دینی طلبہ کا ایک سنجیدہ مسئلہ

عید الفطر کی تعطیلات ختم ہوتے ہی دینی مدارس میں تعلیمی سرگرمیوں کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ نئے داخلوں کے آغاز کے ساتھ ہی ہزاروں مدارس میں لاکھوں طلبہ و طالبات نئے سال کی تعلیمی ترجیحات طے کرنے میں مصروف ہیں، جبکہ گزشتہ سال فارغ ہونے والے ہزاروں طلبہ و طالبات اپنے لیے نئی سرگرمیوں اور روزگار کے مواقع کی تلاش کر رہے ہیں۔ دینی مدارس کے فضلاء کے لیے روزگار اور مختلف قومی شعبوں میں دینی خدمات کے حوالہ سے ذہن سازی اور منصوبہ بندی ہماری ترجیحات میں عمومی طور پر شامل نہیں ہوتی، بلکہ اسے دینی دائرے سے انحراف کے مترادف سمجھا جاتا ہے، مگر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے 1937ء کے دوران علی گڑھ میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی پچاس سالہ تقریب میں صدارتی خطبہ کے دوران اس مسئلہ کو دینی اداروں کے لیے انتہائی اہم قرار دیا تھا۔ حضرت مدنیؒ کے خطبۂ صدارت کا اس عنوان سے متعلقہ حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس پہلو پر سنجیدہ غور و خوض کی درخواست کے ساتھ کہ دینی مدارس کے فضلاء کے بارے میں جن تجاویز پر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے برطانوی حکومت سے معاملات طے کرنے کی بات فرمائی تھی، کیا ان تجاویز پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسلمان حکومت کے ساتھ گفتگو نہیں کی جا سکتی؟  "دینی طلبہ کا ایک سنجیدہ مسئلہ " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us: