حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ قریش کو اس بات نے فکر مند کردیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غزوۂ فتح مکہ کے موقع پر ایک عورت نے چوری کی۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی سفارش کون کرے گا؟ لوگوں نے کہا کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کے سوا اس کی جرأت کون کرسکتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لاڈلے ہیں۔ وہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ نے اس کی سفارش کی۔ آپؐ کے چہرہ انور کا رنگ متغیر ہوگیا۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تم اللہ تعالیٰ کی حدود میں سفارش کررہے ہو؟ حضرت اسامہؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ میرے لئے استغفار کیجئے۔ جب شام ہوگئی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا۔ آپؐ نے ان کلمات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد کی جو اس کی شان کے لائق ہیں پھر آپؐ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگ صرف اس لئے ہلاک ہوگئے کہ جب ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو وہ اس کو چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور شخص چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے اور قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے‘ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے گی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا‘ پھر جس عورت نے چوری کی تھی‘ آپؐ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا سو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ (صحیح مسلم) "چوری کلچر کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ " پڑھنا جاری رکھیں
چوری کلچر کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟
Please follow and like us: