کروڑہا شکر مالک کائنات کا، کروڑہا درود وسلام پیارے نبی آخرالزماں، خاتم المرسلین ،رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ومقدس ذات پر جن کے روزہ¿ اقدس اور خالق کائنات کے گھر کی زیارت نصیب ہوئی اور دین اسلام کے پانچویں رکن حج مبارک کی سعادت حاصل کی۔
طواف کعبہ اور زیارت رسول ﷺ سال کے بارہ مہینے جاری رہنے والا عمل ہے لیکن حج سال میں ایک مرتبہ ادا کرنے والی عبادت ہے، اس عبادت کے لیے سفری مصائب ومشکلات بھی نیکیوں اور رضائے الٰہی کا موجب ہوتی ہیں۔ پرانے وقتوں میں لوگ لاکھوں میل کا سفر پیدل، اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے طے کیا کرتے تھے۔18ویں اور 19ویں صدی میں سفری سہولیات میں بہتری آئی پھر 20ویں صدی میں سفر کی جدید سہولیات ہر ملک میں سرایت کرگئیں جیسے جیسے جدت آتی گئی ویسے ویسے زمانے نے بھی کروٹیں لینی شروع کیں اور انسان کے لیے ہر طرح کی آسائش کا حصول آسان ہوتا گیا، انہی آسائش اور سہولیات کا نتیجہ ہے کہ آج کا انسان ہر معاملے میں سہولت کا متمنی ہے، ان معاملات کی حد نہیں۔ گھر میں گھر سے باہر، گھر سے دفتر، فیکٹری، کھیت کھلیان یعنی ہر اس مقام پر جہاں تک اس کی رسائی ہونی ہے اور وہاں جہاں اس کے شب وروز گزرنے ہیں۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث مبارکہ کے مفہوم میں یہ بات ملتی ہے کہ سفر میں مانگی گئی دعا قبول ہوتی ہے، یعنی اس امر سے ہم سفر کی مشکلات ومصائب کا اندازہ لگاسکتے ہیں اور آپ ﷺ کی تعلیمات اور اسوہ¿ حسنہ سے سفر کی آسانیاں بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
حج کا سفر ایک عبادت ہے آج اگر کسی ملک کا کوئی باشندہ دوران سفر کی مشکل کا ذکر کرتا ہے تو اکثر جواب یہ ہوتا ہے کہ حج نام ہی سفری مشکلات کا ہے جبکہ ایسا ہے نہیں ۔ کیوں،کیوں کہ اللہ رب العزت نے حج فرض ہی اس شخص پر کیا ہے جو صاحب استطاعت ہے، مالی اور جسمانی لحاظ سے طاقت ور ہے، لہٰذا سفر کی تیز ترین اور جدید سہولیات کی موجودگی میں اس طرح کا موقف اختیار کرنا سوائے جان چھڑانے کے اور کچھ نہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنی بدانتظامیوں پر غور وفکر کرنے کی بجائے ناک بچانے کے لیے مختلف حیلے بہانے تراشتے اور لمبی تان کر سو جاتے ہیں اور پھر ہر سال ہمارے حجاج کرام کسی نہ کسی انتظامی مسئلے کا شکار ہوتے ہیں۔ ماسوائے گزشتہ 3،4سال کے ہر دور میں حجاج کرام مسائل کا شکار رہے لیکن سال رواں(عیسوی) جس طرح کی بدانتظامی کا مشاہدہ ہو ایہ بڑی شرمندگی اور ندامت کا باعث بنی، یعنی آپ اندازہ لگائیے کہ 45سینٹی گریڈ کی جھلسادینے والی گرمی میںطویل سفرپیدل طے کیا، بیچارے حجاج کا کیا حال ہوا ہوگا۔ ان حجاج میں بوڑھے، بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔
حکومت پاکستان ہر سال حجاج کرام کو سرکاری اسکیم اور ٹور آپریٹرز (نجی شعبہ) کے تحت اس عظیم عبادت کے لےے بھیجتی ہے ۔اب کی بارمجموعی طور پر 1,78000سے زاہدحجاج کرام میں سے 107,526سرکاری اور 71000 کو پرائیویٹ ٹورآپریٹرز کے ذریعے بھیجا گیا۔ سرکاری اسکیم کے تحت فی حاجی تقریباً ڈھائی لاکھ سے زائد روپے وصول کئے گئے جبکہ نجی شعبہ (ٹور آپریٹرز) نے ساڑھے 4لاکھ سے 25لاکھ روپے تک وصول کئے۔
اگرچہ نجی شعبے کے تحت حج مہنگا ضرورتھا اور کئی جانب سے اعتراضات بھی سامنے آئے تاہم ارض مقدس پر حج کے پانچ دنوں میں گزشتہ سال کی نسبت اس سال مناسب اور اطمینان بخش انتظامات دیکھنے میں آئے،ٹورآپریٹرز کا سب سے اچھا اورعمدہ کام یہ تھا کہ 100حاجیوں پر مشتمل گروپ تشکیل دےے گئے تھے جن کی خدمت پرکئی لوگ مامورکئے گئےجو ان کے قیام وطعام سے لے کر ٹرانسپورٹ اور منیٰ،مزدلفہ اور عرفات میں ہرطرح کی سہولیات اور آسائش کے ذمے دار تھے،اور ان لوگوں نے اپنے فرائض منصبی انتہائی جانفشانی اور فرض شناسی سے نبھائے جس کے نتیجے میں کسی جانب سے بھی حقیقی شکایات نہ ہونے کے برابر رہیں تاہم بعض اس نوعیت کی شکایات ضرور تھیں کہ بہت سے حاجیوں کو پاکستان میں فراڈ کا سامنا کرنا پڑا، اس کی وجہ یہ تھی کہ کچھ ٹورآپریٹرز جو کہ رجسٹرڈ نہیں تھے اور انہیں حکومت کی جانب سے کوٹہ بھی نہیں ملا تھا انہوں نے لوگوں سے پیسے اکھٹے کئے اور رفوچکر ہوگئے ان کے خلاف حکومت کو فوری کارروائی کرنی چاہےے۔حکومت پاکستان نے بھی نجی شعبہ کی کارکردگی جانچنے کے لےے باقاعدہ ایک مانیٹرنگ کا شعبہ قائم کررکھا تھاجو ہروقت اور ہرلمحہ ٹورآپریٹرز پر نظررکھے ہوا تھا جس کے باعث نجی شعبے کی کارکردگی میں کافی بہتری آئی اگر حکومت کا یہ نظام تسلسل کے ساتھ جاری رہا اور اس میں مزید بہتری لائی گئی تو امید ہے انشاءاللہ نجی شعبہ سے متعلق جوچند شکایات ہیں وہ بھی ختم ہوجائیں گی۔
دوسری جانب سرکاری اسکیم کے تحت جانے والے بعض حاجیوں کو مشکلات درپیش تھیں تاہم مجموعی طورپرصورتحال قدرے بہترتھی۔حج کے 5دنوں میں منیٰ،عرفات اور مزدلفہ میں بعض مقامات پر حاجیوں کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔اس کی بڑی وجہ خدام کی تربیت میں کمی اور ٹرانسپورٹ کے ناقص انتظامات تھے ۔
وزارت مذہبی امور نے کئی معاملات میں اچھی کارکردگی ضرور دکھائی اوراس سال بھی مدینہ منورہ اورمکہ مکرمہ کی رہائش کے انتظامات عمدہ تھے،کھانے کا معیار بھی کسی حدتک مناسب تھا،مکہ میں نمازوں کے لےے ٹرانسپورٹ بھی مہیا تھی،لیکن حج کے 5ایام میں حاجیوں کو پیش آنے والی دشواریوں اور پریشانیوں نے ان سب خدمات پر پانی پھیر دیا،ان ایام میں بعض حجاج کو عبادت کا موقع تک میسر نہیں تھا،وہ حجاج جنہیں ٹرین کی ٹکٹیں میسر نہ تھیں انہیں بسوں سے سفر کا کہاگیا لیکن بسیں بھی نہیں دی گئیں جس کی وجہ سے ان حجاج کو سخت گرمی میں مکہ سے منیٰ اوربقیہ سارا حج پیدل کرنا پڑاجبکہ منیٰ پہنچ کر جگہ کی تنگی کا سامنا الگ سے رہا،حجاج کو الاٹ شدہ جگہ نہیں دی گئی جنہیں ملی بھی توایسے خیموں میں جہاں سے آنے جانے میںان کوسخت مشکلات پیش آئیں۔منیٰ میں ایک مسئلہ بوتل پیک صاف پانی میسر نہ ہونابھی تھا،پینے کا فلٹر شدہ ٹھنڈا پانی کولروں میں رکھاگیا تھا جس شاید ٹریٹمنٹ سے گزارہ گیا تھاجس کی وجہ سے اس پانی میں جھاگ بننے لگی ،لہٰذا حجاج نے یہ پانی استعمال نہیں کیا۔سواری نہ ملنے،سخت گرمی میں پیدل سفر،بوتل پیک صاف پانی ،صحت کے تمام اصولوں کے مطابق کھانے کی عدم فراہمی اور جگہ کی تنگی یہ وہ مسائل تھے جن کی وجہ سے حجاج کے سفرحج کا یہ اہم ترین حصہ تکلیف وپریشانی اور ذہنی کرب میں گزرا۔
اس بدانتظامی کااگر چہ حکومت پاکستان کی وزارت مذہبی امور نے اعتراف بھی کرلیا لیکن ساتھ ہی یہ موقف بھی پیش کیا کہ معلمین کے معاملے میں ہمار اختیار ختم ہوجاتا ہے اور یہ کہ حاجیوں کو پہنچنے والی ان تکلیفات سے حکومت بری الذمہ ہے۔یہ بذات خود سوالیہ نشان ہے۔یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ حکومت پاکستان انتہائی جانفشانی ، فرض شناسی اور مذہبی جوش وجذبے کے ساتھ حج کے لےے سرگرم ہوتی ہے اور سستا ترین پیکیج دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔لیکن سوچنے کی بات یہ کہ ایسے سستے پیکیج جس میں حاجیوں کو پینے کے لےے صاف پانی نہ ملے،سفر کے لےے ٹرانسپورٹ نہ ملے،جینے کے لےے معیاری کھانا نہ ملے،کس کام کا۔پرانے وقتوںمیں اگر مشکلات اور مصائب برداشت کےے بھی جاتے تھے تو اس وقت عصر حاضر کے جیسی سہولیا ت بھی نہیں تھیں۔لہٰذا اپنے حاجیوں کی تکلیف کو معلمین کے کھاتے میں ڈال کر بری الذمہ ہونا کسی بھی طور قابل قبول موقف نہیں،کیوں کہ پرائیویٹ ٹورآپریٹرز اور دیگر ممالک کے سرکاری حکام انہی معلمین سے اپنے حجاج کی سہولیات پوری کرواتے ہیں تو پھر حکومت پاکستان کیوں نہیں کرواسکتی؟۔ہماری وزارت مذہبی امور کے موقف پر سعودی وزارت مذہبی امور کا موقف یہ سامنے آیا کہ حجاج کرام کو معاہدے کے مطابق تمام تر سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔جس سے بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ حکومت نے سستے حج کے لےے ناقص انتظامات کا معاہدہ کیاتھا!!!۔ اگر معاہدے میں معیاری انتظامات شامل تھے تو حکومت پاکستان کو سہولیات کی عدم فراہمی پر سعودی حکومت اور معلمین سے احتجاج کرنا چاہئے اور اس مد میں حاجیوں سے لی گئی اضافی رقم واپس کرنی چاہئے۔حاجیوں کو سہولیات دینا ہماری حکومتوں کا اولین فرض ہے۔وزارت حج سعودی عرب نے نجی شعبے کے انتظامات دیکھنے کے بعد حکومت پاکستان کو یہ بھی تجویز دی ہے کہ حکومت کو مراعات وسہولیات چاہئیں تو حج کو بھی پرائیوٹائز کردے اور سار انتظام ٹورآپریٹرز کے ذریعے کرائے۔یہ تجویز اگر چہ قابل عمل نہیں لیکن حکومت کی کارکردگی کے لےے آنکھیں کھول دینے کے لےے کافی ہے اور حکومت کوسوچنا چاہئے کہ اسے کیوں ڈیکٹیڈکیاجارہاہے۔
ایک اور بات مشاہدے میں یہ آئی ہے کہ حاجیوں کی مشکلات کے مسئلے کا بنیادی تعلق ہی حکومت پاکستان،سعودی حکومت اور معلمین (کمپنیوں)کے درمیان طے پانے والے معاہدوں سے ہوتا ہے۔اور یہاں ہماری حکومت کا رویہ مودبانہ اور مرعوبانہ ہوتاہے،معاہدے کے وقت کھل کرگزشتہ تجربات ،تحفظات اور ممکنہ خدشات پر بات نہیں کی جاتی جبکہ دیگر ممالک جن میں ایران،ترکی ،بھارت ،بنگلہ دیش وغیرہ وغیرہ شامل ہیں وہ معاہدوں میں اپنے حجاج کے لےے مراعات اورسہولیات پرکسی قسم کا کمپرومائز نہیں کرتے۔جہاں مراعات وسہولیات کے لےے اضافی رقوم کی بات آتی ہے وہ فراہم کرتے ہیں ۔اب چونکہ آنے والے کئی سیزن گرمیوں کے دنوں کے ہیں توہمارے حج مشن کو اپنے روےوں میں مثبت تبدیلی لاتے ہوئے اپنے حجاج کے لےے ضروری مراعات لینے میں کسی پس وپیش کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہےے۔معاہدہ کرتے وقت اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اتنی گرمی میں حاجی کو پیدل سفر نہ کرنا پڑے اب پیدل سفر گرمی کی شدت کی وجہ سے ممکن بھی نہیں رہا،بلکہ ٹرین ہویا بس سیٹ بائی سیٹ ٹرانسپورٹ یقینی بنائی جائے،مشاعر میں منرل بوتل پیک پانی کی دستیابی یقینی بنائی جائے ،منیٰ میں وزارت حج سعودیہ کی طرف سے الاٹ کردہ ہر حاجی کے مطابق جگہ کا حصول یقینی بنایا جائے مشاعر میں کھانے کا معیار بہتر کیا جائے۔اسی طرح خدام کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔90فیصد حجاج بالکل نئے ہوتے ہیں ان میںبھی اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو سعودی عرب کی آب و ہواسے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں حج کی مشکلات کا اندازہ ہوتاہے۔ایسی صورت میں ناتجربہ کار اور غیرتربیت یافتہ خدام یا انتظامی افسران کو بھیجنا انتہائی غیرذمے دارانہ اور حاجیوں کی بددعائیں لینے کے متراد ف ہے۔حکومت کو چاہئے کہ حج سے 6ماہ قبل ہی خدام کی تربیت کا انتظام کرے نہ صرف انتظام کیاجائے بلکہ ریہرسل بھی کرائی جائے تاکہ یہ لوگ وہاں جاکر انتظامات میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں۔اور پھر سرکاری اسکیم کے تحت مقررہ تعداد میں 100،200کے گروپ کے حساب سے خدام کی تعیناتی کیجائے۔کم ازکم 100حاجیوں کے گروپ کے لےے ایک ذمہ دار کا تقرر ضروری ہے۔پھر اسی طرح مانیٹرنگ کاانتظام بھی کیا جائے اور خصوصاً معلمین کی نگرانی کی جائے تاکہ کہیں کوئی کمی بیشی رہے جائے تو فوری طور پر اس کا ازالہ کیا جاسکے۔
٭٭٭٭٭٭