Director, Interfaith Consultancy, UK
احترام انسانیت بقا انسانیت کی ضمایت ہے
اسٹیون ڈربی نے مذہبی تنازعات کو ختم کرنے میں سماجی ماہرین کے کردار پر خیالات پیش کئے ،انہوں نے اپنے تاثرات میں بتایا کہ میرے والدین جرمن یہودی تھے۔دونوں برطانیہ میں پناہ گزین تھے۔اسکول میں میں نے دنیا بھر کے مذاہب کا مطالعہ کیا۔1975 میں جب میری عمر تقریباً ساڑھے 15 سال تھی امتحان میں میں نے ریاضی میں اچھے نمبر حاصل کئے اور گریڈ 1 میں کامیابی حاصل کی ۔ڈربی نے بتایا کہ ہمیں پڑھایا گیا مثال کے طورپر کہ پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ 570 سال بعد از مسیح پیداہوئے اور انہوں نے جہالت والے معاشرے میں تعلیم اور امن کو قائم کیا۔ یہ معلومات بچپن سے میری دلچسپی کا محور رہے ہیں۔عالمی مذاہب سے میری دلچسپی کبھی کم نہیں ہوئی اور آج یہاں آکر مجھے خوشی ہورہی ہے کہ میں مختلف مذاہب کے نمائندوں کے درمیان موجود ہوں۔میں مشکور ہوں مفتی ابوہریرہ محی الدین اور ان کے ساتھیوں کا جنہوں نے ایک اہم ترین مگر وقت کی ضرورت کے عین مطابق موضوع پر مجھے اظہار خیال کا موقع دیا۔
میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ برطانیہ میں 1.2 ملین یعنی 12لاکھ پاکستانی ہیں جو ہر شعبہ زندگی پر چھائے ہوئے ہیں،بعض لوگوں نے سعیدہ وارثی کانام سناہوگا، وہ منتخب رکن پارلیمنٹ ہیں اور کچھ عرصہ کابینہ کی رکن بھی رہی ہیں لیکن امجد کانام کسی نے نہیں سناہوگا جو میری مقامی سپر مارکیٹ میں سیکورٹی کی سہہ پہر کی شفٹ میں کام کرتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ سعیدہ وارثی نے میرے لئے کیاکیا لیکن امجد نے مجھے کچھ پاکستانی کرنسی دی تاکہ میں اس کے وطن میں خالی ہاتھ نہ آئوں۔یہ بات میں ہم آہنگی، رواداری اور باہمی تعلق کی اہمیت کی وجہ سے بتارہا ہوں۔
برطانیہ کے ہر شعبے میں موجود 12لاکھ پاکستانیوں کی موجودگی کے سبب میں ان کے ساتھ ہی جوان ہوا۔ وہ میرے اسکول کے دوست تھے، اگر اسکول میں پاکستانی بچوں کے ساتھ میراکوئی مسئلہ تھا تو وہ یہ تھا کہ وہ سب کرکٹ میں مجھ سے بہتر تھے۔ ایک دفعہ مجھے بتایاگیا کہ اگر آپ ایک سال بعد کی سوچتے ہیں تو چاول کاشت کریں، اگر آپ 10 سال بعد کی سوچتے ہیں تو درخت لگائیں لیکن اگر آپ 100 سال بعد کی سوچتے ہیں تو بچوں کی تعلیم پر سرمایہ کاری کریں،بچوں کوتعلیم دلائیں۔اس میں ان کی مذہبی شناخت اور بین المذاہب تعلیم کو شامل کرلیں۔ ان کے لئے مواقع پیدا کریں ۔
سائناگاگ، یہودیوں کی عبادت گاہ کے ربی الیگزینڈر رائٹ کہتے ہیں: ’’ہماری ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے پروگراموں کو سپورٹ کریں جس سے ہم آہنگی اور میل جول کو فروغ ملتاہے۔ اس طرح کے پروگراموں سے ہر ایک کو مفید تجربہ حاصل ہوتا ہے‘‘ ۔وہ بتاتے ہیں کہ مجھے ایک مسجد کے دورے کا موقع ملاجہاں امام شاہدحسین جو کہ ڈائریکٹرمسلم سروسز لمیٹڈ ہیں ان سے تبادلہ خیال ہوامجھے مسجد میں بہت سے بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ شامل ہوکر خوشی محسوس ہوئی ، امام صاحب کا اس یقین کا اظہار کیا کہ اس سے کمیونٹی میں ہم آہنگی میں اضافہ ہوگا مختلف الخیال لوگوں کے میل ملاپ اور بچوں کے ساتھ ابتدا ہی میں میل جول کی بڑی اہمیت ہے ،یہ پروجیکٹ تخلیقی اور اثر پذیر ہے ،ہم سب اس طرح کے پروگراموں سے کچھ سیکھ سکتے ہیں ‘‘۔مندر کے بار ے میں اپنے تجربات کی روشنی میںبتاتا چلوں کہ کیٹانیواجیون داس کے مطابق میں اب تک جن بچوں سے ملاہوں یہ سب سنجیدہ اور ذہین بچے ہیں‘‘ ۔ ان تجربات کے تناظر میں میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی معاشرے میں درپیش چیلنجز پر قابو پانے کے لئے ایک باشعور ،سمجھ رکھنے والی اور دوسروں کا احترام کرنے والی نسل کا کردار انتہائی اہم ہے۔ایک ایسی نسل جسے مزید معلومات کی ضرورت نہ ہو وہ اور بھی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔اس طرح کی کانفرنسز سے ہم ایک پرامن بین المذاہب اور باہمی وجود وبقا کیلئے ایسی سنجیدہ اور سمجھدار نسل تیار کرسکتے ہیں۔