بعد الحمد والصلوٰۃ!
برادران اسلام! یہ کانفرنس جس کا موضوع ’’سیرت نبویؐ کے تناظر میں اسلامی تعلیمی نظام‘‘ ہے۔اس کی زبان عربی ہونی چاہیے تھی‘ کیونکہ جب عصری تعلیم یافتہ لوگ اکٹھا کہیں جمع ہوتے ہیں تو انگریزی زبان میں گفتگو کرتے ہیں اور اس پر وہ فخر کرتے ہیں ‘ تو ایسے علماء کرام جنہوں نے شریعت اسلامیہ اور سیرت نبویہ کو پڑھا ہے اور ایک طویل زمانہ لغت عربیہ کی فضاء میں گزارا ہے۔جنہوں نے اس لغت کو بچپن میں پڑھا اور بڑے ہوکر اس کو سمجھا اور قرآن کریم کی تفسیر اور سنت نبویہ کی توضیح کا کام بھی کیا‘ وہ سب کچھ اسی لغت عربیہ میں ہے تو آخر کیوں نہ یہ لغت عربیہ ہماری کانفرنسوں اور سیمیناروں کی رسمی زبان قرار پائے؟ یہاں بھی مناسب تو یہی تھا لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم اپنے اصل مآخذ سے دور ہوچکے ہیں‘ ہم صرف عربی زبان سے ہی نہیں بلکہ دیگر مصادر ومآخذ سے بھی دور ہوچکے ہیں‘ اس لیے مناسب لگتا ہے کہ میں اسی زبان میں نظام تعلیم سے متعلق کچھ گفتگو کروں۔ آپ حضرات مجھے اجازت دیں کہ میں عربی زبان میں گفتگو کروں لیکن میں یہ بھی چاہوں گا کہ آپ حضرات سے کچھ اردو زبان میں بھی گفتگو کروں جو کہ ہماری مادری زبان بلکہ برصغیر ہندو پاک کی رائج الوقت زبان ہے۔
"مولانا سید سلمان الحسینی الندوی " پڑھنا جاری رکھیں