس کی پہچان کراتا ہے۔ "نصاب سازی اور نظریاتی اساس " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us: