انسان کی پیدائش اور اس کا مقصد

ہماری نظروں سے کائنات کے جو حصے اوجھل ہیں یا ہمارے دائرہ علم سے باہر ہیں نہ معلوم کہ ان کا حال کیا ہے مگر جن مخلوقات کا ہم کسی حد تک احاطہ علمی کرچکے ہیں‘ اس سے اللہ عزوجل کی حاکمیت‘ قدرت اور حکمتوں کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ جو ذات اتنی وسیع کائنات پر حکم نافذ کرے اور کوئی اس کے فرمان سے سرمواختلاف نہ کرسکے اس کی عظمت وکبریائی کا کیا حال ہوگا؟ وہ اللہ کتنا حکیم ہوگا؟ کتنا قادر ہوگا؟ اور کتنا علیم ہوگا؟ اور نقص وعیب سے کتنا منزہ اور پاک ہوگا؟ یہ سب کائنات بزبان حال اس کی تسبیح وتقدیس کرتی ہے بلکہ ان میں بہت سے بزبان قال بھی اللہ کی حمد وثنا اور تسبیح میں پوری طرح مشغول ہیں مگر ان اشیاء کو اس عبادت میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں۔ فرشتے اگر اللہ کے لئے نماز پڑھیں تو انہیں یہ سہولت حاصل ہے کہ ان پر معاش کی فکر سوار نہیں ‘اگر وہ روزہ رکھیں تو وہ بھوک سے بے نیاز ہیں اور زندگی بھر تسبیح ہی پڑھتے رہیں تو وہ تھکن سے مبرا ہیں اسی طرح دیگر کائنات عبادات میں پیش آنے والی مشکلات سے محفوظ ہیں گویا ایسی صورت حال میں ان کی قوت عبادت بطور کمال کے ظاہر نہیں ہوسکتی ‘کسی چیز کی قوت اور طاقت کا پتہ تب چلتا ہے جبکہ اس کی ضد موجود ہو۔ کوئی شہ سوار اس وقت تک اپنی مسابقت کا ثبوت نہیں دے سکتا جب تک کہ اس کے ساتھ میدان میں مدمقابل نہ ہو۔ پہلوان اپنی طاقت کا اظہار تب کرسکتا ہے جبکہ اسے عاجز کرنے والی قوت اس کے مقابلہ میں آئے۔  "انسان کی پیدائش اور اس کا مقصد " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us: