فروغِ علم اور ذوقِ مطالعہ
بدقسمتی سے یورپ کی طرح ہمارے ہاں بھی قوت واخلاق، تخلیق وایجاد، ذوق مطالعہ، شوق علم اور تحصیل علم و دین کا توازن بگڑتا جا رہا ہے۔ جدید سائنسی انکشافات اور مغربی افکار کی یلغار کے بعد سے مادی قوت اور ظاہری علم بڑی سرعت سے ترقی کر رہے ہیں جبکہ دین و اخلاق اور علم و مطالعہ میں تنزل و انحطاط واقع ہوتا چلا جا رہا ہے، جب عام معاشرتی سطح اور غالب اکثریت پر نظر ڈالی جائے تو بغیر کسی تردد اور شک کے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ مسلم سوسائٹی میں بھی اب ان دونوں میں کوئی تناسب باقی نہیں رہا اور ایک ایسی نسل پیدا ہو چکی ہے جس کے ترازو کا ایک پلڑا آسمان سے باتیں کرتا ہے اور دوسرا تحت الثریٰ میں ہے، جو مادی اعتبار سے عروج و کمال کی جتنی بھی بلندیوں پر فائز ہو مگر اخلاق و اعمال، فکر وبے عملی میں اس کی سطح چوپایوں اور درندوں کی سطح سے بلند نہیں، اس کی جدید فنی علوم، صنعتی بلند پروازیوں، مادی ترقیوں اور اخلاقی پستیوں میں کوئی تناسب نہیں ہے۔ "مولانا عبدالقیوم حقانی " پڑھنا جاری رکھیں
Tag: مولانا عبدالقیوم حقانی
مولانا عبدالقیوم حقانی
جہاں پناہ! سب خیریت ہے
ملک تباہی کے کنارے کھڑا ہے‘ ملکی استحکام اور قومی سا لمیت کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں‘ تخریب کاروں‘ غیر ملکی سفارتکاروں اور استعمار کے گماشتوں کو بھی وہی پروٹوکول حاصل ہے جو حکمرانوںکی تسکین انا کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے‘ علماء حق کو قتل کیا جارہا ہے‘ قاتل دندناتے پھررہے ہیں‘ کراچی بیروت بن چکا ہے‘ ملک میں کسی کی عزت نفس اور جان ومال محفوظ نہیں۔ اللہ کے قانون سے بغاوت‘ دین اسلام سے شرارت اور اہل اسلام سے منافقت ارباب اقتدار کی سیاست ہے۔ شریعت سے استہزاء اور تمسخر اہل حکومت کی جمہوریت ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود ملکی ’’نیا‘‘ کے کھیون ہار آنکھیں بند کیے قعر مذلت اور شارع ہلاکت پر سرپٹ دوڑے چلے جارہے ہیں اور قوم کو یہ باور بھی کرایا جارہا ہے کہ جناب! یہی ملکی سا لمیت اور قومی استحکام کا راستہ ہے۔
قومیں تباہ ہوتی ہیں جب ان میں اخلاق نہیں رہتا‘ جب شریعت سے استہزا ہوتی ہے‘ جب علماء حق کے صائب مشورے ٹھکرادیئے جاتے ہیں‘ جب غیرت مٹ جاتی ہے‘ جب حیاء اور بے حیائی کا اختلاط ہوجاتا ہے‘ جب سیاست مفادات کا تحفظ کرتی ہے‘ جب دینی اقدار تج دیئے جاتے ہیں‘ ظلم سہنا ان کی عادت ہوجاتی ہے اور غداری کرتے ہوئے یا سیاست کاری کرتے ہوئے شرعی قوانین اور اسلامی اخلاق کے پامال ہونے پر انہیں رتی بھر حیا نہیں آتی‘ لیکن ایک چیز ایسی ہے جو قوم کی روح کو ہڑپ کرجاتی ہے‘ وہ ہے خوشامد! بیرونی آقایان ولی نعمت کی خوشامد! اندرونی متوقع مفادات کے محافظ لادین اہل سیاست کی خوشامد! ملکی اقتدار پر براجمان ارباب حکومت کی خوشامد! بتوں کو خدا بنانے کا جذبہ اور خدا کو (العیاذ بااللہ ) طاق نسیاں پر رکھ دینے کی ذلت! "مولانا عبدالقیوم حقانی " پڑھنا جاری رکھیں