دگر دانائے راز آید کہ ناید

علامہ اقبالؒ جب اس دنیا سے رخصت ہونے والے تھے انہوں نے فرمایا کہ’’ اس فقیر کے آخری ایام آگئے ہیں نہ معلوم اب ایسا شخص کب آئے گا جو ملت اسلامیہ کے زوال وانحطاط کے اسباب کا پتہ لگاکر امت کی رفعت وسربلندی کیلئے ہمہ تن سرگرم عمل ہوگا۔‘‘

جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب ایسی ہی ایک عظیم شخصیت تھے۔ وہ ملت اسلامیہ کا درد اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتے تھے اور علامہ جمال الدین افغانیؒ کے بعد صحیح معنوں میں ’’پان اسلامزم ‘‘کے علمبردار تھے ‘عالم اسلام کے مسائل ومشکلات پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ وہ بیک وقت صاحب بصیرت عالم دین اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے دور اندیش مبصر تھے۔ دنیا کی متعدد ترقی یافتہ زبانیں جانتے تھے اور انتہائی جرأت اور بے باکی اور قلندرانہ بصیرت کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بے تکان مدلل گفتگو کرتے تھے۔ "دگر دانائے راز آید کہ ناید " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

جما لِ ہم نشیں درمن اثر کرد

یہ ایک بڑی روح پرور اور جاں فزا مجلس تھی جس کی عطربیز فضائوں نے روح وجان کو معطر کردیا اور سارے وجود میںمہک سرایت کرگئی۔

جمالِ ہم نشیں درمن اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
اسلام آباد کی خوشنما فضائوں میں عالمی سیرت کانفرنس منعقد ہوئی اور تین دن صبح وشام سیرت کے مختلف عنوانات پر ساری دنیا کے علماء اور محققین نے مقالے پڑھے ۔ تقریباًڈیڑھ درجن ممالک سے مندوبین نے شرکت فرمائی اور چالیس کے قریب متنوع اور متعدد مضامین سیرت پر وقیع تحقیقی مقالے پڑھے۔
پہلی نشست میں بطور مہمان خصوصی وزیر اعظم جناب سید یوسف رضا گیلانی صاحب نے شرکت فرمائی اور جناب مفتی ابوہریرہ مدظلہم اور وفاقی وزیر مذہبی امور جناب خورشید شاہ نے پہلے اجلاس سے خطاب فرمایا۔ حضرت مولانا مفتی ابوہریرہ مدظلہم العالی نے بڑا ولولہ انگیز خطاب فرمایا اور حاضرین کے دلوں کو گرمایا۔ مجلس کا آغاز کلام مقدس کی تلاوت سے ہوا۔ سعودی عرب سے تشریف لائے ہوئے قاری شیخ حمود عبدالشکورنے تلاوت قرآن فرمائی ۔محترم جناب سید سلمان گیلانی صاحب نے نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے مجلس کو معطر فرمایا اور بے ساختہ امیر خسرو کا یہ بیت ذہن کی سطح پر ابھر آیا۔ "جما لِ ہم نشیں درمن اثر کرد " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

اسلام اور انتہا پسندی

مشرق کا مقدمہ مغرب کی عدالت میں

انسان کہاں سے آیا؟ کیوں آیا؟ اس کی زندگی کا مقصد کون متعین کرے گا؟ ان سوالات کا صحیح جواب ’’اسلام‘‘ دیتا ہے
انسان ظاہری وجود کا نام نہیں ہے بلکہ درحقیقت انسان طبعی میلانات، نفسی جذبات، ذہنی تصورات اور قلبی معتقدات کا نام ہے، جس طرح کے خیالات و افکار انسان کے وجود کا حصہ ہوں گے اسی طرح کے رویئے و عادات اور خصائل کا اس سے اظہار ہو گا۔ اعتدال مزاجی اور انتہا پسندی، نرمی اور محبت اور شدت و نفرت دراصل ان جذبات و معتقدات اور افکار و نظریات کی عکاسی کرتے ہیں، جو ہر انسان کے وجود میں پیوست اور اس کی جان و روح کا حصہ بنے ہوئے ہوتے ہیں۔
کسی مذہب یا نظریہ کے بارے میں یہ جاننے کیلئے کہ اس کے اختیار کرنے والے اور اس کو ماننے والے لوگوں کے ذہن و قلب پر اور روح و جاں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اور پھر ان کے عملی اظہار کی صورتیں معتدل ہوں گی یا حد اعتدال سے تجاوز کرکے مائل بہ انتہا پسندی ہوں گی؟ ضروری ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ وجود کے بارے میں، وجود مطلق (Absolute Existenc) کے بارے میں کائنات اور اس میں سرگرم عمل انسان کے بارے میں وہ مذہب کیا تصورات عطا کرتا ہے۔ کائنات اور ہستی موجود کے بارے میں، خالق کائنات کے بارے میں، خود انسان کے بارے میں مذہبی نظریات و معتقدات ہی وہ اصول فراہم کرتے ہیں جن پر تہذیبی عمارت استوار ہوتی اور تمدن کے بلند و بالا مینار تعمیر ہوتے ہیں۔ "اسلام اور انتہا پسندی " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مولانا ابو الحسن علی ندویؒ 

طلباء و نوجوانوں کی سیرت و کردار
کسی ملک کی ترقی اور استحکام اور کسی معاشرہ کے تحفظ اور اس کے باعزت زندگی گزارنے کے بہت سے سرچشمے، بہت سی شرطیں اور بہت سی علامتیں ہیں، مثلاً کوئی ملک بڑی فوجی طاقت کا ملک ہے، کسی ملک کے پاس معدنی، حیوانی، زراعتی دولت کا بہت بڑا ذخیرہ ہے، کسی ملک میں جامعات سے بڑے دوستانہ ہیں اور کسی ملک کے تعلقات عظیم ترین سلطنتوں اور عظیم ترین ملکوں سے بڑے دوستانہ ہیں اور اس ملک کو ان پر بڑا اعتماد ہے، کسی ملک میں انسانی ذہانت کا بڑا ذخیرہ ہے، وہاں بہت انسانی توانائی پائی جاتی ہے۔ وہاں کے لوگ جسمانی طور پر بہت صحت مند ہیں۔ یہ سب چیزیں کسی ملک کی طاقت و استحکام اور کسی ملک کی عزت اور اس کے احترام کی علامتیں سمجھی جاتی ہیں۔ میں ان کا انکار نہیں کرتا، لیکن اگر میرے سامنے کسی ملک کی بڑائی، کسی ملک کے استحکام کا، اور کسی معاشرے کے باعزت زندگی گزارنے کا ذکر آئے اور کسی ملک کی تعریف کی جارہی ہو تو میں ایک سوال کروں گا، وہ یہ کہ ’’مجھے یہ بتایئے کہ وہاں کے اسکولوں اور کالجوں سے لے کر یونیورسٹیوں کے طلباء تک نئی نسل کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں کس درجہ کا احساسِ ذمہ داری پایا جاتا ہے، ان میں ضبط نفس کی کتنی طاقت ہے، ان میں اپنے تاثرات کو حد اعتدال میں رکھنے کی کتنی صلاحیت ہے، ان میں کسی ملک کے صالح نظام اور جائز قوانین کے احترام کی کتنی عادت ہے، اور ان میں احساس شہریت (civic sense) کتنا پایا جاتا ہے؟‘‘ میں تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے بھی اور تاریخ کے حدود سے نکل کر زندہ معاشروں میں چلنے پھرنے اور لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے ایک انسان کی حیثیت سے بھی اس نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ میں صرف کتابوں کے صفحات اور گزشتہ تاریخ پر اس کی بنیاد نہیں رکھتا، بلکہ اکبر الہٰ آبادی مرحوم کے اس شعر پر عمل کرتا ہوں "مولانا ابو الحسن علی ندویؒ  " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مولانا ابو الحسن علی ندوی کا خطاب

علماء کی ذمہ داریاں مئی 1984ء
عزیزانِ گرامی! دنیا کے صالح و صحت مند تغیرات و انقلابات اور انسانی عزیمت کی فتوحات کی تاریخ پر اگر کوئی کتاب مستقل طور سے لکھی جائے تو نائبین انبیاء اور افراد امت کی زبان سے جو جملے نکلے ہیں ان میں ایک جملہ کو سب سے نمایاں اور ممتاز مقام دیا جائے گا اور اس کو آب زر سے لکھا جائے گا۔ یہ جملہ ایسا ہے جس نے حالات کی رفتار کو ایسا بدلا ہے جس کی مثال ملل وادیان کی تاریخ میں ملنی مشکل ہے ۔ جزیرۃ العرب کے ایک حصہ میں اور بعض قبائل میں ارتداد نے سر اٹھایا۔ یہ نازک ترین مرحلہ تھا۔ ابھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا ہے اور اس کو کچھ ہی مہینے گزرے ہیں کہ عرب جن کو ساری دنیا میں اسلام پھیلانا تھا اور جن کو ایک امت مبعوثہ کی طرح اسلام کی دعوت دینی تھی، وہ خود ارتداد کے خطرے سے دوچار ہورہے ہیں۔ ایسا نازک وقت پوری تاریخ اسلام میں نہیں آیا۔ اُس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی زبان سے ایک فقرہ نکلا جس نے تاریخ کا رخ اور واقعات کا دھارا بدل دیا اور خطرہ کا کہرا اس طرح چھٹ گیا جس طرح آفتاب کے نکلنے سے چھٹ جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا ’’اَیُنْقَصُ الدین و اناحیُّ‘‘ (کیا دین میں کوئی قطع و برید ہوسکتی ہے اور میں زندہ ہوں) ابوبکر زندہ ہو اور پھر اللہ اور رسول اللہ کے دین میں کوئی قطع و برید ہو کوئی کتربیونت ہو، کوئی انتخاب کا مسئلہ ہو کہ اس رکن کو لیں گے اور اس رکن کو چھوڑیں گے۔ "مولانا ابو الحسن علی ندوی کا خطاب " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

عبدالجبارناصر

گلگت بلتستان کی داخلی خودمختاری اور تاریخی حقائق

وفاقی کابینہ نے 29اگست 2009ء کو گلگت بلتستان (شمالی علاقہ جات) کے لیے خصوصی اصلاحاتی پیکیج کی منظوری دے دی۔ اس پیکیج کی صدائے بازگشت بالعموم 2007ء اور بالخصوص پیپلزپارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد اپریل 2008ء سے سنائی دے رہی تھی۔ 7ستمبر2009ء کوصدرپاکستان آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد تحسین اور مذمت کا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد، جو خطے کے جغرافیائی، تاریخی اور معروضی حالات سے نا واقف ہے، نے اس فیصلے پر بھرپور خوشی کا اظہارکیا۔ دوسری طرف مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے اکثر سیاسی قائدین نے حکومت پاکستان کے اصلاحاتی پیکیج کو تقسیم کشمیر کی سازش قرار دیتے ہوئے نہ صرف اس کی مذمت کی بلکہ کلی طور پر مسترد کیا۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد بھی حکومت کے پیکیج کو ڈرامہ قرار دے کر مسترد کرچکی ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت مقامی لوگوں کی مرضی اور منشاء کے مطابق خطے کے لیے اصلاحات تیار کرے، جبکہ خطے کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے تاحال محتاط رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ خصوصی اصلاحاتی پیکیج کے مندرجات کاکے حقائق سے باخبر نہ ہونا ہے۔ مختلف فریقوں کی جانب سے مختلف موقف اور دعوؤں کے بعد گلگت بلتستان کی تاریخی، جغرافیائی اور آئینی پوزیشن کے حوالے سے نہ صرف عام آدمی بلکہ باشعور طبقہ بھی شدید تذبذب کا شکار ہے، کیونکہ پاکستان اور گلگت بلتستان کے بعض افراد کا موقف ہے کہ یہ خطہ پاکستان کا حصہ ہے، اس لیے اسے پاکستان میں کلی طور پر شامل کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی قیادت کلی جبکہ گلگت بلتستان کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس خطے کو متنازع ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان کے پیکیج کو تنازعہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے اصولی موقف سے انحراف قرار دیتی ہے۔دوسری جانب گلگت بلتستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد خطے کو خودمختار قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان اور بالخصوص کشمیری قیادت سے سخت نالاں نظر آتی ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز میں ہونے والے پروگراموں اور تاریخی حقائق کی بجائے سنی سنائی باتوں، روایتوں اور ذاتی تصورات پر مشتمل مضامین نے گلگت بلتستان کے آئینی تشخص کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں اس خطے کے دعویداروں نے دنیا اور خطے کے عوام کو ان علاقوں کے جغرافیائی، تاریخی اور معروضی حالات سے حقائق سے آگاہ کرنے کی بجائے ذاتی موقف یاتصور کا ہی پر چارکیا، جس کی وجہ سے آج بھی اہل پاکستان، گلگت بلتستان اور کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد اصل حقائق سے لاعلم ہے۔ "عبدالجبارناصر " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مولانا مفتی تقی عثمانی ؒ

انسانی جان کی حرمت 
بیت اللہ شریف کے اس مقام بلند کو ذہن میں رکھئے، اور پھر ایک حدیث کا مطالعہ کیجئے جو میں حدیث کی مشہور کتاب ابن ماجہ سے ترجمے کے ساتھ نقل کر رہا ہوں:
عن عبداللہ بن عمر و قال: رأیت رسول اللہ ﷺ یطوف بالکعبۃ و یقول، ما أطیبک و أطیب ریحک! ما أعظمک و أعظم حرمتک! والذی نفس محمد بیدہ الحرمۃ المؤمن أعظم عنداللہ حرمۃ منک مالہ ودمہ۔ 
حضرت عبداللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے ہیں اور (بیت اللہ سے خطاب کرتے ہوئے) یہ فرما رہے ہیں کہ ’’تو کتنا پاکیزہ ہے اور تیری ہوا کتنی پاکیزہ! تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم! (مگر) میں اس ذات کی قسم کھاتا ہوں جس کے ہاتھ میںمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے! ایک مؤمن کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک یقینا تیری حرمت سے بھی زیادہ عظیم ہے، اس کا مال بھی اور اس کا خون بھی‘‘۔ 
اللہ اکبر! اس روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کی قسم کھا کر بتایا کہ ایک مؤمن کی جان و مال کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک بیت اللہ شریف کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔ 
"مولانا مفتی تقی عثمانی ؒ " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مفتی نذیر احمد خان

آئین کی اسلامی شقوں میں مجوزہ ترامیم
آئین اور قانون کسی بھی ملک کے قیام و استحکام کا اہم ترین ستون ہیں۔ آئین کے ذریعے ہر شخص، ہر حکمران اور ہر ادارے کے لئے حد بندی کردی جاتی ہے اور قانون کے ہاتھ ان حدود کو جانچنے اور ضابطوں میں لانے کے لئے متحرک رہتے ہیں۔ اسلام ایک نظام حیات ہے اور اسلامی قانون جس کا مآخذ قرآن و حدیث ہیں پاکستانی آئین اور قانون میں اس کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے چنانچہ 1973ء کے متفقہ آئین کے آرٹیکل 2میں واضح درج ہے کہ۔
’’اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا‘‘ "مفتی نذیر احمد خان " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مفتی نذیر احمد خان

آئین کی اسلامی شقوں 
وفاقی شرعی عدالت میں شریعت کا علم جاننے والوں کا تقرر کیا جائے
اگر درج بالا عبارت کے درج میں مشکلات پیدا ہوں، اور یہ موجودہ حالات سے بھی ظاہر ہے، تو آرٹیکل 30 کے حذف پر زور دیا جائے، حذف سے درج بالا دفعات کا قانونی، عدالتی اور آئینی تحفظ خود بخود نکھر جائے گا۔ ہمارے خیال میں درج کے مقابلہ میں حذف زیادہ مؤثر اور سہل ذریعہ ہے۔
آرٹیکل 203… "مفتی نذیر احمد خان " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

اوریا مقبول جان

مغرب کا اسلام کی طرف بڑھتا ہوا رجحان

وہ جو مغرب کے تعیش اور رنگارنگ تہذیب کے دلدادہ تھے انہیں ایک بار پھر اپنا خوف بھرا غصہ نکالنے کا موقع مل گیا۔ طرح طرح کے الزامات اور فقرے کسے گئے۔ یہ اعداد و شمار تم نے کہاں سے لیے، یورپ کے بارے میں تمہیں کیا پتہ، تم مسلمانوں کو خوابوں کی دنیا میں لے جاتے ہو، تم نے تمام معلومات یوٹیوب کی ایک فلم سے لے کر کالم لکھ ڈالا اورنام بھی کیا رکھا ’’مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے‘‘ واہ، تم سے پہلے جمال الدین افغانی اور علامہ اقبال بھی پوری دنیا میں مسلمانوں کی برتری کے خواب دیکھتے قبر میں جا سوئے، تم ایک کاہل، خواب دیکھنے والے دانشور ہو جو مسلمان قوم کو گمراہ کر رہے ہو۔ ہم مغرب میں رہتے ہیں۔ ہمیں پتہ ہے وہاں سبگ چل رہا ہے۔ ٹھیک ٹھاک، عیش و عشرت بھی ہے اور آسائش بھی۔ ایسے بہت سے فقرے مجھے اپنے گزشتہ کالم کے جواب میں ملے جس میں میں نے مغرب میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور یورپ کے بدلتے ہوئے نقشوں کے بارے میں گفتگو کی تھی۔  "اوریا مقبول جان " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us: