عالمی طاقتوں کے مفادات کا محافظ ہمارا معاشی نظام
پاکستان کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور خوشحالی اور ترقی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے قیام پاکستان کے بعد ایک نسل خوشحالی کی منزل پانے کی خواہش دلوں میں لے کر کوچ کرچکی اور دوسری نسل اس کی تمنا میں ذہنی ا نتشار اور بے چینی سے دوچار ہے ملک کی معاشی بد حالی کے ذمہ داروں کے تعین کے لئے کسی تحقیق و جستجو کی ضرورت نہیں حکومت کی غلط پالیسیاں ملک کے معاشی تنزل کا باعث بنیں تو بڑی طاقتوں نے اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کے لئے یہاں کے حکمرانوں کو اخراجات پو رے کرنے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول کی راہ پر لگا دیا پہلے پہل یہ قرضے اسان شرائط پر دیے جاتے رہے حکمران کے عادی ہوجانے کے بعد مالیاتی اداروں اور بڑی طاقتوں نے حکومتوں سے اپنی شرائط منوانا شروع کردیں پوری طرح گرفت اور چنگل میں ٓنے کے بعدبڑی طاقتوں نے حکومتوں سے سخت اور عوامی مفادات کے منافی فیصلے بھی کروائے جن میں جنرل سیلز ٹیکس ،بجلی اور دوسرے یوٹیلٹی بلز میں وقتا فوقتا اضافے ،کارپوریٹ فارمنگ اور اب ویلیو ایڈڈ ٹیکس مسلط کرنے کے ناپسندیدہ فیصلوں سمیت دوسرے معتدد اہم فیصلے شامل ہیںحکمرانوں کے پیش نظر عوامی مفاد کم اور بڑی طاقتوں کی خوشنودی رہی ہے یہ سب کچھ عالمی سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کو قبول کرنے کی بدولت ہو جس نے نہ صر ف پاکستان بلکہ دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کو اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے سرمایہ دارانہ نظام نے دولت کو "سیف الا سلام سیفی " پڑھنا جاری رکھیں
سیف الا سلام سیفی
Please follow and like us: