ماہ ربیع الاوّل امت مسلمہ اور عالم انسانیت کے لئے نہایت ہی مسرت کا مہینہ ہے اور اس کی اہمیت قیامت تک نہ کم ہوسکتی ہے اور نہ اسے بھلایا جاسکتا ہے کیونکہ یہ وہ مبارک مہینہ ہے کہ جس میں رحمت دو عالم نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے ساتھ ہی انسانیت کی عظمت واحترام کا سفر اپنے کمال تک پہنچ گیا اور نوع انسانی کو وہ معراج حاصل ہوئی کہ جس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے ہوا تھا، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اور ان کے بچپن کے حالات یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ آپ ایک غیر معمولی اور عام انسانوں سے ہٹ کر عظیم ترین انسان تھے اور جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرتا آپ کا ہی گرویدہ ہوجاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن جتنا پاکیزہ اور پرنور تھا آپ کی جوانی اس سے بھی مبارک اور قابل تقلید تھی۔
یہی وجہ ہے کہ ظلمت وجہالت کے اس دور میں آپ کو صادق وامین کے القاب سے نوازا گیا اور نوجوانوں کی حرص ولالچ اور ہوس پرستی کے دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عفت اور پاکیزگی پر قسمیں کھائی جاتیں، قبائل عرب کے اس دور میں جہاں چھینا چھپٹی لوٹ کھسوٹ اور سینہ زوری پر فخر کیا جاتا تھا وہاں معاشرہ میں پیارے محبوب رحمۃ للعالمین ﷺ کو دیانت وامانت اور حقوق کی ادائیگی میں مثال کے طور پر پیش کیا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عام نوجوانوں سے بلند اور اعلیٰ تصور کیا جاتا تھا اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ایک ایسے نوجوان کے طور پر کیا جاتا تھا کہ جس پر پورا معاشرہ فخر کرتا تھا اور آپ ﷺکی عزت واحترام معاشرہ میں ہر سُو عام تھی اور ہر شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق پر فخر کرتا تھا۔
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ذات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکات ہمیشہ رہتی تھیں اور اس بات کا مشاہدہ ہر اس شخص نے کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے حالات آپ ﷺ کی پرورش کے حالات ،غرض کہ ہر دور میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جو آپﷺ کی عظمت ،آپﷺ کا مقام اور آپﷺ کی ذات اقدس میں خیروبرکات جمع ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور یہ واقعات آج بھی کتب سیرت میں محفوظ ہیں۔40برس کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہوا اور آپ ﷺ کو نبوت کے عظیم ترین منصب سے نوازا گیا اور سب سے بڑھ کر اللہ رب العزت نے حضور اکرم ﷺ کو آخری نبی کا اعزاز عطا فرمایا اور آپﷺ پر کلام الٰہی قرآن کریم کی صورت میں نازل فرمایا اور آپﷺ کی نبوت کو قیامت تک کے لئے محفوظ کردیا، یہ اعزاز وانعام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور مرتبے کو بیان کرنے کے لئے کافی ہیں۔
پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مشرکین مکہ کو دعوت وتبلیغ کا آغاز فرمایا اور انہیں وحدانیت کی طرف بلایا تو یہاں سے انسانیت کے نئے سفر کا آغاز ہوا اور نوع انسانی پر عظمت ورفعت کے نئے دروا ہوئے، پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت ہدایت کے روشن مینار اور انسان کی عظمت کا نشان تھے، کاش کہ مشرکین مکہ اسے سمجھ پاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دنیا اور آخرت کی کامیابیاں سمیٹتے مگر ان کا ردعمل بالکل برعکس اور عقل وفہم وفراست کے خلاف تھا اور انہوں نے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو نجانے کیا کچھ کہا اور ان کی تکذیب کی ۔وہ لوگ جنہوں نے پیارے محبوب ﷺکو صادق وامین کہا اس عظیم پیغام کے جواب میں انہوں نے پیارے محبوبﷺ کو ساحر مجنوں اور نجانے کیا کیا کہا حالانکہ اگر وہ صرف پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی 40سالہ حیات مبارکہ کا ہی جائزہ لے لیتے تو روز محشر شفاعت کے حق دار ٹھہر جاتے مگر درحقیقت ان کے نصیب میں ہدایت ہی نہ تھی اور کفروشرک کی ذلت نے ان کی ابدی ناکامی پر مہر لگادی تھی۔
بہرحال پیارے محبوب ﷺ وہ دعوت اور وہ پیغام لے کر لائے جس نے انسانیت کو عظمت واحترام عطا فرمایا اور جو شخص بھی پیارے محبوب ﷺ کی غلامی میں آتا گیا وہ دنیا اور آخرت کی ترقی اور کامیابی کی جانب بڑھتا چلا گیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو وہ نظام اور وہ معراج عطا فرمائی جو آج کے جدید دور میں ہماری ترقی کی بنیاد بنی۔ پیارے محبوب ﷺ نے ایمان قبول کرنے والوں کی ایسی تربیت فرمائی اور آپس میں قتل وغارت گری کرنے اور ایک دوسرے کے جانی دشمن سمجھے جانے والے مختلف قبائل کے افراد کو اس طرح ایک لڑی میں پرودیا کہ یہ پہچاننا بھی مشکل ہوگیا کہ کون کس کا نسبی بھائی ہے اور کون صرف کلمہ طیبہ کے مبارک رشتے میں جڑا ہوا ہے۔
محبت واخوت دین اسلام کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال ہجرت مدینہ کے بعد مہاجر اور انصار صحابہؓ میں قائم ہونے والا مواخات کا رشتہ ہے جس نے دوسرے انسانوں کے لئے قربانی دینے کی لازوال داستانیں رقم کیں اور آج بھی مسلمان اس کا تذکرہ بڑے فخر اور مسرت سے کرتے ہیں۔
یقینا اس بات پر ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات اور آپﷺ کی سنت مطہرہ نے ایک ایسے معاشرہ کو جو ظلم تعدی اور ہر طرح کی برائیوں کا مرکز تھا جہاں قتل وغارت گری اور گردن زدنی باعث فخر امر تھا اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا محاورہ عملاً نافذ تھا اور ضعیفوں ،کمزوروں کا کوئی پرسان حال نہ تھا ایسا معاشرہ جہاں قبائلی نسلی اور لسانی عصبیت عروج پر تھی اور انسان کی عزت اور اس کی قدر خاندان اور قبیلہ دیکھ کر کی جاتی تھی ایسے معاشرہ کو آپ کی تعلیمات نے محبت والفت ہمدردی غمگساری اور انسانیت کے احترام کا مرکز بنادیا، خواتین کے حقوق ہوں بچوں پر شفقت ومحبت کا معاملہ ہو ،والدین کا احترام اور بزرگوں کی عقیدت ومحبت کا مسئلہ ہو وہ معاشرہ ہر لحاظ سے کامل اور مکمل نظر آتا ہے، جہالت ،تباہی ،بربادی اور دہشت سے بھرپور یہ معاشرہ محبت علم وحکمت ،امن وسکون اور رواداری کا مرکز بن گیا اور معاشرہ میں موجود ہر طبقہ کو ایسے حقوق عطا ہوئے کہ جس کی مثال پیش کرنا ممکن ہی نہیں ، معاشرہ کی ایسی کایا پلٹی کہ پوری انسانیت نے اس کا فائدہ اٹھایا جس کی آسان سی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ آج بھی فلاحی ریاست سمجھی جانے والی ریاستوں میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے وضع کردہ بہت سے قوانین نافذ ہیں اور ان کے بغیر فلاح وبہبود کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا یہ قوانین یقینا دین اسلام اور رحمت دو عالم ﷺکی تعلیمات کا ہی حصہ ہیں۔
نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں ایک طرف انسانوں کو خالق حقیقی سے روشناس کروایا اور ان میں یہ جذبہ بیدار فرمایا کہ خالق حقیقی کی خوشنودی ہی ہماری زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے اور رب کی خوشنودی کا اہم ذریعہ مخلوق سے محبت ہے اسی لئے تعلیمات نبویﷺ نے انسانوں کو علوم کی طرف متوجہ کیا اور مسلمان علماء نے علم کی فضیلت اور اہمیت جان کر ایسے ایسے علوم وفنون ایجاد کئے جو آج کی ترقی اور مہارت کی بنیاد بنے اور انسانوں نے ان ایجادات سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور نوع انسانی کو نت نئی سہولیات میسر آئیں، دوسری طرف محسن انسانیت نے انسانوں کے باہمی تعلقات اور ایک انسان کو دوسرے انسان سے جوڑنے کے لئے ان کے درمیان حقوق وفرائض کا ایک عظیم ربط بیان فرمایا اور ہر انسان کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ معاشرہ کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرے، آج کے جدید دور میں بھی انسانوں کے باہمی تعلقات انہی حقوق وفرائض پر مبنی ہیں جو دین اسلام کے عطا کردہ ہیں۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں انسان ہر زنجیر اور ہر رشتہ سے آزاد ہونا چاہتا ہے اور ترقی یافتہ سمجھے جانے والے معاشرے میں ترقی کے نام پر انسان ایک مرتبہ پھر تاریکی اور گمراہی کی دلدل میں پھنستا چلا جارہا ہے، مادی ترقی نے انسانوں کو حیرت زدہ کردیا ہے اور سائنس وٹیکنالوجی کی وجہ سے نت نئی ایجادات انسانوں کو نئے نئے رازوں سے روشناس کروارہی ہیں اور انسان اس سفر میں آگے بڑھتے بڑھتے روحانیت اور خالق حقیقی کے پیغام کو فراموش کرتے چلے جارہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک مرتبہ پھر تباہی بربادی ،دہشت وخوف کا شکار ہے اور انسان ہی انسان کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے، صد افسوس کہ وہ لوگ جو کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں اور رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دم بھرتے ہیں ان کا معاشرہ زیادہ تنزلی اور دہشت گردی کا شکار ہے۔
ربیع الاول کا یہ مہینہ ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم ایک مرتبہ پھر اپنے مرکز کی طرف لوٹ جائیں، اسلام کے حقیقی پیغام اور سیرت مطہرہ کی روشنی میں اپنے انددر تبدیلی لائیں اور ایک مرتبہ پھر اپنے معاشرے کو انہی خطوط پر استوار کریں جو خلافت راشدہ کا حصہ ہیں اور یہی وہ سنہری اصول ہیں کہ جنہوں نے عرب کے معاشرہ کو محبت والفت کا مرکز بنادیا تھا، ہمیں اس بات پر یقین ہونا چاہیے کہ ہمارا معاشرہ بھی وہی اصول وہی قوانین اپناکر ترقی یافتہ اور فلاح وبہبود کا مرکز بن سکتا ہے کہ جن اصول پر پہلے معاشرہ نے ترقی کی تھی اور یقین کرلیجیے کہ دین اسلام کے یہ ابدی اصول اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی پرنور سیرت مطہرہ قیامت تک ہمارے لئے مشعل راہ ہے اور انہی میں انسانیت کی کامیابی اور کامرانی پوشیدہ ہے۔
آئیے آگے بڑھ کر سیرت مطہرہ کو اپنائیں اور اس کی روشنی میں معاشرہ کو محبت والفت ، عدل وانصاف، تحمل وبرداشت اور علم وحکمت کا گہوارہ بنائیں اور ایسا معاشرہ تشکیل دیں جہاں انسانیت کو عزت وعظمت حاصل ہو اور اس میں موجود ہر طبقہ کو اس کے بنیادی حقوق حاصل ہوں اور ہمارا یہ معاشرہ دنیا کے لئے مثال بنے اور شاید کہ دنیا اسی کی تلاش میں ہے اور افسوس کہ دنیا کی رہنمائی کرنے والے آج خود تباہی اور بربادی کا شکار ہیں۔