اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام سے انسانی نسل کی تخلیق کی اور نسل انسانی کے بتدریج ارتقاء کے ساتھ انسانی معاشرہ قائم ہوا۔ کھانا پینا، چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، میل ملاقات، بیماری وصحت، حقوق و معاملات وغیرہ، انسانی معاشرے کے یہ عوامل شروع ہی سے انسان کے ساتھ چلے آرہے ہیں اور انسانی زندگی کی ضروریات انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہیں۔ بنیادی ضروریات تو تمام انسانوں کی ایک جیسی ہوتی ہیں تاہم انفرادی ضروریات انسان کے ذوق، قابلیت اور ترجیحات کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ انسان کی ضروریات کیسی بھی ہوں وسائل کے ذریعے سے پوری ہوتی ہیں کیونکہ یہ دنیا وسائل اور اسباب کی دنیا ہے، اسباب اور وسائل کے بغیر اس دنیا میں زندگی بسر کرنا ممکن نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کے ضابطے کے خلاف ہے۔ ایک وقت آئے گا جب انسانی زندگی جنت میں وسائل و اسباب کی محتاج نہیں ہوگی اور وہاں انسان کو اپنی خواہشات و ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محنت و مشقت کا راستہ اختیار نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن اس دنیامیں بہرحال اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانی زندگی کو محنت و مشقت اور وسائل و اسباب کے ساتھ وابستہ کیا ہے، یوں نسلِ انسانی کے تمام لوگ کسی نہ کسی درجے میں اسباب اختیار کر کے ہی دنیا میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
نسلِ انسانی میں انبیاء کرام علیہم الصلواۃ والتسلیمات سے زیادہ متوکل اور ان سے زیادہ دنیا سے بے رغبتی رکھنے والا کوئی دوسرا طبقہ نہیں ہے لیکن حضرات انبیاء کرام علیہ السلام نے بھی زندگی کے وسائل و اسباب اختیار کیے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں حسب ضرورت محنت مزدوری بھی کی، بکریاں بھی چَرائیں اور تجارت بھی کی۔ آپﷺ نے ایک مرتبہ خود فرمایا کہ میں نے فلاں قبیلے کی بکریاں اتنی اجرت پر چَرائی تھیں، فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عام طور پر انبیاء کرامؑ سے بکریاں چَرانے کا کام لیا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم الصلواۃ والتسلیمات سے بکریاں چَرانے کا کام اس لیے لیا کہ بکریوں کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے،بھیڑوں کو قابو کرنا آسان ہوتا ہے کہ ایک بھیڑ دوسری بھیڑ کے پیچھے چلتی ہے لیکن ایک بکری دوسری بکری کے پیچھے نہیں چلتی۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کے بکریاں چَرانے کا قرآن کریم میں ذکر ہے کہ ان کا باقاعدہ آٹھ یا دس سال کا معاہدہ تھاجس کے تحت انہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کی بکریاں چرائیں۔ چنانچہ اسباب و وسائل کا اختیار کرنا اس دنیا میں لازمی ہے۔
اسباب اختیار کرنے میں توازن
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اسباب اختیار کیے اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دی لیکن آپﷺ نے اس سلسلے میں ایک توازن قائم کیا، آپﷺ نے اسباب کو ترک کرنے سے بھی منع فرمایا ہے اور اسباب پر مکمل بھروسہ کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ رسول اللہﷺ کے پاس کوئی شخص سوال لے کر آتا تھا تو حضورﷺ اس کی حالت کو پرکھتے تھے اگر وہ معذور یا مستحق ہوتا تو آپﷺ اس کی مدد فرماتے تھے لیکن اگر صحت مند اور کمانے کے قابل ہوتا تو اس کی رہنمائی فرماتے تھے، آپﷺ اسے محنت و مزدوری کی تلقین کرتے اور کمانے کی ترغیب دیتے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی کریمﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ سے عرض کی کہ یارسول اللہ! محتاج ہوں میری مدد فرمائیے۔ آپﷺ نے فرمایا ’’اے اللہ کے بندے تم تندرست اور صحت مند آدمی ہو، محنت مزدوری کر کے کما سکتے ہو اس لیے جاؤ اور اپنے لیے کماؤ‘‘۔ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ آپﷺ نے پوچھا ’’کیا تمہارے پاس گھر میں کچھ بھی نہیں ہے؟ ‘‘اس نے کہا کہ گھر میں صرف لکڑی کا ایک پیالہ ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ ’’جاؤ اور گھر سے وہ پیالہ لے آؤ‘‘ وہ شخص گیا اور جا کر پیالہ لے آیا۔ آپﷺ نے پیالہ لے کر مجلس میں اس کی بولی دی اور پوچھا کہ کوئی اس پیالے کی کتنی قیمت دے گا؟ ایک شخص نے کہا کہ میں ایک درہم دیتا ہوں۔ آپﷺ نے پوچھا ’’کیا کوئی اس سے زیادہ دیتا ہے‘‘؟ ایک شخص نے کہا کہ ڈیڑھ درہم دیتا ہوں۔ آپﷺ نے پھر پوچھا ’’کیا کوئی اس سے زیادہ دیتا ہے‘‘؟ ایک نے کہا کہ دو درہم دیتا ہوں۔ فرمایا لاؤ، اس طرح آپﷺ نے وہ پیالہ نیلام کر کے بیچ دیا۔ اس رقم سے نبی کریمﷺ نے کلہاڑی کا پُھل خریدا اور اپنے ہاتھ سے لکڑی کا دستہ اس میں ڈالا۔ پھر اس سوال کرنے والے شخص سے فرمایا ’’کہ یہ کلہاڑی لے کر جنگل میں جاؤ، لکڑیاں کاٹو اور لا کر بازار میں بیچو، چند دن بعد آکر مجھے بتانا کہ کیا صورت حال ہے‘‘۔ وہ شخص کلہاڑی لے گیا، چند دن گزرے تو وہ شخص دوبارہ آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ میں حسب حکم حاضر ہوں۔ آپﷺ نے پوچھا کیا صورتحال ہے؟ اس نے بتایا کہ یارسول اللہ ﷺگھر میں آٹا بھی ہے، کھجوریں بھی ہیں اور کھانے پینے کے برتن بھی ہیں۔ فرمایا ’’یہ حالت بہتر ہے یا پہلے والی حالت بہتر تھی‘‘؟
اسباب ترک کرنے سے ممانعت
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسباب ترک کرنے سے منع فرمایا ہے، فرمایا کہ توکل اسباب ترک کردینے کا نام نہیں ہے کہ انسان اسباب کو بالکل چھوڑ دے۔ ایک دفعہ جناب نبی کریمﷺ کی خدمت میں کہیں سے ایک مہمان آیا، آپﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ کوئی باہر سے مہمان آتا تو آپﷺ پہلے اس سے کھانے پینے کے متعلق پوچھتے، سواری کے جانور کے متعلق پوچھتے کہ اسے کہاں باندھا ہے ،اس کی خوراک وغیرہ کا انتظام کیا ہے اور رہنے کا بندوبست کہاں ہے؟ کوئی دور سے آدمی آتا تو آپﷺ اس سے اِن ضروریات کے متعلق دریافت فرماتے۔ آپﷺ نے اس شخص سے پوچھا کیسے آئے ہو؟ اس نے بتایا کہ اونٹ پر آیا ہوں۔ آپﷺ نے پوچھا کہ اونٹ کہاں ہے؟ کہنے لگا کہ باہر چھوڑ دیا ہے۔ آپ ﷺنے پوچھا باہر کہاں چھوڑ دیا ہے؟ اس نے کہا کہ بس اللہ کے توکل پر باہر چھوڑ آیا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا، بندہ خدا توکل اس کا نام نہیں ہے پہلے جا کر اس کی رسی کسی جگہ پر باندھو اورپھر اللہ پر توکل کرو۔ یعنی اس کی حفاظت کا جتنا بندوبست تمہارے ذمے ہے وہ تم کرو اور اس کے بعد اسے اللہ کے بھروسے پر چھوڑو۔ رسول اللہﷺ نے تعلیم یہ دی کہ جو تمہارے بس میں ہیں وہ اسباب اختیار کرو اور پھر نتیجہ خدا پر چھوڑ دو۔ اس لیے کہ اسباب کا اختیار کرنا انسان کے بس میں ہے لیکن نتیجہ انسان کے بس میں نہیں ہے، اسباب پر بھروسہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسباب کے پیدا کرنے والے پر بھروسہ ہونا چاہیے کہ اے اللہ جو میرے بس میں تھا میں نے کر دیا ہے اب تو مہربانی فرما۔
اسلامی نظام معیشت کا بنیادی اصول
آج کی دنیا کے مروجہ معاشی علوم نے فلسفے اور سائنس کے طور پر گزشتہ چند صدیوں میں منظم شکل اختیار کی ہے، لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں خلفائے راشدینؓ نے آج سے کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال قبل اسلامی نظامِ حکومت کے تحت معاشی حقوق اور معاشی عدل کا ایک عظیم الشان تصور قائم کر دیا تھا اور پھر اپنی زندگیوں میں اس تصور کے عملی نمونے بھی پیش کر دیے تھے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے تو ایک ہی جملے میں اسلام کے نظام معیشت کا خلاصہ بیان فرما دیا ۔’’کَی لاَ یَکُونَ دُولَۃً بَّینَ الاَغنِیَائِ مِنکُم ‘‘(سورۃ الحشر: ۷)ترجمہ: تاکہ دولت تمہارے دولتمندوں میں ہی نہ گھومتی رہے۔
اس آیت میں پہلے اللہ تعالیٰ نے ضرورت مندوں کے حقوق بیان کیے، پھر یہ جملہ فرمایا کہ یہ دولت تقسیم کرنے کا نظام ہم نے اس لیے دیا ہے تاکہ دولت صرف دولتمندوں میں ہی نہ گھومتی رہے بلکہ سارے معاشرے میں گردش کرے۔ اسلام کے معاشی نظام کا مقصد ہی یہ ہے کہ دولت معاشرے میں صرف مالداروں کے پاس ہی نہ رکی رہے بلکہ ایک خودکار طریقے پر معاشرے کے تمام طبقات میں تقسیم ہوتی رہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ معاشرے میں دولت کی مثال ایسے ہے جیسے انسانی جسم میں خون، کیونکہ جسم کے ہر حصے کو اپنی ضرورت کے مطابق خون ملتا رہے تو جسم کا نظام ٹھیک چلتا رہتا ہے۔ انگلی کی ضرورت الگ ہے، کان کی ضرورت الگ ہے اور بالوں کی ضرورت الگ ہے،یوں کسی عضو کو کم ضرورت ہے اور کسی کو زیادہ۔اگر جسم کے کسی حصے میں خون ضرورت سے زیادہ ہوجائے تو وہاں پھوڑے پھنسیاں بن جاتے ہیں، جلد خراب ہو جاتی ہے اور پیپ پیدا ہو جاتی ہے، ضرورت سے زیادہ خون جلد کو فاسد کر دیتا ہے، جبکہ ضرورت سے کم خون فالج کا سبب بن جاتا ہے۔ اس لیے خون کا پورے جسم میں ایک تناسب اور توازن کے ساتھ گردش کرنا اچھی صحت کے لیے ضروری ہے۔ یہی اصول قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ دولت کا معاشرے میں ایک تناسب کے ساتھ گردش کرنا لازمی ہے، ہر ایک کو اس کا حصہ ملنا ضروری ہے اور دولت کا کسی ایک جگہ بلا ضرورت جمع ہوجانا نظام معیشت کی خرابی کا باعث ہے۔
دولت کی گردش
چنانچہ دو چیزیں اسلامی نظام میں ایسی ہیں جو دولت کی تقسیم اور گردش کا ذریعہ ہیں: (۱) وراثت (۲) زکوٰۃ۔
ایک آدمی ساری زندگی محنت کر کے جو جائیداد بناتا ہے، وہ اس کے فوت ہونے کے بعد اس کی اولاد میں تقسیم کر دی جاتی ہے، اگر اس کی اپنی اولاد نہ ہو تو پھر یہ جائیداد رشتہ داروں میں درجہ بدرجہ تقسیم ہوتی ہے۔ اسی طرح جب اس آدمی کی اولاد کی وفات کا وقت آتا ہے تو ان کی جائیداد آگے ان کی اولاد میں تقسیم ہو جاتی ہے، یوں تقسیم در تقسیم کا یہ سلسلہ معاشرے میں دولت کی گردش کو جاری رکھتا ہے، اور یہی وراثت کا اصل مقصد ہے کہ وراثت کی تقسیم دولت کو ایک جگہ پر منجمد نہیں رہنے دیتی۔
زکوٰۃ بھی دولت کو تقسیم کرتی ہے کہ دولتمند لوگ اپنی دولت کا چالیسواں حصہ ہر سال فقرائ، غرباء و مساکین کو دیتے ہیں،زکوٰۃ کے ذریعے مجموعی طور پر ایک خطیر رقم معاشرے کے نادار لوگوں تک ہر سال پہنچتی رہتی ہے۔ زکوٰۃ کے احکام دولت کی جنس کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ اسلام نے دولت کی تقسیم ایسے نظم کے تحت کی ہے جس کی بنیاد عدل و انصاف پر ہے، اور جس میں حقوق کا تعین مساوات کی بنیاد پر ہے۔
ریاست کی طرف سے وظائف کی تقسیم
تاریخ میں حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت فاروق اعظمؓ کے درمیان ایک دلچسپ اختلاف مذکور ہے، خلافت راشدہ کے قیام کے بعد جو پہلا باضابطہ اختلاف ہوا جس میں حضرت ابوبکرؓ اپنے موقف پر قائم رہے اور حضرت عمرؓ اپنے موقف پر قائم رہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ جب خلیفہ بنے تو سب سے پہلا مال بحرین سے آیا، حضرت بلالؓ جو مہم پر تھے اور رسول اللہﷺ کی وفات سے چند روز بعد واپس آئے، بحرین سے جتنا مال آیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اتنا مال کہیں سے نہیں آیا تھا۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے شوریٰ والوں کو بلایا کہ بھئی مال آیا ہے اور تقسیم کرنا ہے لیکن پہلے ہمیں تقسیم کے اصول طے کرنے ہوں گے کہ کس کو کتنا حصہ ملے، اس پر شوریٰ کے اراکین میں بحث ہوئی۔ (جاری ہے