کرپشن کی کہانی

ملک کے کروڑوں عوام ایسے ہیں جو اس منظر سے بالکل بے خبر اور ناآشنا ہیں جو کسی بڑے سرکاری افسر‘ کسی وزیر یا پھر اعلیٰ شخصیت کے دفتر کے کسی خاموش کمرے‘ کسی اعلیٰ ترین ہوٹل کی لابی‘ بیرون ملک دورے پر گئی ہوئی کسی شخصیت کے ہوٹل کے کمرے یا پھر کسی مخوص مقام پر برپا ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی امیر ملک کی امیر ترین ملٹی نیشنل کمپنی کا کوئی نمایندہ اپنی چرب زبانی اور مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کسی اعلیٰ افسر‘ وزیر یا اعلیٰ شخصیات کو ترغیبات دے رہا ہوتا ہے۔ تمام معاملے کو خفیہ رکھنے کی یقین دہانی کے ساتھ پیسے کی کسی بیرون ملک بینک میں باہر ہی باہر منتقلی کے انتظامات بھی بتاتا ہے اور پھر اس ڈیل کی کامیابی کے بعد اپنی کمپنی کے ہیڈ کوارٹر لوٹ کر اس کمیشن کی رقم کو کسی پلانٹ کی قیمت‘ کسی ٹھیکے کی لاگت یا کسی چیز کے سپلائی آرڈر میں شامل کرکے اپنی کمپنی میں ایک بہترین مارکیٹنگ آفیسر کی حیثیت سے شاباش وصول کرتا ہے۔ اس لیے کہ اب تو یہ ڈیل اس کی کمپنی کیلئے پکی ہوگئی کہ منظوری کے دستخط کے ساتھ کرپشن کی مہر تصدیق بھی ثبت ہوچکی ہے۔ "کرپشن کی کہانی " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

عذاب برداشت کرنے کی حد

کیا بجلی کا یہ بُحران واقعی وجود رکھتا ہے یا اس قوم کو مستقل بے اطمینانی کی کیفیت میں رکھنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، تاکہ وہ کسی اور سمت سوچ ہی نہ سکے۔ آئیے وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں یہ بُحران بالکل موجود ہی نہیں تھا۔ 
یہ سب بحران جولائی 2007ء میں سانحہ لال مسجد کے بعد شروع کئے گئے۔ ہم یہاں صرف حکام کے دیئے گئے اعداد و شمار سے کہانی بیان کریں گے ۔ فروری2007ء میں ملک میں 12,552 میگا واٹ بجلی پیدا ہوئی جب کہ اُس ماہ بجلی کی ضرورت 11,590 میگا واٹ تھی یعنی ملک میں 962 میگا واٹ بجلی زیادہ تھی۔ اپریل سے ستمبر2007ء تک کی گرمیوں میں 13,002 میگا واٹ بجلی پیدا ہوئی جب کہ ضرورت13,843 تھی، یعنی کمی صرف 841 میگا واٹ کی تھی۔ اکتوبر 2007ء میں پھر موسم سرد ہوا تو پیداوار 13,492 تھی اور ضرورت 13,737 تھی یعنی صرف 245 میگا واٹ کی کمی تھی۔ یہاں تک تمام ملک پر سکون اور آرام کی زندگی گزار رہا تھا۔ "عذاب برداشت کرنے کی حد " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

عبدالجبار ناصر

پاکستان کی آئین کہانی

قیام پاکستان سے آج تک آئین ہمارا اہم ترین مسئلہ رہا ہے۔ کسی بھی ریاست کے لئے آئین بنیادی اہمیت کا حامل ہوتاہے کیونکہ وسائل کی تقسیم ہو، خارجہ پالیسی ہو یا اندرونی معاملات، انتظامی ادارے ہوں یا عدالتی نظام، معاملہ امن و امان کا ہو یا سرحدوں کے تحفظ کا، معاشرے کی اصلاح ہو یا انصاف کے تقاضے، ملک کے اندرونی معاملات کا سدھار ہو یا بیرونی تعلقات، انداز حکمرانی ہو یا عوامی رہن سہن ،تمام نظام حکومت و ریاست کی ابتداء اور انتہا آئین ہی ہے۔ دراصل آئین ہی ملکوں اور قوموں کو متحد رکھنے کی بنیادہوتا ہے۔ اگر آئین سے انحراف کیا جائے تو پھر ریاستیںاپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتیں۔ آئین کی روشنی میں قوانین وضع کئے جاتے ہیں۔ دنیاکے بیشتر ممالک اپنے مضبوط نظام (آئین) کی وجہ سے اپنا وجود صدیوں سے برقرار رکھے ہوئے ہیں اور جہاں آئین کو نظر انداز کیا گیا وہ ممالک عارضی یا دائمی غلامی یا پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر دنیا کے لئے نشان عبرت بن گئے ۔ "عبدالجبار ناصر " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

ڈاکٹر حافظ محمد ثانی

یہ ُمشت ِ خاک تیری جستجو میں زندہ ہے
محبوب رب العالمین، سید المرسلین، خاتم النبیین، فخر موجودات، سرور کائنات، نیر تاباں، مہر درخشاں، حاملِ قرآن، نور مبین، رحمۃ للعالمین، اِمام الاولین و الآخرین، صاحب قاب و قوسین، بشیر و نذیر، سراج منیر، مولائے کل، ختم الرسل، محسن انسانیت، رہبر آدمیت، یتیم عبداللہ، جگر گوشۂ آمنہ، سید عرب و عجم، ہادیٔ عالم، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور قدسی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت اور دنیا میں تشریف آوری ایک ایسا تاریخ ساز لمحہ اور عظیم انقلاب ہے جس نے کائنات کی ایک نئی جہت، نیا موڑ اور فلاح و کامرانی کا ایک نیا دستور عطا کیا۔ انسانیت کو جینے کا حوصلہ اور زندہ رہنے کا سلیقہ دیا۔ اس نور مبین کی آمد سے عالم شش جہات کا ذرہ، ذرہ حیات انسانی کا گوشہ گوشہ جگمگانے لگا۔ ظلم، جہالت، ناانصافی، کفر وشرک اور بت پرستی میں مبتلا انسانیت مثالی ضابطہ حیات، احترام انسانیت کے شعور سے باخبر، عدل کی بالادستی کے تصور سے آگاہ اور ایمان کے نور سے منور ہوئی۔ عالم انسانیت کی خزاں رسیدہ زندگی میں پر کیف بہار آئی۔ ایمان کی دولت نصیب ہونے سے بندگان خدا کو وہ منزل ملی جس سے توحید کا نور عام ہوا اور کفر و شرک کی تاریکی چھٹ گئی۔  "ڈاکٹر حافظ محمد ثانی " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مولانا عبدالقیوم حقانی

فروغِ علم اور ذوقِ مطالعہ 
بدقسمتی سے یورپ کی طرح ہمارے ہاں بھی قوت واخلاق، تخلیق وایجاد، ذوق مطالعہ، شوق علم اور تحصیل علم و دین کا توازن بگڑتا جا رہا ہے۔ جدید سائنسی انکشافات اور مغربی افکار کی یلغار کے بعد سے مادی قوت اور ظاہری علم بڑی سرعت سے ترقی کر رہے ہیں جبکہ دین و اخلاق اور علم و مطالعہ میں تنزل و انحطاط واقع ہوتا چلا جا رہا ہے، جب عام معاشرتی سطح اور غالب اکثریت پر نظر ڈالی جائے تو بغیر کسی تردد اور شک کے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ مسلم سوسائٹی میں بھی اب ان دونوں میں کوئی تناسب باقی نہیں رہا اور ایک ایسی نسل پیدا ہو چکی ہے جس کے ترازو کا ایک پلڑا آسمان سے باتیں کرتا ہے اور دوسرا تحت الثریٰ میں ہے، جو مادی اعتبار سے عروج و کمال کی جتنی بھی بلندیوں پر فائز ہو مگر اخلاق و اعمال، فکر وبے عملی میں اس کی سطح چوپایوں اور درندوں کی سطح سے بلند نہیں، اس کی جدید فنی علوم، صنعتی بلند پروازیوں، مادی ترقیوں اور اخلاقی پستیوں میں کوئی تناسب نہیں ہے۔  "مولانا عبدالقیوم حقانی " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

مولانا عبدالقیوم حقانی

جہاں پناہ! سب خیریت ہے
ملک تباہی کے کنارے کھڑا ہے‘ ملکی استحکام اور قومی سا لمیت کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں‘ تخریب کاروں‘ غیر ملکی سفارتکاروں اور استعمار کے گماشتوں کو بھی وہی پروٹوکول حاصل ہے جو حکمرانوںکی تسکین انا کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے‘ علماء حق کو قتل کیا جارہا ہے‘ قاتل دندناتے پھررہے ہیں‘ کراچی بیروت بن چکا ہے‘ ملک میں کسی کی عزت نفس اور جان ومال محفوظ نہیں۔ اللہ کے قانون سے بغاوت‘ دین اسلام سے شرارت اور اہل اسلام سے منافقت ارباب اقتدار کی سیاست ہے۔ شریعت سے استہزاء اور تمسخر اہل حکومت کی جمہوریت ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود ملکی ’’نیا‘‘ کے کھیون ہار آنکھیں بند کیے قعر مذلت اور شارع ہلاکت پر سرپٹ دوڑے چلے جارہے ہیں اور قوم کو یہ باور بھی کرایا جارہا ہے کہ جناب! یہی ملکی سا لمیت اور قومی استحکام کا راستہ ہے۔
قومیں تباہ ہوتی ہیں جب ان میں اخلاق نہیں رہتا‘ جب شریعت سے استہزا ہوتی ہے‘ جب علماء حق کے صائب مشورے ٹھکرادیئے جاتے ہیں‘ جب غیرت مٹ جاتی ہے‘ جب حیاء اور بے حیائی کا اختلاط ہوجاتا ہے‘ جب سیاست مفادات کا تحفظ کرتی ہے‘ جب دینی اقدار تج دیئے جاتے ہیں‘ ظلم سہنا ان کی عادت ہوجاتی ہے اور غداری کرتے ہوئے یا سیاست کاری کرتے ہوئے شرعی قوانین اور اسلامی اخلاق کے پامال ہونے پر انہیں رتی بھر حیا نہیں آتی‘ لیکن ایک چیز ایسی ہے جو قوم کی روح کو ہڑپ کرجاتی ہے‘ وہ ہے خوشامد! بیرونی آقایان ولی نعمت کی خوشامد! اندرونی متوقع مفادات کے محافظ لادین اہل سیاست کی خوشامد! ملکی اقتدار پر براجمان ارباب حکومت کی خوشامد! بتوں کو خدا بنانے کا جذبہ اور خدا کو (العیاذ بااللہ ) طاق نسیاں پر رکھ دینے کی ذلت! "مولانا عبدالقیوم حقانی " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

پروفیسرحافظ عبدالواحد سجاد

توہین آمیزخاکے اور مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری
طائف مکہ معظمہ سے مشرق کی طرف ساٹھ ستر میل کے فاصلے پر ایک سرسبز وشاداب مقام ہے‘ جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے دسویں سال تبلیغ اسلام کیلئے تشریف لے گئے اور قبیلہ بنی ثقیف کے ایک بااثر خاندان کو دعوت اسلام دی۔ اس خاندان کے سردار تین حقیقی بھائی تھے‘ انہوں نے نہ صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا‘ بلکہ طائف کے اوباشوں کو بھی آپ کے پیچھے لگادیا۔ ان اوباشوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آوازیں کسیں‘ گالیاں دیں اور پتھر برسائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور لہولہان ہوگیا‘ ریش مبارک تر ہوگئی اور لہو مبارک نعلین (مبارک جوتوں) تک پہنچا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر طائف کا یہ احوال ہر اس فرد کو معلوم ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت رکھتا اور اس پر فخر کرتا ہے۔ طائف کا یہ پس منظر لوح حافظہ پر یوں آیا کہ ایک معاصر میں طائف کی ایک نمائش کا تذکرہ پڑھنے کو ملا۔ قارئین تک اس کا احوال پہنچانے کا مقصد یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ مسلمان آج ذلت ورسوائی کے عمیق گڑھے میں کیوں گرے ہوئے ہیں؟ بات آگے بڑھانے سے پہلے وہ رپورٹ ملاحظہ فرمالیجئے۔ "پروفیسرحافظ عبدالواحد سجاد " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

دنیا میں توانائی کا بحران پاکستان کے قدرتی وسائل

جس سر زمین پر اللہ کے احکامات پر عمل ہوتا ہو وہاں اللہ کی رحمت بارش کی طرح برستی ہے اور زمین و آسمان اپنے خزانے کھول دیتے ہیں، دنیا کی تمام مخلوق اللہ کی رحمت سے فائدہ اٹھاتی ہے مگر جب اللہ کی زمین پر اللہ کی نافرمانی عام ہو جائے تو اللہ کی ناراضگی ظاہر ہوتی ہے اور رحمت کی بارشیں رک جاتی ہیں۔ 
اس وقت پوری دنیا میں توانائی کا بحران اسی وجہ سے ہے کہ ’’انسان‘‘ نے اللہ کی نافرمانی کی تمام حدیں پھلانگ دی ہیں۔
ہم آج کی نشست میں توانائی کے بحران اور پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لینگے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان جیسے معدنی ذخائر سے مالا مال ملک میں بحران کیوں ہے؟ 
سطح زمین پر توانائی کے بڑے ذرائع تیل (پیٹرولیم مصنوعات) گیس، کوئلہ اور پانی ہیں۔ دنیا میں توانائی کی کل کھپت اندازاً 15.7 ٹیراواٹ ہے، جس میں پیٹرولیم مصنوعات کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ ان کا استعمال صنعت و حرفت، تجارتی عوامل، ذرائع نقل و حمل اور گھریلو کام کاج میں ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں توانائی کا ایک ذریعہ نیو کلیئر پاور بھی ہے اور متبادل توانائی میں شمسی توانائی اور ہوا سے توانائی کی پیداوار اہم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پیٹرولیم کے ذخائر موجودہ تیل کی کھپت کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ سولہ سال کے عرصے کے لئے کافی ہیں۔  "دنیا میں توانائی کا بحران پاکستان کے قدرتی وسائل " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us:

سیف الا سلام سیفی

عالمی طاقتوں کے مفادات کا محافظ ہمارا معاشی نظام 
پاکستان کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور خوشحالی اور ترقی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے قیام پاکستان کے بعد ایک نسل خوشحالی کی منزل پانے کی خواہش دلوں میں لے کر کوچ کرچکی اور دوسری نسل اس کی تمنا میں ذہنی ا نتشار اور بے چینی سے دوچار ہے ملک کی معاشی بد حالی کے ذمہ داروں کے تعین کے لئے کسی تحقیق و جستجو کی ضرورت نہیں حکومت کی غلط پالیسیاں ملک کے معاشی تنزل کا باعث بنیں تو بڑی طاقتوں نے اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کے لئے یہاں کے حکمرانوں کو اخراجات پو رے کرنے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول کی راہ پر لگا دیا پہلے پہل یہ قرضے اسان شرائط پر دیے جاتے رہے حکمران کے عادی ہوجانے کے بعد مالیاتی اداروں اور بڑی طاقتوں نے حکومتوں سے اپنی شرائط منوانا شروع کردیں پوری طرح گرفت اور چنگل میں ٓنے کے بعدبڑی طاقتوں نے حکومتوں سے سخت اور عوامی مفادات کے منافی فیصلے بھی کروائے جن میں جنرل سیلز ٹیکس ،بجلی اور دوسرے یوٹیلٹی بلز میں وقتا فوقتا اضافے ،کارپوریٹ فارمنگ اور اب ویلیو ایڈڈ ٹیکس مسلط کرنے کے ناپسندیدہ فیصلوں سمیت دوسرے معتدد اہم فیصلے شامل ہیںحکمرانوں کے پیش نظر عوامی مفاد کم اور بڑی طاقتوں کی خوشنودی رہی ہے یہ سب کچھ عالمی سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کو قبول کرنے کی بدولت ہو جس نے نہ صر ف پاکستان بلکہ دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کو اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے سرمایہ دارانہ نظام نے دولت کو "سیف الا سلام سیفی " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us: