مولانا ابو الحسن علی ندویؒ 

طلباء و نوجوانوں کی سیرت و کردار
کسی ملک کی ترقی اور استحکام اور کسی معاشرہ کے تحفظ اور اس کے باعزت زندگی گزارنے کے بہت سے سرچشمے، بہت سی شرطیں اور بہت سی علامتیں ہیں، مثلاً کوئی ملک بڑی فوجی طاقت کا ملک ہے، کسی ملک کے پاس معدنی، حیوانی، زراعتی دولت کا بہت بڑا ذخیرہ ہے، کسی ملک میں جامعات سے بڑے دوستانہ ہیں اور کسی ملک کے تعلقات عظیم ترین سلطنتوں اور عظیم ترین ملکوں سے بڑے دوستانہ ہیں اور اس ملک کو ان پر بڑا اعتماد ہے، کسی ملک میں انسانی ذہانت کا بڑا ذخیرہ ہے، وہاں بہت انسانی توانائی پائی جاتی ہے۔ وہاں کے لوگ جسمانی طور پر بہت صحت مند ہیں۔ یہ سب چیزیں کسی ملک کی طاقت و استحکام اور کسی ملک کی عزت اور اس کے احترام کی علامتیں سمجھی جاتی ہیں۔ میں ان کا انکار نہیں کرتا، لیکن اگر میرے سامنے کسی ملک کی بڑائی، کسی ملک کے استحکام کا، اور کسی معاشرے کے باعزت زندگی گزارنے کا ذکر آئے اور کسی ملک کی تعریف کی جارہی ہو تو میں ایک سوال کروں گا، وہ یہ کہ ’’مجھے یہ بتایئے کہ وہاں کے اسکولوں اور کالجوں سے لے کر یونیورسٹیوں کے طلباء تک نئی نسل کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں کس درجہ کا احساسِ ذمہ داری پایا جاتا ہے، ان میں ضبط نفس کی کتنی طاقت ہے، ان میں اپنے تاثرات کو حد اعتدال میں رکھنے کی کتنی صلاحیت ہے، ان میں کسی ملک کے صالح نظام اور جائز قوانین کے احترام کی کتنی عادت ہے، اور ان میں احساس شہریت (civic sense) کتنا پایا جاتا ہے؟‘‘ میں تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے بھی اور تاریخ کے حدود سے نکل کر زندہ معاشروں میں چلنے پھرنے اور لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے ایک انسان کی حیثیت سے بھی اس نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ میں صرف کتابوں کے صفحات اور گزشتہ تاریخ پر اس کی بنیاد نہیں رکھتا، بلکہ اکبر الہٰ آبادی مرحوم کے اس شعر پر عمل کرتا ہوں "مولانا ابو الحسن علی ندویؒ  " پڑھنا جاری رکھیں

Please follow and like us: