صدی کی جاری دہائی میں روہنگیا مسلمانوں سے زیادہ مظلوم، بے کس، مقہور ومجبور، درماندہ اور مدد کی مستحق کوئی قوم ونسل نہیں، اگرچہ اس فہرست میں سوچ مقبوضہ کشمیر، فلسطین، عراق، شام اور دیگر مسلم وغیر مسلم ریاستوں کی طرف بھی جاتی ہے لیکن جس انداز میں روہنگیا مسلمانوں کو نسل کشی کا سامنا ہے اس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی، باقی کی ریاستوں میں بالخصوص کلمہ طیبہ پر عمل پیرا افراد کیخلاف ریاستی دہشت گردی حالیہ صدیوں کی پیداوار ہے لیکن روہنگیا مسلمان اس ملک میں بے بسی کی تصویر بنے ہوئے جہاں وہ صدیوں سے آباد اور اس سرزمین کے بلا شرکت غیرے مالک ہیں۔ ہم اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو روہنگیا مسلمانوں کی تاریخ خلیفہ ہارون الرشید کے دور سے شروع ہوتی ہے۔
راکھین (میانمار کا موجودہ حصہ) کے باسی خلیفہ ہارون رشید کے عہد خلافت میں مسلمانوں تاجروں کی تبلیغ اور اسلام کی فطری تعلیمات سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور 1430ءمیں سلیمان شاہ نے اس خطے میں باضابطہ طور پر اسلامی حکومت قائم کردی، اس کے بعد ساڑھے 3صدیوں تک راکھین پر مسلمانوں کی حکومت رہی اس دوران ریاست راکھین مساجد کی تعمیر، دینی درسگاہیں اور عصری علوم کی جامعات بھی قائم کی گئیں جبکہ راکھین کے مسلمانوں کی اپنی کرنسی بھی رہی جس پر کلمہ طیبہ کنندہ تھا اس کے نیچے حضرت صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے نام مبارک بھی لکھے ہوتے تھے، اسی سلطنت کے پڑوس میں بدھ مت کے پیروکاروں کی ریاست برما بھی تھی۔ اگرچہ ان کی تعلیمات بھی یہی تھیں کہ کسی ذی روح کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور ننگے پاﺅں زمین پر چلا جائے تاکہ چیونٹی بھی محفوظ رہے مگر مسلمان کے طور طریقے اور امن وسلامتی والے دین کی روشن تعلیمات سے یہ خوفزدہ تھے انہیں یہ خوف لاحق تھا کہ دین اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کے حسن سلوک کے چرچے ان کے عقائد کے لیے خطرناک ہیں۔
راکھین جہاں اس وقت بھی مسلمانوں کی آبادی تقریباً11 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اس وقت یہ آبادی ہزاروں میں تھی۔ برما چونکہ بدھ مت ریاست تھی لہٰذا اس کے پاس وسائل اور افرادی قوت کی کوئی کمی نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ 1784ءمیں برما نے راکھین پر حملہ کردیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور یوں مسلمان بدھ مت کی رعایا بن گئے۔ 1848ءمیں برما برطانیہ کی غلامی میں آگیا اور 1948ءتک یہ برطانیہ کی نو آبادیات رہا۔ برطانیہ سے آزادی ملتے ہی برمی حکومت نے پہلی فرصت میں مسلمانوں کے تمام حقوق سلب کرتے ہوئے انہیں اقلیت کے زمرے سے ہی خارج کردیا۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور بھارت سمیت دیگر پڑوسی ملکوں میں ہجرت کرگئے، جنہوں نے اپنی سرزمین کا دفاع کیا انہیں انتہائی بے دردی سے شہید کردیا گیا اور یوں تعصب اور لسانیت کی اس جنگ کا آغاز ہوگیا جو آج کے ترقی یافتہ اور جدید دور میں بھی جاری ہے ۔ مسلمان ملکوں میں سعودی عرب نے روہنگیا مہاجرین کی داد رسی کے اقدامات کیے جس کے باعث ان لاچار مسلمانوں کو جینے کا حوصلہ ملا۔ مگر حسب دستور اور حسب معمول مسلمان ریاستوں کی عدم دلچسپی، عالمی قوتوں، بااثر اداروں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی مجرمانہ چشم پوشی کے نتیجے میں بدھسٹ حکمرانوں کو شہ ملی اور پھر وہ ہوا جس کی پوری دنیا میں مثال نہیں ملتی یعنی 1982ءمیں میانمر (سابقہ برما) کی حکومت نے ملکی آئین وقانون میں روہنگیا مسلمانوں کو باضابطہ طور پر نامعلوم اور ناقابل شناخت بنادیا۔ برمی حکومت نے ملک میں موجود دیگر 135نسلی گروپوں اور مذاہب کے ماننے والوں کو تو تسلیم کرلیا لیکن مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر نہ صرف ان کی ملکیتی سرزمین ہتھیالی بلکہ خلیفہ ہارون الرشید کی روح کو بھی زخمی کردیا۔ اس وقت ہمارے مسلمان ملک شاہد سورہے تھے یا پھر کسی وجود کی تخلیق میں مصروف تھے جو بعد ازاں ان مظلوموں کی داد رسی کے لیے میدان میں نکلتا لیکن روہنگیا مسلمانوں کو آج تک ایسے کسی وجود نے سہارا نہیں دیا جس کا صاف مطلب ہے کہ مسلمان حکمران واقعی یا تو سورہے تھے یا پھر اپنی عیاشیوں میں غرق تھے جس کا خمیازہ آج کا روہنگیا اپنے خون بہا اور اپنی عزت کی تباہی کی صور ت میں بھگت رہا ہے۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے اقلیت (ذمی) کے حقوق کے بارے میں سخت تاکید کی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا اور انتباہ کیا ہے کہ اگر کسی مسلمان ریاست میں کسی ذمی کو بے جا تنگ کیا گیا اس کے حقوق ضبط کیے گئے، اس کی جائیداد کو نقصان پہنچایا گیا تو دن قیامت میں اس کا وکیل ہوں گا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ نے غیر مسلم ریاستوں میں مسلمانوں کے حقوق اور ان کی حفاظت کے لیے بھی مسلمانوں کو تعلیمات دی ہیں، آج کے مسلم حاکم ذمی کے حقوق کے حوالے سے کسی حد تک اپنی ذمے داریاں تو پوری کررہے ہیں لیکن کیا انہوں نے کبھی غیر مسلم ریاستوں میں اپنے مسلمان بھائیوں پر ہونے والے مظالم کیخلاف حضور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات اور خلفاءراشدین کے طور طریقوں کے مطابق کوئی اقدامات بھی اٹھائے ہیں؟ جب روہنگیا مسلمانوں کو غیر برمی قرار دیا گیا ، ان کے بنیادی حقوق غضب کیے گئے، ان کا قتال کیا گیا ۔ انہیں ملک بدر ہونے پر مجبور کیا گیا اس وقت مسلم حکمراں کیوں سامنے نہیں آئے، کیوں انہوں نے خلیفہ ہارون الرشید کے عہد خلافت کی یادگاروں کی حفاظت نہیں کی؟ آج کوئی مسلم حکمران دنیا کے 6ارب مسلمانوں کو اس سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ اس قتل ناحق کا ذمے دار کون ہے؟ راکھین میں ایک روہنگیا کا قتل نہیں ہوا بلکہ اعداد وشمار بتاتے ہیں صرف گزشتہ 2سالوں میں یعنی 2015سے اب تک 80ہزار کے لگ بھگ مسلمان شہید اور لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کرچکے ہیں۔ ہمارے نبی آخر الزماں رحمت اللعالمین حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے تو پھر صرف ہزار گیارہ سو دنوں میں 80ہزار مسلمانوں کے ناحق قتل کا شمار کون کرے گا۔
تادم تحریر 3لاکھ سے زائد مسلمان ہجرت کرکے بنگلہ دیش اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں پناہ گزین ہوچکے ہیں جن میں بیشتر زخمی ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے اور ہزاروں بے کس وبے بس مسلمان بیچ سمندر کی بے رحم موجوں کے رحم وکرم پر ڈول رہے ہیں۔2000سے زائد افراد قتل اور ہزاروں کی تعداد میں ان کے گھر خاکستر ہوچکے ہیں۔ چنگاری کیسے بڑھکی اور پھر کس نے پھیلائی اس کے چشم دید گواہ عالمی میڈیا کے وہ نمائندے ہیں جنہیں سوچی حکومت کی نگرانی میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کرایا گیا اور قدم قدم پر جھوٹی کہانیوں کا بھانڈا پھوٹتا رہا۔ اب تک صرف ترکی نے عملاً آگے بڑھ کر ان مظلوم کے زخموں پر مرحم رکھا ہے باقی پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا اور غیر مسلم دنیا بیانات سے آگے نہیں بڑھی۔ خصوصاً عرب ریاستوں کی معنی خیز خاموشی اس المیے کو طول دینے کا سبب بن رہی ہے۔ پاکستان کے پڑوس میں بھارت روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی پر بھی سیاست کررہا ہے اور متاثرہ مسلمانوں کو پاکستان کے خلاف اکسارہا ہے جس کی ایک واضح مثال بھارتی وزیر داخلہ کے بیانات ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو عملی طور پر آگے بڑھ کر روہنگیا مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے پوری امت مسلمہ کو باور کرانا چاہیے کہ پاکستان ہر دکھی مسلمان کے دکھ میں برابر کا شریک ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کو راکھین سے نکال کر بنگلہ دیش،بھارت، تھائی لینڈ اور دیگر ملکوں میں مہاجرین کی سہولیات کی فراہمی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ مسلمان ریاستوں کو یک زبان ہوکر عالمی قوتوں کو باور کرانا چاہیے کہ روہنگیا مسلمان صدیوں سے راکھین کے وارث اور شہری ہیں۔ عالمی طاقتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اقوام متحدہ، او آئی سی، عرب لیگ اور دیگر چھوٹے بڑے گروپ مل کر میانمر کی حکومت پر دباﺅ ڈالیں کہ یا تو وہ مسلمانوں کو باقاعدہ اقلیت کا درجہ دیتے ہوئے ان کے بنیادی حقوق بحال کرے یا پھر راکھین کو 3صدی پرانی پوزیشن پر بحال ہونے کا موقع دے۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں سمیت دنیا بھر میں اس وقت صرف مسلمان ریاستیں شورش کا شکار ہیں خصوصاً کشمیر اور فلسطین اور پھر افغانستان۔ ان ریاستوں میں بھی انسانی حقوق کی بحالی کے عالمی قوتوں اور اداروں کو ازسر نو اپنی پالیسی پر غور کرکے دنیا کو امن وسلامتی کی طرف لانا چاہیے اور اس میں اقوام متحدہ کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ اس تنظیم کے موجودہ سربراہ انٹو نیو گوٹیرز عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی اس عزم کا اظہار کرچکے تھے کہ وہ دنیا کو پرامن بنانے کے لیے شورش زدہ ممالک میں تصفیے کی بھرپور اور عملی کوششیں کریں گے لیکن ابھی تک ان کا کوئی عملی اقدام ہمارے سامنے نہیں آیا بلکہ میانمر میں جاری حالیہ بربریت پر وہ از خود یہ کہہ چکے ہیں کہ میانمر حکومت روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کررہی ہے اور ان کے گھر جلارہی ہے۔ ایسی ہی رپورٹ انسانی حقوق کی مختلف عالمی تنظیمیں گزشتہ کئی سالوں سے پیش کررہی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ جناب گوئیرز صاحب عملی اقدام کی بجائے صرف زبانی جمع خرچ پر ہی کام چلارہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کوششیں جاری ہیں اور خود اقوام متحدہ، مغربی ویورپی اور مسلم ممالک بھی اس کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں تو روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے پیغامات انتہائی مہلک ہیں۔ اسی تناظر میں میں ذاتی حیثیت میں بین المذاہب ہم آہنگی کی عالمی تنظیم یونائٹ کے پلیٹ فارم سے برمی حکومت اور بدھ مت کے پیشوا آشن وراتھو کے نام خط لکھ چکا ہوں جس میں اپنے مسلمان بھائیوں کے بنیادی حقوق کا مطالبہ کیا گیا ہے اور ان کے قتل وقتال اور غیر انسانی سلوک کے نتیجے میں امن عالم کو خطرات اور ہم آہنگی کی کوشیں سبوتاژ ہونے سے متعلق انتباہ بھی کیا گیا ہے۔
میرا ذاتی خیال اور تجویز ہے تمام مسلم اور غیر مسلم ممالک حکومتی سطح پر تمام مذاہب کے پیشواﺅں کو وقتاً فوقتاً بٹھائیں، ڈائیلاگ کریں۔ انسان اور انسانیت کی عظمت پر گفتگو کا اہتمام کریں تو کئی مسائل جو بندوق اور گولی سے حل نہیں ہورہے وہ بھی پرامن طریقے سے حل ہوسکتے ہیں اس کا ذاتی تجربہ مجھے 2015ءکے آخر میں
جب میں نے عالمی بین المذاہب ہم آہنگی کی تنظیم ”یونائٹ“ کے تحت اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں ”پرامن بین المذاہب طرز زندگی کی جستجو“ کے عنوان سے دو روزہ عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا توہوا اس کانفرنس میں دنیا بھر کے تمام بڑے مذاہب کے رہبروں کو شرکت کی دعوت دی اور خلاف توقع 26ممالک سے بڑے مذاہب کے رہبر شریک ہوئے جن میں بدھ مت کے بنی گالا نامی بااثر رہنما بھی موجود تھے اور یہ میرے لیے حوصلہ افزا اور میرے ملک کے لیے اعزاز تھا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس بڑے پیمانے پر ایسی نتیجہ خیز کانفرنس منعقد ہورہی تھی۔ اس کانفرنس کا مقصد ہی اپنے اپنے مذاہب اور تہذیب کے اندر دنیا کو پرامن اور اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے جستجو تھی اور ایسا ہی ہوا کہ کانفرنس میں شامل تمام شرکاءاس بات پر متفق تھے کہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا کسی بھی مذہب ومسلک سے کوئی تعلق نہیں اور سب نے یک زبان ہوکر اقلیت کو ان کے حقوق کی فراہمی کے لیے آواز اٹھانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔بدھ مت کی تعلیمات کا بھی اس کانفرنس میں کافی چرچا رہا اور اس دوران روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی طرف بھی توجہ دلائی گئی۔اس کانفرنس کی میزبان جہاں ایک غیرسرکاری تنظیم تھی وہیں اس میں حکومتی سطح کی نمائندگی بھی نمایاں تھی ،کانفرنس میں وزیرمذہبی امورجناب سردار محمد یوسف،راجہ ظفرالحق سمیت دیگر حکومتی زعما بھی شریک تھے اور جید علما کرام کی بھی معاونت حاصل تھی ۔کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ ہی یہ تھا کہ مذاہب کے درمیان دوریوں کو ختم کرنے کے لےے کردار اداکیا جائے اور اقلیت کو اس کے بنیادی حقوق دےے جائیں۔کانفرنس کا اعلامیہ انتہائی حوصلہ افزا تھا جس پر مقتدرحلقوں اور بیرون ممالک سے بھی مختلف مذاہب بشمول دین اسلام کے پیشواﺅںنے مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا اور اس کام کو جاری رکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی اور زور دیا کہ تمام ممالک کے حکمران اپنے اپنے ممالک میں اسی طرح کی ڈائیلاگ کانفرنس کا انعقاد کریں جس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے لیکن افسوس کہ حکومتی سطح پر ان کاوشوں کو پذیرائی نہیں ملی اور آج مذاہب کے درمیان کھلم کھلا جنگ کی سی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔
٭٭٭٭٭٭