اسلام اور انتہا پسندی

مشرق کا مقدمہ مغرب کی عدالت میں

انسان کہاں سے آیا؟ کیوں آیا؟ اس کی زندگی کا مقصد کون متعین کرے گا؟ ان سوالات کا صحیح جواب ’’اسلام‘‘ دیتا ہے
انسان ظاہری وجود کا نام نہیں ہے بلکہ درحقیقت انسان طبعی میلانات، نفسی جذبات، ذہنی تصورات اور قلبی معتقدات کا نام ہے، جس طرح کے خیالات و افکار انسان کے وجود کا حصہ ہوں گے اسی طرح کے رویئے و عادات اور خصائل کا اس سے اظہار ہو گا۔ اعتدال مزاجی اور انتہا پسندی، نرمی اور محبت اور شدت و نفرت دراصل ان جذبات و معتقدات اور افکار و نظریات کی عکاسی کرتے ہیں، جو ہر انسان کے وجود میں پیوست اور اس کی جان و روح کا حصہ بنے ہوئے ہوتے ہیں۔
کسی مذہب یا نظریہ کے بارے میں یہ جاننے کیلئے کہ اس کے اختیار کرنے والے اور اس کو ماننے والے لوگوں کے ذہن و قلب پر اور روح و جاں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اور پھر ان کے عملی اظہار کی صورتیں معتدل ہوں گی یا حد اعتدال سے تجاوز کرکے مائل بہ انتہا پسندی ہوں گی؟ ضروری ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ وجود کے بارے میں، وجود مطلق (Absolute Existenc) کے بارے میں کائنات اور اس میں سرگرم عمل انسان کے بارے میں وہ مذہب کیا تصورات عطا کرتا ہے۔ کائنات اور ہستی موجود کے بارے میں، خالق کائنات کے بارے میں، خود انسان کے بارے میں مذہبی نظریات و معتقدات ہی وہ اصول فراہم کرتے ہیں جن پر تہذیبی عمارت استوار ہوتی اور تمدن کے بلند و بالا مینار تعمیر ہوتے ہیں۔ "اسلام اور انتہا پسندی " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us: