والدین کے احترام کی اخلاقی قد ر کی عظمت

 

تمام تعریفیں اس خالق کائنات کے لیے ہیں جس نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام سے انسانی تخلیق کا آغاز فرمایا، انسان کو اپنانائب اور خلیفہ بنانے کا اعلان فرمایا،بفحوائے ارشاد ربانی زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے انسان کے لیے تخلیق کیا ،انسان کو اپنی عبادت کا حکم دیا اور اس کی رہنمائی کے لیے انبیاءعلیہم السلام کا سلسلہ جاری فرمایا اورحضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو امام الانبیاءاور خاتم النبیین ، قرآن کو خاتم الکتب اور اسلام کو خاتم الشریعة بناکربھیجا تاکہ خاتم النبیین کے قول و عمل سے اسلام کی تعلیمات بذریعہ قرآن وحدیث تاقیامت نافذ کی جاسکیں۔اسلامی تعلیمات کی عملی مشق کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظیم جماعت پیدا فرمائی اور ان میں حضرت ابوبکر صدیقؓ ، حضرت عمر فاروق ؓ، حضرت عثمان غنیؓ ،حضرت علی المرتضیؓ اور حسنین کریمینؓ جیسے ہیرے پیدا فرمائے جنہوں نے اپنی رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرتے ہوئے پیارے نبی کے ہر حکم و ادا پر نہ صرف عمل کیا بلکہ آئندہ نسلوں تک دین کو پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ پیدائشی طور پر انسان اجتماعیت پسند ہے اور فطری طور پرمل جل کررہنے اور کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے اسی مل جل کررہنے اور کام کرنے کو معاشرت کہتے ہیں۔ اسلام ایک پرامن اجتماعیت پسند دین ہے جس کے معنی ہی امن اور سلامتی کے ہیں اور یہ سلامتی صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ کائنات کی ہرچیز کو شامل ہے۔ اسلام اپنے پیروکاروں کو پرامن معاشرے کی تشکیل کے لیے ایک دوسرے کے حقوق وفرائض کے احترام کا پابند بناتا ہے۔معاشرہ مختلف افراد سے مل کر تشکیل پاتا ہے جس میں تمام افراد آپس میں مختلف معاملات انجام دیتے ہیں۔ ان معاملات کو بہترین انداز سے انجام دینے اور مفید بنانے کے لیے اللہ رب العزت نے ہر ایک کے لیے حقوق و فرائض متعین فرمائے ہیں۔ کائنات کے نظام میں معاشرہ کی بنیادی اکائی فرد ہے۔گزشتہ مضامین میں معاشرہ کی ضرورت و اہمیت اور انفرادی حیثیت سے انسان کی خصوصیات کا ذکر کیا گیا تھا۔یہ افراد مل کر خاندان بناتے ہیں۔خاندانی نظام کاآغاز رشتہ نکاح سے ہوتا ہے ، انسانی زندگی میں مختلف اور متعدد رشتے پائے جاتے ہیں لیکن ان رشتوں کے لیے افراد کے انتخاب میں انسان کے شعور اور ارادہ کا دخل نہیں ہوتا اور نہ ہی ان رشتوں کو ختم کیا جاسکتا ہے جبکہ رشتہ نکاح انسان اپنے شعور اور ارادہ اور اپنے انتخاب کے نتیجہ میں قائم کرتا ہے اور یہی رشتہ خاندانی اکائی کے قیام میں اہم ترین حیثیت رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی پاکیزگی کابھی اور نسب و نسل کے ہر قسم کے شکوک وشبہات سے پاک ہونے کابھی ضامن ہے۔
مغربی دنیا کی رنگینیوں سے متاثر ہوکر نئی نسل اسلامی اقدار کو فراموش کرتی جارہی ہے اور ایمان کمزوری کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مغرب سے آنے والے مساوی حقوق کے نعرے نے ذاتی مفاد کو فوقیت دی ہے اس لیے ہرکوئی اپنی دھن میں مگن اپنے حقوق کی آواز اٹھاتا ہے۔ نہ عورت کا احترام اور نہ ہی والدین کا خیال، یہاں تک کہ اگر والدین بچوں کو تربیت کی خاطر کچھ کہہ بھی دیں تو اولاد پولیس کو شکایت کرکے والدین کو جیل بھجوا دیتی ہے، جب اولاد بالغ ہوجائے تو والدین ان کی کفالت سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور نتیجے میں جب والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں تو ان کو اولڈ ہاسز میں بے یارو مددگار دوسروں کے چندے کے سہارے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسلام فرائض کو ترجیح دیتا ہے پہلے اپنے فرائض پورے کریں جب ہرکوئی اپنے فرائض پورے کرے گا تو حقوق خود بخود پورے ہوتے چلے جائیں گے۔ اس سے آگے بڑھتے ہوئے اللہ رب العزت نے احسان کا سلسلہ بنایا کہ اپنے فرائض ادا کرو اور اپنے حقوق چھوڑ کر دوسرے کا خیال کرو ، احسان کے اتنے فضائل بیان کیے گئے ہیں انسان اپنے حقوق کو احسان پر قربان کردیتا ہے۔دیگر افراد کے ساتھ معاملات اپنی جگہ، اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان کی تخلیق کا سبب والدین ہیں اس لیے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو سب سے زیادہ ترجیح دی گئی ہے۔اگرچہ والدین نے اولاد پر ظلم ہی کیوں نہ کیا ہو پھر بھی اولاد کو والدین کا احترام اور حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔اسلامی معاشرتی نظام میں اولاد والدین کے تابع ہوتی ہے کبھی حقوق کے اعتبار سے اور کبھی احسان کے اعتبار سے۔قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ رب العزت نے والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود مت بناو¿ ورنہ تو بد حال بے مددگار ہو کر بیٹھا رہے گا اور تیرے رب کا حکم ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت مت کر اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں سو ان کو کبھی اُف بھی مت کرنا اور نہ ان کوڈانٹنا اور ان سے بہت ہی ادب سے بات کرنااور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہو ں نے مجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒاپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
والدین کی خدمت و اطاعت والدین ہونے کی حیثیت سے کسی زمانے اور کسی عمر کے ساتھ مقید نہیں ہر حال اور ہر عمر میں والدین کے ساتھ اچھا سلوک واجب ہے۔ والدین کے بڑھاپے کا زمانہ جبکہ وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہوجائیں ان کی زندگی اولاد کے رحم و کرم پر رہ جائے اس وقت اگر اولاد کی طرف سے ذرا سی بے رخی بھی محسوس ہوتو وہ ان کے دل کا زخم بن جاتی ہے۔ دوسری طرف بڑھاپے کے عوارض طبعی طور پر انسان کو چڑچڑا بنادیتے ہیں ، تیسرے بڑھاپے کے آخری دور میں جب عقل و فہم بھی جواب دینے لگتے ہیں تو ان کی خواہشات و مطالبات کچھ ایسے بھی ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ قرآن حکیم نے ان حالات میں والدین کی دلجوئی اور راحت رسانی کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت یاد دلایا کہ کسی وقت تم سبھی اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں تو جس طرح انہوں نے اپنی راحت و خواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بے عقلی کی باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا اب جبکہ ان پر محتاجی کا یہ وقت آیا تو عقل و شرافت کا تقاضا ہے کہ ان کے اس سابق احسان کا بدلہ ادا کرو۔ آیت سے اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے (معارف القرآن:466)۔
قرآن کریم نے ایک سے زائد مقامات پرشرک سے منع کرنے کے فورا ًبعد والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ، ارشاد ربانی ہے :ترجمہ: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی مت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔(البقرة 83) مزید فرمایا :
ترجمہ:آپ ان سے کہیے کہ آﺅ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناو¿ں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرمایا ہے وہ یہ کہ (۱) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراﺅ (۲) اور ماں باپ کے ساتھ احسان کیا کرو۔ (الانعام:151)
حضرت لقمانؓ کی نصائح نقل کرتے ہوئے رب العٰلمین ارشاد فرماتے ہیں:
ترجمہ: اے پیارے بیٹے دیکھو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بلا شبہ شرک بڑاظلم ہے اور ہم نے انسان کو وصیت کی کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ (سورہ¿ لقمان :13۔14)
شرک سب سے بڑا گناہ ہے جس کو اللہ رب العزت نے ظلم عظیم کہا ہے اور قابل غور بات یہ ہے کہ ان تمام آیات میں اللہ رب العزت نے شرک کے فوراً بعد والدین کے احترام کا حکم دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی نا قدری اور ان کے احترام میں کوتاہی کرنا شرک کے بعد دوسرا بڑا گناہ ہے۔مفتی محمد شفیع عثمانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شرک کے فوراً بعد والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ ممکن ہے والدین کے شرک کی دعوت دینے پر انسان غصہ میں آکر ان سے بدتمیزی نہ کربیٹھے اس لیے ساتھ ہی باوجود کفر کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔
شرک سے ممانعت کے فورا ًبعد والدین سے حسن سلوک کے حکم میں یہ حکمت بھی محسوس ہوتی ہے کہ اللہ انسان کا خالق حقیقی اور رب حقیقی ہے جبکہ والدین مجازی طور پر اس کے خالق اور اس کو پالنے والے ہیں ، خالق حقیقی اور رب حقیقی کے بعد خالق مجازی ورب مجازی کا حق ہے۔خالق حقیقی کا حق اس کی وحدانیت میں ہے اور خالق مجازی کا اس کی خدمت میں ہے۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح انسان کے عمل ،عبادت میں عقیدہ توحید بنیاد واساس کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس عقیدہ کے بغیر کوئی عبادت قابل قبول نہیں ، اسی طرح اس کے معاملات و معاشرت میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اسی طرح کی بنیاد واساس ہے کہ والدین سے حسن و سلوک کے بغیر اس کا کوئی معاشرتی حسن عمل ایسا ہی ہے جیسے عقیدہ توحید کے بغیر کوئی شخص عبادت کرنے لگے۔
انسان اس کائنات رنگ و بو پر غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ اس کائنات میں رب العالمین کی توحید کا واحد عملی نمونہ والدین کا رشتہ ہے کہ انسان کے ہر رشتے میں تعدد ہوسکتاہے اس کے ایک سے زائد بہن بھائی، خالہ و پھوپھیاں اور چچا ماموں ہوسکتے ہیں لیکن نہ مائیں 2 ہوسکتی ہیں اور نہ باپ۔ یوں اللہ کی وحدانیت کا کائنات میں پائے جانے والا واحد عملی نمونہ ہے اسی لیے اللہ کی ہستی اور اس کی ذات کو شرک کی ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کرنے کے بعد اہم ترین حکم والدین کے ساتھ حسن سلوک ہے۔
قرآن کریم کے اس اسلوب سے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی عظمت و اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور ہمیں اس رشتہ کے تقدس کو اسی عظمت و اہمیت کے ساتھ سمجھنا بھی چاہیے اور اس کاحق ادا کرنے کی پوری شعوری کوشش کرنی چاہئے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے کچھ مزید احکام قرآن حکیم نے عطا فرمائے ہیں جن کو ان شاءاللہ اس سلسلے کی اگلی تحریر میں قارئین کی نذر کیا جائے گا۔

والدین کے احترام کی اخلاقی قد ر کی عظمت
تمام تعریفیں اس خالق کائنات کے لیے ہیں جس نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام سے انسانی تخلیق کا آغاز فرمایا، انسان کو اپنانائب اور خلیفہ بنانے کا اعلان فرمایا،بفحوائے ارشاد ربانی زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے انسان کے لیے تخلیق کیا ،انسان کو اپنی عبادت کا حکم دیا اور اس کی رہنمائی کے لیے انبیاءعلیہم السلام کا سلسلہ جاری فرمایا اورحضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو امام الانبیاءاور خاتم النبیین ، قرآن کو خاتم الکتب اور اسلام کو خاتم الشریعة بناکربھیجا تاکہ خاتم النبیین کے قول و عمل سے اسلام کی تعلیمات بذریعہ قرآن وحدیث تاقیامت نافذ کی جاسکیں۔اسلامی تعلیمات کی عملی مشق کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظیم جماعت پیدا فرمائی اور ان میں حضرت ابوبکر صدیقؓ ، حضرت عمر فاروق ؓ، حضرت عثمان غنیؓ ،حضرت علی المرتضیؓ اور حسنین کریمینؓ جیسے ہیرے پیدا فرمائے جنہوں نے اپنی رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرتے ہوئے پیارے نبی کے ہر حکم و ادا پر نہ صرف عمل کیا بلکہ آئندہ نسلوں تک دین کو پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ پیدائشی طور پر انسان اجتماعیت پسند ہے اور فطری طور پرمل جل کررہنے اور کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے اسی مل جل کررہنے اور کام کرنے کو معاشرت کہتے ہیں۔ اسلام ایک پرامن اجتماعیت پسند دین ہے جس کے معنی ہی امن اور سلامتی کے ہیں اور یہ سلامتی صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ کائنات کی ہرچیز کو شامل ہے۔ اسلام اپنے پیروکاروں کو پرامن معاشرے کی تشکیل کے لیے ایک دوسرے کے حقوق وفرائض کے احترام کا پابند بناتا ہے۔معاشرہ مختلف افراد سے مل کر تشکیل پاتا ہے جس میں تمام افراد آپس میں مختلف معاملات انجام دیتے ہیں۔ ان معاملات کو بہترین انداز سے انجام دینے اور مفید بنانے کے لیے اللہ رب العزت نے ہر ایک کے لیے حقوق و فرائض متعین فرمائے ہیں۔ کائنات کے نظام میں معاشرہ کی بنیادی اکائی فرد ہے۔گزشتہ مضامین میں معاشرہ کی ضرورت و اہمیت اور انفرادی حیثیت سے انسان کی خصوصیات کا ذکر کیا گیا تھا۔یہ افراد مل کر خاندان بناتے ہیں۔خاندانی نظام کاآغاز رشتہ نکاح سے ہوتا ہے ، انسانی زندگی میں مختلف اور متعدد رشتے پائے جاتے ہیں لیکن ان رشتوں کے لیے افراد کے انتخاب میں انسان کے شعور اور ارادہ کا دخل نہیں ہوتا اور نہ ہی ان رشتوں کو ختم کیا جاسکتا ہے جبکہ رشتہ نکاح انسان اپنے شعور اور ارادہ اور اپنے انتخاب کے نتیجہ میں قائم کرتا ہے اور یہی رشتہ خاندانی اکائی کے قیام میں اہم ترین حیثیت رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی پاکیزگی کابھی اور نسب و نسل کے ہر قسم کے شکوک وشبہات سے پاک ہونے کابھی ضامن ہے۔
مغربی دنیا کی رنگینیوں سے متاثر ہوکر نئی نسل اسلامی اقدار کو فراموش کرتی جارہی ہے اور ایمان کمزوری کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مغرب سے آنے والے مساوی حقوق کے نعرے نے ذاتی مفاد کو فوقیت دی ہے اس لیے ہرکوئی اپنی دھن میں مگن اپنے حقوق کی آواز اٹھاتا ہے۔ نہ عورت کا احترام اور نہ ہی والدین کا خیال، یہاں تک کہ اگر والدین بچوں کو تربیت کی خاطر کچھ کہہ بھی دیں تو اولاد پولیس کو شکایت کرکے والدین کو جیل بھجوا دیتی ہے، جب اولاد بالغ ہوجائے تو والدین ان کی کفالت سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور نتیجے میں جب والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں تو ان کو اولڈ ہاسز میں بے یارو مددگار دوسروں کے چندے کے سہارے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسلام فرائض کو ترجیح دیتا ہے پہلے اپنے فرائض پورے کریں جب ہرکوئی اپنے فرائض پورے کرے گا تو حقوق خود بخود پورے ہوتے چلے جائیں گے۔ اس سے آگے بڑھتے ہوئے اللہ رب العزت نے احسان کا سلسلہ بنایا کہ اپنے فرائض ادا کرو اور اپنے حقوق چھوڑ کر دوسرے کا خیال کرو ، احسان کے اتنے فضائل بیان کیے گئے ہیں انسان اپنے حقوق کو احسان پر قربان کردیتا ہے۔دیگر افراد کے ساتھ معاملات اپنی جگہ، اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان کی تخلیق کا سبب والدین ہیں اس لیے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو سب سے زیادہ ترجیح دی گئی ہے۔اگرچہ والدین نے اولاد پر ظلم ہی کیوں نہ کیا ہو پھر بھی اولاد کو والدین کا احترام اور حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔اسلامی معاشرتی نظام میں اولاد والدین کے تابع ہوتی ہے کبھی حقوق کے اعتبار سے اور کبھی احسان کے اعتبار سے۔قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ رب العزت نے والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود مت بناو¿ ورنہ تو بد حال بے مددگار ہو کر بیٹھا رہے گا اور تیرے رب کا حکم ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت مت کر اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں سو ان کو کبھی اُف بھی مت کرنا اور نہ ان کوڈانٹنا اور ان سے بہت ہی ادب سے بات کرنااور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہو ں نے مجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒاپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
والدین کی خدمت و اطاعت والدین ہونے کی حیثیت سے کسی زمانے اور کسی عمر کے ساتھ مقید نہیں ہر حال اور ہر عمر میں والدین کے ساتھ اچھا سلوک واجب ہے۔ والدین کے بڑھاپے کا زمانہ جبکہ وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہوجائیں ان کی زندگی اولاد کے رحم و کرم پر رہ جائے اس وقت اگر اولاد کی طرف سے ذرا سی بے رخی بھی محسوس ہوتو وہ ان کے دل کا زخم بن جاتی ہے۔ دوسری طرف بڑھاپے کے عوارض طبعی طور پر انسان کو چڑچڑا بنادیتے ہیں ، تیسرے بڑھاپے کے آخری دور میں جب عقل و فہم بھی جواب دینے لگتے ہیں تو ان کی خواہشات و مطالبات کچھ ایسے بھی ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ قرآن حکیم نے ان حالات میں والدین کی دلجوئی اور راحت رسانی کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت یاد دلایا کہ کسی وقت تم سبھی اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں تو جس طرح انہوں نے اپنی راحت و خواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بے عقلی کی باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا اب جبکہ ان پر محتاجی کا یہ وقت آیا تو عقل و شرافت کا تقاضا ہے کہ ان کے اس سابق احسان کا بدلہ ادا کرو۔ آیت سے اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے (معارف القرآن:466)۔
قرآن کریم نے ایک سے زائد مقامات پرشرک سے منع کرنے کے فورا ًبعد والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ، ارشاد ربانی ہے :ترجمہ: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی مت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔(البقرة 83) مزید فرمایا :
ترجمہ:آپ ان سے کہیے کہ آﺅ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناو¿ں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرمایا ہے وہ یہ کہ (۱) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراﺅ (۲) اور ماں باپ کے ساتھ احسان کیا کرو۔ (الانعام:151)
حضرت لقمانؓ کی نصائح نقل کرتے ہوئے رب العٰلمین ارشاد فرماتے ہیں:
ترجمہ: اے پیارے بیٹے دیکھو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بلا شبہ شرک بڑاظلم ہے اور ہم نے انسان کو وصیت کی کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ (سورہ¿ لقمان :13۔14)
شرک سب سے بڑا گناہ ہے جس کو اللہ رب العزت نے ظلم عظیم کہا ہے اور قابل غور بات یہ ہے کہ ان تمام آیات میں اللہ رب العزت نے شرک کے فوراً بعد والدین کے احترام کا حکم دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی نا قدری اور ان کے احترام میں کوتاہی کرنا شرک کے بعد دوسرا بڑا گناہ ہے۔مفتی محمد شفیع عثمانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شرک کے فوراً بعد والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ ممکن ہے والدین کے شرک کی دعوت دینے پر انسان غصہ میں آکر ان سے بدتمیزی نہ کربیٹھے اس لیے ساتھ ہی باوجود کفر کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔
شرک سے ممانعت کے فورا ًبعد والدین سے حسن سلوک کے حکم میں یہ حکمت بھی محسوس ہوتی ہے کہ اللہ انسان کا خالق حقیقی اور رب حقیقی ہے جبکہ والدین مجازی طور پر اس کے خالق اور اس کو پالنے والے ہیں ، خالق حقیقی اور رب حقیقی کے بعد خالق مجازی ورب مجازی کا حق ہے۔خالق حقیقی کا حق اس کی وحدانیت میں ہے اور خالق مجازی کا اس کی خدمت میں ہے۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح انسان کے عمل ،عبادت میں عقیدہ توحید بنیاد واساس کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس عقیدہ کے بغیر کوئی عبادت قابل قبول نہیں ، اسی طرح اس کے معاملات و معاشرت میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اسی طرح کی بنیاد واساس ہے کہ والدین سے حسن و سلوک کے بغیر اس کا کوئی معاشرتی حسن عمل ایسا ہی ہے جیسے عقیدہ توحید کے بغیر کوئی شخص عبادت کرنے لگے۔
انسان اس کائنات رنگ و بو پر غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ اس کائنات میں رب العالمین کی توحید کا واحد عملی نمونہ والدین کا رشتہ ہے کہ انسان کے ہر رشتے میں تعدد ہوسکتاہے اس کے ایک سے زائد بہن بھائی، خالہ و پھوپھیاں اور چچا ماموں ہوسکتے ہیں لیکن نہ مائیں 2 ہوسکتی ہیں اور نہ باپ۔ یوں اللہ کی وحدانیت کا کائنات میں پائے جانے والا واحد عملی نمونہ ہے اسی لیے اللہ کی ہستی اور اس کی ذات کو شرک کی ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کرنے کے بعد اہم ترین حکم والدین کے ساتھ حسن سلوک ہے۔
قرآن کریم کے اس اسلوب سے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی عظمت و اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور ہمیں اس رشتہ کے تقدس کو اسی عظمت و اہمیت کے ساتھ سمجھنا بھی چاہیے اور اس کاحق ادا کرنے کی پوری شعوری کوشش کرنی چاہئے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے کچھ مزید احکام قرآن حکیم نے عطا فرمائے ہیں جن کو ان شاءاللہ اس سلسلے کی اگلی تحریر میں قارئین کی نذر کیا جائے گا۔

 

Please follow and like us: